ہدیہ محرم الحرام:ماہ محرم الحرام کی بدعات و خرافات قسط ۳

ہدیہ محرم الحرام


ہدیہ محرم الحرام:ماہ محرم الحرام کی بدعات و خرافات قسط ۳

 قسط سوم
✍: محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی
 mob 9286195398


ماہ محرم الحرام کی بدعات و خرافات

محدثات وبدعات، رسم و رواج اور خرافات شریعت کی نگاہ میں انتہائی نا پسند یدہ چیز یں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة۔" دین میں نئی چیز کو ایجاد کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراھی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعتی کی تعظیم و توقیر سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "من وقر صاحب بدعہ فقد اعان علی ھدم الا سلام " کہ جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی وہ دین اسلام کو ڈھانے مین مددگار ہو ا۔  ایک جگہ ارشاد ہے: "اہل البدع کلاب اہل النار" یعنی بدعتی دوزخی کتے ہیں۔ اسی لیے شیطان مسلمانوں کو خاص عبادات کے مواقع پر بدعات و خرافات میں الجھا کر عبادات کی برکتوں سے محروم کر دیتا ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ جو کہ عبادتوں کا مہینہ ہے۔ بعض مسلمانوں نے اس میں عبادات کے بجائے بدعات و خرافات اور رسم ورواج میں پڑ کر اپنے آپ کو اس کی رحمتوں،برکتوں،اور فوائد و ثمرات سے محروم کر لیا۔    اس ماہ کی خرافات میں سے ایک تعزیہ داری بھی ہے۔ بعض مسلمان تعزیہ داری  کا بھت اہتمام کرتے ہیں اور اسے شبیہ حضرتِ حسین سمجھ کر بھت تعظیم وتکریم کرتے ہیں۔  اس کے گرد طواف کرتے ہیں۔ اس پر چڑھا وا چڑھاتے ہیں۔ منت مانی جاتی ہے۔ اولاد کی صحت اور کاروباری ترقی کیلئے دعا کی جاتی ہے۔ اسے سجدہ کیا جاتاہے اور اسے اس قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے کہیں دور رہتے ہیں وہ چاہے عیدین پر گھر نہ آ ییں مگر محرم الحرام میں ضرور آتے ہیں گویا کہ ان کے نزدیک یہ  کوئی عیدین سے بڑھ کر تہوار ہو۔ تعزیہ کے ساتھ اس قسم کا معاملہ کھلم کھلا شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک نا قابلِ معافی جرم ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: "ان الشرک لظلم عظیم " بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔ محرم الحرام کی دوسری خرافات جس میں جاہل عوام مبتلا ہیں وہ ڈھول تاشہ ہے۔  ہمارے علاقے میں محرم الحرام کا چاند دیکھتے ہی لوگ ڈھول تاشے بجانا شروع کر دیتے ہیں اور ثواب سمجھ کر بجاتے ہیں۔ اللہ جانے کس منطقی بنیاد پر حضرت حسین رضہ کی شھادت کا غم لوگ اس طرح غلط کرتے ہیں جب کہ گا نے بجانے، راگ راگنیوں ، میوزک اور سارنگی کی حرمت پر صحیح اور صریح دلائل موجود ہیں۔ بعض لوگ اس ماہ کی دس تاریخ کو سبیل لگا کر پانی پلانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ پانی پلانا کوئی بری بات نہیں ہے تاہم جو نیک کام کسی تاریخ اور وقت کے ساتھ مخصوص نہ ہو اسے مخصوص کرنا شرع شریف میں بدعت ہے، پھر مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم ہے تو اس دن پانی کا سبیل لگا کر ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کیا پیاسے حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ پھر ایسے موقعہ پر ہم یہ کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ حضرت حسین رضہ سے قبل بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھت سے جان نثار انتہائی مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیے گئے، خاص طور سے داماد رسول اور خلیفہ راشد سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو شھادت کے وقت کئی دن سے پیاسے تھے۔  پانی پلانا یقیناَ کار ثواب ہے مگر اسے کسی خاص وقت کے ساتھ مخصوص کرنا بدعت ہے۔(کفایت المفتی۔ ج 1 فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 139)

ماہ محرم الحرام اورکھچڑا

 اس مہینے میں اکثر جگہوں پر کار ثواب سمجھ کر کھچڑا پکانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ البدایہ والنہایہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: خوارج نے حضرتِ حسین کی شہادت کی خوشی میں کھچڑا پکایا تھا۔ (البدایہ والنہایہ ج 8) تو پتہ چلا کہ کھچڑا پکانا اہل بیت سےاطہار دشمنی کی علامت ہے ، لھذا محبین اہل بیت کو اس سے بچنا چاہیے۔ (بھشتی زیور) مرثیہ گوئی،ماتمی مجلس، کالے رنگ کے کپڑے کا استعمال، تقسیم شیرینی، مچھلی کھا نے کو معیوب سمجھنا، اس دن سرمہ لگانے اور قبرستان جا نے کا خصوصی اہتمام سب بدعات و خرافات کا حصہ ہیں، اصل دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں، یہ ساری چیزیں رافضی خلیفہ معزالدولہ کے حکم پر  352ھ میں محرم الحرام کا جز بنائی گئیں۔ (البدایہ والنہایہ ج 11صفحہ243 )
عاشوراء کے روز تعطیل کا حکم
عاشوراء کے دن عام طور سے اہل سنت والجماعت کے مدارس میں بھی تعطیل کا عام رواج ہونے لگاہے۔ اساتذہ کرام اس کا مطالبہ بھی کرتے ہیں حالانکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس دن کی تعطیل تشبہ بالتشیع کی وجہ سے بدعت ہے۔ حدیث میں ہے: من تشبہ بقوم فھو منھم کہ جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھیں میں سے ہے۔(مشکات شریف)

ماہ محرم الحرام میں شادی بیاہ کا حکم

روافض اس ماہ کو منحوس اور غم کا مہینہ سمجھتے ہیں اس لیے اس ماہ میں شادی بیاہ اور خوشی کی کوئی بھی تقریب منعقد نہیں کرتے ہیں۔ روافض سے یہ تصور بعض سنیوں میں بھی در آیا جب کہ کسی مہینے کو منحوس سمجھنا اور خوشی کی تقریبات کو موقوف کر نا بے اصل اور بے بنیاد چیز ہے۔ شریعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  بعض عورتوں سے اسی مہینے میں نکاح فرمایا ہے۔ اور بعض روایات کے مطابق اپنی بیٹیوں حضرت ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنھما کی شادی بھی محرم الحرام میں کی ہے۔۔۔۔ (جاری )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے