ھدیہ محرم الحرام:ماہ محرم الحرام میں پیش آمدہ اہم واقعات قسط ۴

ھدیہ محرم الحرام:ماہ محرم الحرام میں پیش آمدہ اہم واقعات قسط ۴


قسط چھارم
بقلم:محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی
 mob 9286195398 
ماہ محرم الحرام میں پیش آمدہ اہم واقعات
یکم محرم الحرام 24ھ میں امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق رض نے جام شہادت نوش کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خاص طور سے حضرتِ عثمان غنی،حضرت علی، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرتِ سعد بن ابی وقاص، حضرت زیبر ابن العوام اور حضرتِ طلحہ بن عبید اللہ    کے  آپسی مشورے سے خلافت کی باگ ڈور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کی گئی۔دس محرم الحرام 61ھ کو نواسہ رسول حضرت حسین ابن علی رض نے میدانِ کربلا میں جام شہادت نوش کیا۔ سن7ھ محرم الحرام میں  قادسیہ کا معرکہ کار زار پیش آیا اور تین دن کے سخت مقابلہ کے بعد بالآخر حضرت سعد بن  ابی وقاص رض کی سر براہی میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی  سن 18ھ محرم الحرام میں دمشق کے گورنر یزید بن ابی سفیان رض کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق نے ان کے بھائی حضرت معاویہ رضہ کو دمشق کا گورنر مقرر کیا  محرم  74ھ میں عاشق رسول، بلند پایہ محدث،مفسر، فقیہ،  صاحب زادہ حضرت عمر حضرت عبداللہ رض کا انتقال ہوا محرم الحرام 18ھ میں امین الامت حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح  شام وعراق کے علاقوں میں اسلام کا علم لہراتے ہوئے طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو کر شھید ہوگئے اور اردن کے شہر نحل میں سپردِ خاک ہوئے. محرم الحرام 21ھ میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فاتحانہ مصر میں داخل ہو ئے پھر بعد میں حضرتِ عمر کے حکم سے مصر کے گورنر بنائے گئے۔ محرم الحرام 37ھ میں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضہ کے درمیان مصالحت ہوئی جس کے نتیجے میں جنگ صفین ختم ہو ئی( شہید کر بلا از گھمن مدظلہ)
سیرت حضرتِ حسین
آپ کا نام حسین اور کنیت ابو عبداللہ،لقب شبیر اور ریحانہ النبی ہے۔ آپ حضرت علی مرتضیٰ اور فاطمہ الزہرا کے فرزند ارجمند نیز نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں۔  
ولابا سعادت
حضرت حسنؓ کے 11 ماہ بعد سن 4ھ میں آپ پیدا ہوئے۔ آپ کی جائے پیدائش مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفا وعظما ہے۔آپ کی ولادت کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ آپ کے گھر تشریف لایے اور کانوں میں اذان دی پھر حضرتِ فاطمہ کو عقیقہ اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کا حکم فرمایا۔
نکاح اور اولاد
آپ رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے اور ان سے بھت ساری اولادیں ہوئیں مگر آپ کی نرینہ اولادوں میں صرف حضرت علی ابنِ حسین جنھیں زین العابدین سے جانا جاتا ہے باقی بچے اور انھیں سے آپ کی نسل آگے بڑھی۔سکینہ،فاطمہ،زینب آپ کی صاحب زادیاں ہیں۔جنگ کربلا میں آپ کے دو اور بقول بعض تین فرزند  علی اکبر اور علی اصغر اور عبداللہ بن حسین شہید ہوئے۔(واقعہ کربلا از فاروقی) 
مناقب سیدناحسین رضہ
سیدنا حضرت حسین رضہ کی فضیلت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ آپ سید الاولین و الآخرین حبیب کبریا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ، حضرت علی مرتضیٰ کے لخت جگر اور فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نور نظر ہیں۔ علاؤہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سیدا شباب اھل الجنہ الحسن والحسین۔ ترجمہ نوجوانان جنت کے سردار حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں۔ (مشکات شریف۔ترمذی شریف) ایک جگہ ارشاد فرمایا: حسین منی وانا من الحسین ، احب اللہ من احب حسینا ، حسین سبط من الاسباط۔(ترمذی شریف) ترجمہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا حسین میری اولاد کی اولاد ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے : ریحان الدنیا والآخرۃ الحسن والحسین۔ (ریاض النقرہ) حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا اور آخرت کے پھول ہیں۔ ایک حدیث میں ہے: الحسن والحسین ابنای من احبھما احبنی ومن احبنی احبہ اللہ ومن احبہ اللہ دخلہ الجنہ۔ (مستدرک حاکم ج 3 ص181) ترجمہ حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرے گا اسے جنت میں داخل کرے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومعہ حسن وحسین ھذا علی عاتقہ وھذا علی عاتقہ وھو یلثم ھذا مرة و یلثم ھذا مرة۔ (مسندِ احمد ج 2 ص 400) ترجمہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔اس حال میں کہ آپ کے ایک کندھے پر حضرتِ حسن اور دوسرے پر حضرت حسین سوار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی حضرت حسن کو چومتے کبھی حضرت حسین کو چومتے۔    حضرتِ ابو ہریرہ کے بارےمیں مروی ہے کہ ایک جنازے میں حضرتِ حسین کے ساتھ تھے واپسی پر ایک جگہ حضرتِ حسین استراحت کرنے لگے جب آپ لیٹے تو حضرت ابو ہریرہ آپ کے پیروں سے گرد وغبار صاف کرنے لگے، حضرتِ حسین نے لحاظا منع فرمایا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے کرنے دیجیے کیونکہ آپ کی فضیلت واہمیت جو مجھے معلوم ہے اگر دوسروں کو معلوم ہوجائے تو بخدا لوگ آپ کو اپنے اوپر اٹھائے پھریں۔ (سیر اعلام النبلا ج3   ص193) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ جو ایک نامور صحابی تھے ایک مرتبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بڑے احترام سے سواری پر سوار کرایا۔ احترام کا یہ برتاؤ کرتا ہوا دیکھ راوی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ  کون ہیں تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسینؓ ہیں ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے اس احترام کے ساتھ انھیں سوار کرایا۔ (مختصر تاریخ ابنِ عساکر ج7ص128)
حضرتِ حسینؓ کے صفات و کمالات
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تربیت ایسی ستودہ صفات اور برگزیدہ شخصیات کے ہاتھوں ہوئی ہے کہ اگر ان کی نظر تربیت ذروں پر پڑجائے تو آفتاب بن جائیں۔ بلاشبہ خاندان نبوی کو اللہ رب العزت نے وہ خصوصیات عطا فرمائی ہے کہ اگر مٹی کو چھو لیں تو سونا بن جائے ، خانوادہ نبوی کے زیرِ تربیت رہ کر آپ بھی معدن فضل وکمال کے اوج ثریا پر فائز ہوگئے مگر چونکہ زمانہ نبوی میں آپ کی عمر مبارک بھت کم تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست اور بلا واسطہ آپ کی روایتوں کی تعداد فقط آ ٹھ ہے۔ البتہ بالواسطہ روایات کثیر ہیں۔ آپ نے حضرتِ  عمر، علی، فاطمہ، ہند سے کی ہے۔(شھید کربلا از فاروقی رح)
مقام حسینؓ حضرتِ صدیق اکبر کی نگاہ میں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت حسین کی بھت تعظیم و توقیر فرما یا کرتے تھے۔ "ابن علی شبھ لنبی"  یعنی بیٹا علی کا مشابہ نبی کے ، حضرت حسین کو دیکھ کر آپ نے ہی فرمایا تھا۔ آپ کے عہد خلافت میں جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ کو فتح کیا تو مال غنیمت میں سے ایک بیش قیمت چادر آپ نے حضرت حسین کو ہدیہ میں مرحمت فرمائی اور سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خوشی خوشی اسے قبول کیا۔ (فتوح البلدان ص 254۔شھید کربلا )
مقام حسین حضرتِ عمرفاروقؓ کی نگاہ میں
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی آپ کی بے انتہا عزت کیا کرتے تھے،  ہر گام آپ کا خیال رکھتے۔ بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے برابر آپ کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ (شرح معانی الآثار ج2 ص 181) کسی علاقے سے بطور غنیمت کپڑے آئے، اتفاق سے کوئی کپڑا آپ کے جسم پر موافق نہ آیا تو حضرتِ عمر نے یمن کی طرف آدمی بھیج کر آپ کے لیے پوشاک کا انتظام فرمایا۔ (کنزالعمال ج 7ص106۔البدایہ والنہایہ ج 8ص207) (جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے