ماہ محرم اور بدعات و رسومات

ماہ محرم اور بدعات و رسومات 

ماہ محرم اور بدعات و رسومات

✍: مفتی شبیر انور قاسمی
قسط:٣
      ماہ محرم حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک عظمت و برکت کا حامل  اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔اس ماہ میں اللہ کی رحمت و برکت کا خاص نزول ہوتا ہے۔اسی وجہ سے پہلی  امتوں میں بھی محرم اور عاشوراء کے دن کی قدرتھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ''شھر اللہ''اور اس کے ایام کو رمضان کے بعد سب سے افضل ایام بتایا لیکن ایک بڑا مسلم طبقہ اس کے فضائل وبرکات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے معتبر دینی معلومات نہ رہنے کی وجہ سے بدعات و رسومات میں پڑ کراس کے حقیقی فضائل وبرکات سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے ہماری حالت یہ ہے کہ محرم کاچاند نظر آتے ہی ڈھول تاشے، میوزک اور سارنگی کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ نوحہ اور ماتمی مجالس کا بازار گرم ہو جاتا ہے ، خاص طور پر دس محرم میں مختلف قسم کی رسومات کو اپنا کر ثواب حاصل کرنے کے بجائے الٹا گناہوں کاسامان مہیا کرلیاجاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ جس طرح محرم کی فضیلت کی وجہ سے اس میں عبادتوں کاثواب زیادہ ہوتاہے اسی طرح اس مہینے میں بداعمالیوں کی وجہ سے گناہوں کے بڑھ جانے کابھی اندیشہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہرطرح کے غیرشرعی اعمال اور بدعات ورسومات سے احتراز کرکے صرف ان امور کوانجام دیں جن کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کے اندر امت مسلمہ کو دی ہیں اور وہ صرف دو کام ہیں جومسنون و مستحب ہیں: (١) محرم کے نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں تاریخ کو روزہ رکھنا۔ (٢) دس محرم کو اپنی گنجائش کے مطابق اپنے اہل وعیال اور ملازم کے کھانے پینے پر خرچ میں فراخی کرنا۔ ان دو کاموں کے علاوہ جن غیرشرعی کاموں اور بدعات کا رواج چل پڑا ہے ،وہ سب قابل ترک ہیں۔کیوں کہ بدعات و رسومات گمراہی کے راستے ہیں۔اس کی وجہ سے انسان جہنم کے عذاب کامستحق بن جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''وَ (اِنَّ) کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ وَکُلَّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ۔'' (سنن النسائی:١٥٧٨،سنن ابن ماجہ:٤٦) دین میں نئی چیز ایجاد کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ عرباض بن ساریہؓ سے مروی پردرد خطاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَاِیَّاکُمْ وَالْاُمُوْرَ الْمُحْدَثَاتِ ؛ فَاِنَّ کَلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔(سنن ابن ماجہ:٤٢) دین میں نئی چیزیں ایجاد کرنے سے بچو کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ ذیل میں چند بدعات و رسومات کی نشاندہی کی جاتی ہے تاکہ ان سے بچ کر صحیح اعمال اختیارکیے جائیں۔ اللہ تعالی ہمیں حق بات کہنے، سننے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کیامحرم کی عظمت کاسبب شہادت حسین ؓ ہے؟

       مسلمانوں کے ایک طبقہ کاخیال ہے کہ ماہ محرم یا یوم عاشوراء کی عظمت و فضیلت نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت حسینؓ اور ان کے دیگر جاں نثۤاروں کی شہادت کی وجہ سے ہے؛ لیکن یہ بات کئی وجوہات سے درست نہیں ۔
(١) ماہ وسال اور دن کی عظمت کے لیے قرآن وحدیث سے ثبوت ہونا ضروری ہے اور قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ محرم یا یوم عاشوراء کو یہ فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے حاصل ہوئی ۔
(٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجگرگوشہ بتول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بخوبی علم تھا پھر بھی آپؐ نے حضرت حسین ؓ کی شہادت کو محرم اور یوم عاشورا ء کی عظمت کا سبب قرار نہیں دیا۔
(٣) محرم اور یوم عاشوراء کی حرمت و فضیلت واقعہ کربلا رونما ہونے سے پہلے ہی سے ثابت ہے جب کہ واقعہ کربلا بہت بعد میں ١٦؁ ہجری میں پیش آیا ؛ اس لیے جب محرم اور یوم عاشوراء کی عظمت وحرمت پہلے ہی سے ثابت ہے تو یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ ان ایام کی فضیلت حضرت حسین ؓ اور ان کے جان نثاروں کی شہادت کی وجہ سے ملی۔
      البتہ اس معاملے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت حسینؓ کی شہادت کے لیے محرم کامبارک مہینہ اور عاشوراء کاعظیم دن اس لیے چنا گیا کہ یہ مہینہ اور دن حرمت وعظمت والا تھا۔ گویا محرم اور عاشورا کی فضیلت شہادت حسین سے نہیں بلکہ حضرت حسین کو اس دن شہید ہونے کی فضیلت حاصل ہوئی یعنی اللہ نے اس عظیم دن کو اپنے مقبول بندے کی عظیم شہادت کے لیے چنا۔

کیامحرم غم کامہینہ اور یوم عاشوراء سوگ کادن ہے؟

     اسی طرح مسلمانوں کا ایک طبقہ شہادت حسینؓ کی وجہ سے ماہ محرم کو غم کا مہینہ اور یوم عاشوراء کو سوگ کا دن سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان دنوں میں ایسے لوگ شادی بیاہ ، خوشی کی تقریبات منعقد نہیں کرتے، نئے لباس نہ خریدتے اور نہ پہنتے ہیں بلکہ بعض لوگ سیاہ لباس پہنتے ہیں اور عورتیں بناوسنگھارنہیں کرتی ہیں،یہ ساری باتیں بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف اور کئی وجوہات سے ناجائز ہیں۔
(١) نواسہ رسول حضرت حسین ؓ کی شہادت یقینا بڑا ہی روح فرسا واقعہ تھا؛ لیکن اس واقعہ کی وجہ سے محرم کو غم کا مہینہ مان کر اس میں غم منانا قرآن وسنت اور جمہور امت سے بالکل ثابت نہیں ہے اس لیے بے بنیاد چیزیں تسلیم نہیں کی جا سکتیں۔
(٢) اسلام میں کسی شخص کی موت پر تین دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے ۔تین دن کے بعد بھی سوگ منانا دینی تقاضا نہیں بلکہ شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ جس خاتون کا شوہر انتقال کرجائے اوروہ حاملہ نہیں ہے تو اس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے، اور حاملہ ہے تو اس کا سوگ بچے کی پیدائش تک ہے۔ اسلام میں سوگ کی یہی حقیقت اور مدت ہے۔بخاری شریف میں ہے:لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَیَالٍ اِلاَّ عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْھُرٍ و َعَشْراً۔(صحیح بخاری:٥٣٣٤)
(٣) اگر شہادت حسین کی وجہ سے کسی مہینہ کو غم کا مہینہ درست مان لیاجائے تو پھر پورا سال ہی غم منانا چاہئے؛کیونکہ اسلامی تاریخ ایسے بہت سے المناک واقعات اور شہادتوں سے بھری پڑی ہے جیسے حضرت حمزہؓ، حضرت صہیبؓ، خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ، خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی ؓ، خلیفہ رابع حضرت علی کرم اللہ وجہہ وغیرہ بہت سے صحابہ کرام کی شہادتیں امت کی تاریخ کا حصہ ہیں؛ تو پورے سال کو غم والا قرار دے دینا چاہئے, ظاہر ہے اسے کون تسلیم کرسکتا ہے۔ بلکہ ختم المرسلین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے واقعہ سے بڑھ کر امت کے لیے کون سا سانحہ بڑا ہوسکتا ہے ؟ لیکن اس کی وجہ سے بھی ماہ ربیع الاول کو غم والا مہینہ قرار دے کر سوگ منانے کاحکم کہیں سے کسی طرح بھی ثابت نہیں۔
      مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر جب شہادت حسین ؓ کی وجہ سے ماہ محرم کو غم کامہینہ قرار نہیں دیا جاسکتا تو اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضرت حسین ؓ کی شہادت کے نام پر غم منانے کے جو مختلف کام اور مختلف نظریات قائم کئے جاتے ہیں، وہ سب بھی غلط اور غیرشرعی ہیں, جنھیں ترک کیا جانا چاہئے۔

ماہ محرم میں شادی بیاہ نہ کرنا:

بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ماہ محرم خصوصا شروع کے دس دنوں میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں خیر و برکت نہیں ہوتی، وہ منحوس ہوجاتاہے، بعض لوگوں کی سوچ ہے کہ حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے ماہ محرم غم کامہینہ ہے اور غم کا تقاضا ہے کہ خوشی نہ منائی جائے۔ جبکہ بعض پڑھے لکھے لوگ سافٹ کارنر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماہ محرم میں شادی بیاہ کوئی فرض اور واجب تو نہیں اس لیے ماہ محرم میں شادی سے پرہیز کرلیا جائے توکوئی حرج نہیں تاکہ اس طرح عوامی نظریہ کی رعایت بھی ہوسکے اور ممکنہ ''نحوست''سے بھی حفاظت ہوسکے۔ حالاں کہ  یہ سبھی سوچ غلط اور شریعت کے خلاف ہیں۔ کیوں کہ شریعت میں محرم یا کسی دوسرے مہینہ میں شادی کی ممانعت نہیں ہے؛ بلکہ قرآن وحدیث میں ماہ محرم کی حرمت وعظمت بیان کرکے اس میں زیادہ عبادت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اورنکاح بھی ایک عبادت ہے کیوں کہ نکاح سے اللہ کاقرب اور تقوی نصیب ہوتاہے۔ اس لیے ماہ محرم کی حرمت و فضیلت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس ماہ میں شادی بیاہ بھی بابرکت بنے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس باعظمت و بابرکت مہینے میں شادی بیاہ کو بے برکت اور منحوس کیسے سمجھا جاتاہے ۔ مزید دیکھا جائے تو شادی بیاہ کو معیوب و منحوس سمجھنا دین میں ایک طرح کی زیادتی ہے جس کے لیے معتبر شرعی دلیل کی ضرورت ہے اور قرآن وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔لہذا نحوست کا یہ نظریہ قرآن وسنت کی رو سے ایک سنگین جرم بھی ہے۔ نیز یہ کہ شہادت کا تو بڑا اونچا مقام ہے، یہ رتبہ امت کے خوش قسمت افراد کو ہی نصیب ہوتاہے تو شہادت کی وجہ سے کسی مہینے یا دن میں نحوست کیسے آسکتی ہے؟ یہ کیسی غلط سوچ ہے۔نیز اسلامی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی شخصیت کی شہادت سے کسی ماہ کے احکام تبدیل نہیں ہوسکتے کہ اس کی وجہ سے بعض جائز امور ناجائز اور ممنوع ٹھہریں۔ اس لیے شہادت حسین کے سبب ماہ محرم کے احکام میں تبدیلی کا تصور واضح طور پر شریعت کے خلاف ہے خصوصا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت حسین کی خبر اللہ نے دے دی تھی، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم سے متعلق کسی بھی حکم میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
      یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ نظریاتی اور عملی طور پر دین اسلام کی مکمل اتباع ضروری ہے اور مکمل اتباع کا تقاضا ہے کہ اسلامی احکام کی مکمل پیروی کرتے ہوئے ان تمام غیر شرعی کاموں اور نظریوں سے برأت اور اجتناب کیاجائے۔ ان امورکی کسی بھی درجے میں رعایت اللہ کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ (سورہ بقرہ:٢٠٨)
اس آیت کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ عبداللہ بن سلام ؓ جو علمائے یہود میں سے تھے، اسلام لانے کے بعد سوچا کہ یہودی مذہب میں ہفتے کی تعظیم ضروری ہے اور اونٹ کاگوشت منع ہے جبکہ اسلام میں ہفتے کے دن کی بے قدری ضروری نہیں اور اونٹ کا گوشت کھانا بھی واجب نہیں ، تو اگر میں ہفتے کے دن کی تعظیم کرلیا کروں اور اونٹ کا گوشت نہ کھاؤں تو دین محمدی کے ساتھ یہودی مذہب پر بھی عمل ہوجائے گا تو اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ اور حضرت عبداللہ بن سلام کے اس نظریہ کی تردید فرماتے ہوئے واضح فرما دیا کہ دین اسلام کی مکمل پیروی واجب ہے، اس کے ساتھ ان تمام کاموں اور نظریوں سے بالکل برأت ضروری ہے جو کسی بھی درجے میں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔ اس لیے غیر شرعی نظریہ کی کسی درجے میں رعایت کرتے ہوئے محرم میں شادی بیاہ نہ کرنا درحقیقت غیرشرعی نظریہ کی ایک حدتک تائید بھی ہے اور ایسے نظریہ رکھنے والوں کی مشابہت بھی اور یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدعِہِ فَقَدْ أَعَانَ عَلیٰ ھَدمِ الْاِسْلَامِ (مشکاۃ المصابیح:)
     لہذا سافٹ کارنررکھنے والے افراد کو بھی متنبہ ہونے کی ضرورت ہے ؛ بلکہ جب معاشرے میں غیر شرعی امور اور خیالات رائج ہوں تو ان کی عملی تردید بھی کرنی چاہئے تاکہ ان غلط نظریوں اور کاموں پر قدغن لگے ، اس میں احیائے سنت کا ثواب بھی ہے ، اس لیے اس ماہ میں اس نظریہ سے نکاح کیا اور کرایا جائے کہ اس سے غیر شرعی نظریے کی کاٹ ہوسکے گی تو یہ باعث اجر و ثواب ہوگا انشاء اللہ۔

شریعت میں نحوست کا کوئی تصورنہیں ہے:

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام میں کسی ماہ و سال اور شب و روز بلکہ کسی چیز کی نحوست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ، اس لیے نحوست کا نظریہ ہی بے بنیاد ہے ۔ کیوں کہ کسی مہینہ کو منحوس قرار دینے کے لیے کم سے کم اتنا تو ضروری ہے کہ اسلام میں نحوست کا کوئی تصور تو ہو اور جب اسلام میں نحوست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے تو اس سے کسی مہینے اور کسی دن کی نحوست سے متعلق تمام خیالات کی خود بخود تردید ہوجاتی ہے ۔ ہاں نحوست صرف اور صرف گناہ میں ہے۔ ساری نحوستیں اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ تعجب ہے کہ آج مسلمان مہینوں اور دنوں کو منحوس مان کر ان میں شادی سے تو گریز کر لیتا ہے لیکن شادیوں میں اللہ کی نافرمانیاں نہیں چھوڑتا جوکہ نحوست کا اصل سبب ہے۔ شادیوں میں ناچ گانے، ڈھول باجے، پٹاخے اور آتش بازیاں ، ہندوانہ رسم و رواج اورتلک و جہیز سمیت بہت سی اللہ کی نافرمانیاں عام ہیں، اللہ کوناراض کرکے شادی خانہ آبادی کے بجائے شادی خانہ بربادی کا سامان مہیا کیے جاتے ہیں ۔شیطان نے گناہوں کی سنگینی کو دلوں سے ایسا محو کر دیا ہے کہ یہ چیزیں ہلکی تصور کی جاتی ہیں۔ بہرحال نحوست سے متعلق غلط فہمیوں کی اصلاح کے لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے کہ: ''مرض کااللہ کے حکم کے بغیر کسی دوسرے کو لگنا، بدشگونی، مخصوص پرندے کی بدشگونی اور صفرکی نحوست ؛ یہ ساری باتیں بے بنیاد ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔''(بخاری شریف:٥٧٥٧)

دس محرم کو کاروباراور روزی میں تنگی کا تصور:

    بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سناجاتا ہے کہ دس محرم کو کاروبار کرنے کی وجہ سے پورے سال رزق میں تنگی رہتی ہے، اس لیے محرم کے پہلے عشرہ میں کاروبارنہیں کرنا چاہئے۔ یہ عقیدہ وخیال بھی بے بنیاد اورباطل ہے کیوں کہ شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بنیاد پر لوگ ان دنوں میں کاروبار بند کرکے ماتم اور نوحہ کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں جو گناہ ہے اور روزی میں تنگی کا اصل سبب ہے کہ ساری نحوستیں اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔

یوم عاشوراء کی ناقدری:

ماہ محرم کی بدعات و رسومات میں سے ایک تعزیہ داری بھی ہے ۔ بعض مسلمان تعزیہ داری کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، اسے حضرت حسین ؓ کی شبیہ مان کر بہت تعظیم کرتے ہیں۔ محرم کی دس تاریخ کو تمام تعزیہ پرست اپنا اپناتعزیہ لے کر جلوس کی شکل میں نکلتے ہیں، راستے میں اگر کسی کا مکان، کھیت ہو یا درخت سب کو نقصان پہنچاتے ہوئے جاتے ہیں ۔ کھیتوں میں لگی فصلوں کو روندتے چلے جاتے ہیں، درختوں کو کاٹ چھانٹ کر تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔کتنے غریب کسانوں کو اپنی کھیتی کی بربادی پر آنسو بہاتے دیکھا گیا اور ہر سال دیکھا جاتا ہے لیکن کسی کے دل میں رحم دلی کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ جب کہ یہ سب حرکتیں روح ایمان اور تعلیم اسلام کے خلاف ہیں۔ کیا یہ زیادتی خداکی ناراضگی کاسبب نہیں ہے، بیشک ہے، آپ نے ظلم کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

تعزیہ داری کی ایجاد:

   تعزیہ داری کاثبوت دین اسلام میں کہیں نہیں ملتا۔ حضرت حسین ؓ کی شہادت ٦١ھ؁ میں ہوئی، اس کے ١٩/برس بعد ٨٠ھ؁ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ پیدا ہوئے اور ٧٠ /برس بعد ١٥٠ھ؁ میں انتقال فرمائے ؛ لیکن ٧٠/برس کے دوران کسی محرم میں نہ آپ تعزیہ داری کرتے ہیں ،نہ اس کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح دیگر ائمہ مجتہدین اورفقہائے کرام نے بھی نہ تعزیہ داری کی اور نہ اس کا حکم دیا اور ہندوستان تقریبا آٹھ سوسال تک تعزیہ داری کے اس غیر شرعی رسم سے پاک رہتا ہے، ٨٠١ھ ؁ میں تیمور لنگ نے جو مذہبا شیعہ تھا، اس تعزیہ داری کے رسم کی ایجاد کی، پھر یہ رسم چل پڑی اور آج تعزیہ پرستی میں بھولے بھالے سنی حضرات بھی پھنس گئے۔ (بہارتعزیہ ص:١)

تعزیہ داری کاشرعی حکم:

    تعزیہ داری ناجائز اور دین وایمان کے خلاف ہے ۔حق تعالی کاارشادہے: "أَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ "(سورہ صافات:٩٥) ترجمہ: کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جسے اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور بناتے ہو۔ ظاہر ہے کہ تعزیہ انسان اپنے ہاتھ سے بانس کو تراش کر بناتا ہے اور پھرمنت مانی جاتی ہے اور اس سے مرادیں مانگی جاتی ہیں، اس کے سامنے اولاد اور کاروبار وغیرہ کی صحت وترقی کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں ،اس کو سجدہ کیاجاتا ہے ،اس کے چاروں طرف طواف کعبہ کی مانند چکر لگاتے ہیں، اس پر چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے، اس کی زیارت کو زیارت امام حسین سمجھاجاتا ہے ۔ بعض علاقے میں محرم کو اس قدر اہمیت دی جاتی ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے کہیں دور رہتے ہیں وہ چاہے عیدین کے موقع پر گھر آئیں یا نہ آئیں  لیکن محرم میں ضرور آتے ہیں گویا ان کے نزدیک یہ کوئی عیدین سے بڑھ کر تہوار ہو۔ یہ سب باتیں روح ایمان اور تعلیم اسلام کے لحاظ سے غلط اور ناجائز ہیں۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ تحریرفرماتے ہیں کہ: ''تعزیہ کے ساتھ جومعاملات کیے جاتے ہیں ان کا معصیت و بدعت ؛ بلکہ بعض کا قریب بہ کفر وشرک ہونا ظاہر ہے ؛ اس لیے اس کا بنانابلاشک ناجائز ہوگااورچوں کہ معصیت کی اعانت معصیت ہے ؛ اس لیے اس میں باچھ یعنی چندہ دینا یا فرش وفروش و سامان روشنی سے اس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہوگا اور بنانے والا اور اعانت کرنے والا دونوں گنہگار ہوں گے۔ (امدادالاحکام بحوالہ امداد الفتاوی:٥/٢٨٧)
فتاوی رحیمیہ میں ہے: "تعزیہ سازی کا ناجائز ہونا اور اس کابخلاف دین وایمان ہونا اظہر من الشمس ہے ۔ ادنی درجہ کے مسلمان کے لیے بھی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔قرآن مجید میں ہے :''اتعبدون ماتنحتون ''کیاتم ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جس کو خود ہی نے تراشا اور بنایاہے ۔ظاہر ہے کہ تعزیہ انسان اپنے ہاتھ سے بانس کو تراش کر بناتا ہے اور پھرمنت مانی جاتی ہے ،مرادیں مانگی جاتی ہیں،اس سے اولاد وصحت کی دعائیں کی جاتی ہیں، سجدہ کیاجاتا ہے، اس کی زیارت کو زیارت امام حسین سمجھاجاتا ہے، کیا یہ سب باتیں روح ایمان اور تعلیم اسلام کے خلاف نہیں ہیں۔
بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضاخان صاحبؒ بریلو ی تحریر فرماتے ہیں:
(١) تعزیہ، علم، بیرک، مہندی، جس طرح رائج ہے بدعت ہے اور بدعت سے شوکت اسلام نہیں بڑھتی ،تعزیوں کو حاجت روا یعنی ذریعہ حاجت روائی سمجھنا جہالت پرجہالت ہے اور اس سے منت ماننا حماقت اورنہ کرنے کو باعث نقصان خیال کرنا زنانہ وہم ہے، مسلمانوں کو ایسی حرکت سے باز آنا چاہئے۔ واللہ اعلم (رسالہ محرم وتعزیہ داری ص:٥٩بحوالہ فتاوی رحیمیہ:٢/٢٦٧)
(٢) تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و رو گردانی کریں اس کی طرف دیکھنابھی نہیں چاہئے۔ (عرفان شریعت:٣/١٥)
(٣) تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعا بدعت و ناجائز اور حرام ہے۔ (رسالہ تعزیہ داری دوم بحوالہ فتاوی رحیمیہ:٢/٢٦٧)
(٤) محرم شریف میں سوگ کرناحرام ہے۔(عرفان شریعت:١/٧)

تعزیہ کاجلوس اور اس میں شرکت:

محرم کی دس تاریخ کو تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے۔ بعض لوگ یہ سوچ کر تعزیہ کے جلوس اور میلہ میں شامل ہوجاتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے ۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں بھی گناہ ہے ۔ اس کے کئی وجوہات ہیں:
(١) اس میں شرکت سے دشمن صحابہ شیعوں کی رونق بڑھتی ہے اور دشمنوں کی رونق بڑھانا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔ (کنزالعمال٩/١١:٢٤٧٣)
(٢) غیرمسلموں کے تہوار دسہرہ سے مشابہت ہے ۔ان کے یہاں بھی دس دن رام لیلا کی کہانی ہوتی ہے اور یہاں بھی دس دن ماتم اور واقعہ کربلا کا ذکر ہوتا ہے وہ رام رام پکارتے ہیں، یہ حسین حسین پکارتے ہیں ۔اس مشابہت کی وجہ سے اس میں شرکت کرنا گناہ سے خالی نہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔ (ابوداؤد:) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی وہ ان ہی میں شمار ہوگا۔
(٣) جس طرح عبادت یاعبادت کے کاموں کا کرنا یابل دیکھنا باعث ثواب ہے ، اسی طرح گناہ کے کاموں کو دیکھنا یا کرنا بھی گناہ ہے ۔ظاہر ہے تعزیہ بنانا یا رکھنا یا اس سے منت یا مرادیں مانگنا وغیرہ سب گناہ کے کام ہیں ۔اس لیے تعزیہ کے جلوس میں شریک ہونا یا تعزیہ دیکھنا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے ناجائز ہوگا ۔ حق تعالی فرماتاہے: وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۔(سورہ مائدہ:٢)اور گناہ اور ظلم پر مددنہ کرو۔
(٤) اس مقام پر اللہ کاغضب نازل ہوتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ایسی جگہوں پر جاناطل بہت بڑا گناہ ہے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرمبارک پر چادرڈال لی اور سواری کو بہت تیز چلاکر اس مقام سے جلدی سے گذر گئے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب والی جگہوں سے بچنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے، تو مسلمانوں کو ایسی جگہوں پرجانے سے بدرجہ اولی احتراز کرناچاہئے۔ (مستفاد فتاوی قاسمیہ:٢/٤٣٨)

ڈھول تاشے اور گانا بجانا:
تعزیہ داری کے ساتھ ایک اور سنگین گناہ جس میں جاہل عوام مبتلا ہے وہ آلات موسیقی ڈھول تاشے اورگانا بجانا ہے۔ محرم کاچاند دیکھتے ہی اور بعض علاقے میں بقرعید کے چند دنوں بعد ہی ڈھول تاشے بجانا شروع کر دیتے ہیں اوربڑے ہی اہتمام سے گویا کار ثواب سمجھ کر بجاتے ہیں۔ اللہ جانے کس بنیادپر بزعم خود حضرت حسین کی شہادت کاغم اس طرح غلط کرتے ہیں جب کہ ڈھول تاشہ اور گانا بجانا شریعت میں حرام ہے۔ قیس بن سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے رب نے مجھ پر شراب، طبل اور بربط (آلات موسیقی) کو حرام کر دیا ہے۔(مسنداحمد:٣/٤٢٢) حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں کچھ لوگ ضرور شراب پئیں گے اور اس کانام بدل دیں گے۔ ان کے سروں پر باجوں اور گانے والیوں کی آواز ہوگی ۔اللہ تعالی ایسے لوگوں کو زمیں میں دھنسادیں گے اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنادیں گے۔ (ابن ماجہ ص:٣٠٠)صحیح بخاری میں ہے: حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوب اچھی طرح فرماتے ہوئے سناہے کہ :لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَ الْحَرِیْرَ وَ الْخَمْرَ وَ الْمَعَازِفَ۔بخاری:٢/٨٣٧) ان احادیث سے واضح ہے کہ ڈھول تاشے، میوزک اور گانا بجانا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے اور عذاب الہی کاذریعہ ہے۔

حضرت حسین کے نام پر سبیل لگانا اورکھاناپکانا:

اسی طرح بعض لوگ ماہ محرم خاص طور سے نویں اور دسویں محرم کو سبیل لگاکر پانی شربت یادودھ پلاتے ہیں ، حلیم ،کھچڑا یا دیگر قسم کے کھانے بنا کر لوگوں میں بانٹتے یا اس کے لیے اپنے رشتہ داروں کو جمع کرتے ہیں اور اسے کار ثواب سمجھ کر بڑی پابندی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اس قسم کی کوئی بات نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور نہ ہی صحابہ کرام نے اور تابعین و بزرگان دین نے نہ اس پر عمل کیا ۔صدیوں تک اس عمل کا کہیں وجودنہیں ملتا۔ اور اگر ان کاموں سے مقصود اپنی ذات کے لیے صدقہ دینا ہے تو صدقہ سال بھر میں کسی دن بھی دیا جاسکتا ہے اور صدقہ میں کوئی بھی جائز چیز دی جاسکتی ہے ؛ لیکن اس کے لیے مہینہ یادن خاص کرنا یاصدقہ میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف ہے۔اور اگر ان کاموں سے مقصود شہدائے کربلا کے لیے ایصال ثواب ہے تو ایصال ثواب کے لیے نہ تو کوئی دن یامہینہ خاص ہے ،نہ صرف صدقہ دیناضروری ہے اور نہ ہی صدقے میں کوئی خاص چیز دینا ضروری ہے۔ اس لیے ایصال ثواب کے لیے بھی مہینہ یا دن متعین کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ حضرت حسین اور دیگر شہداء میدان کربلا میں بھوکے پیاسے تھے ،ان پر پانی بند کر دیا گیا تھا، یہ کھانا اور پانی سے ان کی پیاس بجھے گی۔ تو یہ عقیدہ بھی شرعی اور عقلی دونوں اعتبار سے بے بنیادہے۔ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی عقل اس کو تسلیم کرسکتی ہے۔دوسرے یہ کہ شہدا کے پیاس کی حالت میں شہید ہونے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ اب تک پیاسے ہوں گے۔ کیا شہادت کا بلند مقام پانے والے ان شہیداء کو جنت کے جام طہور عطا نہیں ہوئے ہوں گے۔ اس لیے شہداء کی محبت کا دم بھرنے والوں کی عقل پر ماتم اور سوچ پر تعجب ہے ۔ بہرحال سبیل لگاکر شربت یا دودھ پلانا اور حلیم یا کوئی کھانا پکاکر بانٹنے کی رسم دین میں بے دلیل زیادتی کے زمرے میں آتی ہے ، جنھیں ترک کرنا ضروری ہے۔ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: خوارج نے حضرت حسین کی شہادت کی خوشی میں کھچڑا پکایا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھچڑا پکانا اہل بیت سے محبت نہیں بلکہ اہل بیت سے دشمنی کی علامت ہے۔ لہذا اہل بیت سے محبت کادم بھرنے والوں کو تو اس سے اور بچناچاہئے۔

محرم کی بدعات پر مشتمل کھاناپانی کاشرعی حکم:

شریعت کامزاج بدعات ورسومات کی حوصلہ شکنی کاہے۔ اس لیے شرعی تقاضا ہے کہ مسلمان قرآن وسنت کی پیروی کرتے ہوئے بدعات اور اس کے معاون کاموں سے بچے اور بچائے۔اس لیے بدعات پر مشتمل کاموں کا کسی بھی طرح تعاون جس سے اسے تقویت ملے شریعت کے خلاف ہے۔ اسی وجہ سے محرم کی بدعات پر مشتمل کھانے، سبیلوں کی مجالس میں شریک ہونا درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے بدعات کی شان میں اضافہ اور ان کو قوت اور رواج میسر آتا ہے۔البتہ بدعات پر مشتمل یہ کھانا پینا اگر کوئی شخص کسی کے یہاں بھیج دے تو ایسی صورت میں یاد رہے کہ اگر حرمت کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو تو محض محفل بدعت کی وجہ سے وہ کھانا پینا اپنی ذات میں حرام نہیں ہوتا۔ا لبتہ کوشش کی جائے کہ اسے نہ لیاجائے اوراس کے سامنے صحیح صورت حال واضح کی جائے اور اگر لینا ہی پڑے تب بھی ان کے سامنے صحیح صورت حال واضح کی جائے کہ یہ چیزیں شریعت کے مطابق نہیں اورنہ ہی ہم اس کے قائل ہیں۔ اور کھانے پینے کی چیز کو کسی غریب کو دیدے تاکہ بدعات کی نفرت دل میں برقرار رہے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ،البتہ اگر خود ہی کھا لیاجائے تو حرام نہیں البتہ اجتناب کرنے میں احتیاط ہے خصوصا وہ اشخاص جو مقتدا ہوں تاکہ بدعات کا خاتمہ ہوسکے ۔ جو شخص صحیح عقیدہ ہے اور اس کے یہاں سے دیگر ایام میں بھی کھانے پینے کی چیز گھر آتی رہتی ہے اور وہ دس محرم کو بھی کوئی چیز یہ کہتے ہوئے بھیجے کہ میں نے کسی بھی غلط نظریہ سے نہیں بھیجی ہے تو اس کا کھانا بالکل درست ہے البتہ بھیجنے والایہ کوشش کرے کہ محرم کی بدعات کے خاتمہ کے لیے دس محرم کو یہ اہتمام نہ ہو تو اچھاہے۔ اور اگرکوئی شخص اپنے اہل و عیال کے لیے عمدہ کھانا تیار کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں جیساکہ اہل وعیال پر خرچ میں فراخی کے عنوان کے تحت تفصیلی بات آچکی ہے۔ البتہ ایسے کھانے تیارکرنے سے اجتناب کرنابہترمعلوم ہوتا ہے جودوسرے لوگ ان ایام میں بدعات کا ارتکاب کرتے ہوئے خاص طور پر تیار کرکے تقسیم کرتے ہیں۔ (تفصیل کیلئے فتاوی عثمانی وغیرہ دیکھاجائے)

نوحہ اور مجالس منعقد کرنا:
عزیز و رشتہ دار کی موت کے غم اور مصیبت میں آنسو بہہ جائیں اس پر شریعت میں کوئی منع نہیں ؛ لیکن مروجہ ماتم ونوحہ خوانی اور میت کے اوصاف کو بیان کرکے رونا گناہ ہے۔ کیوں کہ نوحہ کرنے ،چیخنے چلانے ، کپڑے پھاڑنے اور منہ پر طماچے مارنے وغیرہ جیسے کام شریعت میں ناجائز اور ممنوع ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ : تین چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کے ساتھ کفر کے زمرے میں آتی ہیں: غم میں گریبان چاک کرنا، میت پر نوحہ کرنا اور نسب میں طعنہ دینا۔(ابن حبان:١٤٦٥) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو مصیبت کے وقت چہرے کو پیٹے ،گریبان کو پھاڑے اور جاہلیت والا  واویلا اور نوحہ کرے۔(صحیح بخاری:١٢٩٤)حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی عورت اور نوحہ سننے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔(ابوداؤد، مشکوۃ :١٥١) اورذکرشہادت کے لیے مجالس منعقد کرنا ،ان میں ماتم کرنا، نوحہ کرنا روافض کی مشابہت کرنے کی وجہ سے ناجائز ہے کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے:عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔(ابوداؤد:٤٠٣١)ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جس قوم کی مشابہت اختیارکی وہ اس قوم میں سے ہے۔علامہ ابن حجرمکی ؒ تحریرفرماتے ہیں: خبردار (اس محرم کا) روافض کی بدعتوں میں مبتلا نہ ہونا جیسے مرثیہ خوانی، آہ و بکا، چیخ و پکار، رنج والم وغیرہ کیوں کہ یہ مسلمانوں کے شایان شان نہیں ،اگر ایسا کرناجائز ہوتا تو اس کا زیادہ مستحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہو سکتا تھا۔ (الصواعق المحرقہ:٢/٥٣٤)دوسری بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں شہدااپنی ممتازحیات کے مطابق زندہ ہوتے ہیں اور انعامات خداوندی سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں پھران کا غم وماتم سواۓ حماقت کے اور کیا؟

سیاہ لباس پہننے کاشرعی حکم:

عام حالات میں سیاہ لباس پہننا فی نفسہ درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ، اسی طرح ماہ محرم میں بھی اپنی عادت کے موافق سیاہ لباس پہننا صحیح ہے ۔البتہ شہادت حسین کے غم کے نظریہ سے سیاہ لباس پہننا یاشیعہ کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے یا کسی اور غلط نظریہ کی بنیاد پر سیاہ لباس پہننا ناجائز ہے۔

محرم میں قبرستان جانے کی پابندی:

اسی طرح بہت سی جگہوں پر لوگ دس محرم کو قبرستان جاتے ہیں ، قبروں کی صاف صفائی اور لپائی وغیرہ کرتے ہیں ۔ان کاموں کو خاص طورپر محرم کے دنوں میں کرنا اور ان دنوں میں مقصود سمجھنا بدعت ہے کیوں کہ شریعت نے ان کاموں کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں کیا اور نہ ہی ان دنوں میں اس کی کوئی فضیلت بیان کی ہے۔ لہذا اس سے بچنا چاہئے ۔اس میں ایک خرابی یہ بھی ہیکہ اس دن عورتیں قبرستان جاتی ہیں، اس دور میں ان کا قبرستان جانا فتنہ سے خالی نہیں۔ نیز حدیث میں اس کی ممانعت بھی آئی ہے۔(جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ نائب قاضی شریعت واستاذ مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرئے
📞9931014132
📧muftishabbirbgs@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے