اہل بہار سیاسی بازیگروں سے ہوشیار رہیں !



اہل بہار سیاسی بازیگروں سے ہوشیار رہیں !

اہل بہار سیاسی بازیگروں سے ہوشیار رہیں !


✍️: شکیل منصور القاسمی 

سال گزشتہ اپنی عددی برتری کے زعم میں ہندو انتہاء پسند برسر اقتدار بھارتی جنتا پارٹی نے ہندوستان  کے سیکولر دستور سے متصادم  شہریت کا متنازع سیاہ بل 9 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروالیا تھا   اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔
اس کے بعد  صدر جمہوریہ ہند  رام ناتھ کووند نے بھی اس متنازع شہریت بل پر دستخط کردیئے، ان  کے دستخط کے بعد یہ سیاہ اور ظالمانہ بل باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ۔ جبکہ مذہب کی بنیاد پہ شہریت دینا ہمارے ملک کے سیکولرآئین کی روح کے خلاف اور سراسر غیر آئینی وبد نیتی پر مبنی  اقدام تھا ۔ اس ظالمانہ و  شاطرانہ بل کی کانگریس، این سی پی، ایس پی، آر جے ڈی، بی ایس پی سمیت ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے ایوان میں مخالفت کی تھی ، لیکن نتیش کمار نے اس بل کی حمایت کر اسے قانونی شکل دینے میں اپنے آقا بی جے پی کو تقویت پہونچائی اور بھرپور حق وفاداری ادا کیا ، طاقت کے نشہ میں بد مست حکمراں اور اس کی حلیف جماعت نے اپوزیشن کی ایک نہ سنی ۔ بل پاس ہوجانے کے بعد  شمال مشرقی علاقوں آسام و میگھالیہ  میں  اس تعلق سے پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے،  دیکھتے دیکھتے یہ مظاہرہ  راجدھانی دہلی، پٹنہ، اتر پردیش دیوبند ، لکھنوء،  علی گڑھ،  کرناٹک،  کیرل، مہاراشٹر غرضیکہ ملک کے چپہ چپہ میں پہیل گیا ۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف عوامی غم وغصہ ملک گیر شکل اختیار کرچکا تھا، مذہب اور دھرم کی تفریق کے بغیر ہر محب وطن ہندستانی سڑکوں پہ آگیا تھا ۔
 نئی دہلی ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز بن گیا ، مسلم اکثریتی علاقہ اوکھلا اور جامعہ نگر میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے پر امن مظاہرین اور نہتھے طلبہ وطالبات پہ پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں کی طرف سے بہیمانہ تشدد کیا گیا ۔ رہائشی عمارتوں  پر براہ راست فائرنگ ہوئی ، پتھراؤ کیا گیا ، لائبریری اور مسجد کے توڑ پہوڑ کی ویڈیوز وائرل ہوئیں ۔ پولیس گردی میں سینکڑوں اقلیتی طلبہ اور معصوم  شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کو  کہنا پڑا  کہ متنازع قانون بنیادی طور پر امتیازی ہے ، انہوں نے حکومت ہند سے اس کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ؛ جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی حکومت کو اپنی جمہوری اقدار اور آئین کی پاسداری کا لحاظ کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید کی ،
یاد کیجئے ! ملک کے سیکولر ڈھانچہ کے تحفظ اور دستور وآئین کے بقاء کے لئے پورا ملک سڑکوں پہ امنڈ پڑا تھا ، ملک اور خصوصا بہار کا ہر ضلع بلکہ ہر شہر اس پر سراپا احتجاج بن گیا تھا اور احتجاجات تحریکی شکل اختیار کرچکی تھیں ۔
حکمراں اشرافیہ اور ان کے حلیفوں کے ناپاک عزائم ، جبر وظلم اور ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف شاہین باغ ماڈل انقلابی تحریک عروج پر تھی 
ایسے خطرناک اور پر آشوب وقت میں جمہوریہ ہند کے جمہوری اقدار پہ فاشسٹ عناصر کے قبضے اورملک کے جمہوری ڈھانچہ کے بخیہ ادھیڑ نے میں نتیش کمار نے برابری کا کردار ادا کیا تھا ۔
آج جبکہ بہار اسمبلی انتخاب کی آمد آمد ہے ، نومبر 2020  کے آخر میں اسمبلی کی مدت پوری ہورہی ہے ، انتخابات میں کام کرنے والے عملہ و افسران کی تربیت وٹریننگ ہنگامی پیمانے پہ جاری ہے ، رواں ماہ ستمبر کے آخر تک ممکن ہے انتخابی تاریخ کا اعلان بھی ہوجائے ! 
اب گنتی کے چند ماہ بعد بہار اسمبلی انتخاب2020 کے تحت ووٹنگ کا اعلان اور انتخابی عمل شروع ہونے والا ہے ، سیاسی بازیگر  نئے نئے چولوں اور دل فریب ترقیاتی  بولوں کے ساتھ سادہ لوح عوام کو لبھانے کے لئے  پہر سے میدان میں سر گرم عمل  ہوچکے  ہیں ،
یاد رکھئے  ! ووٹ صرف سیاسی عمل اور قومی فریضہ ہی نہیں ، بلکہ شرعی ذمہ داری بھی ہے ۔
ووٹ کی شرعی حیثیت خواہ شہادت و گواہی کی ہو یا وکالت وامانت کی ! بہرحال یہ ضمیر کی آواز اور ایک مقدس اور اہم ترین ذمہ داری وامانت ہے ، ملکی استحکام میں ووٹ کی اہمیت واثر انگیزی سے  ہرگز  انکار نہیں کیا جاسکتا  ۔جمہوری ملکوں میں ووٹ یعنی “عوامی حق رائے دہی “ ہی طاقت اور حکومت کا اصل سر چشمہ شمار ہوتا ہے ۔ ووٹ کے صحیح استعمال سے ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، اور جمہوریت کی مضبوطی پہ ملک کی مضبوطی منحصر ہے ۔ 
سیاسی بازیگروں کے دلفریب وعدوں اور ترقی وخوش حالی کے خوشنما نعروں کے جھانسے میں آکر قلب وضمیر کی آواز کو نہ کچلیں۔ 
چاہے آپ کسی خاص پارٹی یا جماعت کے “نظریاتی ووٹر”  ہوں یا کسی مخصوص پارٹی وفاداریوں اور وابستگیوں سے آزاد “شخصیاتی ووٹر “! 
آپ کو بہر حال علم اور عقل ودانش کا درست استعمال کرتے ہوئے بالغ نظری اور دور اندیشی کا ثبوت دینا ضروری ہے، جن دھوکہ بازوں نے فاسشٹ حکمرانوں کی حمایت کی ، انہیں سپورٹ کیا ، ملک کے جمہوری آئین واقدار کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں ان کے دست وبازو بنے رہے ، ایسے موقع پرستوں سے حساب چکانے کا یہ سنہرا موقع ہے ، تحریک شاہین باغ پہ جام شہادت نوش کرنے والے اور سلاخوں کے پیچھے روح فرسا آ لام و مصائب اور تعذیب وتکلیف برداشت کرنے والے وفادار سورمائوں کا ہم پر قرض ہے کہ ہم اس موقع پر ایسی پارٹیوں کا احتساب کریں ، انہیں سبق سکھائیں ، 
اس بار ایسی پارٹی اور  ایسے امیدوار کو اپنا نمائندہ منتخب کریں جو اپنی سابقہ کار کردگیوں کے آئینے میں آپ کے علاقہ کے فلاح و بہبود ، تعمیر وترقی ، مذہبی ہم آہنگی ،  خوش حالی وامن وسکون کے لئے سر توڑ عملی اقدامات کرسکے ۔ کسی بھی خارجی دبائو وپریشر میں آئے بغیر ، اپنے دل کی آواز پر ، ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر سچے اور اچھے کردار و نظریات کے حامل امیدوار کو چنیں !
یہ نہ بھولیں کہ اپنے ضمیر کی آواز کے برخلاف کسی کے کہنے یا سبز باغ دکھانے کے چکر میں آکر آپ نے کسی کو ووٹ دے دیا ، تو آپ  ووٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے “خیانت “کے مرتکب ہونگے ۔
*شکیل منصور القاسمی *
/بیگوسرائے  
18/9/2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے