ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی کا انتقال اردو صحافت کا عظیم خسارہ!!



ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی کا انتقال اردو صحافت کا عظیم خسارہ!!
 تحریر انوار الحق قاسمی نیپالی 
واٹس ایپ نمبر:9779811107682+
    انتہائی خلیق و متواضع، بڑوں سے بےپناہ محبت اور چھوٹوں پر شفقت کرنے والے، کبر ونخوت کے سایہ سے بہت دور ،غیروں کی ترقی کے لیے ہر دم کوشاں اور  اپنی ضروریات پر غیروں کی ضروریات مقدم رکھنے والے،  دارالعلوم/ دیوبند کا فیض یافتہ، قاضی مجاہد الاسلام- علیہ الرحمہ- کا  تربیت یافتہ، مولانا بدر الحسن صاحب قاسمی -اطال الله عمره-سابق ایڈیٹر "مجلہ الداعی" دارالعلوم/ دیوبند کے خوشہ چیں ،بڑے ہی نشیط اور چاق و چوبند ،متحرک وفعال،معروف و مقبول اخبار روزنامہ راشٹری سہارا کے سب ایڈیٹر ڈاکٹر عبدالقادر شمس صاحب قاسمی مورخہ 25/ اگست 2020ء بہ روز منگل جامعہ ہمدرد کے مجیدیہ ہاسپیٹل میں سانس کی تکلیف اور نمونیہ سے جنگ لڑتے ہوئے قضائے الہی سے انتقال کرگئے: انا للہ و اناالیہ راجعون۔
    مرحوم کے انتقال پر ملال کی جان کاہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی، ہر بڑی چھوٹی شخصیت  اور تنظیم کی طرف سے تعزیتی پیغام کا سلسلہ جاری ہوگیا اور تاہنوز جاری بھی ہے۔
     حضرت مولانا عبد القادر شمس صاحب قاسمی صوبہ بہار کے ضلع ارریا کے بستی ڈوبا میں 1972ء میں اپنی آنکھیں کھولی ہیں، مرحوم  فطرتا انتہائی ذہین وفطین  واقع ہوئے تھے، اپنی خداداد ذکاوت،پیہم جدوجہد اور محنت شاقہ  کے ذریعے اپنے ساتھیوں میں ممتاز اور نمایاں سمجھے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی عمر کے اٹھارہویں سال کے دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے عالم اسلام کی ممتاز دانش گاہ ازہر ہند دارالعلوم /دیوبند سے 1989ء میں نمایاں کامیابی کے ذریعے سندفضیلت حاصل کی۔
    حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب- نور اللہ مرقدہ- سے مرحوم کا گہرا تعلق رہا ہے اوران کے بلندترین درجات کے حصول کا سارا سہرا،وہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب- رحمه اللہ- ہی کے سر جاتا ہے۔
     حضرت قاضی صاحب عبقری عالم دین اور بے مثال قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ دور اندیش اوردوربیں  بھی تھے، آپ نے اپنی ذہانت اور خداداد فراست کے ذریعے یہ بھانپ لیا تھا کہ مستقبل قریب میں ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی سے بےپناہ قوم و ملت کے فوائد متعلق ہیں، ان کے ذریعے دین اسلام کو عروج حاصل ہوگا، اللہ ان سے دین اسلام کی سربلندی اور سماجی، صحافی ہر میدان میں خوب کام  لے گا اور ملت کو ان سے خوب فائدہ بھی  پہنچے گا؛ اس لئے حضرت  نے آپ کے ذمے آل انڈیا ملی کونسل کے ترجمان" ملی اتحاد "کی ادارت سونپ دی ،جس میں حضرت مرحوم بحیثیت سب ایڈیٹر مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمی -رحمہ اللہ -کی معاونت کرتے رہے اور آپ کی مقبولیت  "ملی اتحاد "ہی  کے ذریعے بسرعت  علمی و ادبی حلقوں میں ہوگئی ۔
    حضرت مرحوم فطرتازود نویس بھی واقع ہوئے تھے، بین الاقوامی مسائل، ملکی حالات ،اسلامیات وسیاسیات اور سوانح عمری پر بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں عمدہ مضامین لکھتے تھے ،ان کے مضامین میں وہ چاشنی تھی کہ ان کے مضامین کا ہر قاری قرات کی ابتدا کرنے کے بعد ایک عجیب طرح کا لطف محسوس کرتا جاتا اور بصد شوق اس وقت تک، جب تک مکمل مضمون پڑھ نہ لیتا،ٹھنڈی سانس نہیں لیتا تھا اور جب مضمون مکمل پر لیتا،تو ایک عجیب فرحت و خوشی محسوس کرتا۔
     مرحوم جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی جی  اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی، نیز باضابطہ صحافت کا کورس بھی کیا تھا۔
     جب مرحوم کی قلمی اور علمی  صلاحیت کا چرچا اور عمدہ نویسی کا غلغلہ ہندوستان کے کونےکونے میں ہوا،توروزنامہ راشٹری سہارا والے بحیثیت سب ایڈیٹر، انہیں رکھنے پر مجبور ہوگئے، چناں چہ اسی وقت سے اب تک یعنی تادمِ زیست "راشٹری سہارا" ہی میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سےمسلسل  18 برس صحافتی خدمات انجام دیے ہیں، نیز متنوع تاریخی ادبی ،ثقافتی، ملی ،سیاسی، سماجی، معاشی اور عبقری شخصیات پر محقق ومسلم مقالات  قلم بند بھی کیے ہیں۔
      مرحوم کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں،آپ کی جملہ تصنیفات میں سے ایک تصنیف جو اکابر علماء اور سیاسی عظیم شخصیات کی سوانح عمری پر مشتمل کتاب" جن سےروشن ہے کائنات" ہے جو عوام وخواص میں مقبول رہی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہے۔
     حضرت کی تحریری خاصیت ایک  یہ  تھی ،کہ آپ بین الاقوامی مسائل، ملکی حالات یا کسی عظیم شخصیت کی سوانح عمری پر قلم اٹھاتے تھے، تو آپ حقائق کی روشنی ہی میں کچھ لکھتے تھے وہی چیز لکھتے تھے ،جس کا واقعتا حقیقت سے بھی تعلق ہوتا تھا ،فرضی اور خیالی چیزوں کے لکھنے سے بہت دور تھے،اسی طرح  آپ کی تحریر مبالغہ سے بھی  بہت دور تھی ، آپ کی تحریروں میں عقیدت و محبت کا ادنیٰ بھی اثر نہیں  ہوتاتھا، آپ وہی لکھتے تھے جسے آپ دیکھتے تھےیا آپ کو اس کا قطعی علم ہوتا تھا ،یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریریں بلا تفریق ہر مسلک کے ماننے والوں اور اغیار میں بھی مقبول ومحبوب رہی ہیں۔
     ڈاکٹر صاحب بڑےخوش مزاج  اور ملنسار تھے، جب کوئی ان سے ملنے آتا تو ان سے کامل توجہ کے ساتھ شیریں گفتگو فرماتے اور ان کی اچھی رہنمائی بھی کرتےتھے، یہی وجہ تھی کہ ان سے ہر ملاقات کرنے والا شخص جاتے وقت پھر دوبارہ ملنے کے مواقع تلاش کرتا تھا ،اسی طرح حضرت بڑے فیاض بھی تھے، اورقوم و ملت کا درد اپنے سینے میں رکھتے تھے، جب کسی سے خود ملتے یا کوئی آپ سے ملنے آتا، ہر ایک کی آپ بھرپور ضیافت فرماتے تھے، اگر کبھی آپ کے پاس ضیافت کےلیے کچھ نہیں ہوتا ،تو آپ اپنے محبین سے بطور عاریت کچھ رقومات لیکر  بسروچشم ہر آنے والے مہمانوں کی مہمان داری کرتےتھے واقعی آپ کے سینے میں قوم  ملت کا درد بہت ہی زیادہ تھا؛ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے: کہ آپ 2018ء  کے تباہ کن اور ہلاکت خیز سیلاب میں بہتوں سیلاب سےمتاثرین افراد کی اپنے ٹرسٹ ادارہ دعوۃ القرآن کے ذریعےاشیاء خوردنی کے ساتھ ساتھ پہننے کے لئے لباس، رہنے کے لیے مکان وغیرہ تک فراہم کیاتھا، ان ہی  سماجی خدمات کی وجہ سے آپ کی مقبولیت علماء ودانشوران کے علاوہ عوام الناس میں بھی توقع سے زیادہ ہو گئی ۔
     آپ بڑے چست اور متحرک تھے ،ہر کام کو اس کے وقت میں بخوبی انجام دیتے تھے، ٹال مٹول  کی صفت آپ میں بالکل ہی  نہیں تھی ،یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا 2017ء میں دفتر سے واپسی آتے وقت راستے ہی میں اپنی ہی موٹرسائیکل کے ذریعے ایکسڈنٹ ہوگیا، جس سے آپ کابایاں پیر کافی متاثر ہوا تھا، نتیجتاً ایک طویل عرصہ تک آپ کو  گھر ہی بیٹھنا پڑا؛مگر اس موقع سے بھی آپ آفس کاساراکام  کماحقہ بڑے ہی تیز وتندہی کےساتھ انجام دیےہیں۔
     آپ کے پاس کل چار اولاد ہیں :ایک لڑکا ہے، جس کا نام :عمار جامی ہے،اسے آپ ندوۃ العلماء/ لکھنؤ سے عالمیت  کی تعلیم دلائی  ہے اور دارالعلوم/ دیوبند  سے دورہ حدیث شریف یعنی فضیلت کی تعلیم دلائی ہے، ابھی اسے ملک ہندوستان کی سب سے مقبول ومعروف  یونیورسٹی جواہر لال نہرو میں اعلیٰ تعلیم دلارہےتھے، اور تین لڑکیاں ہیں :نمبرایک کی حناشاہین ہے،جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے گریجویشن کرنے کے بعد الفلاح یونیورسٹی فرید آباد سے ڈپلومہ ان ایجوکیشن کر رہی ہے،نمبر دوم کی صبوحہ فاطمہ ہے، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ٹرکش اسٹیڈیز گریجویشن کی طالبہ ہے،اور نمبر سوم کی عظمی پروین ہے، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بارہویں کی طالبہ ہے، الغرض ان کی ساری اولادیں اپنے  والد محترم کی شفقت پدری اور بے مثال سرپرستی سے ایسے وقت میں محروم ہوگئیں، کہ ابھی سبھوں کی تعلیم جاری ہی تھی، اللہ تبارک و تعالی غیب  سے ان کی تعلیم کا نظم و ضبط فرمائے آمین۔
      حضرت کے انتقال پر صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پریس کلب  آف انڈیا کے موجودہ صدر سینئر صحافی آنند کےسہائے نے بڑے ہی درد بھرے لہجے میں کہا :کہ ان کی رحلت اردو صحافت کا بہت بڑا خسارہ ہے، اور پریس کلب آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری اننت بگیٹکر نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا: کہ مرحوم بڑے ہی ایمان دار اور مخلص انسان تھے ان کا وصال ہماری برادری کا بہت بڑا نقصان ہے، اور ہندوستان کے مشہور قلم کار، سینئر صحافی محترم جناب عابد انور صاحب-حفظہ اللہ -نے کہا: کہ ڈاکٹر عبدالقادر  صاحب قاسمی میں دو نمایاں اور قابل ذکر صفات تھیں : نمبر ایک یہ کہ ڈاکٹر صاحب دو حریفوں کے درمیان بیک وقت بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ،اس طرح کہ  وہ دو متضاد شخصیتوں کو جمع کردیتے تھے، نمبر دوم یہ کہ چھوٹوں کو اپنی محنت کے ذریعے آگے بڑھنے کا موقع دیتے تھے اور ان کی کامیابیوں کو اپنی کامیابیاں تصور کرتے تھے،مزید کہا :کہ  ان کے انتقال سے ملت اسلامیہ کاعموما اور اردو صحافت کا خصوصا ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
     مرحوم میں ایک دو نہیں؛ بل کہ کئی  خصوصیات تھیں،  جن کی بنا پر دنیا انہیں صدیوں یاد کرے گی اور ان کے کارناموں پر فخر بھی کرے گی۔
   اخیر میں ناچیز دعا گو ہے کہ خدائے لم یزل مرحوم کی قبر کو اپنے انوار و برکات سے معمور فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے ان کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے،نیزملت  اسلامیہ اور اردو صحافت کو ان کا نعم البدل خادم عطا فرمائیں آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے