ھدیہ محرم الحرام : قسط ھفتم



ھدیہ محرم الحرام : قسط ھفتم



قسط ھفتم
بقلم: محمد ساجد سدھارتھ نگری
جامعہ فیضِ ھدایت رام پور یوپی
 Mob. 9286195398

حضرت معاویہ اور شرف صحابیت

     حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت کا واقعہ چونکہ خلافت یزید کے زمانے میں رونما ہو ا اور اس نے قاتلین کے ساتھ سختی کا برتاؤ نہ کرکے گویا کہ اس پر اپنی رضامندی کی مہر ثبت کر دی ؛ اس لیے جب جب حضرت حسیںن کی شھادت کا تذکرہ آتا ہے ، کچھ بد باطن لوگ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھتے ہیں وہ اس وجہ سے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کے والد ہیں اور آپ ہی نے حضرتِ مغیرہ ابنِ شعبہ رضی اللہ عنہ کی تحریک پر یا ازخود یزید کو ولی عہد نامزد کیا تھا؛ اس لیے آپ اور حضرتِ مغیرہ ابنِ شعبہ کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی شان میں گستاخیاں کرکے محبین صحابہ کی دل آزاری کرتے ہیں۔ حالاں کہ حضرتِ معاویہ اور مغیرہ ابنِ شعبہ رضی اللہ عنھما دونوں ہی جلیل القدر صحابی ہیں اور شرف صحابیت کوئی معمولی چیز نہیں ہے ، بلکہ یہ شرف جسے حاصل ہو گیا وہ ہمیشہ کےلئے محترم ہوگیا۔
مل گئی آزاد جن کو صحبت ختم رسل
ہے فریضہ میرا ان کو معتبر کہتا رہوں
 کیونکہ یہ کائنات کے وہ خوش نصیب افراد ہیں جنھیں براہ راست نبوت سے اکتساب فیض موقع ، رخ انور کی زیارت کا شرف اور قدم بوسی کی سعادت میسر ہوئی۔
قدم بوسی کی دولت مل گئی تھی چند ذروں کو
ابھی تک وہ چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں ہو کر
  اللہ رب العزت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی رضامندی کا پروانہ عطا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "رضی اللہ عنھم ورضو عنہ" اور انھیں دائمی کا میابی کی بشارت دیتے ہوئے کہا: "وکلا وعداللہ الحسنی" نیز ان کے تقویٰ و طہارت پر مہر فوز و فلاح کو ثبت کر تے ہوئے یو ں خوش خبری سنائی: "الزمھم کلمہ التقویٰ" اور "اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوی، لھم مغفرہ واجر عظیم"۔ صحابہ کرام کی فضیلت کے لئے بس اِتنا کا فی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے آخری اور محبوب پیغمبر کی رفاقت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم ومن اذاھم فقد اذانی ومن اذانی فقد آذی اللہ ومن آ ذی اللہ یوشک ان یاخذہ۔ (مواردالظمان الی زواید ابن حبان حدیث نمبر 2284 قال حسین سلیم اسد الدارانی اسنادہ حسن) ترجمہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے تم ڈرو، انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ مت بناؤ ، جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذا پہنچا ئی اس نے مجھے ایذا پہنچا ئی اور جس نے مجھے ایذا پہنچا ئی اس نے گویا اللہ کو ایذا پہنچائی اور جس نے اللہ کو ایذا پہنچائی تو عنقریب اللہ اسے پکڑے گا۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: "لا تسبوا اصحابی فلو ان احدکم لو انفق مثل احد ذھبا مابلغ مد احدھم ولا نصیفہ(بخاری شریف) ترجمہ: میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے، تو ان کے ایک مد بلکہ آ دھے مد کو بھی نھیں پہنچ سکتا۔ ایک جگہ فرمایا: "اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم ۔ ترجمہ: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کھتے ہیں تو کہو تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: لا تسبو ا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام احدھم ساعة خیرکم من عمل احدھم عمرہ۔ (سنن ابن ماجہ) ترجمہ: محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا مت کہو کیونکہ ان میں سے کسی کا لمحہ بھر عبادت میں مصروف ہونا تمہاری عمر بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہے۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر 4771)  

حضرتِ مغیرہ ابنِ شعبہ کا مقام صحابیت


حضرتِ مغیرہ ابنِ شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان خوش نصیب صحابہ کرام میں سے ہیں جنھوں نے صلح حدیبیہ 6ھ کے موقع پر بیعت رضوان میں شرکت کی ، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خصوصی بشارت دی اورجب 9ھ میں حضرت مغیرہؓ کے شھر  طائف والے مسلمان ہو گئے تو ان کے مخصوص بت خانے لات کو توڑنے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرتِ ابو سفیان اور آپ کا انتخاب فرمایا تھا۔ (الاصابہ ج 6 ص 132) آپ غزوہ عسرت یعنی غزوہ تبوک کے شرکاء میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی عنایت کا اعلان فرمایا ہے۔ (سورہ توبہ) آپ کی مرویات سو سے زیادہ ہیں، موزوں پر مسح کی روایت جو بخاری،مسلم، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ میں موجود ہے آپ ہی سے مروی ہے۔(سیر اعلام النبلا ج3 ص22 ) دور صدیقی اور فاروقی میں بھی آپ کو نمایاں مقام حاصل رہا ۔ بحرین،کوفہ اور بصرہ کے گورنر رہے۔ بصرہ کی گورنری کے زمانے میں آپ پر الزام لگا۔ حضرتِ عمرؓ نے معزول کر کے شھادت طلب کی ۔ شھادت نا کام ہو ئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی کے مارے نعرہ تکبیر بلند کی۔ (اعلام النبلا ج3 ص28) اہل کوفہ کی خصلت کی وجہ سے وہاں کا ہر گورنر ناکام ہوجاتا تھا جس کی وجہ سے حضرت عمر فاروق کو بڑی تشویش تھی۔ آپ نے بڑے غور وخوض کے بعد حضرتِ مغیرہ رضی اللہ عنہ کا ہی وہاں کے لیے انتخاب فرمایا۔ ان تمام فضائل اور خصوصیات کے ہوتے ہوئے محض ان تاریخی روایات کی بنیاد پر جو انتہائی کمزور اور لچر ہیں اور اگر سندا کچھ مستحکم بھی ہیں تو درایتا نا قابل اعتماد ہیں،' حضرتِ مغیرہ ابنِ شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کسی بھی صحابی کو ھدف ملامت بنانا دشمنان صحابہ کے مشن کو مضبوط اور غضب خداوندی کو دعوت دینا ہے۔

حضرتِ معاویہ کا مقام صحابیت


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں۔ کتابت وحی الٰہی کی عظیم اور نازک ترین ذمہ داری جن خوش نصیب صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئی تھی، آپ ان میں سر فہرست ہیں۔آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لمبے زمانے تک صحبت اٹھا کر استفادہ کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برادرِ نسبتی بھی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنی قیمتی دعاؤں سے بارہا نوازا ہے، چنانچہ ایک موقعہ پر آپ نے حضرتِ معاویہ کو دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہ۔(ترمذی شریف) اے اللہ معاویہ کو ھدایت دینے والا،ھدایت یافتہ اور اس کے ذریعے لوگوں کو ھدایت پانے والا بنا۔حدیث کی سند معتبر ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ یقول اللھم علم معاویة الکتاب والحساب وقہ العذاب۔ (مواردالظمان الی زواید ابن حبان) ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے اللہ معاویہ کو کتاب یعنی قرآن کریم اور حساب کا علم عطا فرما اور انھیں جھنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اس طرح کی اور بھی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ حضرتِ مسلمہ بن مخلد سے مروی ہے: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لمعاویة اللھم علمہ الکتاب و الحساب ومکن لہ فی البلاد۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضہ کے متعلق ارشاد فرمایا اے اللہ انھیں کتاب اللہ اور حساب کا علم عطا فرما اور شھرو ں میں قوت عطا کر۔ یہ روایت بھی معتبر ہے۔ حضرت وحشی بن حرب فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ معاویہ کے پیٹ کو علم اور حلم سے بھر دے۔ (الشریعہ للاجری) ان روایات کی موجودگی میں حضرت معاویہ کی شان میں گستاخی بڑی جرات کی بات ہے، اس کا مرتکب وہی شخص ہو سکتا ہے جو خوف خدا وندی سے عاری،  محمد اور اصحاب محمد کا کھلا دشمن ہو،ایسے لوگوں پر خدا کی لعنت ہو ۔ روایات کی تحقیق اور مزید تفصیلات کے لیے ماہ محرم الحرام کے فضائل و احکام مولفہ: مفتی عرفان پاکستان کا مطالعہ کریں۔ 

راہ اعتدال


یزید کی ولی عہد ی کے سلسلے میں تین نظریہ پایے جاتے ہیں ایک نقطہ نظر تو ان لوگوں کا ہے جو ولی عہد ی کو بنیاد بنا کر حضرتِ امیر معاویہ ودیگر صحابہ پر لعن وطعن کرتے ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر ان لوگوں کا ہے جو یزید کو معصوم اور متقی پرہیز گار اور صحابی کا درجہ دے کر حضرت حسین اور آپ کے ہمنواؤں کو حکمرانی کا حریص اور جاہ ومال کا خوگر سمجھتے ہیں۔ جنگ کربلا کو حق وباطل کی معرکہ آرا ئی نھیں بلکہ حصول سلطنت کے لیے لڑی گئی ایک جنگ سمجھتے ہیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ دونوں نقطہ نظر افراط و تفریط پر مبنی ہیں ۔ تیسرا موقف ان حضرات کا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ حضرتِ معاویہ کا یزید کو خلیفہ نامزد کرنا محض محبت پدری کی وجہ سے نہ تھا بلکہ آپ کے زمانے میں چونکہ یزید کا معصیت میں مبتلا ہونا ظاہر نہ تھا اور اس وقت دور صدیقی وفاروقی سے حالات مختلف تھے،  اس لیے  خلیفہ کی نام زدگی امت کی شیرازہ بندی کے لیے ازحد ضروری تھی اور بنو امیہ کے مزاج سے واقفیت کی وجہ سے حضرت معاویہؓ نے یزید کو ہی اس منصب کے لیے بھتر سمجھا نیز یزید ایساشخص تھاجس میں حکمرانی کے تمام تراوصاف بھی پائے جاتے تھے اس لیے آپ نے یزید کو خلیفہ نامزد کردیا اور بعض صحابہ کا اختلاف کرنا محض اس لیے تھا کہ یزید کے مقابلے میں اس منصب کے اہل اور بھی لوگ موجود تھے، نیز خلافت میں اجراء وراثت کا اندیشہ تھا، یہی نقطہ نظر اعتدال پر مبنی اور حق کے قریب ہے۔ گرچہ پوری دیانتداری کے باوجود بھی بعد میں چل کر یہ ثابت ہوگیا کہ ولی عہد کی نامزدگی میں حضرتِ معاویہؓ سے اجتہادی خطاء ہوئی اور وہی خطا حضرت حسین کے خروج اور شھادت کا سبب بنی ؛ لیکن اس کو بنیاد بنا کر یزید کو تو قصوروار ہم کہ سکتےہیں  مگر حضرت معاویہؓ اور دوسرے صحابہ کرام کو ہرگز نہیں ۔  کیونکہ غیب کا علم تو بھر حال اللہ ہی کو ہے۔ (حضرتِ معاویہ اور تاریخی حقائق)

یزید اسلاف کی نگاہ میں


حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: لا ینبغی ان یروی عنہ یعنی یزید سے روایت مناسب نہیں۔ (میزان الاعتدال  ج 4ص440 ) علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ھیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے یزید سے روایت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: لا ولا کرامة وليس هو الذي فعل بأهل المدينة ما فعل. (مجموع الفتاوی لابن تيميه ج3 ص223) ترجمہ: نہیں اس کی کوئی وقعت نہیں، کیا یہ وہی شخص نہیں جس نے اہل مدینہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ولم يقع له في المسند رواية وانما له مجرد ذكر. (تعجيل المنفعة ج 2ص 373) ترجمه: مسند احمد میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں صرف اس کا ذکر ہے۔  اور تہذیب التہذیب ج 7 میں ہے: وليست له رواية تعتمد ترجمہ: اور یزید کی کوئی بھی روایت قابل اعتماد نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یزید ان بارہ خلفاء کے درمیان سے ساقط ھے ؛ اس لئے کہ عرصہ تک اس کی سلطنت مضبوط نہ ہو ئی اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بری سیرت کا مالک تھا۔ (قر العينين ص241) حضرت مولا نامحمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جب حضرت معاویہؓ نے یزید پلید کو ولی عہد مقرر کیا تھا تو اس کا فسق ظاہر نہ تھا اگر کچھ کیا ہوگا تو در پردہ جس کی خبر حضرت معاویہؓ کو نہ تھی۔ (مکتوبات شیخ الاسلام ج 1 ص 272 ) حضرت مولانا رشید احمد گنگو ہی فرماتے ہیں: لہذا یزید کو کافر کہنے سے احتیاط کی جائے مگر وہ فاسق بے شک تھا۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص49) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یزید فاسق تھا اور فاسق کی ولایت مختلف فیہ ہے۔ (امدادی الفتاوی ج4ص 564 ) حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یزید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد کھلم کھلا فسق و فجور میں مبتلا ہو گیا تھا۔ (مکتوبات شیخ الاسلام ج 1ص266 )بحوالہ شھید کربلا اور ماہ محرم۔ از گھمن مدظلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ساجد سدھا رتھ نگری
سابق رکن مدنی دارالمطا لعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے