ہندوستان کے موجودہ حالات میں سیرت نبوی سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟

ہندوستان کے موجودہ حالات میں سیرت نبوی سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟


محمدانورداؤدی،قاسمی

 ایڈیٹر"روشنی "اعظم گڈھ 

8853777798

 الحمدللہ رب العلمین  والصلوة والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین و علی آلہ و اصحابہ ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین ۔امابعد


محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

اسی میں ہواگرخامی تو سب کچھ نامکمل ہے-


قارئین کرام ! خاتم النبیّن محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا سےپردہ فرمائے ہوئے چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے،اس دوران نت نئ ایجادات وانکشافات نے ماحول و حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے ، حیرت انگیز انقلابات وتغیرات نے دنیا کی ہر قوم کو زمین کےہرخطےمیں زندگی کے ہر شعبے میں متاثر کیا ہے ان کےافکارونظریات اور طریقہ زندگی میں ٹھوس تبدیلیاں   آچکی ہیں 

 لیکن آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعے اسلامی افکارونظریات کی جوتشریح کی گئ تھی امت مسلمہ کو جو  دستورحیات دیاگیاتھا وہ آج بھی بلکہ رہتی دنیا تک رہنماخطوط کی حیثیت رکھتاہے پھر بھی ہندوستانی  مسلمان تیزی سے  انحطاط وتنزلی کاشکارکیوں ہیں ؟ایسے مشکل ترین حالات سے نکلنےکےلئے سیرت طیبہ کومشعل راہ کیوں نہیں بنایاجاتا ؟ انھیں  باتوں کو لے کر سوشل میڈیا کی دنیا کا مشہور واٹس ایپ گروپ "پاسبان علم وادب نے ہندوستان کے موجودہ حالات میں "سیرت نبوی سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟  کےعنوان سے ایک تحریری  مسابقے کا انعقاد کیا تھاجس میں اس تحریرکوپپلی پوزیشن حاصل ہوئ تھی بغرض  افادہ عام کی جارہی ہے اس عنوان سے میری گفتگو تین حصوں میں منقسم ہے

(1)سیرت رسول کی اطاعت  واہمیت  

(2) ہندوستان کےموجودہ حالات اورمسلمان

(3)سیرت رسول کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کوکیاکرناچاہئے؟

سیرت رسول کی اطاعت و اہمیت  

قارئین باوقار!

خیرالکتب ،خاتم الکتب  قرآن نے افکارونظریات اورمذاہب وادیان کی دنیامیں جس دین کوخیرالادیان کہا،جس کےطریقہ زندگی کو سندقبولیت دی وہ مذہب اسلام ہے ارشادہےان الدين عندالله الاسلام (آل عمران 19)

"بےشک اللہ کےنزدیک (مقبول )دین تواسلام ہی ہے"

بلکہ اسلام کےعلاوہ دیگرادیان میں فلاح ونجاح کی تلاش کوناقابل قبول اور باعث خسارہ کہا

ارشادہے

ومن يبتغ غيرالاسلام دينافلن يقبل منه وهوفى الآخرة من الخسرين۔  (آل عمران 85)

"اورجواسلام کےسواکسی اوردین کاطالب ہوتواس سےوہ ہرگزقبول نہ کیاجائےگااوروہ آخرت میں بھی نقصان اٹھانےوالوں میں سےہوگا "

قرآن ایک تحریری دستورزندگی، 

ضابطہ حیات اوررہنماکتاب ہے  لیکن قرآنی اصول کومنشاء الہی  کےمطابق سمجھنااورپھراس پر عمل کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح وتوضیح کےبغیر ممکن نہیں بلکہ رسول اللہ کی بعثت کاعظیم مقصد ہی یہی تھاکہ آپ اپنے قول وفعل کےذریعے امت کےسامنے  منشاء الہی کےمطابق قرآن کی تشریح فرمائیں اسی کو حدیث اورسنت سےتعبیرکیاجاتاہے

اسےاس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن متن ہے جبکہ حدیث اس کی شرح 

اسی لئے 

قرآن میں درجنوں مقامات پراطاعت رسول کاحکم دے کر سنت رسول ،حدیث رسول اوراسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی قانونی اہمیت وافادیت پر توجہ دلائ گئ ہے 

کہیں اتباع نبوی کو اللہ سے محبت کامعیار قراردیاگیا 

ارشاد ہے

قل ان كنتم تحبون الله فاتبعونى يحببكم الله

(آل عمران 31)


"آپ کہہ دیجئے:اگرتم اللہ سے محبت رکھتےہو تومیری پیروی کرواللہ بھی تم سے محبت کریں گے"

کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو مسلمانوں کےلئے بہترین نمونہ قراردیاگیا

ارشادہے

 لقد كان لكم فى رسول الله اسوة حسنة 

(احزاب 21 )

"(اےمسلمانو!)تمہارےلئےاللہ کےپیغمبرکی ذات میں ان لوگوں کےلئے بہترین نمونہ ہے" ۔

کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کواطاعت الہی سے تعبیرکردیاگیا

ارشاد ہے

 من يطع الرسول فقد اطاع الله

(نساء 80)


 "جورسول کی فرمانبرداری کرےاس نے اللہ کی فرمانبرداری کی "


  اسی طرح قرآن میں بےشمار  مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ کےاحکام کی اطاعت کےساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاحکام کی اطاعت کا بھی حکم دیاگیاہے 

چنانچہ

آل عمران کی آیت   132،32

سورہ نساء            59

سورہ مائدہ           92

سورہ انفال      46،20،1 

سورہ نور        56،54

سورہ محمد           33

سورہ مجادلہ         13

سورہ تغابن           12

وغیرہ میں بہت صاف حکم ربانی ہے 

ان سب جگہوں میں ایک ہی مطالبہ ہےکہ فرمان الہی کی تعمیل کرو اورارشادات نبوی کی اطاعت کرو 

اس اطاعت پر دونوں جہان کی کامیابی اورسرخروئ کاوعدہ ہے 

اورتعلیمات نبوی کےخلاف جانے والوں کوسزاکی دھمکی بھی  ہے 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاصاف اعلان ہے کہ قرآن اور میری سنت کومضبوطی سے  تھامےرکھو یعنی یہ دونوں زندگی کےہرموڑ پر رہنمائ کریں گے بلکہ انھیں میں مسلمانوں کی فوزوفلاح پوشیدہ ہے 

ارشاد ہے


تركتُ فيكم اَمرين لن تضلوا ماتمسكتم بهماكتاب الله وسنة نبيه  (مؤطاامام مالک،کتاب القدر1594)

"میں نےتمہارےدرمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں تم جب تک انھیں مضبوطی سےتھامے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے وہ کتاب اللہ اوراس کےنبی کی سنت ہیں " ہندوستان کے موجودہ حالات اورمسلمان آزادی وطن کےبعد ملک میں دو نظریہ سامنےآیاایک کےمطابق  ملک ہندوراشٹربنے جبکہ  دوسری سوچ  سیکولر اورجمہوری ملک کےحق میں تھی ، مسلمان نہ صرف  ثانی الذکرکی حمایت میں تھے بلکہ سیکولراورجمہوری ملک بنوانے میں پیش پیش رہے جسے فریق مخالف بھلانہ سکا مسلمانوں کےابتلاء وآزمائش کادورتوآزادی کےمعابعد ہی شروع ہوچکاتھا مگر آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی نے متعصبین ومتشددین کوپنپنےکاموقع نہ دیا مسلمان بھی خودکوتسلی دےلیتےکہ فسادات وبلاسٹ چندسرپھروں کی کارستانی ہے جو ملک کے امن وامان کوخراب کرناچاہتےہیں  لیکن حالیہ چند برسوں میں ملک کی جوتصویرابھرکرسامنے آئ ہے  اس نے دنیاکوورطہ حیرت میں ڈال دیاہے کہ شرپسندوں کی پیٹھ پر کن کاہاتھ ہے ؟

 مجرموں اوربلوائیوں کوشہ کون دےرہاہے ؟ بابری مسجد کی شہادت کےبعد ایسے  چہرےبےنقاب ہوچکےہیں سیکڑوں سال اس ملک میں حکمرانی کرنےوالےمسلمانوں کوگھیرنےکی سازشیں نئ نہیں  ہیں 

غاصب سامراجی تسلط کےخلاف آزادئ وطن کی خاطر بھاری قیمت چکا نے والی مسلم قوم کی قربانی ،وفاداری اورروشن تاریخ پرسیاہیاں پوتی جارہی ہیں ملک کی اقلیت بلکہ دوسری بڑی اکثریت کو دیوارسے لگانے کی ایڑی چوٹی کازورصرف کیاجارہاہے مسلمانوں کو مسلسل ملک سے نکالنے کی دھمکیاں مل رہی  ہیں فسطائیت اورفرقہ پرستی کازہرپورےملک کولپیٹ میں لےچکاہے  ،نفرت وتعصب کی چنگاری  شعلہ بن  چکی ہے،لوجہاد، گهرواپسی، گئو ہتیا،وندےماترم، بهارت ماتااورحب الوطنی کی نئ نئ تشریحات منظرعام پرآچکی ہیں، آئین پرنظرثانی،طلاق ثلاثہ پرنئے قانون کی منظوری اوریکساں سول کوڈ کی تیاری  پھربابری مسجد کامتنازع فیصلہ اوراین آرسی اورسی اے اے جیسےکالےقانون سے مسلمانوں کوسب سے الگ تھلگ کرکے دوسرےدرجےکاشہری بنانے کی متعصبانہ پالیسی طشت ازبام ہوچکی ہے تعلیمی ،معاشرتی ،تجارتی ،

سیاسی،اور قانونی  سطح پر  ہرطرح سے مسلمانوں کو ہراساں کرکے ان کی آوازدبانے کا کھیل سرکاری سطح پرجاری ہے

ان کی خواہش ہےکہ ملک کی تمام اقلیتیں خاص طور سے مسلمان  انکے ساتھ ضم ہوجائیں یاپهرملک چهوڑدیں 

بہرحال ملک ہی کیا پوری دینا میں مسلمانوں کےحالات ناگفتہ بہ ہیں لیکن  مسلمانوں کا مستقبل  ہندوستان میں کیساہوگا ؟

یہ خود ہم پرمنحصرہے ہمارے پاس ہرزمانے کےہرچیلنجزکامقابلہ کرنے کاآیئڈیا اورتھیوری ہے اور وہ ہے قرآن کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات ،

آپ کااسوہ ،آپ کی سیرت جن پر عمل پیراہوکرہم نہ صرف  محفوظ ومامون ہوسکتےہیں بلکہ ملک کی تقدیربھی بدلی جاسکتی ہے 

چمن کے مالی اگربنالیں، چمن کےلائق شعاراب بھی

چمن میں آئےگی پھرپلٹ کرچمن کی روٹھی بہاراب بھی 


سیرت رسول کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیاکرناچاہئے؟


ابھی ہندوستان میں مسلمانوں کےحالات کاتذکرہ گزرا یہ صحیح ہے کہ اس وقت مسلمان خود اپنے وطن میں مختلف قسم کے مصائب و مشکلات ،آفات وبلیات 

اورظلم وتشدد کاشکارہیں،جان ومال ،عزت وآبرو،دین وایمان ہرچیزداؤپرلگی ہوئ ہے،مخالفین نےہر طرف سے گھیرا بندی کرلی ہے  

بدقسمتی سے اس وقت فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے والی قوتوں کاغلبہ بھی ہے

لیکن  خداکاشکر ہے کہ آج بھی ہندوستان میں انھیں قبول نہیں کیاگیاہےسیکولرطبقےکی طرف سے برابر وہ ہدف تنقید ہیں 

 مسلمانوں کوبھی گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ترمذی رقم 2511 کی روایت کےمطابق " اللہ نے تمہارےمقدرمیں جتنانفع و نقصان لکھ دیا ہے ساری دنیاکےلوگ مل کراس سے زیادہ تم کونفع یا نقصان پہنچاناچاہیں تو نہیں پہنچاسکتے"

اس لئے 

  

حالات کتنے ہی مخالف اور خوفناک ہوجائیں بحیثیت مسلمان ہمیں امیداورصبرکادامن نہیں چھوڑناچاہئے، حوصلےکمزوراورہمتیں  پست نہیں ہونی چاہئے


ایک خداکی عبادت ،ایک اللہ کی وحدانیت اوراس عقیدےپرقائم رہنےوالوں کوہردورمیں مخالفت کاسامناتھااوررہےگا

خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کی مکی زندگی کےحالات دیکھئےوہ توبڑےسخت تھے کل اور آج میں کوئ مقابلہ نہیں  ہاں  ہندوسان میں مسلمانوں کےحالات مکی زندگی کےاحوال میں ایک گونہ مماثلت ضرورہے  

 کیامکہ میں مسلمان اقلیت میں نہیں تھے؟

کیا انھیں مشرکین مکہ کی مخالفت کاسامنانہیں تھا؟

کیا مسلمان مال واسباب میں مشرکین کے مقابلہ میں کم تر نہیں تھے ؟

کیاکمزورمسلمانوں کی لنچنگ نہیں ہوئ؟

 کیا مسلمانوں کا معاشرتی وتجارتی بائیکاٹ نہیں کیاگیا؟

کیارسول اللہ کےقتل کی پلاننگ نہیں ہوئ ؟

کیا انھیں اورانکےجاں نثاروں کےلئے سرزمین مکہ تنگ نہیں کی گئ  ؟ یہاں تک ہجرت کرنی پڑی  کیایہی سب کچھ ہندوستان میں نہیں ہے ؟

جی بالکل ہے لیکن یہاں اصل ٹرنگ پوائنٹ یہ ہے کہ اس  دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کی  حکمت عملی کیا تھی؟

کس طرح انھوں نے ان کےظلم وجبرکامقابلہ کیا؟

ان کی نفرت وحقارت اورشقاوت وعداوت کو کیسے محبت وعظمت   اورسخاوت والفت سے بدل دیا؟  

یادرکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین اورخاتم الشرائع ہیں تمام خطہ ہائے عالم اورتمام شعبہ ہائے زندگی کےلئے مکمل اسوہ ہیں آپ کی حیات طیبہ تاقیامت مسلمانوں کےلئے 

مشعل راہ ہے سرسےپاؤں تک گودسےگور ہرجگہ ہرشعبہ آپ کاطریقہ واجب الاطاعت اور کامیابی کی ضمانت ہے سب سے بڑی بات یہ کی آپ کی سنت ،سیرت اوراسوہ اللہ کی رضاوخوشنودی کی شاہ کلیدہے،مصائب وحوادث کےلئے نسخہ اکسیرہے

تیزوتندآندھیوں کے آگے سدسکندری ،فتنوں کےدورمیں چراغ راہ اورخطرناک راہوں کارفیق سفرہے اتباع نبوی کو اپنی زندگی کامقصدبنانےوالوں کےدشمنوں کےقلوب میں اللہ خوف ڈالتا ہے،فاسق وفاجرکےدلوں میں رعب بیٹھاتا ہے،فتنوں کےدورمیں دست گیری فرماتاہے 

جب جب آپ کی تعلیمات کوحرزجاں بنایا گیا

اپنی نشست وبرخاست کو سنت کےمطابق ڈھالاگیا

توتاریخ شاہدہے سیادت وقیادت باندی بن کر کھڑی ملی، مال ودولت قدموں میں ذلیل ہوکرآئے بات طویل ہوگئ آئیے آخری بات لکھ کرموضوع بندکیاجائے مختلف سیرت  نگاروں اورمؤرخوں کی تحریرکوجب اختصارکاجامہ پہناتےہیں تو مکی دور میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچارایجنڈا سامنے آتاہے 

1۔۔۔۔آپ کی تعلیم و  تربیت اس اندازکی تھی کہ  مسلمان  سب سے پہلے اللہ پر مکمل اعتماد کرے جو کچھ ہورہاہےیاہونےوالاہے

ہر حالت میں اللہ کی طاقت وقوت پربھروسہ رکھے صبروشکر زندگی کاحصہ ہو رجوع الی  اللہ اورخشیت الہی کااستحضارہو 

🔹آج کےحالات میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی حالت کا جائزہ ضرورلیناچاہئے کہ یہ باتیں ہم میں کتنی موجود ہیں 


2۔۔دوسراایجنڈاتھا وحدت  یعنی جو بھی دائرہ اسلام میں آگیاوہ اپنابھائ ہوگیا متحدہ فکر اورکاز کےلئے تمام مسلمانوں کااتحادضروری ہے

مکی مسلمان لاکھ کمزورحالت میں تھے لیکن اسلام کےنام پر آپس میں ایسےمتحدتھے کہ مخالفین منتشرنہ کرسکے 


🔹آج یہ سبق ہم ہندوستانی مسلمان بھول چکے ہیں بغاوت ومنافقت اپنوں کی اتنی کہ ہنودونصاری شرماجائیں ،اختلاف ہماری پہچان بن چکا ہے ملی وقومی مفادمیں بھی ہم ایک پیلٹ فارم پر دیر تک نہیں رہ پاتے ایک جمہوری ملک کی منتخب حکومت کی تقدیرعوام کی انگلیوں میں بند ہوتی ہے مگر الیکشن کےموقع پر مخالفین ہمیں منتشرکرکے جو نقصان پہنچاتےہیں وہ کھلی آنکھوں دیکھاجاسکتاہے 

تیسراایجنڈاتھا  " دعوت"  یہ بہت وسیع ایجنڈاہے یعنی اسلام کا پیغام عام کرنا مکی دور میں جوحلقہ بگوش اسلام ہوتا وہ دین کاداعی اوراسلام کاسچاسپاہی بن جاتا، اسکی ہرادااسلام کاترجمان ہوتی  عشق رسول اوراتباع رسول اسکی انتہاہوتی آج کےدورمیں اس کی بلکہ اسی کی ضرورت ہے 

اس کے اندر تعلیم ،فراست،سیاست ،

اخلاقیات دفاع ،سچائ اورامانت سبھی کچھ داخل ہیں 

اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ 

اسلام کی دعوت اوراس کےآفاقی پیغام کو عام کرنے کےلئے کئ محاذ پرکام کریں

جیسے  تعلیم کےذریعے اخلاق وکردارکےذریعے برقی وپرنٹ میڈیاکےذریعے  اسلام کی صحیح ترجمانی کی جاسکتی ہے 

آج اسلام ، اسلامی شعائراورمسلمانوں کامذاق اڑایاجارہاہے مدارس ومساجد 

اورعلماء کوٹرول کیاجارہاہے 

ان کاتعلق تشددسےجوڑکر نفرت پیدا کی جارہی ہے 

ہندوستان میں مسلم بادشاہوں کی تواریخ کو توڑمروڑ کرپیش  کرکے برادران وطن کوبھڑکایاجارہاہے  

بلکہ اب تو خود مسلمان ہی 

اپنے افعال وکردارسے اسلام کی رسوائی کا سبب بن رہاہے 

اس لئے ضرورت ہے 

کہ اصلاح معاشرہ کےذریعہ مسلمانوں کوبھی سچامسلمان بنایاجائے اور غیروں کےہرطرح کےشکوک وشبہات کا ہرمحاذ سے سنجیدہ ہوکرجواب دیاجائے

چوتھاایجنڈاتھا "خدمت"

انسانی بنیادپر بلاتفریق مذہب غیروں کےدکھ درد میں شرکت 

وطنی اورانسانی بنیاد پر مظلوموں کےساتھ کھڑاہونا 

ان کےساتھ مل کر امن وانصاف کی فضاہموارکرنا 

الحمدللہ مسلمان بہت حد تک اس عمل کوانجام دےرہےہیں لیکن 

عیسائیوں اورسکھوں کی طرح مکمل پلاننگ نہیں ہے 

آج ہندوستان میں اس کی سخت ضرورت ہے 

چھوٹی ذات کےغیرمسلمین 

برہمنوں کےبےجاظلم،نسلی تعصب کی وجہ سے پریشان ہیں ماحول گرم ہے قومی یکجہتی مذاکرات اور انسانی ہمدردی کےنام پر ان کےدلوں  کوجیتاجاسکتاہے پانی کتناہی گندہ ہوجائےمگرآگ بجھانےکی صلاحیت رکھتاہے میرامانناہےکہ جس طرح آگ کو آگ سے نہیں بجھایاجاسکتااسی طرح نفرت کونفرت سے بھی نہیں ختم کیاجاسکتا آج ہم مسلمانوں کوقربانی دینی کی ضرورت ہے

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی ہرطرح سے حفاظت فرمائے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے