از قلم: محمد ساجد سدھارتھ نگر ی جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی
mob9286195398 email mdsajidqasmi869@gmail.com۔
دل ان کے ذکر خیر سے بھرتا نہیں کبھی
میرے نبی کے نام میں ایسی مٹھاس ہے
سرکار کے مقام سے ہیں آشنا وہی
پہلو میں جن کے قلب حقیقت شناس ہے
عابد مرا عقیدہ و مسلک ہے بس یہی
عشقِ رسول ہاشمی دیں کی اساس ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کی جڑ، جان، اساس و بنیاد اور مؤمن کی آن بان شان ہے آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے تمام اعزا واقارب سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں( بخاری شریف)۔
آپ نے حضرت عمر فاروق رض سے ایک موقع پر سوال کیا کہ عمر تمہیں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے حضرت عمر فاروق نے کہا کہ پہلے اپنے آپ سے پھر آپ سے یہ سن کر حضرت نے فرمایا: عمر جب تک میں تمہیں جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں تم کامل مؤمن نہیں ہوسکتے۔ صحبتِ نبوی کی برکت سے حضرت عمر فاروق کو فورا شرحِ صدر ہوا، اور فرمایا کہ یارسول اللہ مجھے آپ اپنی جان سے بھی عزیز تر ہیں۔
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کامل مؤمن ہونے کی بشارت دی۔( بخاری شریف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " من احبنی کان معی فی الجنہ " جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا یارسول اللہ متی تقوم الساعہ۔ قیامت کب آئے گی؟ آپ نے اس سے پوچھا: ما اعددت لھا قیامت کی کچھ تیاری بھی کر رکھی ہے سائل نے کہا کہ تیاری تو کچھ نہیں؛ البتہ مجھے آپ سے محبت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المرء مع من احب قیامت کے دن ہر شخص کا حشر اس کے محبوب کے ساتھ ہوگا۔ اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کو ٹوٹ کر چاھتے تھے گرچہ اپنی گردن کٹ جائے، مال تلف ہوجائے بیوی بچوں سے ہاتھ دھونا پڑے سب انھیں گوارا تھا لیکن حضرت کو کوئی گزند پہونچے ہرگز ہرگز گوارا نہ تھا، اس لیے آپ کے قضاء حاجت تشریف لے جانے سے قبل اصحاب محمد اپنے ہاتھوں سے آپ کی رہ گزر صاف کرتے مبادا آپ کے قدموں میں کوئی کانٹا چبھ جائے صحابہ آپ کے جوتے خود اتارتے، سفر میں آپ کا بستر بچھاتے، مسواک اور پانی کا انتظام کرتے، صحابہ کرام کا آپ سے والہانہ تعلق اور جذباتی وابستگی کو صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کے نمائندے عروہ بن مسعود ثقفی بنظر غائر ملاحظہ کرنے کے بعد کفار قریش سے یوں بیان کرتے ہیں بخدا میں نے عجم کے بادشاہوں کی قالین روندی ہے عرب کے حکمرانوں کا جاہ و جلال دیکھا ہے۔ کیسر وقصری کے دربار میں حاضر ی دی ہے مگر اپنی رعایا کے نزدیک محمد سے زیادہ محبوب اور ہر دل عزیز کسی کو نہیں پایا بخدا جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کے ہم نشیں لعاب دھن کو بابرکت سمجھ کر اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں ان کے وضو کا غسالہ زمین پر گر نے نہیں پاتا ہے محمد کے مصاحبین اسے کسی بیش بہا خزانے کی طرح اپنے ہاتھوں میں لے کر چہرے پر مل لیا کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دشمنان اسلام کی طرف سے آپ کی شان اقدس میں ہونے والی گستاخیوں کا آپ کی سرپرستی میں ہر ممکن جواب دیا گیا ہے، کبھی حضرت حسان کے لیے ممبر بچھوا کر شان عالی میں ہجویہ کلمات کا ترکی بہ ترکی جواب دلوایا جاتا تو کبھی اسود عنسی مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں لشکر کشی کر کے، غرض یہ کہ گستاخی کا جواب کبھی بات سے تو کبھی لات سے دے کر امت مسلمہ کو اس کی حساسیت اور سنگینی سے با خبر کرکے اقدام کے لیے ایک وسیع میدان فراہم کردیا گیا ہے، ناموسِ رسالت کے تیئں اسلاف امت کا متفقہ موقف یہی رہا ہے کہ
صہبائے عقیدت کے پیمانے ہزاروں ہیں
محبوب رسالت کے مستانے ہزاروں ہیں
گستاخ زبانوں کو ہم کاٹ کے رکھ دیں گے
دنیا میں محمد کے دیوانے ہزاروں ہیں
بارہا ایسا ہوا کہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کوئی بد باطن خبیث اور ذہنی بیمار کرہ ارض کے کسی خطہ سے نمودار ہوکر ناموس مصطفی کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے اور بدلے میں اسے اپنی جان گنوا کر واصل نار ہونا پڑتا ہے جب بھی اور جہاں بھی کوئی شخص گستاخی کا مرتکب پایا جاتا ہے عشاقان نبی اور محبان مصطفی کی گولیاں اس کا دل چیر کر یہ ثابت کر دیتی ہیں کہ مسلمان عملاً کمزور سہی مگر شان رسالت میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔
شرابی ہوں مگر جب بات آ جائے گی آقا کی
۔مرے ہاتھوں میں ساغر تم نہیں تلوار دیکھو گے
اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ معاملہ کی نزاکت کو سمجھ کر اس پر قدغن لگا دیا جاتا اور گستاخان کو قرار واقعی سز ا دے کر گستاخی کے دروازے کو منھدم کردیا جاتا مگر افسوس ایسا کرنے کے بجائے حقوق انسانی کے علم بردار دشمنان اسلام کی طرف سے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اہانت اور تنقیص کا ننگا ناچ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے، ابھی حال ہی میں فرانس کے ایک جان باز مجاھد عاشق رسول طالب علم کے ذریعے حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب ٹیچر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد پوری دنیا میں اسلام کے خلاف سڑی ذہنیت نے ایسی محاذ آرائی کی کہ الامان و الحفیظ۔
فرانس کا بد کردار بد بودار صدر تو جیسے ھذیان میں مبتلا ہوگیا ہو اس پاگل کتے نے تو باقاعدہ اپنی سر پرستی میں میں اس مذموم جرم کے ارتکاب کا اعلان کرکے ثابت کردیا کہ مجھے مسلمانوں کے جذبات کا قطعاً قطعاً کوئی خیال نہیں۔ کسی کا دل جلے جگر جلے دماغ جلے
وہ کہہ گئے ہیں کہ آییں گے ہم چراغ جلے
اظہار رائے کی آزادی کے ان نام نہاد علم برداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک وکیل پر بے جا تنقید اور ایک جج کی تنقیص تمہارے نزدیک ایک گھناؤنا فعل ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اطہر میں گستاخی کر دوسو کڑور مسلمانوں کی دل آزاری قابلِ مذمت فعل کیوں نہیں گستاخی کرکے فضا کو مسموم کرنے اور اہل ایمان کے آبگینہ دل کو ٹھیس پہنچانے والے مجرم ہیں یا ایسے ناپاک اور دھرتی کے لیے ناسور بن چکے امن و امان کے دشمن کو کیفرِ کردار تک پہنچانے والے
اہل ایمان سے گزارش ہے کہ ناموسِ رسالت کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مشرب و مسلک سے کہیں اوپر اٹھ کر ہر سطح پر احتجاج درج کرائیں اسلامی ممالک اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے فرانس سے اپنا سفارتی تعلقات غیر معینہ مدت کیلئے منقطع کریں تاجر فرانس کی مصنوعات کے اسٹاک سے گریز کریں اور خریدار مکمل بائیکاٹ کا عزم کریں، میڈیا پر سر گرم افراد جس طرح بھی ممکن ہو گستاخی پر اپنی ناراضگی کا اظہار کریں، علماء بحیثیت وارث نبی ملت اسلامیہ کے اک اک بچے کے دل میں عشقِ رسول کی ایسی شمع روشن کریں کہ تادم واپسیں جس کی لو مدھم نہ پڑے اس پر جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی سرمایہ حیات سمجھ کر سو جان سے منظور فرماییں
کیوںکہ زنجیر جنوں کا تحفہ ہے زنجیر سے کیا گھبرانا ہے
ہم ہاتھ بڑھائے بیٹھیں ہیں پہنائے جسے پہنا نا ہے
یاد رہے خاکہ بنانے والے خاک میں مل جاییں گے، ہمارے حضرت کا غلغلہ ہر سو بلند ہے اور قیامت تک بلند رہے گا، ان شاء اللہ۔
ارشاد خداوندی ہے: { ورفعنالک ذکرک }
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اور
تکبیر میں کلمہ میں نمازوں میں اذاں میں
ہے نام الٰہی سے ملا نام محمد
فرماتے تھے آ دم کہ مجھے خلد بریں میں
لکھا ہوا طوبیٰ پہ ملا نام محمد
اس نام کی لذت دل عشاق سے پوچھو
جاں آ گئی تن میں جو لیا نام محمد
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
جان لیں ساجد یہ دشمن کے گھرانے والے
خاک ہو جاتے ہیں سورج کو بجھانے والے
0 تبصرے