یوم تاسیس جامعہ ملیہ اسلامیہ ۲۹ اکتوبر

یوم تاسیس جامعہ ملیہ اسلامیہ ۲۹ اکتوبر

 تحریر: ڈاکٹر محمد ارشد قاسمی 

۲۹ اکتوبر ١٩٢٠ کو جب تحریکِ عدمِ تعاون اور تحریکِ خلافت کی مشترکہ کوششوں کے نتیجہ میں علی گڑھ کی جامع مسجد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی علامتی تاسیس کی تقریب منعقد ہوئی تو کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ ادارہ جو محکوم قوم کی جانب سے حاکم قوم سے اختلاف کی بنیاد پر قایم ہوا ہے وہ اپنی زندگی کے سو دن بھی پورا کر لےگا مگر آج ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۰ کو اس نے اپنے سو سال پورے کر لئے بلکہ تازہ وزارتِ انسانی وسایل کی گریڈنگ میں ہندوستان کی سینٹرل یونیورسٹیز میں اسے پہلا مقام حاصل ہوا۔

یہ ان اکابرین کا اخلاص تھا یقیں محکم کا جذبۂ دروں اور عملِ پیہم سے وابستہ جماعت تھی جس نے سامراجیت کے خلاف اور اصولوں کی بنیاد پر سرسید مرحوم اور انکے ادارہ سے ناطہ توڑ لیا تھا.

جس جماعت کے سرخیل شیخ الہند ، محمد علی جوہر ، حکیم اجمل خان ، گاندھی جی ، مختار انصاری ، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ تھے۔

پانچ سال کے بعد یہ ادارہ علی گڑھ سے قرول باغ دہلی کرایہ کی بلڈنگ میں منتقل ہوا اور اسکے دس سال بعد یعنی ۱۹۳۵ اوکھلا میں اپنی زمین پر آگیا یہ پندرہ سال جامعہ کی زندگی میں جاں گسل تھے ایسا لگتا تھا یہ چراغِ سحری اب بجھا تب بجھا مگر مخلصینِ قوم ، محبینِ ملت اور برادرانِ وطن خصوصا گاندھی جی نے اسے سنبھالا دیا اور اسے سیکولرزم ، رواداری ، متحدہ قومیت ، اصول پسندی کا علمبردار بنا کر پیش کیا جب جامعہ ملیہ کے “ اسلامیہ “ تاج پر بری نظر ڈالی گئ گاندھی جی سیسہ پلائ دیوار بن کر قدم بہ قدم کھڑے رہے۔

اور بلآخر جامعہ ملیہ کی پیشانی پر “ اسلامیہ “ کا جھومر سجا رہا۔

۱۹۶۲ میں جامعہ کو ڈیمڈ یونیورسٹی اور ۱۹۸۸ میں  سینٹرل یونیورسٹی کا درجہ ملا مگر اسکو اقلیتی یونیورسٹی کا مقام ملنے کے لئے ۲۰۱۱  یعنی تقریبا نوے سال تک انتظار کرنا پڑا جسے ہم دیر آید درست آید کہ سکتے ہیں اس تاخیر میں اپنوں کے “ کرم “ غیروں کے “ ستم “ سب شامل رہے۔

ان سو سالوں میں ادارہ نے تعلیمی میدان میں اپنی شناخت قایم کی بلکہ بعض شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر اپنے معیار کی وجہ سے فایق و ممتازہے خصوصا انجینئرنگ ، آئ ٹی ، ماس میڈیا ، لینگویجز میں وہاں کے طلباء نے اپنا تفوق برقرار رکھا ہے 

۲۰۱۰ میں قایم ہوئے ریزیڈینشیل کوچنگ سینٹر نے پورے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کردی ہے۔

 جسکا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اب تک ۲۳۰ سے زیادہ طلباء و طالبات یو پی ایس سی میں کامیاب ہوچکے ہیں اور سیکڑوں دوسرے صوبائ و مرکزی شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہیں رواں سال میں سول سروسز میں سب سے زیادہ منتخب مسلم کنڈیڈیٹس اسی کوچنگ سینٹر کے تھے جو فری سرویسز سے مستفید ہوئے۔

گذشتہ سو سالوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جو چیز قدرے مشترک دکھائ دیتی ہے اور جسے جامعہ نے گھٹی بنا کر اپنی گود میں پلتے بچوں کو پلایا ہے وہ ہے انکی اصول پسندی ، رواداری ، قومیت ، حق گوئ ، بیباکی ، جرات مندی ،  ملک و ملت سے وفاداری اور آئین پسندی ۔

جسکی روشن مثال شہریت ترمیمی بل کے خلاف وہ پر امن احتجاج ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کردیا اور پورے ملک میں آئین مخالف عناصر کے خلاف چنگاری بھڑک اٹھی طالبات کی جوانمردی ، طلباء کے آہنی عزایم ، انکے سرفروشانہ رنگ و آہنگ سے تحریک ملی اور ہر آئین پسند ، محبِ قوم و ملک نے اس قافلۂ جانباز کا ایک فرد ہونا اپنی سعادت سمجھا اور “ دیکھینگے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھینگے “ جیسے نعرۂ مستانہ نے پورے ملی وجود میں ہلچل پیدا کردی۔

اب جب کہ جامعہ برادری جشنِ صد سالہ میں مصروف ہے اور اپنی حصولیابیوں کا تذکرہ کررہی ہے مناسب ہوگا کہ احتسابی جایزہ بھی لیں سوسالہ مدت کسی قوم ، فرد اور ادارہ کے لئے ایک بڑی مدت ہے کیا اس میں وہ انقلابات برپا ہوئے وہ خواب پورے پوئے ان ضرورتوں کی تکمیل ہوئ ملکی مسایل میں ملت کی نمایندگی کی شرح مکمل ہوئ جو ہمارے اسلاف کی دیرینہ آرزو تھی اور جس کے پیشِ نظرانھوں نے قربانیوں کی اعلی مثالیں قایم کیں 

اور سب سے بڑی آرزو  جو شیخ الہند رح کی تھی اور جن بڑے مقاصد کے پیشِ نظر جامعہ ملیہ کی تاسیس میں صاحبِ فراش ہونے کے باوجود آپ تشریف لائے تھے وہ تھی جامعہ کو ملیہ کے ساتھ “ اسلامیہ “ بنانے کی۔ 

کیا ہم نے ان بلند مقاصد کی طرف پیش رفت کی ہے اور اسلامی روح کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے ؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے