حبّ رسول ﷺ کے تقاضے قسط دوم


حبّ رسول ﷺ کے تقاضے

 قسط (٢) 

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اور کچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان سب تقاضوں ميں سے كچھ بیان کرتے ہیں:

 احترام و تعظیم رسول ﷺ :

ع ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں 

 حب رسول ﷺ کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسولؐ ہے۔ یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گر ِایمان ہے۔ 

سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورﷺ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (1) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (2) إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (3) إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (4) وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ [الحجرات: 5] 

''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ بلاشبہ جو لوگ رسول اللہﷺکے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے"۔ [الحجرات : ۱تا٥].

ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پر بلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکر بیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپؐ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ''تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ''میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورﷺسے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔'' (بخاری: کتاب التفسیر:٤٨٤٦).

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ ''بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)

دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضور ﷺ کی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اوپر چل پھر رہے ہیں، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔

یہ تو تھا آپؐ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپؐ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپؐ کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپؐ سے صدقِ دل سے محبت کریں، آپؐ کے فرمودات پر عمل کریں، اپنی زندگی میں آپؐ کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں۔ جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہﷺکی تعظیم ہے۔


 حب ِرسولؐ کا حقیقی معیار  اطاعت ِرسول: 


حبّ ِرسول ﷺ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت رسول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے:

 ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ [النساء: 69] اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

 نبي ﷺ نے ان كے پاس  كسى كوبھيجا اور خوش خبرى سنائى۔

عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبير قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ مَحْزُونٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: "يا فلان، ما لي أَرَاكَ مَحْزُونًا؟" قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! شَيْءٌ فَكَّرْتُ فِيهِ؟ قَالَ: "مَا هُوَ؟ " قَالَ: نَحْنُ نَغْدُو عَلَيْكَ وَنَرُوحُ، نَنْظُرُ إِلَى وَجْهِكَ وَنُجَالِسُكَ، وَغَدًا تُرْفَعُ مَعَ النَّبِيِّينَ فَلَا نَصِلُ إِلَيْكَ. فَلَمْ يَرُدَّ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْهِ شَيْئًا، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ بِهَذِهِ الْآيَةِ: {وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَم اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ [وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا] فَبَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ فَبَشَّرَهُ. تفسير ابن كثير (2/ 353).

صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔

محمود بن حسن وراق نے کیا خوب کہا ہے:

 لو کان حبک صادقا لأطعته 

 إن المحب لمن یحب مطیع 

اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اسکی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔

اگرکسی مسلمان سے يہ سوال کیا جائے کہ تم سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہو؟ تویقینا امت مسلمہ کے ہر فرد کی زبان پر بلا تردد یہ الفاظ ہوں گے کہ اللہ اور اسکے رسول سے، لیکن کیا واقعی ہم اپنے دعو ی محبت میں سچے ہیں؟ کیا ہماری زندگی حقیقی معنوں میں حب اللہ اور حب رسول ﷺ کا مظہر ہے ؟ کیا اللہ کے اس فرمان کو ہم نے صحیح طریقہ سے سمجھا ہے؟   ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ [آل عمران: 31]. ترجمہ: ”کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کرےگا اور تمہارے گناہ معاف فرما دےگا، اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ “

چنانچہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت اسی وقت ثابت ہوگی جبکہ اسکے تقاضے کی تکمیل ہو یعنی اتباع رسول کا عملی جامہ پہن لیں۔ اللہ نے نبی اکرم ا کی اطاعت کوعین اپنی اطاعت قرار دیا ہے: ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ [النساء: 80] جو رسول کی اطاعت کرتا ہے تو اس نے میری فرمانبرداری کی ۔

 نیز فرمان نبوی ﷺ ہے: "مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ"،جس نے میری اتباع کی، اس نے اللہ کی اتباع کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی“ ۔ (بخاری شريف: 2957،  مسلم شريف:  1835).

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضور ﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ:  "فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى المُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ، وَكِسْرَى، وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا، وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ" الحديث.

بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)

آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو، یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔ ترمذى شريف كى روايت  هے، عبد الله بن مغفل راوی ہيں: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ. فَقَالَ لَهُ: «انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ»، قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: «إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ» سنن الترمذي، باب ما جاء في فضل الفقر (2350)

حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ ''یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے"۔ 

گویا جس کے دل میں حب ِرسول ﷺ  ہے، اسے چاہئے کہ آنحضور ﷺ کی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے۔

فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے، حضرت انس كى روايت هے، جس ميں يہ الفاظ وارد هوئے هيں: "وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الجَنَّةِ" . سنن الترمذي (2678) جس نے میری سنت زنده کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (سنن ترمذی: 2678).

ابن عساکر نے "من أحيا" کے بجائے "من أحب" کا لفظ نقل کیا ہے، یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی۔

معلوم ہوا کہ حب رسول صرف زبانی جمع خرچ کا نام نہیں، بلکہ اس کے لیے اطاعت رسول ضروری ہے، دوسری چیز یہ کہ زندگی کے تمام ہی امور میں اسوہ رسول کو اپنایا جائے، اسی طرح اللہ کے رسول کی سنت کی اتباع اور اس سے سچی محبت کی جائے، اور سنت پر عمل کرکے اس کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے رسول کی سچی محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے