سلطان "محمود غزنوی" انصاف پسند ہندو مؤرخین کی نظر میں

سلطان "محمود غزنوی" انصاف پسند ہندو مؤرخین کی نظر میں

  








                 

       محمد سعید اللہ مہراج گنجی 

      سلطان محمود غزنوی تاریخ عالم کے ان چند عظیم اور نامور فاتحین میں سے ہیں جن کی شوکت و ہیبت، جاہ و جلال اور فتح و ظفر کے عظیم الشان کارناموں کی آب و تاب زمانہائے دراز گذرنے کے بعد بھی کم نہ ہو سکی، آپ کی شخصیت اپنے گوناگوں اوصاف و کمالات کی بنا پر اتنی قدآور اور بلند و بالا تھی کہ سکندر اعظم، چنگیز خان، اور تیمور لنگ سمیت جدید عالمی فاتحین میں بھی ممتاز نظر آتی ہے ۔ بلاشبہ آپ اپنی اولوالعزمی، بلند ہمتی ، عدل و انصاف، حسن انتظام، علم نوازی اور رعایا پروری وغیرہ کی بنیاد پر دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کے ان معدودے چند فاتحین اور کشور کشاؤں میں سے ہیں جو کئی صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنی ہمہ جہت شخصیت سے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں ۔

     مگر المیہ یہ ہے کہ اس عظیم فرماں روا کو متعصب ہندو مؤرخین نے ایک مخصوص نظریے کے تحت اپنی قوم کے درمیان تواتر سے اس طرح متنازع، داغدار اور قابل نفرت بنا کر پیش کیا کہ اکثر برادران وطن آج صرف آپ کا نام سن کر ہی بدک جاتے ہیں ۔ اور ظالم ، لٹیرا ، قاتل اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں ۔ مگر یہ آپ کی عظمت کی بلندی ہی کہئے کہ انہیں برادران وطن کی صف سے چند وسیع النظر، فراخ دل اور انصاف پسند مؤرخین اٹھے اور انہوں نے آپ کی شخصیت کو تحقیق کا موضوع بنا کر نہ صرف آپ کی ذات کو مجروح کرنے والے رکیک الزامات و اتہامات کا پردہ چاک کیا، بلکہ آپ کی عظمت کردار کے مخفی گوشوں سے اپنی قوم  کو واقف کرانے کی حتی المقدور کوششیں کیں ۔

    چنانچہ ''مشت نمونہ از خروارے '' کے طور پر زیر نظر مضمون میں ان میں سے چند مؤرخین کی تحریروں سے جستہ جستہ اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں جن کو پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ منصف مزاج ہندو مؤرخین بھی آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ :

    مشہور مؤرخ اور '' مہابھارت پر ایک تنقیدی نظر '' کے مصنف سی وی ویدیہ بمبئی یونیورسٹی اپنی کتاب '' ہسٹری آف مڈیول انڈیا جلد سوم میں لکھتے ہیں :

    مؤرخین محمود کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے میں رطب اللسان ہیں ۔ ان میں گبن بھی شامل ہے وہ کہتا ہے کہ : تاریخ جنگ کی خون ریزی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، محمود کی تاریخ میں بھی یہ چیز ملے گی، اس سے قطع نظر کرکے اگر ہم اس کے اچھے اوصاف کا مطالعہ کریں تو وہ دنیا کے جلیل القدر بادشاہوں میں شمار کئے جانے کے لائق ہے، اس کا نام مشرق میں اب تک عزت سے لیا جاتا ہے، اس کی رعایا کو خوش حالی اور امن حاصل تھا، اس کے عدل و انصاف اور بلند حوصلگی کے بہت سے واقعات درج ہیں ۔

    اس کی تعریف تمام مؤرخوں نے کی ہے کہ محمود ایک بہت بڑا سپاہی، اور ایک بہت بڑا فوجی رہنما تھا ، لین پول نے لکھا ہے کہ : وہ ایک بہادر سپاہی تھا اور بے انتہا ہمت رکھتا تھا، جس کے جسم اور دماغ میں انتھک سرگرمیوں کی کوئی حد نہ تھی، لین پول نے اس کی عمدہ حکومت اور عدل و انصاف کی بھی تعریف کی ہے، اور ایک سلجوقی وزیر کی رائے نقل کی ہے کہ : وہ ایک عادل حکمراں ،علوم و فنون کا مربی، فیاض اور راسخ العقیدہ شخص تھا، اس کا ثبوت کہ وہ اہل علم کا سرپرست تھا اس سے ملتا ہے کہ اس کے دربار میں علماء و فضلاء بکثرت تھے، البیرونی جیسا ماہر ہیئت، فارابی جیسا فلسفی، عتبی جیسا مؤرخ، بیہقی جیسا سخن ساز، عنصری، فرخی، عسجدی جیسے شعراء اس کے دربار میں تھے، ان میں فردوسی بھی تھا جو فارسی زبان کا ہومر ہے، وہ اس کی سرپرستی سے فیض یاب ہوتا رہا ۔

    ہمارا خیال ہے کہ محمود ان افراد میں سے ہے جو قدرت کی طرف سے ایک عرصہ  کے بعد پیدا ہوا کر تے ہیں اور جن میں غیر معمولی قسم کی خوبیاں اور عدیم المثال صلاحیتیں ہوتی ہیں اور جو دنیا کی تاریخ اور قوموں کی قسمت بدل دیتے ہیں ، ایک انسان کی حیثیت سے وہ ایک سخت ضبط و نظم اور اعلی کردار کا حامل تھا، اس کے حملوں میں اس کی مثالیں تو ملتی ہیں کہ شہر لوٹے گئے، مندر منہدم ہوئے ،خون ریزی ہوئی، قیدی غلام بنا لئےگئے ، لیکن عورتوں کی عصمت ریزی یا ان کے قتل و خون کی کوئی مثال نہیں ملتی، وہ عدل پسند تھا، اس لئے ظلم سے اتنی نفرت کرتا تھا کہ اگر اس کا لڑکا بھی زنا کا مرتکب ہوجاتا تو وہ اس کو قتل کردینے کے لئے تیار ہو جاتا، وہ ایک اچھا حکمراں بھی تھا اور اچھا ناظم سلطنت بھی، اور عوام کو خوشحال بنانے کی کوششوں میں برابر لگا رہا، اس نے قزاقوں کی سرکوبی کر کے تجارت کو فروغ دیا، اور اپنے دور دراز علاقوں کی شاہراہوں کو ہر طرح کے خطرے سے پاک کردیا، لاہور اور خراسان کے درمیان تجارتی قافلے آزادی سے آتے جاتے رہے، اس نے صوبوں میں اچھے حاکم مقرر کئے اور ان پر نگرانی رکھتا کہ وہ لوگوں پر ظلم نہ کرنے پائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سالانہ ایک لاکھ دینار عدل و انصاف اور عوام کی مرفہ الحالی اور خیرات و مبرات میں خرچ کیا کرتا تھا ۔ اور یہی تمام باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ شہروں اور صوبوں میں عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ان تمام فرائض کو انجام دیتا رہا جو ایک حکمراں کو دینا چاہیئے 

   محمود نے تاریخ کے دوسرے فاتحوں کی طرح ظلم و ستم کو روا نہیں رکھا، دو صدیوں کے بعد چنگیز اور تیمورنےمعصوموں اور بے قصوروں کو جس طرح بے دردانہ قتل کیا ویسی مثال محمود کے حملوں میں نہیں ملتی، اس نے ملحدوں کو ضرور سزائیں دیں، لیکن ان کو بھی سزا دینے میں محض اپنے شک و شبہ کو راہ نہیں دیا ،  بلکہ قاضیوں اور مفتیوں سے  باضابطہ فتاوے حاصل کئے ۔

    محمود کے دربار میں اکبری دربار کی طرح کوئی ابوالفضل نہ تھا، جو اس کے نظام سلطنت کو پوری تفصیل سے لکھتا، لیکن اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس کی حکومت بہت منظم تھی اور اچھی طرح چلتی رہی، عتبی کا بیان ہے کہ غزنی میں محمود کے حملوں اور لڑائیوں کی پوری تفصیل قلم بند کر کے محفوظ رکھی جاتی، اور وہ بابر ہی کی طرح معرکہ آرائیوں میں بھی یادداشت کے طور پر ساری باتیں لکھ کر غزنی بھیجا کرتا تھا، عتبی نے اس کی یادداشت میں ایک اقتباس دیا ہے کہ جب وہ متھرا میں جنگ کر رہا تھا تو گھمسان کی لڑائی کے عین درمیان مندروں کے تعمیری حسن اور دلآویزی سے بھی متاثر ہوا اور ان تاثرات کو لکھ کر غزنی بھیجا۔ تمام صوبوں کے محاصل اور اخراجات کی تفصیل باضابطہ رکھی جاتی اور صوبوں کے تمام حاکموں کی نگرانی ایک وزیر کرتا، جو بڑی پابندی سے دیوان میں آیا کرتا، اس کی فوجوں کا نظام بھی بڑا مرتب تھا، اس لئے اس کو ہر جگہ کامیابی ہوتی اور دور دراز کے علاقوں مثلا قنوج اور سومناتھ تک دریا، پہاڑ اور صحراء کو پار کر کے پہنچ جایا کرتا تھا، اس کے جلو میں پانچ ہزار محافظ رہتے، اور یہ ترکوں کے بہترین سپاہی ہوتے جو ضرورت کے وقت میدان جنگ میں لڑائی کا رخ بھی بدل دیتے، یہ بات قابل تسلیم نہیں کہ محمود نے نئے ادارے قائم نہیں کئے اور اپنے صوبوں کی تنظیم نہیں کی، بلکہ شواہد ایسے ہیں کہ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس کا ملکی اور فوجی نظام بہت ہی مرتب اور مظبوط تھا ۔

   مختصر یہ کہ گبن نے صحیح کہا ہے کہ محمود دنیا کے جلیل القدر بادشاہوں میں سے ایک ہے، وہ ایک بہادر سپاہی تھا، ایک تجربہ کار کمانڈر تھا، عدل و انصاف کا علم بردار تھا، علماء و فضلاء کا مربی تھا، اور ایک ایسا حکمراں تھا جس نے امن اور خوشحالی کی کوشش کی، اور تعلیم و تجارت کو فروغ دیا، وہ ایک انسان کی حیثیت سے قواعد و ضوابط کا پابند رہا، اور فطری طور پر نہ ظالم تھا نہ لالچی بلکہ اعتدال پسند اور فیاض تھا ، وہ بڑا مذہبی بھی تھا اور اپنے عقائد میں سخت تھا ۔

    ہندو غزنی کے مسلمان حکمرانوں کے عہد میں بڑے ذمہ دار عہدوں پر مامور تھے، محمود ہی نے اپنے دور میں ان کا تقرر کرنا شروع کردیا تھا، جےپال کی طرف سے دو ہزار ہندو سپاہی غزنی میں تعینات تھے، مسعود کی جانشینی کی جنگ میں سوند رائے اس کی حمایت میں لڑا تھا، بجے رائے محمود اور مسعود دونوں کے دور میں ایک فوجی سردار رہا، جاٹوں نے احمد نیالتگین کو تہ تیغ کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کی خدمت وفاداری سےانجام دیتے تھے ۔

     محمود کے جو سکے ہندوستان میں رائج تھے ان میں دو زبانیں ہیں، اس کے بعد بعض سکوں میں دیوناگری رسم الخط میں '' اویکت ایکم محمد اوتار نرپت محمود '' منقوش ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمود کے دربار میں پنڈت بھی تھے، انہوں نے محمود کو محمد کا اوتار بنا دیا تھا، اور پیغمبر اسلام کی اویکت ( ایشور ) سے مماثلت دے رکھی تھی ۔ بعض سکوں پر سادہ طریقہ پر '' ایم ٹنک محمود سمبت ''412 لکھا ہوا ہے ۔ یہ سکے لاہور میں بنائے جاتے ، دارالضرب لاہور، غزنی، نیشاپور اور مغرب میں تین چار اور جگہوں میں تھے ، کابل میں کوئی دارالضرب نہ تھا، کابل کے ۔۔۔۔ ہندو شاہی خاندان کے سکوں کی طرح غزنویوں کے سکوں میں بھی نندی ( شیو جی کی سواری کا بیل ) کا نشان ہے، محمود اور مسعود کے سکوں میں تو ایک طرف سوار کی تصویر ہے لیکن مودود اور ابراہیم کے سکوں 432 ھ 1041ء پر بیل کی تصویر ہے ۔

     ہسٹری آف مڈیول ہندو انڈیا جلد سوم 

  بحوالہ ( ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک ایک جھلک  تلخیص ص  30 تا 50 )

     کلکتہ یونیورسٹی کے پروفیسر سنیتی کمار چٹرجی کی بھی تحقیق یہی ہے کہ محمود کے سکوں پر سنسکرت کے الفاظ پائے جاتے ہیں ، پروفیسر موصوف اس سلسلے میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ محمود کا اپنے سکوں پر سنسکرت لکھوانا اس کی سیاسی ہوشمندی کا ثبوت ہے، جب پنجاب اس کی سلطنت کا جزء ہو گیا تو اس نے یہاں کی ہندو آبادی کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔ یہ اس کی عالی دماغی اور فراخ دلی کی دلیل تھی ۔

البیرونی یادگار جلد ایران سوسائٹی کلکتہ ص95 بحوالہ مذہبی رواداری ص 45 46

    پروفیسر ایشوری پرشاد الہ آباد یونیورسٹی نے سلطان محمود غزنوی کے متعلق اپنی کتاب '' مڈیول انڈیا '' میں جو رقم کیا ہے اس کے چند ایک اقتباسات حسب ذیل ہیں :

    محمود ایک جلیل القدر بادشاہ تھا، اس نے محض اپنے قوت بازو سے ایک چھوٹے سے پہاڑی علاقہ کو ایک وسیع اور خوشحال سلطنت میں تبدیل کر دیا، یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جہاں حملہ آور ہوا فتح و کامرانی نے بڑھ کر اس کا خیر مقدم کیا، ہندوستان کو مستقل طور پر تسخیر کرنا ممکن نہ تھا اور یہ محمود کی دلی آرزو بھی نہ تھی، ترک افغانستان کے سبزہ زاروں اور وہاں کی پہاڑی چراگاہوں کو زیادہ پسند کرتے تھے، ہندوستان کی آب و ہوا ان کے موافق بھی نہ تھی، محمود ہندوستان آکر یہاں کی دولت زیادہ سے زیادہ سمیٹ کر اپنے وطن کو واپس چلا جاتا اور پھر مستقل فتح و تسخیر سے بےنیاز ہو جاتا ،لیکن یہ خود ایک عظیم الشان کام تھا ، ہندوستان آنے میں قدرتی مشکلات کے علاوہ یہاں کے باشندوں کی طرف سے جو رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں ان پر قابو پانا انسانی قوت سے باہر تھا لیکن محمود کے جسم میں وہی روح تھی جو شہداء کے جسم میں ہوا کرتی ہے، وہ جسمانی راحت و آرام کی کمی کی مطلق پرواہ نہ کرتا تھا، راجپوتانہ کے ریگستانی میدانوں کو عبور کرکے گجرات کے دور دراز علاقہ سومناتھ میں وہ جن طرح طرح کی رکاوٹوں کے ساتھ پہنچا ہے وہ اس کے غیر معمولی نکتہ رس ذہن اور حیرت انگیز جرات و بہادری کی دلیل ہے، اس نے ہندوستان کے پہلے حملہ میں ہندوؤں کے سیاسی نظام کی کمزوریوں کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا ۔ نپولین اعظم کہا کرتا تھا کہ جنگ میں انسان دماغ ہی دماغ بن کر رہ جاتا ہے ، محمود کی تمام سپاہیانہ زندگی شروع سے اخیر تک اسی مقولہ کا نمونہ ہے ۔

   محمود نے جب 23 ربیع الثانی 421 ھ کو وفات پائی تو اس نے نہ صرف کثیر دولت چھوڑی بلکہ اس کی سلطنت بخارا و سمرقند سے گجرات و قنوج تک پھیلی ہوئی تھی، جس میں افغانستان، ماوراء النھر، خراسان، طبرستان، سیستان، کشمیر اور شمال مغربی ہند کے بہت سےعلاقے بھی شامل تھے، محمود ایک بڑا فاتح ضرور تھا لیکن اس میں بربریت نہ تھی، وہ آرٹ کا دلدادہ اور اہل علم کا بڑا مربی تھا، وہ شعراء کے کلام اور علماء کی گفتگو کو بڑے شوق سے سنتا، اور اس کی سرپرستی کی وجہ سے مشہور شاعروں اور ادیبوں کا ایک بڑا حلقہ اس کے گرد جمع ہو گیا تھا، ایشیاء کے ہر حصہ سے اہل علم اس کے دربار میں کھچے چلے آئے تھے، شعراء اس کی مدح میں قصائد کہتے، اس کو شعر و شاعری سے کچھ ایسا ذوق پیدا ہو گیا تھا کہ بڑی سی بڑی مہم میں بھی وہ تھوڑا سا وقت اچھی غزل اور اچھی رباعیات سننے کے لئے بچا لیتا تھا، اس زمانہ کے جتنے جید اور ممتاز اہل علم تھے، سب اس کے گرد جمع ہو گئے تھے، ان میں البیرونی جیسا مشہور ریاضی داں، ماہر ہیئت اور سنسکرت کا عالم بھی تھا، عتبی اور بیہقی جیسے مؤرخ بھی تھے اور فارابی جیسا فلسفی بھی تھا، یہ شعر و شاعری کا زمانہ تھا اور محمود کے دربار کے شعراء کی شہرت تمام ایشیاء میں پھیلی ہوئی تھی، ان شعراء میں عقاری کو محمود نے ایک چھوٹے سے قصیدہ کے صلہ میں چودہ ہزار درہم دیئے تھے، عنصری اس عہد کا سب سے باکمال شاعر تھا، فرشتہ کا بیان ہے کہ چار سو شعراء اور اہل علم اور ان کے ساتھ غزنیں کے جامعہ کے سارے طلبہ عنصری کی شاگردی کا دم بھرتے تھے، سدی، طوسی اور فرخی بھی محمود کی فیاضیوں سے سیراب ہوتے رہے ، ان شعراء میں فردوسی نے غیر معمولی شہرت حاصل کی جس نے شاہنامہ لکھ کر محمود کو تاریخ میں غیر فانی بنا دیا ہے ۔

     محمود نے تاریخ میں جو جگہ بنائی ہے اس کا تعین کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے، اپنے عہد کے مسلمانوں کی نظر میں تو وہ ایک غازی اور مذہب اسلام کا علمبردار تھا جس نے کفر کا خاتمہ کر دینا چاہا، ہندوؤں کی نظر میں آج بھی ایک سنگ دل اور ظالم لٹیرا ہے جس نے ان کی مقدس عبادت گاہوں کو ملیامیٹ کرکے ان کے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچایا ۔ لیکن ایک غیر متعصب محقق اور مؤرخ اس زمانہ کی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر کچھ اور ہی فیصلہ دینے پر مجبور ہوگا ، محمود بلاشبہ اپنے ساتھیوں کا ایک جلیل القدر رہنما تھا، ایک انصاف پسند اور دیانت دار حکمراں تھا ، ایک باکمال اور پرجوش سپاہی تھا، عدل و انصاف کا شیدائی تھا، علوم و فنون کا مربی تھا، اور وہ بلا شک و شبہ دنیا کے بہترین اور عظیم حکمرانوں میں شمار کئے جانے کے لائق ہے ۔

     مڈیول انڈیا از پروفیسر ایشوری پرشاد 

بحوالہ (ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک ایک جھلک تلخیص 30 تا 40)

  ڈاکٹر ایشور ٹوپا پالی ٹکس ان پری   مغل ٹائمس میں رقم طراز ہیں :

    موجود دور کے ایک مؤرخ کا خیال ہے جو محمود غزنوی کا ناقد بھی ہے کہ وہ کوئی مبلغ اسلام نہیں تھا، غیر مسلموں کو مسلمان بنانا اس کا مقصد نہیں رہا، الفسٹن نے ہم کو یقین کے ساتھ بتایا ہے کہ سلطان گجرات میں عرصہ دراز تک رہا ، لاہور میں بھی اس کا قیام رہا، لیکن اس نے کسی غیر مسلم کو مسلمان نہیں بنایا، اس نے ہندوؤں کو مسلمان بنانے کی فکر ہی نہیں کی، اس کی مذہبی پالیسی میں رواداری کی خصوصیت تھی، اس کے متعلق یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ اس نے ہندو کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا، اس نے کسی بھی شخص کو اس کے ذاتی ضمیر کی بنا پر موت کی سزا نہیں دی، اس نے لڑائی یا محاصرہ کے موقع پر تو ہندوؤں کو ہلاک کیا لیکن کسی اور موقع پر اس کے ہندوؤں کے ہلاک کرنے کا ذکر نہیں پایا جاتا ہے، اس کے دور حکومت میں ہندوؤں کو پوری مذہبی آزادی رہی، ان کا تقرر نہ صرف انتظامی امور کے سلسلہ میں کیا جاتا بلکہ وہ فوج میں بھی بحال کئے جاتے، ان کے مذہب پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، جس طرح فوج میں عرب، افغان، دیلمی، خراسانی اور غوری ہوتے وہ بھی ہوتے، ہندو لشکری اپنے آقا کی خاطر کرمان، خوارزم اور مرو میں جاکر لڑے، غزنویوں کے فوجی مہم کی تاریخ میں ہندو فوجی سرداروں میں تلک، سوندی رائے اور ہج رائے کے نام نمایاں ہیں، غزنویوں کی حکومت میں ان ہندو فوجی سرداروں کو اعلی حیثیت حاصل رہی،وہ بڑےقابل اعتماد سردار سمجھے جاتے، غزنویوں کے ساتھ ان کی وفاداری اور خدمت گذاری مثال کے طور پر پیش کی جاتی ۔

   پالی ٹکس ان پری مغل ٹائمس از ڈاکٹر ایشور ٹوپا 45 46 ( بحوالہ مذہبی رواداری 45 46


    سلطان محمود کی وفات کے پندرہ روز کے بعد ہی اس کے بیٹے سلطان مسعود نے ایک ہندو فوجی سردار سوند رائے کو ہندو سواروں کی معیت میں ان امراء کے خلاف بھیجا جو اس کے بھائی کے حامی تھے، پانچ سال بعد مسعود ہی کے حکم سے تلک نے ہندو سپاہیوں کے ساتھ نیالتگین کے خلاف لشکر کشی کی اور اس کو شکست دے کر ہلاک کر دیا، اس کے پانچ سال کے بعد سلطان مسعود سلجوق ترکمانوں سے مغلوب ہو کر غزنی سے ہندوستان چلا آیا تو اس نے یہاں ایک بڑی فوج اکٹھا کی جس میں ایک بڑی تعداد ہندوؤں کی تھی ۔

    تاریخ سبکتگین بحوالہ مذہبی رواداری 

    جامع الحکایات و لوامع الروايات میں ہے کہ امیر نصر جو خراسان کا امیر تھا اور سلطان محمود کا چہیتا بھائی تھا ایک بار وہ سلطان کے پاس ٹہرا ہوا تھا ،اس کے زین خانے سے ایک جڑاؤ لگام چوری ہوگئی،  چوری پکڑی گئی تو چور ایک ادنی درجہ کا ملازم تھا جو ہندو تھا امیر نے حکم دیا کہ اس کو باندھ کر بیس کوڑے لگائے جائیں ،سلطان کو یہ معلوم ہوا تو اس کو بہت دکھ ہوا اس نے امیر نصر کو کہلا بھیجا کہ ہماری موجودگی میں ہمارے غلاموں کو تازیانے سے پٹواتے ہو اور ہماری ناراضگی کی پرواہ نہیں کرتے، اس کے بعد ایک ماہ تک اس کو اپنے حضور میں آنے کی اجازت نہیں دی ۔

    اردو ترجمہ از اختر شیرانی 84 86

              بحوالہ بالا  

     سلطان محمود کے حالات زندگی میں یہ بھی ہے کہ جب اس نے متھرا کا مندر دیکھا تو اس کی شوکت و حشمت دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا ، اپنے ایک مکتوب میں لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسی عمارت بنانا چاہے تو لاکھوں سرخ دینار خرچ کرکے بھی نہیں بنا سکتا ہے ، اور شاید دو سو برس میں بھی ایسی عمارت نہ بن سکے۔

           تاریخ یمینی بحوالہ بالا   

    یہاں نہ وہ بت شکن تھا اور نہ بت فروش ، بلکہ اس مندر کے حسن و شوکت سے متاثر رہا، اس کی کوئی مثال نہیں کہ اس نے امن کی حالت میں کسی مندر کو منہدم کیا یا اس نے کسی ہندو کو ترک مذہب پر مجبور کیا ہو ،بلکہ غزنہ میں تو اس نے ہندوؤں کی بود و باش کے لئے ایک محلہ بھی آباد کردیا ۔ 

      رسالہ الغفران المعری بحوالہ بالا 

      مسٹر الفسٹن لکھتے ہیں کہ ایک مثال بھی ایسی نہیں سنتے کہ اس نے کسی ہندو کو جبرا مسلمان بنایا ہو ، ایک شہادت بھی ایسی نہیں کہ جنگ یا قلعہ گیری کے موقع کے سوا اس نے کسی ہندو کو قتل کرایا ہو ۔

       تاریخ ہند ص 335   

     ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں کہ : محمود اور محمد غوری مذہبی تعصب سےبالکل پاک تھے  اگرچہ انہوں نے ملاحدین کو سزائیں دیں، لیکن کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا ۔                              اسلام اور غیر مسلم ص 188

     جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں قدیم ہندوستانی تاریخ کی پروفیسر رہیں معروف مؤرخہ ڈاکٹر رومیلا تھاپر جنہوں نے امریکہ، برطانیہ ، فرانس سمیت مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی درس دیا ، اپنی کتاب Somanathe the mony voices of history  '' یعنی سومناتھ ! تاریخ کی بہت سی آوازیں '' میں سلطان محمود غزنوی کے سومناتھ حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں پر تفصیل سے بحث کی ہے، انہوں نے سومناتھ مندر پر نویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک سنسکرت، گجراتی، ہندی اور فارسی  تمام زبانوں کے پرانے مخطوطے اور 1951 ء میں سومناتھ کی تیسری کھدائی سے ملنے والے نوادرات پر سیر حاصل بحث کی ہے، خاص کر گیارہویں اور بارہویں صدی کے ہندو شاعروں کی شاعری اور کچھ سفرناموں کا خاص طور سے ذکر کیا ہے، محترمہ رومیلا تھاپر نے سینکڑوں کتابوں، مقالوں اور قدیم سنگی کتبوں کے حوالے سے یہ حقیقت دریافت کی ہے کہ سومناتھ جو سومناتھ پٹن، سوم شاور پٹن، اور دیو پٹن کے نام سے بھی مشہور تھا، کبھی بھی محمود نے برباد نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ ان زمانوں میں بڑے اور اہم مندروں کی جاگیریں ہوتی تھیں اور ان کے اندر نذرانوں کی صورت میں جمع شدہ بے پناہ دولت ہوتی تھی ، یہاں تک کہ جب کوئی ہندو راجہ بھی ان خطوں میں یلغار کرتا تو وہ بھی ان مندروں کو لوٹتا تھا اور اکثر اپنی فتح کی نشانی کے طور پر وہاں ایستادہ بت اپنے ساتھ لے جاتا تھا، تو محمود نے بھی وہی کیا جو اس سے پیشتر ہندو راجے کرتے آئے تھے ، لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوا جیسا آج بیان کیا جارہا ہے ۔ اس عہد کے کسی مخطوطے یا دریافت ہونے والے پتھر پہ یہ نقش نہیں ہے کہ محمود کے حملے کے بعد سومناتھ اجڑ گیا، بلکہ یہ درج ہے کہ اس کی یلغار کے بعد سومناتھ بدستور آباد رہا اور وہاں پرستش ہوتی رہی ۔

    یہ انگریز حکمراں تھے جنہوں نے '' تقسیم کرو اور حکومت کرو '' کی حکمت عملی کے تحت اس نظریے کو فروغ دیا، خاص طور پر 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد جس میں مسلمان اور ہندو یکساں طور پر شامل تھے اور یہ ہندوؤں کے لئے خاص تھا کہ دیکھو تم پر مسلمان کیسے کیسے ظلم ڈھاتے رہے ہیں، انہوں نے سومناتھ کو برباد کر دیا جب کہ ہم تمہاری عبادت گاہوں کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اس مہم کا آغاز گورنر جنرل لارڈ ایلن برو کی برطانوی پارلیمنٹ کی 1843 ء کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے '' the proclamation of gates '' یعنی '' دروازوں کی برآمدگی '' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ دنیا کی کسی بھی کتاب اور زبان میں 1857 سے پہلے محمود غزنوی بطور لٹیرا نہیں ملتا ۔

    وائسرائے ہند 1858 -1862 نے جنگ آزادی کے بعد محمود بطور لٹیرا بھرپور پرچار کیا، اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک تقریر میں اس کا ذکر کیا ہے، جسے پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے منظور کر کے پورے ہندوستان میں پھیلایا اور برطانوی و ہندوستان کے انگریزی اخبارات نے اس پر مسلسل لکھنا شروع کیا ۔

     رومیلا تھاپر کا کہنا ہے کہ اب بھی لوک گیتوں میں محمود غزنوی کے گن گائے جاتے ہیں، سومناتھ کے فقیر اور سادھو محمود غزنوی کو ایک داستانی ہیرو گردانتے ہیں، اگر وہ محض ایک لٹیرا ہوتا، مندروں کا دشمن ہوتا تو ہندو لوک گیتوں میں اس کی توصیف کیوں کی جاتی؟ 

      تھاپر نے یہ بھی لکھا ہے کہ سومناتھ کے علاقے میں بےشمار مسلمان تاجر آباد تھے جو گھوڑوں کا بیوپار کرتے تھے، ان میں عرب بھی شامل تھے جنہوں نےمقامی عورتوں سےشادی کرکے ہندوستانی تہذیب کو اپنا لیا تھا ۔

     ان کی تحقیق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوہستان نمک میں جو مندر تھے وہ بہت غریب تھے، دولت صرف تھانیسر، ملتان اور سومناتھ کے مندروں میں تھی، ان مندروں سے حاصل ہونے والی دولت سے محمود کی فوج کی تنخواہیں دی جاتی تھیں اور ان میں بیشتر ہندو ہوتے تھے اور ان مندروں پر حملہ کرنے والوں میں شامل ہوتے تھے، ہندوستان میں جتنے بھی فوجی بھرتی کئے جاتے تھے ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا اور وہ محمود کا وفادار ہوتا تھا ۔

     محمود غزنوی نے 1026 ء میں سومناتھ پر حملہ کیا اس کے بارہ سال بعد 1038 ء گوا کے مقامی راجہ کدمب نے سومناتھ کا شاہی سفر کیا، جس پر ایک سفر نامہ بھی لکھا تھا جو سنسکرت زبان میں چھپا ہے، اس کے مطابق مندر کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ محمود کی فوجوں نے اس کی بے حرمتی کی تھی اور سومناتھ مندر کی خطے میں سیاسی بالا دستی ختم کی تھی ،اور حملے کے بعد اسے دوبارہ مرمت کرلیا گیا تھا اور مندر کی رونق برقرار رہی ۔

     محمود غزنوی کے ایک معاصر شاعر دھن پال جو مالوہ کے بھوج دربار کا شاعر تھا نے اپنی شاعری میں محمود کی گجرات پر مہم کا ذکر کیا ہے، محمود راجستھان کے ستیہ پور کے مقام پر جین مندر میں مہاویر کے مجسمے کو توڑنے میں ناکام رہا، جب کہ سومناتھ کے بڑے بت کو توڑا ضرور مگر مندر کو تباہ اور مال کی لوٹ مار نہیں کی ۔ اسی طرح پربھار سوری نے بھی لکھا ہے کہ محمود کے ہاتھی مہاویر کے مجسمے کو نہیں توڑ سکے تھے ۔ حتی کہ کشمیر کا مشہور شاعر بلہانا جو محمود کے پچاس سال بعد 1076 ء میں سومناتھ آیا، گجرات کے چولوکیا دربار میں رہا، ایک ناٹک کرن سندری بھی لکھا، گجرات کے لوگوں کے تفصیلی حالات لکھے اور محمود غزنوی کے ملتان میں اسماعیلی شیعوں پر حملہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے مگر محمود غزنوی کے سومناتھ حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا  ۔

     یہ ایک بڑی حیران کن بات نظر آتی ہے، محمود غزنوی کے سومناتھ حملے کے بارے میں جو وجوہات منسوب کی جاتی ہیں، گجرات میں غزنوی کے ہم عصر اور دوسو سال بعد تک مصنفوں اور شعراء نے سومناتھ کی محمود کے ہاتھوں تباہی اور دولت کی لوٹ مار کا ذکر تک نہیں کیا ۔ آج جتنی شدت سے محمود کو لٹیرا ثابت کیا جاتا ہے اگر یہ اتنا بڑا اور اہم واقعہ ہوتا تو اس دور میں کتابیں بھر دی جاتیں ۔ 

     تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سومناتھ کا حملہ بھی باقی دوسرے حملوں جیسے جواز اور نتائج رکھتا تھا اور صدیوں تک محمود کو لٹیرا کے بجائے اچھے الفاظ میں یاد رکھا گیا ، حقیقتا یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے اس سازشی تھیوری کا آغاز کیا، اور ہندوؤں میں نفرت کے بیج بوئے، پھر کچھ اپنے بھی اس رو میں بہہ گئے، ہم نے اپنے نابینا پن میں اس عظیم علم دوست فاتح محمود غزنوی کو صرف بت شکن اور لٹیرے کے درجے پر فائز کرکے اس کی قامت مختصر کردی ہے جو بقول ایڈورڈ گبن مقدونیہ کے سکندر اعظم سے بھی عظیم فاتح تھا ۔ 

    سومناتھ!  تاریخ کی بہت سی آوازیں از پروفیسر رومیلا تھاپر ۔ بحوالہ (تلخیص) : غزنوی اور سومناتھ، کچھ حقیقت کچھ فسانہ، از محمد عبدہ 


    مذکورہ بالا سطور میں ڈاکٹر سی وی ویدیہ، پروفیسر ایشوری پرشاد، اور ڈاکٹر ایشور ٹوپا جیسے وسیع النظر، فراخ دل اور انصاف پسند مؤرخین نے سلطان محمود غزنوی کی باوقار شخصیت کا جن وقیع الفاظ میں اعتراف کیا ہے اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر جس خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے بلا تفریق عدل و انصاف اور ہندوؤں کے ساتھ رواداری کی شہادتیں دی ہیں، بالخصوص پروفیسر رومیلا تھاپر نے افسانوی حیثیت اختیار کر چکے سومناتھ مندر کی تباہی اور اس کی دولت کی لوٹ کے مکروہ پروپیگنڈے کا پردہ جس بے مثال تحقیقی انداز میں چاک کیا ہے ، وہ سلطان محمود غزنوی کی شہرہ آفاق شخصیت پر رکیک الزامات لگانے اور گھٹیا بہتان تراشی کرنے والے متعصب مؤرخین اور ان کے کج فہم پیروکاروں کے منھ پر زوردار طمانچہ ہے، اور برادران وطن کے سنجیدہ افراد اور اہل علم و فکر کو ایک گونہ دعوت بھی ہے کہ وہ مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر اس زمانے کے احوال کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری غیر جانبداری اور انصاف کے ساتھ سلطان کی شخصیت کا از سرنو جائزہ لیں، بطور خاص 1857 ء سے قبل سلطان محمود پر لکھی جانے والی کتابوں، مقالوں اور غیر جانبدار سنجیدہ مؤرخین اور ادباء کی تحریروں کا دقت نظر سے مطالعہ کریں ، اور برطانوی استعمار کے دور سے چل رہے مسموم پروپیگنڈوں کے زیر اثر سلطان کے سلسلے میں قائم اپنی دیرینہ رائے اور موقف پر نظر ثانی کریں ، اور اپنی قوم کو بھی حسب استطاعت حقیقت حال سے آگاہ کریں ، تاکہ سینکڑوں سال سے قائم عوامی غلط فہمیاں دور ہوں اور انگریزوں کے تخلیق کردہ اس مفروضہ تنازعے میں پڑ کر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اب مزید دوریاں پیدا نہ ہوں ، اور باہمی رواداری کی فضاء قائم ہوکر گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھ سکے ۔

  23 ربیع الاول 1442 ھ


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے