حفظ حدیث کی فضیلت قسط ٢


حفظ حدیث کی فضیلت قسط ٢


عبید اللہ شمیم قاسمی

اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} [الحجر: 9] ہم ہی نے ذکر (قرآن کریم) کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس کی حفاظت آج ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی قرآن کریم کو حفظ کرلیتے ہیں۔ قرآن کریم سے پہلے جو آسمانی کتابیں(زبور، توریت اور انجیل) تھیں، اس کے صرف چند ہی لوگ حافظ ہوتے تھے، پھر مرور زمانہ کے ساتھ اس میں تحریف واقع ہونے لگیں اور وہ کتابیں اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہیں، مگر یہ قرآن کریم کا معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا، کیونکہ اس کی حفاظت یاد کرنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف شکلوں سے کی جاتی ہے۔

احادیث شریفہ جو اصلا قرآن کریم کی شرح ہیں، کیونکہ آیت کریمہ {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ} [النحل: 44]کہ ہم نے ذکر یعنی قرآن کریم کو نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تبیین کریں یعنی آپ لوگوں کے سامنے بیان کریں تو آپ کے اقوال، افعال اور تقریرات یہی حدیث ہیں، وہ بھی اپنی اصل کی طرح باقی رہیں گی، اس کی حفاظت بھی تکوینی نظام کے تحت ہوئی، جیسے قرآن پاک ضبط و تحریر کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا گیا ۔ اسی طرح حدیث پاک کو صحابہ و تابعین کرام اور محدثین عظام کے ذریعے لکھوا کر محفوظ کیا گیا ۔ اور یوں قرآن اور اس کی تبیین و تفسیر دونوں کی حفاظت مکمل ہوئی جس کی ذمہ داری خود اللہ احکم الحاکمین نے اپنے ذمے لی تھی ۔

پھر حضرات محدثین رحمہم اللہ نے جس طرح جان جوکھوں میں ڈال کر ایک ایک حدیث کو جمع کیا اس کی داستان طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے احادیث مبارکہ لکھنے، اساتذہ کی کتابوں اور احادیث کے مجموعوں کو نقل کرنے کے بھی قواعد و ضوابط مرتب کئے اور اس میں ایسا محتاط طریقہ اختیار کیا جو ان کی صداقت و دیانت کی ایک واضح برہان ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے  بہت بعد پہلی صدی کے ختم کے قریب اس کی تدوین کا عمل شروع ہوا، چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے حکم سے ابن شہاب زہری رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کے ذریعے یہ کام انجام پایا، گرچہ حضور کے زمانے میں بھی چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم احادیث کو جمع کرتے تھے، شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے لکھنے سے منع فرمادیا تھا بعد میں اس کی اجازت دی گئی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تدوین حدیث کا کام اتنا تاخیر سے کیوں شروع ہوا، پہلے کیوں نہیں ہوا، اس میں یہ بھی گمان ہے کہ احادیث کو گھڑ لیا گیا ہو، یہ تمام بحثیں علمائے کرام نے کتابوں میں لکھ دی ہیں، تدوین حدیث کے سلسلے میں وہ کتابیں کافی ہیں ان کے مطالعہ سے وہ تمام اشکالات دفع ہوجائیں گے جو ذہن کے کسی بھی گوشہ میں پیدا ہورہے ہیں۔

جن ائمہ کرام نے حدیث شریف کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور ہمیشہ اس کی خدمت کرتے رہے، اس کو زبانی یاد کیا پھر کتابی شکل میں اس کو مرتب کیا، ان کے مختلف القاب ہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔

اللہ تعالی رب العزت نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حافظہ بہت قوی بنایا تھا، وہ اپنے حافظے کی مدد سے حدیث کو بیان کرتے تھے، لیکن حدیث شریف کو بیان کرنے میں بہت احتیاط کرتے تھے، ان کے پیش نظر ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان رہتا تھا: "من كذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار" کہ جس نے جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ گھڑا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، اسی وجہ سے بعض صحابہ کے سامنے اگر کوئی حدیث بیان کرتا تو وہ اس سے اس پر گواہ طلب کرتے کہ یہ حدیث ہے۔

تدوین حدیث کے بعد جب ائمہ کرام نے حدیث کی کتابوں کو لکھنے کا سلسلہ شروع فرمایا تو اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ -1 جامع :-2 سنن :3 مستخرج :-4 مستدرک :-5 مسند :-6 معجم :-7 الجزء:-8 اربعین :-9 کتب علل :-10 اطراف :-11 مسلسل، اس كے علاوه  اور بھى قسميں هيں جس کو اصول حدیث کی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے۔


اللہ رب العزت نے محدثین کا حافظہ بہت ہی قوی بنایا تھا، امام بخاری کا حافظہ ضرب المثل تھا، ان کے بہت سے واقعات کتابوں میں درج ہیں، انہوں نے ایک لاکھ صحیح احادیث اور دو لاکھ غیر صحیح حدیثوں کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب "الجامع الصحیح" کو تیار کیا جو آج صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہے، اسی طرح امام مسلم نے تین لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے صحیح مسلم لکھی، امام احمد بن حنبل، ابو زرعہ رازی، الحاکم ابو عبد اللہ اور دیگر ائمہ کتب حدیث نے حدیثوں کو زبانی یاد کیا، یہ تمام واقعات مختلف کتابوں میں درج ہیں۔

اب محدثین کے جو القابات ہیں اس کو بیان کیا جاتا ہے۔

محدثین کے القاب

۱) امیرالمؤمنین فی الحدیث: حدیث "خُلَفَائِي مِنْ بَعْدِي" سے یہ اصطلاح ماخوذ کی گئی ہے۔ محدثین میں یہ اعلی ترین مقام ومرتبہ اور لقب ہے۔معاصرین کے مقابلے میں جوحدیث اور علل حدیث میں اپنے حفظ ، اتقان اور گہرائی میں لاثانی ہو۔ اور متاخرین کے لئے بھی وہ مرجع بن جائے، مثلاً: ابو الزناد عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ذکوان المدنی(م:۱۳۰ھ)، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن المبارک، شعبہ بن حجاج الواسطی ، سفیان الثوری(م: ۱٦٠ھ)، احمد بن حنبل، امام بخاری اور امام دارقطنی وغیرہ اپنے اپنے دور کے امیر المومنین فی الحدیث کہلاتے ہیں۔ آج اس لفظ سے مراد امام بخاریؒ ہی لئے جاتے ہیں۔


۲) حافظ: یہ لقب اس محدث کے لئے استعمال ہوا جو روایت ودرایت کا عالم وماہر ہو۔یعنی جو معنی ومفہوم حدیث کو بخوبی جانتا ہو، سند حدیث پر گہری نظر ہو اورحدیث کے رواة کی جرح وتعدیل کا ماہر نیز ضعیف وصحیح حدیث میں فرق کرنا بھی جانتا ہو۔ جس نے شیوخ سے براہ راست علم حدیث حاصل کیا ہو۔ اس کا علم کتابی نہ ہو۔ اسے وہ اسانید متن سمیت ضرور یاد ہوں اور لکھی ہوئی بھی ہوں جن کی صحت پر علماء نقاد نے اعتماد کیا ہو یا جن رواة میں انہوں نے اختلاف کیا ہو۔ جیسے امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحییٰ بن معین اور امام بخاری رحمہم اللہ یگانہ روزگار حفاظ محدثین میں سے تھے۔ 


حافظ ابن حجر ؒ (النکت۱٦٨/١) میں لکھتے ہیں:

 حافظ حدیث ہونے کی چند شروط: یہ شروط جب کسی محدث میں جمع ہوجائیں تو وہ حافظ کہلانے کا مستحق ہے۔

الف۔ طلب حدیث میں شہرت ایسی ہو کہ رجال حدیث سے براہ راست احادیث سنی ہوں نہ کہ صحف سے احادیث لی ہوں۔

ب۔ رواة حدیث کے طبقات اور ان کے مراتب کی صحیح معرفت رکھتا ہو۔

ج۔ تجریح وتعدیل کی بھی اسے پہچان ہو، اوراپنے بکثرت حافظے اور متون کے استحضار کے ساتھ صحیح وسقیم میں تمیز کرنا کرناجانتا ہو۔


۳) حاکم: جو تمام احادیث کا سندی اور متنی اعتبار سے اور جرح وتعدیل وتاریخ کے اعتبار سے احاطہ کرچکا ہو۔ جس سے علم حدیث کا بہت کم حصہ ازبر ہونے سے رہ گیا ہو۔ جیسے صاحب مستدرک حاکم ابو عبد اللہ۔

 ٤) حجۃ: اسے تین لاکھ احادیث سند سمیت یاد ہوں اور احادیث کے ہر نکتہ پر اس کی گہری نظر ہو کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف۔

۵) مُتْقِن: ضابط کو ہی کہتے ہیں۔ وہ جو ہر بات بڑی پختگی سے کرتا ہو اور اس پختگی میں کمزوری یا غلطی نہ ہو۔


٦) محدث: کسی بھی حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ دینا کہ صحیح ہے یا ضعیف۔ حفظ حدیث اور فہم وعرفت کا متقاضی ہے۔جو محدث حفظ کے ساتھ اپنی فہم وذکاء اور معرفت کو اس موقع پر نمایاں کرتا ہے وہ واقعی محدث کہلانے کا مستحق ہے ورنہ نہیں۔ خواہ اس نے کتنی ہی احادیث ازبر کیوں نہ کر رکھی ہوں۔ نیز محدثین اپنے فہم ومعرفت میں بھی مختلف درجات کے ہیں۔ کوئی انتہائی اعلی مقام پر فائز ہے اور کوئی ادنی مقام پر۔ اس لئے وقتاً فوقتاً اس کی تعریف میں مختلف آراء لکھی گئیں ہیں۔


علامہ تاج الدین سبکی لکھتے ہیں: محدث وہ ہوتا ہے جو اسانید وعلل کو جانتا ہو اسماء رجال اور سند عالی ونازل سے بھی اسے صحیح معرفت حاصل ہو۔ بکثرت احادیث بطور خاص متون اسے ازبر ہوں۔ اس نے کتب ستہ کے علاوہ مسند احمد، سنن بیہقی اور معجم طبرانی وغیرہ اپنے مشایخ سے سنی ہوں۔ اس کے علاوہ مزید ہزار کے قریب اجزاء حدیثیہ سے بھی شناسا ہو۔ یہ محدث کا کم ترین درجہ ہوگا۔ ان کتب کو سننے کے بعد وہ شیوخ حدیث کے پاس آتا جاتا ہے اور ان سے علل حدیث، وفیات رجال اور مسانید پر گفتگو کرتا ہے تب جا کر وہ محدثین کے ابتدائی درجات میں شامل ہوگا۔ پھر اللہ تعالی جسے چاہے مزید نواز دے۔


علامہ ابن سید الناس کہتے ہیں: ہمارے زمانہ میں محدث وہ ہے جو حدیث کی روایت ودرایت میں مشغول ہو۔ اور رواۃ کے حالات کو جمع کرتا ہو۔ اور اپنے زمانے کے رواۃ وروایات پر اس کی دسترس ہو۔ اس میں وہ دوسروں سے ممتاز اس وقت ہوتا ہے جب حدیث میں اس کا خط پہچان لیا جائے اور وہ ضبط حدیث میں مشہور ہوجائے۔


علامہ زرکشی کہتے ہیں: فقہاء کی طرف سے محدث اسے نہیں کہا جاتا جو سند حدیث کو یاد کرلے اور اس کے راویوں کی تعدیل وتجریح کردے اور سماع سے کم پر اکتفاء کرلے۔


محدثین کے نزدیک محدث وہ ہے جو حصول علم کے بعد ہر عالم کی جمع شدہ روایات حدیث کا بھر پور مطالعہ کرے۔ وہ بیشتر روایات اور رواۃ سے بھی واقف ہو۔ ان کے مابین امتیاز کرنا بھی جان لے دیگر علماء کے ہاں اس کا حفظ بھی معروف ہو۔ ضبط میں بھی اسے شہرت مل گئی ہو۔اس کی اکثر روایات صحیح ہوں اور متون کو یاد رکھنے کے ہمراہ وہ راویوں کے حالات، طبقات اور مراتب سے بخوبی واقف ہو۔ وہ روایت اور درایت سے بھی آگاہ ہو محدث کہلاتا ہے۔


حدیث شریف کو حفظ یعنی زبانی یاد کرنے کا رواج ہر زمانہ میں رہا ہے، مرور زمانہ کے ساتھ جبکہ قوت حفظ میں کمی واقع ہوگئی ہے، مگر یہ عمل ہر دور میں رہا ہے حتی کہ ماضی قریب میں بھی ایسے بہت سے علماء گزرے ہیں جنہوں نے احادیث شریفہ  كا بہت بڑا حصہ زبانى ياد كيا۔


تذکرہ علمائے ہند (صفحہ ١٧٦) کے مصنف نے کشمیر کے بابا داود مشکاتی کے بارے میں لکھا ہے کہ انہیں مشکاة شریف زبانی یاد تھی، جو گیارہویں صدی کے علمائے نامدار سے تھے، فقہ و حدیث اور حکمت و فلسفہ میں بڑی دسترس رکھتے تھے، ١٠٩٧ھ میں ان کی وفات ہوئی۔


اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے پوتے فرخ شاہ کے بارے میں مولانا عبد الحیی رائے بریلوی (والد مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ) نے الثقافة الإسلامية في الهند (ص:١٣٩) میں لکھا ہے کہ انہیں ستر ہزار حدیثیں متن اور سند اور جرح وتعدیل کے ساتھ یاد تھیں۔


 امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا حافظہ ضرب المثل تھا، وہ جب مدرسہ امینیہ دہلی میں پڑھاتے تھے تو ایک اہل حدیث سے ان کا مناظرہ طے ہوا، بات یہ طے ہوئی  کہ حدیث شریف کی سب سے صحیح کتاب بخاری شریف زبانی سنائی جائے، پہلے وہ تیار نہیں ہوا، جب شاہ صاحب نے پہلی حدیث سے پڑھنا شروع کیا تو ایک پارہ مکمل ہونے پر جب آنکھ کھولی تو دیکھا وہ مناظر صاحب بھاگ کھڑے ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ شاہ صاحب بھی بخاری شریف کے حافظ تھے، یہی وجہ تھی کہ درس میں آپ کے سامنے بخاری شریف نہیں ہوتی تھی مگر کوئی طالب علم عبارت خوانی میں غلطی کرتا تو فورا اسے ٹوک دیتے۔


شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ درس بخاری کے وقت اس کی شرح ارشاد الساری جو قسطلانی کے نام سے مشہور ہے اس کو سامنے رکھ کر درس دیتے اور خود عبارت پڑھتے، جبکہ اس کی عبارت اور شرح قدیم نسخہ میں بالکل ملی ہوئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھی بخاری شریف کے حافظ تھے۔


ابھی بالکل قریب کے ایک عالم مولانا حافظ عبد اللہ درخواستی (١٩٠٦-١٩٩٤) جو بہاولپور کے قریب بستی دین پور کے نواحی علاقے کے رہنے والے تھے، ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہیں ایک لاکھ احادیث زبانی یاد تھی، علامہ کشمیری نے اپنے سفر بہاول پور (١٩٣٢ء) کے دوران ملاقات پر انہیں حافظ الحدیث کا لقب دیا تھا۔ 

آج بھی عربوں کے یہاں بعض جامعات میں حفظ حدیث کا رواج ہے، اور اگر کوئی شخص ہمت کرے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوگی اور وہ حدیث کی کتابیں مشکاة المصابيح یا بخاری شریف کو زبانی یاد کرسکتا ہے، وما ذلك على الله بعزيز

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حدیث شریف کی خدمت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور اپنے خوش نصیب بندوں میں ہمیں بھی شامل فرمائے۔ اور دنیا وآخرت کی کامیابی ہمارا مقدر بنائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے