شيخ الهند مولانا محمود حسن ديوبندى

 

شيخ الهند مولانا محمود حسن ديوبندى

 عبید اللہ شمیم قاسمی

آج ٣٠/ نومبر ہے ، آج ہی كے دن ٣٠/ نومبر ١٩٢٠ء كو حضرت شيخ الہند مولانا محمود حسن ديوبندى رحمه الله كا انتقال ہوا، آپ كے انتقال كو آج سو سال مكمل ہوگئے، اسی مناسبت سے يہ تحرير ہے، كوئى برسى نہيں مناتے  بلكہ يہ مختصر تحرير اس ليے ہے تاكہ ہم اپنے بزرگوں جن كے ہم نام ليوا ہيں ان كى خدمات كا كچھ تذكره كركے اپنے آپ كو بھى  انہيں كے نقش قدم پر ڈھالنےكى كوشش كريں۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے ان عظیم راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی استعمار کی غلامی کے دورِ عروج میں سورج غروب نہ ہونے والی سلطنت کے غلبہ و استعلا کو نہ صرف یہ کہ خود ذہنی اور شعوری طور پر قبول نہ کیا بلکہ فکر و عمل، جہد و استقامت اور عزم و استقلال کی شمع کو اپنے خون سے روشن کر کے برادرانِ وطن کو آزادی اور استقلال کی اس شاہراہ پر گامزن کر دیا جس پر چلتے ہوئے اس خطہ کے عوام نے غلامی کی ہولناک دلدل کو عبور کر کے حریت کے میدان میں قدم رکھا۔

بلكہ اگر يہ كہا جائے كہ تاریخ ِ ہند جن شخصیات پر بجا طور پر فخر کرتی ہے ،وطن ِ عزیز کا ذرہ ذرہ جن کے احسانات کو تسلیم کرتا ہے، باشندگان ِ ہند جن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے،علم وعمل کا قافلہ، فکر ونظر کا کارواں کبھی جن کی قافلہ سالاری سے اپنے آپ کو بے نیاز نہیں کرسکتا، مسند درس وتدریس کے اساتذہ ،علوم ِ فقہ وحدیث کے شناور کبھی اس کی نکتہ آفرینیوں سے بے پرواہ نہیں ہوسکتے، تفسیر ِ قرآن میں غوطہ زنی کرنے والے کبھی اس کی صدف ریزیوں اور نکتہ سنجیوں سے نا آشنا نہیں رہ سکتے، تو وہ عظیم المرتبت شخصیت میرکارواں، بطل حریت، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ ہیں۔ کمالات کے جامع ،خوبیوں کے پیکرحضرت شیخ الہند ؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، اور اللہ تعالی نے ایک فرد سے تاریخی، انقلابی، پوری ایک جماعت کا عہد ساز کام لیا۔شیخ الہندؒ کی شخصیت پر بے شمار اربابِ علم وفضل نے خامہ فرسائی اور عقیدت ومحبت سے بھرپور خراج ِ عقیدت پیش کیا، آپ نے علم وفضل اور تاریخ ساز شاگردان ِ باصفا کی ایک پوری جماعت تیار کی جس نے نہ صرف ہند میں علم کے موتی لٹائے بلکہ عالم ِ اسلام میں اپنی عظمت واہمیت کا لوہا منوایا اور آپ کا ہر شاگرد اپنے دورکا امام ،مرجع ِ خلائق ،مرکز علم وفضل رہا۔ آپ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒکے علوم کے پیکر، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒکے کمالات کے مظہر، سیدالطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی ؒ کے فیوض وبرکات کاعکس ِ جمیل تھے۔

شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ديوبندى کا تعارف دیوبند کی فکری اور علمی درس گاہ کے پہلے طالب علم کی حیثیت کرایا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دیوبند کے قصبہ کی مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے زیر سایہ ۱۸٦٦ء کے دوران قائم ہونے والے دینی مدرسہ کے پہلے طالب علم تھے اور اس سبقت کا تاج سعادت آپ کے سر پر حسن و خوبی کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ مگر شیخ الہندؒ کا اصل تعارف یہ ہے کہ وہ ان آہوں، تمناؤں، آرزوؤں، سحر خیز دعاؤں اور آنسوؤں کا ثمرۂ طیبہ تھے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس خطۂ زمین میں دین اسلام اور ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں پریشان و مضطرب ہزاروں کڑھتے جلتے دلوں اور جل تھل آنکھوں سے رواں دواں تھے۔ دیوبند ایک علمی، فکری اور سیاسی تحریک کا عنوان ہے اور اس عنوان کے ساتھ اگر کسی شخصیت کو ایک جامع اور مکمل علامت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے تو وہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی ذاتِ گرامی ہے۔

آپ کی تعلیم کا آغاز 6 سال کی عمر میں ہوا۔ عربى اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے چچا مشہور عالم دین مولانا مہتاب على سے پڑھیں۔ قدورى اور شرح تهذيب پڑھ رهے تھے كہ دارالعلوم كا قيام عمل ميں آيا ، آپ اس ميں داخل هوگئے، آپ دارالعلوم کے پہلے طالب علم تھے۔ آپ كے اساتذه ميں  حضرت ملا  محمود ديوبندى، حضرت مولانا سيد احمد دهلوى، مولانا محمد یعقوب نانوتوی نام شامل هے اس كے علاوہ  حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی كى خدمت ميں ره كر علم حديث كى تكميل فرمائى، آپ كا شمار حضرت نانوتوى كے ممتاز تلامذه ميں هوتا تھا، حضرت نانوتوى آپ پر خاص شفقت فرمايا كرتے تھے ۔1290ھ مطابق 1873ءميں حضرت نانوتوى كے دست مبارك سے دستار فضيلت حاصل كى۔


 دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت ِ استاد

فراغت ِتعلیم کے بعد1291ھ میں مدرس چہارم کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا، 1308ھ میں منصب ِ صدرات پر فائز ہوئے۔ آپ کے دورِ صدارت میں دارالعلوم کو عالم گیر شہرت حاصل ہوئی۔آپ کے شاگردوں میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی، حضرت مولانا منصور انصاریؒ، حضرت مفتی کفایت اللہ دھلویؒ ، حضرت مولانا حسین احمدمدنیؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی،ؒ حضرت مولانا اصغر حسین دیوبندیؒ، علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ،حضرت مولانا فخرالدین احمدؒ،حضرت مولانا اعزاز علی ؒ، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، حضرت مولانا سہول احمد صاحب بھاگلپوری ؒ، شيخ التفسير مولانا احمد على لاهورى، ڈاكٹر سيد عبد العلى لكھنوى وغيره جیسے نامور علماء شامل ہیں۔(مشاہیر دارالعلوم دیوبند:27).

حضرت شیخ الہند ؒنے مسلسل چالیس برس تک درسِ حدیث دیا اور اس دوران آٹھ سو اعلی استعداد کے صاحب ِ طرز عالم ِدین ،فاضل ِ علوم اورماہرین ِ فنون پیدا کئے، ايسے نامور تلامذه دارالعلوم ديوبند كى تاريخ ميں كسى كے نہيں هوئے ہر ايک اپنى ذات ميں ايک انجمن تھا۔ بانی ٔ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ بھی آپ کے تلامذہ میں تھے۔


 جدوجہد ِ آزادی میں کردار

حضرت شیخ الہند ؒ کا ایک بڑا احسان مسلمانان ِ ہند پر بالخصوص یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادی کے لئے نچھاور کردیا اور صعوبتوں کو جھیل کر، قربانیوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے جہد ِ مسلسل کرتے رہے اور اپنی بے مثال وتاریخ ساز قیادت کی ایمان افروز و حوصلہ افزا داستان رقم کی، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ آزادی ٔ وطن کے لئے حضرت شیخ الہند ؒمیں جو جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس پر تفصیلی روشنی حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ڈالی ہے ،چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ نے لکھا ہے کہ: ہنگامہ ٔ انقلاب ِ آزادی 1857ء میں واقع ہوا، 57ء کے واقعات کو اگرچہ صغر سنی کی وجہ سے پوری طرح نہیں دیکھ سکے تھے،مگر اجمالی طور سے یاد تھے، بڑ ے ہونے کے بعد اپنے والدین ماجدین اوراساتذہ اور گردوپیش سے وہ انسانیت سوز مظالم اور درندگی وبربریت کے معاملات جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ کئے تھے سنتے اور معلوم کرتے رہے۔۔۔۔۔حضرت شیخ الہند میں ان دونوں ( حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ) بزرگوں اور بالخصوص حضرت نانوتوی ؒ کی صحبت اور شاگردی اور خدمت کی وجہ سے وہ تمام حالات جن کی وجہ سے انقلاب 57ء کی کوششیں ہندوستانیوں نے کی تھیں اور وہ واقعات جو اس جنگ آزادی میں پیش آئے تھے معلوم ہوکر محفوظ ہوگئے تھے، جن کی بناء پر وہ جذبہ ٔ حریت وایثار اور اس کی آگ اور امورِ حکومت پر تنقیدانہ نظر پیدا ہوگئی تھی کہ جس کی نظیر بجز قرون اولی عالم ِ اسلام میں پائی جانی تقریبا ممتنع ہے۔۔۔انگریزی حکومت اورہندوستان کے ان کے واقعات نے مجبور کیا کہ اپنی جان کو ہتھیلی میں رکھ کر جدوجہد عمل میں لائی جائے اور کسی قسم کے خطرہ کوبھی مرعوب یا متاثرکرنے کاموقع نہ دیا جائے۔(نقش ِ حیات:154)۔


تحریک ِ ریشمی رومال 

تحریک ِ آزادی کی ایک اہم اور تاریخ ساز تحریک’’ ریشمی رومال‘‘ہے اس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ 1913ء ابتدا تھی ،عالم ِ اسلام کے مختلف خطوں پر برطانوی ظلم ومداخلت کا سلسلہ بڑھتا جارہا تھا، 1914ء میں جنگ ِ عظیم شروع ہوئی ،جس میں دولت ِ عثمانیہ کو زبردستی گھسیٹا گیا اور اس کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے، ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشددکا رویہ اپنایاجانے لگا،حضرت شیخ الہند ؒ نے اس موقع پر تحریک ِ جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کیا،یہی تحریک بعد میں *’’ریشمی رومال‘‘* کہلائی۔ ان حالات میں شیخ الہند ؒ نے انگریزوں کے خلاف بغاوت اور بیرونی مدد سے یاغستانی آزاد قبائل کی طرف سے ملک پر حملے کے پروگرام کوعملی شکل دینے کے لئے مولانا عبید اللہ سندھی کو کابل بھیجا۔۔۔مولانا عبید اللہ سندھی ؒکام کی صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لئے ایک ریشمی رومال پر حضرت شیخ الہندؒ کے نام ایک خط لکھا،جس میں پوری کار گزاری، آئندہ کے منصوبوں،حملہ مورچوں اور دیگر تفصیلات کا ذکر تھا۔ یہ خط 10جولائی 1916ء کو مولانا سندھی ؒ نے اپنی تحریک کے ایک معتمد شخص عبد الحق کے سپرد کیا کہ وہ اسے مولانا عبد الرحیم سندھی تک پہنچادے ،جو اسے مدینہ منورہ پہنچادیں گے ،( جہاں شیخ الہند ؒ تھے) مقدر کا فیصلہ تھا کہ اس تحریک کا راز فاش ہوگیا، عبد الحق راستے میں رب نواز نامی انگریز حکام کے ایجنٹ کے پاس رکا، اس نے کسی طرح یہ خط حاصل کرلیا اور انگریز حکام کے سپرد کردیا۔ اس تحریک کے انکشاف نے انگریز حکومت کی نیند اڑادی ،پھر تفتیش کا طویل سلسلہ شروع ہوا، شریف ِمکہ کے ذریعہ ترکوں سے متعلق ایک فتوی کو بہانہ بناکر حضرت شیخ الہند کو گرفتار کرکے مالٹا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا ،یہ قید بامشقت تین سال سے زائد عرصے پر محیط رہی ۔1920ء میں شیخ الہند ؒمالٹاسے رہا ہوکر وطن روانہ ہوئے، اور 20/ رمضان المبارك 1338 ھ مطابق 8/جون 1920ءكو ممبئى كے ساحل پر اہل ہند كے ايک بہت بڑے مجمع نے آپ كا استقبال كيا، اس كے بعد آپ كو سپاس نامہ پيش كيا گيا، اور شيخ الهند كا لقب ديا گيا۔( مستفاداز: حضرت شیخ الہند:شخصیت ،خدمات وامتیازات:18،تحریک ِ آزادی میں مسلم عوام اور علماء کا کردار:83)۔

 وفات حسرت ِ آیات

1268ھ بمطابق 1851ء کو اترپردیش کے شہر بریلی میں حضرت مولانا ذو الفقار على صاحب كے يہاں پیدا ہونے والے اس بطل جليل كى زندگى كا آفتاب 30نومبر1920ء،مطابق18ربیع الاول1339ھ بروز منگل کو غروب ہوگيا۔ دیوبند میں اپنے استاد جلیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے پہلو میں سپردِ خاک کئے گئے ۔

الله تعالى آپ كى قبر پررحمتيں نازل فرمائے۔

شيخ الهند مولانا محمود حسن ديوبندى 1339-1268ھ/1851-1920ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے