اکیلے تھے مگر آباد کردیتے تھے ویرانے



اکیلے تھے  مگر آباد کردیتے تھے ویرانے


آہ! والد صاحب نوراللّه مرقدہ

تاریخ و فات ۱۲ ربیع الاول ۱۴۳۹ھ مطابق ۳۰  نومبر ۲۰۱۷ء بمقام مکۃ المکرمہ  تدفین  جنت المعلی قبر نمبر ۲۰۷  بلاک نمبر ۵


مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری ✍️

نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ


ربّ کائنات کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ابتدائے آفرینش سے ہی جب اس دنیا کو عدم سے وجود بخشا تو صاف لفظوں میں اعلان کردیا کہ اے انسانوں یہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں بلکہ میں نے اسے تمہارے لیے آخرت میں ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا ہے اور چونکہ اس دنیائے دنی سے اپنے محبوب کو گذارنا تھا تاکہ ہم اس کے بتائے ہوئے عمل کو اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ بناسکیں، تو اس دنیا کو تھوڑا زیب وزینت بھی بخش دی تاکہ محبوب ربّ کائنات کا استقبال بھی ہوسکے اور انسانوں کے لئے ایک امتحان گاہ بھی.... کہ کون نعمتوں کی رنگینیوں میں رہ کر بھی اپنے منعم کو یاد رکھتا ہے اور کون نعمتوں میں الجھ کر منعم حقیقی کو فراموش کربیٹھتا ہے؟

اسی دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی آئے جو نبی پاک صلی اﷲعلیہ وسلم کی تعلیمات وفرمودات کو یکسر نظرانداز کرکے دنیا کی دلکشیوں میں کھوگئے اور اپنے آنے کے مقصد کو بھول بیٹھے وہ اس دنیا کو ہی اپنی منزل سمجھ بیٹھے اور دنیا کی آرائش وزیبائش میں اتنا محو ہوئے کہ اپنی طرف بڑھتے موت کے پنجوں کی آہٹ کو بھی نہ سن سکے، اور انہیں احساس بھی نہ ہوا کہ دنیا کی دلفریبیوں میں پڑکر انہوں نے کس ربّ ِعظیم کے احکامات کو بھلا دیا، حالانکہ ان کے سامنے ناجانے کتنی کلکاریوں نے اپنی مسکراہٹیں بکھیریں اور نہ جانے کتنے نوحوں کی دلدوز صداوں نے ان کے کلیجوں کو چھلنی کیا اور نہ جانے کتنے ان کے اپنوں کی زندگیوں سے بھرپور کشتیوں کو وقت کے تھپیڑوں نے موت کے اتھاہ سمندر میں غرقاب کردیا، موت کا فرشتہ روزآنہ طائر روح کو ربّ ذوالجلال کے حکم کے پنجرے میں بند کرکے یہ اعلان کرتا رہا کہ.... ان الحکم الاّ اﷲ۔

لیکن نعمتوں میں کھویا انسان اپنے منعم کی یاد کو اپنے اندر سمونہ سکا، جاگا تو تب جب موت سے پہلے کے سناٹے نے اس کی روح کو ہلاکر رکھ دیا، مگر افسوس اب یہ جاگنا کسی کام کا نہ رہا، اس لیے کہ عمر مستعار نے اپنا طے شدہ وقت مکمل کرلیا ، اب سوائے افسوس اور ندامت کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

کاش! وقت رہتے نعمتوں کے دینے والے مالک کو یاد کرلیتا تو کف افسوس نہ ملنا پڑتا....خیر....! اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم دیں!!

وہیں دوسری طرف اسی دنیا میں کچھ اﷲ کے بندے ایسے بھی تھے جنہوں نے گونا گونعمتوں اور آرائشوں کے باوجود ربّ حقیقی سے اپنے تعلقات کو اس قدر استوار رکھا کہ ان کی زندگیاں بہتوں کے لیے راہ عمل بن گئیں، نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے فرمودات کو انہوں نے اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنالیا ، پھر کیا تھا ربّ کائنات نے ساری کائنات کو ان کا خادم بنادیا، اور وہ لوگ مالک حقیقی کی محبت میں سرشار ﷲ کے بندوں کے دلوں میں محبت کی آگ لگاتے چلے گئے اور اپنی زندگی کے ہر لمحہ حیات کو مالک حقیقی پر فدا کرتے ہوئے اس دار فانی کو خیر باد کہہ گئے۔اسی سلسلہ کی اہم کڑی مدرسہ ہذا کے سرپرست ، رسالہ ”فیضانِ اشرف“ کے بانی میرے شیخ ومربی والد محترم محسن الامت حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی محمد عبداللّٰہ صاحب پھولپوری ہیں

 جو ۲۱ربیع الاوّل ۱۴۳۹ھ مطابق ۳۰نومبر  ۲۰۱۷ ء بروز جمعرات بعد نماز فجر مکة المکرمہ میں فانی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف مسکراتے ہوئے کوچ کرگئے”انا للّٰہ وانا الیہ راجعون“ 

حضرت والا صحیح معنوں میں روح تھانوی کے قوی علمبردار، شاہ پھولپوری کے سچے جانشین ، محی السنہ کے تربیت یافتہ اور مجاز، بہترین مربی ومصلح بے مثال مفسر ومحدث، اعلیٰ اخلاق سے مزین، عظیم ملی سرمایہ تھے۔ع:- آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

آپ کی رحلت ایک ذات نہیں پورے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔

بچھڑ ا وہ اس اداءسے کہ رت ہی بدل گئی

 ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

ہم قضاءوقدر کے ہر فیصلہ کو بلاچوں چرا کے تسلیم کرتے ہیں اور غم کی اس تاریکی میں کلمات نبوت سے روشنی حاصل کرتے ہیں


ان للہ مااخذ ولہ ما اعطی و کل شٸ ٕ عندہ باجل مسمی فلتصبر ولتحتسب


 ربّ کائنات حضرت والا کو اپنی شایان  شان جزاءوبدلہ عطاءفرمائیں اور اعلیٰ علیین میں مقام خاص نصیب فرمائیں۔

نیز ہم جملہ اعزہ واقارب خصوصاً والدہ محترمہ اور متعلقین ومحبین کو صبر جمیل عطاءفرمائیں اور حضرت والا کے تمام مشن کو پایہ  تکمیل تک پہونچانے کے لئے قبول فرمائیں۔ (آمین)

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے