آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو



آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو



٣٠/ نومبر وفات مفتی محمد عبد اللہ صاحب پھولپوری


 عبید اللہ شمیم قاسمی


یوں تو مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم سرائے میر کی بنیاد ١٣٤٩ھ میں شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری نور اللہ مرقدہ کے بدست حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے حکم اور مشورہ سے رکھی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ اسے اپنا مدرسہ کہتے تھے۔ مگر اسے ظاہری ترقی مادی اور تعلیمی اعتبار سے حضرت مفتی محمد عبد اللہ صاحب پھولپوری رحمہ اللہ کے دور میں ملی، روحانیت کا مرکز تو یہ ادارہ ہمیشہ سے رہا ہے، لیکن حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کے دور میں جس طرح تعمیری اور تعلیمی اعتبار سے ترقی ہوئی اسے مدرسہ کا زریں دور کہا جائے گا۔

 مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم سرائے میر کو روز اول سے بزرگان دین کی سرپرستی رہی ہے، اور بڑے بڑے اساتذہ علم و فن کی خدمات بھی حاصل رہیں، امام المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جون پوری، حضرت مولانا مفتی محمد سجاد صاحب جون پوری، حضرت مولانا عبد القیوم صاحب بکھراوی، حضرت مولانا سعید احمد صاحب ہمئی پوری، حضرت مولانا احمد علی صاحب کوئریاپاری رحمہم اللہ اور اس طرح کے بہت سے علماء کرام جو علم و فن کے آفتاب وماہتاب تھے، اس ادارے کو نیک نامی اور شہرت کے بام عروج تک پہنچایا۔ لیکن حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے دور میں جو تعمیراتی اور تعلیمی ترقی ہوئی آج وہ نظروں کے سامنے عیاں ہے، چاہے مسجد نذیر کی توسیع ہو یا عالیشان دارالحدیث کی تعمیر یا مختلف دارالاقاموں کا اضافہ ہو یہ سب مفتی صاحب کے زمانے کی زندہ یادگار ہیں۔

اسی طرح تعلیمی اعتبار سے مختلف درجات کا اضافہ تکمیل ادب، تکمیل افتاء اور تخصص فی الحدیث یہ سب مفتی صاحب کے زمانے میں ہوا۔ طلبہ کی تعداد میں اضافہ اساتذہ وملازمین کا اضافہ یہ سب گذشتہ چند سالوں میں ہوا۔

آج ہی کے دن ٣٠/ نومبر ٢٠١٧ھ بروز جمعرات مطابق ١٢/ربيع الأول ١٤٣٩ھ صبح پانچ بجکر چالیس منٹ پر حضرت مفتی صاحب کا  مکہ مکرمہ کے مستشفی النور میں انتقال ہوا تھا۔ اللہ تعالی آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس کے اعلی مقام میں جگہ نصیب فرمائے۔


حضرت مفتی صاحب کی پیدائش ہمارے گاؤں آنوک میں 1961ء میں ہوئی تھی، جہاں آپ کی نانیہال تھی، بچپن کا کچھ حصہ بھی وہاں گزرا۔

آپ کا نسب اس طرح ہے:

ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﺒﺮﮐﺎﺕ ‏(ﻋﺮﻑ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﺎﺑﻮ‏) ﺑﻦ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻐﻨﯽ ﺑﻦ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻮﮨﺎﺏ ﺑﻦ ﺷﯿﺦ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺍﻟﻠﻪ ﮨﮯ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﻣﺎﻧﺖ اللہ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﻭﺭ ﻭﻟﯽ ﮐﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ، ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﺻﻼﺣﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺮﺯﺍ ﻣﻈﮩﺮﺟﺎﻥ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﻮﺍﺩﮦ ﺗﺼﻮﻑ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ۔


آپ کی ولادت پر آپ کے دادا حضرت پھولپوری نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ: 

"ﯾﮧ ﺑﭽﮧ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﺎﻧﺸﯿﻦ ﮨﻮﮔﺎ." 

ﯾﮧ ﭘﯿﺸﯿﻦ ﮔﻮﺋﯽ ﺣﺮﻑ ﺑﺤﺮﻑ صحیح ہوئی۔


الله رب العزت نے حضرت مفتى صاحب كو بہت سى خصوصيات سے نوازا تھا، آپ تقوى وللہيت كے بلند مقام پر فائز تھے، ہزاروں تشنگان آپ كے دامن تربیت سے وابستہ ہوكر راه راست پر آگئے، آپ كے علمى مرتبہ كو جاننے كے لیے يہ كافى ہے كہ آپ مدرسہ اسلاميہ بيت العلوم سرائے میر كے ناظم اعلی کے ساتھ شيخ الحديث ، اور صدر مفتى تھے۔ 

اسى كے ساتھ آپ بلند اخلاق كے حامل تھے، هر ایک سے خنده پيشانى سے پيش آتے، اور شفقت کا معاملہ فرماتے، چونكہ ہمارے گاؤں ميں مفتى صاحب كى نانیہال تھى اس وجہ سے آپ كے يہاں حاضرى کا كوئى بہت زياده ضابطہ نہيں تھا۔

 ميں نے جب شعور كى آنكھيں كھوليں اس وقت حضرت مفتى صاحب كى شہرت بام عروج پر تھى، جب كبھى بھى حاضرى هوتى تو آپ بہت شفقت كا معاملہ فرماتے، فردا فردا گھر کے تمام افراد كى خيريت دريافت فرماتے، ادهر اخير ميں مدرسہ كے بارے ميں بھى دريافت فرماتے۔

كئى مرتبہ ايسے وقت حاضرى هوئى جو ملاقات كا وقت نہ تھا لیکن اس كے باوجود ملاقات كے ليے بلاتے، ایک مرتبہ رمضان المبارک كے مہینہ ميں  جمعہ كے بعد گرمى كا زمانہ تھا آپ كے يہاں مدرسہ كی مسجد ميں جانا ہوا جہاں آپ معتكف تھے، خادم نے بتلايا حضرت اندر آرام كررهے ہيں، کسی طرح آمد كی اطلاع كی فورا اجازت مرحمت فرمائى، اور وه كام بہت ہی خنده پيشانى كے ساتھ پورا كيا۔

اسى طرح 13/ نومبر 2014ء كى بات هے ميرے يہاں بچى كى پيدائش تھى ڈاكٹر نے كہا كہ آپريشن كے بغير چاره نہيں، اتفاق سے اس روز آپ كى آنوک آمد ہوئى تھى فورا خدمت ميں حاضر ہوا اور مدعا بتلايا آپ نے دعا بتلائى جس كى وجہ سے الله كے فضل وكرم سے ولادت كا مرحله آسان ہوگيا۔


حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کو ادھر چند سالوں سے کئی بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، لیکن وہ حوصلہ کی چٹان تھے، کبھی ان بیماریوں سے گھبراتے نہیں تھے، اسی طرح ہشاش بشاش سب سے ملنا جلنا، تمام امور انجام دے رہے تھے حتی کہ عمرہ کے سفر پر روانہ ہوگئے، وہاں ارکان کی ادائیگی وغیرہ سے فارغ ہوچکے تھے، اگلے روز مدینہ منورہ جانا تھا مگر آپ ہمیشہ کے لیے رب کے حضور پہنچ گئے۔

اور ایک بہت بڑے حلقے کو اپنے پیچھے روتا بلکتا چھوڑ کر دار آخرت کی طرف روانہ ہوگئے، اور سرخیل جماعت علماء دیوبند حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ کے پہلو میں آسودہ خواب ہوئے۔

 آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

 گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے