٦ دسمبربابری مسجد کی شهادت يوم سیاہ بھی اور یوم احتساب بھی

 

٦ دسمبربابری مسجد کی شهادت يوم سیاہ بهی..اور یوم احتساب بھی



مفتی عمیر احمد القاسمي

انسانی تاریخ میں کچھ ایام ایسے بھی ہیں جنہیں بھلانا، ذہن سے نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، ہزار کوششیں کریں لا جتن کریں مگر

وہ وحشت بھر ے مناظر آنکھوں کے سامنے ظلم و بربریت کا ننگارقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہیں تاریخ میں سے ایک تاریخ ٦دسمبر بھی ہے کہ اس دن قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں ظلم و بربریت کے تمام ہتکنڈے اپنائے گئے محافظ ہی عزت و آبرو کےلٹیرے بن گئے اہل اقتدار جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ظالموں کی صفوں میں دست بستہ نظر آئے، اس روح فرسا واقے کو رونما ہوئے آج ۲۸ سال کا عرصہ بیت چکا ہے، اِس وقت بچے جوان، جوان بوڑھے اور بوڑھے قبروں کو سدھار گئے مگر وہ دن آج بھی اسی طرح اداسیاں سسکیاں، آہیں بے بسی اور بے حسی لئے حاضر ہوتا ہے۔ ۳۸ سال قبل یہی دن تھا اور ہر طرف آہ و بکا کی صداؤں اور دل خراش چیخوں سے پورا ہندستان دہل چکا تھا بکھرے ہوئے انسانی اعضاء ، 

سڑی ہوئی لاشیں اور جلے ہوئے انسانوں سے شہر کی فضائیں متعفن ہو کر یہ صدائے بلند پیش کر رہی تھیں۔


کہاں ہے ارض وسماں کامالک

کہ چاہتوں کی رگیں کریدے


ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے


ارے کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے کوئی تو چارہ گری کواترے

افق کا چہرہ لہو میں تر ہے زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے


گھروں اور دوکانوں پر دوڑتے رولر اور بلڈوزر قیامت کا منظر پیش کررہے تھے ، گاؤں دیہاتوں اور قصبوں سے اٹھتے دھوؤں کے مرغولے انسانیت کو منہ چڑارہے تھے حیوانیت عریاں ناچ رہی تھی لاقانونیت کا عفریت سراپا رقص تھا، یہ سب ٦ دسمبر ۱۹۹۲ء کومیرے پیارے ملک ہندوستاں میں ہورہا تھا مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کوملک دشمن عناصروں نے شہید کر دیا تھا، اللہ رب العزت والجلال کے مقدس گھر کوگرایا گیا تھا۔

جی ہاں میں وہی بابری مسجد ہوں جس کو ١۵۲۸ء میں شاہ بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے اجودھیا کی ایک مرتفع زمین پر بنوایاتھا اس وقت سے لے کر ١٨۵۵ء تک بغیر کسی تنازع کے وہ مسجد ہی رہی اور بلا انقطاع اس میں با قاعدہ نماز ہوتی رہی ۔ در اصل برطانوی عہدحکومت میں انگریزوں نے اس مسجد کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑا کہ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ رام چندر جی یہیں پیدا ہوئے تھے، پھر اس زمانہ میں جو غیرملکی سیاح اجودھیا آۓ انھوں نے اس انگریزی بیان کے حوالے سے اپنے سفر ناموں میں لکھا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رام چندر جی یہیں پیدا ہوئے تھے۔ اس بیان کے عام ہونے پر برادران وطن کی ایک مختصری جماعت نے مسجد سے باہر ایک چبوترہ بنایا اور وہاں رام جی کی مورتی پوجا شروع کردی۔

١٨٥٥ء میں نرموہی اکھاڑا کی طرف سے فیض آباد کی ضلعی عدالت میں ایک درخواست دی گئی کہ اس چبوتر پرشیڈ ڈالنے کی اجازت دی جائے تا کہ مورتی کی حفاظت بھی ہو سکے اور ہر موسم میں مورتی کی پوجا کرنا آسان رہے۔ نرموہی اکھاڑانے اس درخواست میں یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے پچھم میں ایک مسجد ہے اور پورب میں ایک قبرستان بھی ہے !! لیکن ضلع جج نے درخواست یہ کہ کر مسترد کر دی تھی کہ اس سے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خلل پڑے گا۔

اس وقت سے صورتحال جوں کی توں برقرار رہی۔ مسلمان مسجد میں نماز پڑھتے رہے اور ہندو چبوترہ پر پوجاکرتے رہے یہاں تک کہ ۲۲/ دسمبر ۱۹٤٩ء کی رات آئی جس میں ہندومہاسبھا کے کارندوں نے چبوترہ سے مورتی اٹھا کر مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے رکھدی سنتری نے مزاحمت کی لیکن اس کی مزاحمت کارگر نہیں ہوئی ۔ فجر کی نماز کیلئے مسلمان جب مسجد پہنچے تو یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے، یہیں سے تنازع نے خطرناک شکل اختیار کر لی تو حکومت ہند نے مسجد کو مقفل کر دیا ۔ ۱٦ جنوری ۱۹۵۰ء کو گوپال سنگھ وشاردنےفیض آباد کی عدالت میں مقد مہ دائر کیا کہ مسجد کا تالا کھولا جائے تا کہ پوجاپاٹھ کی جا سکے لیکن ضلعی عدالت نےدرخواست مسترد کر دی ۔ پھر ۱۹۵۹ء میں نرموہی اکھاڑا نے مقدمہ دائر کیا کہ مسجد کی زمیں ان کو دے دی جائے۔ ۱۸ دسمبر ۱۹٦١ء کو سنی وقف بورڈ نے عدالت میں درخواست دی کہ مورتیاں ہٹا کر مسجد کی پوزیشن بحال کی جائے۔

۲۵/ جنوری 1986 کو دنیش چندر پانڈے نے تالا کھولنے کی درخواست دی تا کہ اس میں پوجا پاٹھ کی جا سکے ۔ انکی درخواست منظور کر لی گئی اور مسجد کا تالا کھول کر اس میں ہندو عقیدت مندوں کو پوجا پاٹھ کی اجازت دیدی گئی۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب راجیو گاندھی وزیراعظم تھے۔ پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن ایڈوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ نکال کر اس موضوع کو اس قدر گرمایا کی رام جنم بھومی مسئلہ کانگریس کے ہاتھ سے نکل کر بی جے پی کے ہاتھ میں چلا گیا-

1989ء تک کسی کا کوئی دعوی نہیں تھا کی رام کی جائے پیدائش بابری مسجد کی جگہ پر ہے اسی سال یہ دعوی کیا گیا کہ رام جی ٹھیک اسی جگہ پیدا ہوئے تھے جس کے اوپر بابری مسجد کا درمیانی بڑا گنبد ہے۔ یہ بات میڈیا کے ذریعے اس قدر پھیلائی گئی که برادر وطن جذباتی ہوگئے ۔ بالآخر پورے ملک سے آئے ہوئے ہندوعقیدت مندوں نے ٦/ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد منہدم کر ڈالی ۔ اس وقت ملک کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ اور اتر پردیش کے وزیراعلی کلیان سنگھ تھے۔

مقدمہ ہائی کورٹ میں چلتا رہا اور یہ ساری کاروایاں بھی ہوتی رہیں ۔ مسلمان عدالت عالیہ کی طرف نگاہیں لگائے رہے اور ہندو عقیدت مند دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ پھر ۲٠۱۰ء میں ہائے کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اس کا فیصلہ سنایا اور فیصلہ میں بابری مسجد اور اس سے ملحقہ آراضی کوتین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ مسلمانوں کوبھی مالا ۲۰۱۰ء میں تمام فریقوں نے عدالت عظمی سے رجوع کیا۔ اور ۲۰۱۸ تک یہ مقدمہ ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا۔ مصالحت کی کوشش بھی کی گئی جس کے سربراہ جسٹس خلیق اللہ اور شری شری روی شنکر بھی اس کے ایک رکن تھے ۔ لیکن مصالحت کارگر نہیں ہوئی تو ۲۰۱۹ میں عدالت عظمی نے پوری سرگرمی دکھائی اور اگست سے اکتوبر کے اندر ہی تمام فریقوں کے بیانات مکمل کر لئے گئے پانچ رکنی ٹیم نے جس کے سر براہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی تھے 9 نومبر ۲۰۱۹ کواپنا فیصلہ سنادیا۔

مسلمانوں نے بابری مسجد کے حق میں ۱۵۲۸ سے لیکر ۱۹۴۹ تک کے تمام شواہد پیش کئے اور ہندو فریقوں نے انگر یز ی گزیٹر ، سیاحوں کے بیانات اور آستھا کا سہارا لیا حالانکہ یہ تمام چیزیں شہادت نہیں بن سکتیں تو مسلمانوں میں یہ امید جاگی

کہ دلائل اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ بابری مسجد کے حق میں ہوگا لیکن جب فیصل آیا تو یہ سن کر کہ بابری مسجد اور اس کے ملحقہ آراضی رام الابراجمان کو دی جاتی ہے جو 77. 12 ایکڑ ز مین پرمشتمل ہے اور اس کے بدلہ میں حکومت مسلمانوں کو ۵ایکڑ زمین مسجد بنانے کیلئے کہیں اور دے دے۔ ملک کے تمام دانشور اور غیر 

جانب دار افراد 

انگشت بدنداں رہ گئے کہ

یہ کیا ہوا ؟ اور

کیسے ہوا؟

حالانکہ ججوں نے یہ تسلیم کیا کہ (الف) مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی

(ب) اسے باہر کے سپہ سالار میر باقی نے ۱۹۳۸ء میں تعمیر کیا

(ج )۱۹۴۹ء میں غلط طریقے سے مسجد کے اندر مورتیاں رکھی گئی

(د ) ٦ / دسمبر ۹۹۲ مسجد کی مسماری ایک غلط قدم ہے

(ہ ) جہاں نماز پڑھی جاتی ہے وہ سبد ہی ہوتی ہے

(و ) بابری مسجد پرمسلمانوں کے حقِ ملکیت کے دستاویزات درست ہیں

اسکے باوجود فیصلہ رام للا براجمان کے حق میں کرنا نا قابل فہم ہے۔ فیصلہ عدالت عظمی کا ہے اور

مسلمان عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، اس لئے انھوں نے اس فیصلہ پرکوئی ہنگامہ آرائی نہیں کی

مگر یہ کہ بابری مسجد انہدام کے تعلق سے بی آئی کی خصوصی عدالت کا جو فیصلہ آیا اس نے حیرانی میں ڈال دیا، جوگنگا جمنی تہذیب کے اس حسین ماحول میں رہنے والے مسلمانوں کے دلوں پر ایک ایسا نشتر ہے جسے تاریخ انسانی کبھی فراموش نہیں کر پائے گی کیونکہ ۲۸ سال چلے اس مقدمہ کو سی بی آئی عدالت نے ۲۳۰۰ صفحات پرمشتمل فیصلے کو تین منٹ میں سنادیا۔ کورٹ نےکہا سی بی آئی کسی کے بھی خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی ؟ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ تمام مقدمات زیردفعہ ۱۲۰ (بی)

۱۵۳، ١٤٩ ، (اے)۱۵۳» (بی) ۲۹۵،(اے) کے تحت درج ہوئے تھے تو کیا ان دفعات کے تحت کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ملا ؟

عدالت کے بقول جائے وقوع پر صرف موجودگی کی بنیاد پر کسی کو مسجد کے انہدام کے لئے مجرم قرارنہیں دیا جاسکتا کیونکہ سی بی آئی کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی ۔ علاوہ ازیں خصوصی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ مسجد کا انہدام کسی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس وقت وہاں موجودلوگوں کے اچانک رد عمل کے سبب ایسا ہوا تھا۔

دامن پہ کہیں چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

ہم مسجد کی حفاظت نہ کر سکے اس پر ہم اللہ رب العزت و الجلال سے استغفار، معافی اور مغفرت کی درخواست طلب کرتے ہیں۔ اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ ہم تیرے گھر کی تعمیر کے لئے جدوجہد کرتے ر ہنگے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بتائیں گے کہ یہاں مسجد تھی کیونکہ یہ اللہ کا گھر اور پوری امت مسلہ کا قیمتی اثاثہ ہے، یہ کسی ایک مسلک یا فرقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

آخر میں امت مسلمہ سے التجاء ہے کہ اس کے حل کے لئے پر امن قانون اورفطرت دین کے دائرے میں رہ کر جہد مسلسل جاری رکھیں 

ان شاء الله ایک بار پھر آذانیں گونجیں گی تکبیریں کڑکیں گی اور الله اکبر کی زمزمه سنجیوں سے صدائیں بلند ہوگی انشاء اللہ۔

تجھ سے محروی کا غم صدیوں رلاۓ گا مگر 

اپنے دیوانوں کو جینے کا ہنر دے کر گئی


✍️مفتی عمیر احمد القاسمی 

مقیم حال دیوبند 

بتاریخ ۲۰ / ٤/ ١٤٤٢هج 

مطابق ٦ دسمبر/ ۱۲/ ۲۰۲۰ء 

Umairahmadazmi@gmailcom

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے