مسیحائے ملت حافظ شمس الدین کا سانحہ وفات


مسیحائے ملت حافظ شمس الدین کا سانحہ وفات

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

زندگی موت کی تمہید ہے، اس کے تمام ہنگامے، تمام حرکت وعمل، عروج وارتقا اور ادبار وتنزل کے سارے مراحل موت کے سائے میں انجام پاتے ہیں،  زندگی کے قافلے رونما ہوتے ہیں، شاہراہ حیات پر سفر کرتے ہیں، پھر فنا کی منزل پر ان کے سفر کا اختتام ہوجاتا ہے، 

مگر شاہراہ حیات پر گامزن بے شمار قافلوں میں کچھ ایسے بھی ہر دور میں ہوتے ہیں قدم قدم پر جن کے کارناموں کے نقوش ان شاہراہوں کو روشن کرجاتے ہیں، یہ کردار انہیں ظاہری فنا کے سمندر سے نکال کر زندگی کے آسمان پر پہونچا دیتے ہیں، وہ موت کے سائبان میں بھی زندہ رہتے ہیں اور اس کی خوفناک تاریکیوں میں بھی تابندہ رہتے ہیں،  انہیں سعادت مند لوگوں میں اعظم گڈھ کے شمال علاقے کی ایک علم نواز شخصیت ،محترم حافظ شمس الدین بھی تھے، 

اس روئے زمین پر تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ،برتراور اشرف،انسان کی نوع ہے، اس کی برتری کا بنیادی سبب ایمان کے ساتھ ساتھ اس کے کردار کی بلندی،اس کے اخلاق کی عظمت،اس کے ایثار وہمدردی کے وہ اوصاف ہیں

جو اسے فرشتوں کے درجات سے بھی آگے لے جاتے ہیں،

حافظ صاحب کی زندگی مذکورہ اوصاف کا مکمل نمونہ تھی، وہ گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار وعمل کے آدمی تھے، ان کی زندگی

سخاوت و فیاضی کا مظہر اور ہمدردی وغم گساری کا پیکر تھی، 

قدرت نے انہیں مال ودولت سے خوب نوازا تھا،علاقے میں ان کا شمار چند خاص دولت مندوں اور ثروت مند لوگوں میں ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی، ان کی بود وباش،ان کے افعال وکردار اور ان کے افکار و گفتارپر  برستے ہوئے سکوں اور دولت کی بارشوں کا ذرہ برابر اثر نہیں تھا،ورنہ اسی دنیا میں اور اسی سرزمین پر روز مرہ کا یہ مشاہدہ ہے'کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں قدرت نے انہیں نعمتوں سے جہاں نوازا، شہرتوں کی ہلکی سی کرنیں حاصل ہوئیں،مناصب وعہدوں کے ایوانوں میں ان کے قدم داخل ہوئے،وہیں سے مزاج میں تبدیلی، ذہن میں بلندی اور امتیازی حیثیت کا سودا،طبیعت میں عجب وکبر اور سروں پر اپنی برتری کا خمار چھا جاتا ہے،

  لیکن حافظ شمس الدین صاحب کی زندگی ان تمام آلائشوں سے پاک تھی، انھوں نے دولت کو اپنی عیش پرستی میں نہیں بلکہ قوم کی ہمدردی اور ملی خدمات میں استعمال کیا، زندگی کی تمام آسائشوں اور سرمایہ کی فروانی کے باوجود کبھی ان کی انکساری،ان کی تواضع اور ان کی کسر نفسی میں فرق نہیں آیا، ان کے دل میں علم کی بہت عظمت تھی، ان کے دینی مزاج کے علاوہ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ذہن سازی،فکر ی پرورش،نظریاتی پرداخت دینی فضا میں ہی ہوئی تھی، اسی علم کی عظمت کے نتیجے میں علما ءامت سے بھی وہ بہت محبت کرتے تھے،ان کی معاشی کفالت اور دوسری ضروریات کا خیال کرتے تھے،

  ان کی دانست میں اگر کوئی عالم ہوتا اور معاشی لحاظ سے اسے تنگدستی لاحق ہوتی تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کا تعاون نہ کریں، بیسیوں طالب علم ہمیشہ مختلف مدارس میں ان کی کفالت میں علم کے راستے پر سفر کررہے تھے اور اب بھی ان کا سفر جاری ہے، اس کے علاوہ حافظ صاحب کا دولت کدہ قوم اور علاقے کے تنگدست،مفلوک الحال افراد اور دیگر امور میں حاجت مندوں کے لیے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا 

  ان کی ملی اور سماجی خدمات اتنی منظم اس قدر وسیع ہے کہ علاقے میں میر صاحب کا نام اس حوالے سے ایک علامت بن چکا ہے، 

وہ وقت کے عظیم اسکالر اور جلیل القدر عالم دین استاذ محترم حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ کے عقیدت مندوں میں تھے، حضرت مولانا کے زمانے سے ہی انکی توجہ مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں تھی اور مولانا ہی کی وجہ سے اس ادارے میں خطیر مالی تعاون کا انھوں نے آغاز کیا اور اب تک پورے اہتمام سے یہ تعاون جاری ہے، مولانا اعظمی کے عہد میں انھوں نے اپنے بھائی جناب صلاح الدین صاحب کے ذریعے متعدد کمروں کی تعمیر کی،ان کی مدرسہ سے بے پناہ دلچسپی اور محبت کی وجہ سے اور ان کی گراں قدر بے لوث خدمات کی وجہ سے شوری نے پانچ سال قبل انہیں نائب ناظم منتخب کیا، نظامت کے بعد ان کی خدمات مزید بڑھ گئیں، 

جس طرح فیاض ازل نے حافظ صاحب کو علم اور اہل علم کی قدر دانی اور ان حفاظت کے لئے پیدا کیا ہے،اور دینی جذبے سے ان کے وجود کو معمور کیا ہے ،یہی جذبہ،یہی مزاج،اور علم دوستی وانسانیت کا یہی وصف ان کے بھائی جناب صلاح الدین صاحب کے اندر بھی ودیعت کررکھا ہے۔

درمیان میں کچھ حاسدین کیوجہ سے اور مسلسل مولانا علیہ الرحمہ کے خلاف افسانہ طرازیوں اور کذب و افتراء پردازیوں کی وجہ سے وہ مولانا مرحوم سے بدگمان ہوگئے تھے،بلکہ کردئیے گئے تھے مگر شیخ الاسلام کی قیادت بدلنے کے بعد بہت جلد یہ بدلیاں چھٹ گئیں اور مولانا محمد آصف اعظمی ناظم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کے ذریعے حقیقت سے آشنائی کے بعد اور افتراء کا پردہ فاش ہونے کے بعد ان کی دلچسپی ومحبت پہلے کی طرح پھر سے پیدا ہوگئی۔

صلاح الدین صاحب کی علم علماء اور مدارس سے محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ انھوں نے معاشی تمام ذمے داریوں کو اپنے سر لیکر حافظ صاحب کو دینی و علمی اور ملی خدمات کے لئے فارغ کررکھا تھا، حافظ صاحب ہی کے ایماء پر بلکہ دونوں حضرات نے متفق ہوکر دوسال قبل  شیخوپور سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر خالص پور میں لب روڈ پر واقع ایک کڑور روپے کی مالیت کا باغ مدرسے کے نام پر وقف کردیا، ادھر ایک سال قبل گیارہ لاکھ کے بجٹ سے مدرسے میں چند کمرے تعمیر کرائے، اس کے علاوہ وقتا فوقتا مدرسہ جب بھی مالی بحران کا شکار ہوتا یہ دونوں حضرات پورے اہتمام سے تعاون کرتے، 

حافظ شمس الدین صاحب ایک اندازے کے مطابق 1942/کی کسی تاریخ میں میں موضع چھیہیں بلریاگنج میں پیدا ہوئے،مکتب کی تعلیم اردو ناظرہ قرآن اور دینیات وغیرہ گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، بعد ازاں حفظ قرآن کی تکمیل مشرقی یوپی کی مشہور درسگاہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور سے کی، حفظ مکمل کرنے کے بعد عالمیت کے ارادے سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ گئے اور وہاں داخلہ لے کر کچھ عرصہ تک پڑھا بھی،مگر کچھ ناگزیر اسباب کی بنا پر مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور علم کا یہ سفر ادھورا رہ گیا، تاہم علماء کے اوصاف اور نیکی وشرافت،تقوی طہارت ،اخلاص للہیت و عبادت وریاضت اور نمود وریا سے یکسر اجتناب کی صورت میں قلندرانہ شان ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ آخری دم تک رہی، 2/جنوری بروز سنیچر 2021 کو اٹھہتر سال کی عمر میں قوم کے اس سپوت نے  زندگی کی آخری سانسیں لی،اور ہمیشہ کے لیے اس جہان فانی سے عالم بقا کی طرف رخصت ہوگیا، نماز جنازہ بعد نماز مغرب گاؤں کی وسیع وعریض قبرستان میں ادا کی گئی ،جنازے کی نماز مفتی امین صاحب شیخ الحد جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور نے پڑھائی اور علاقے کے تمام مدارس کے اساتذہ علماء نظماء اور اصحاب سیاست کے علاوہ عوام کےمجمع کثیر کی موجودگی میں وہیں مدفون ہوئے ، ایک عرصے کے بعد کسی جنازے میں اتنا بڑا مجمع دیکھا گیا۔یقینا یہ حافظ صاحب کی بے پناہ مقبولیت کی علا مت ہے۔

دنیا نے ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کی ہے'اکثر اس کا یہ کردار نگاہوں کے سامنے آتا رہتا ہے، اسلام بیزار  دنیا دار لوگوں کا تو ذکر نہیں کہ یہی سرزمین ان کے لئے جنت ہے'،مگر وہ لوگ جنہیں اخلاص وایمان کا دعویٰ ہے'ان کا کردار بھی اہل دنیا سے کچھ مختلف نظر نہیں آیا، یہاں بھی کچھ خاص افراد  طبقہ علماء میں ایسے تھے جنھوں نے ان سے مالی منفعت کے حصول میں کسی مرحلے پر بھی کسر نہیں چھوڑی مگر آج جب منفعت کی امیدیں ختم ہوگئیں تو کیا مرض میں عیادت کا فریضہ؟ جنازے میں حاضر ہونا بھی انہیں گوارا نہیں ہوا،

حافظ صاحب اگرچہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کے ظاہری وجود پر موت طاری ہوگئی مگر درحقیقت اپنے کارناموں اور اپنی خدمات کے باعث وہ اب بھی عظمت کے آسما ن پر زندہ ہیں

اور دلوں کی دنیا میں ،احسان شناسوں کے قلوب میں،تاریخ کے سینوں پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔رب دوجہاں ان کی قبر کو انوار سے معمور کردے، ان کی خدمات کا اپنی شان کے مطابق بدلہ عنایت فرمائے، قبر کے تنگ ماحول کو جنت الفردوس کی فضا میں تبدیل فرمائے، 

خدا کی رحمتیں تیری لحد پر سایہ فرمائیں

ہمیشہ تیری تربت پر فرشتے پھول برسائیں

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے