عدل و انصاف:خطبۂ جمعہ برائے26 فروری2021

عدل و انصاف:خطبۂ جمعہ برائے26 فروری2021

خطبۂ جمعہ برائے26 فروری2021

سلسلہ نمبر:61

 الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد قال اللہ تعالیٰ فی القران المجید، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیمٰٓ یاَیُّھَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ  لِلّٰہِ  شُھَدَآئَ  بِالْقِسْطِ  وَلَا  یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ  عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْااِعْدِلُوْاھُوَ اَقْرَبُ  لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ  اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورہ مائد،آیت:۸)

 اے لوگوجو ایمان لائے ہو!اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو، عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو ،جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔

 عدل و انصاف انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، حکمرانوں کا زیور ہے اور قاضیوں کا جوہر ہے ۔ معاشرہ کی سلامتی اور ترقی کا ذریعہ ہے اور اسلام کی تعلیمات کا مرکزی حصہ ہے ، انصاف وہ روشنی ہے جس سے کائنات روشن ہے اور ایسی طاقت ہے جو کمزوروں کو طاقتور بنادیتی ہے ، جس فرد یا سماج سے انصاف ختم ہوجائے وہ بہت عرصہ تک باقی نہیں رہ سکتا ۔ زوال اور پستی کا شکار ہوجاتا ہے ،ہلاک اور برباد ہوجاتا ہے، کیونکہ ظلم ایک ایسی تاریکی ہے جس میں انسان کا وجود اور کردار تاریک ہوجاتا ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

 اتقواالظلم فان الظلم ظلمات یوم القیمۃ واتقو االشح فان الشح اھلک من کان قبلکم حملھم علی ان سفکو دماء ھم واستحلو محارمھم۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ،باب تحریم الظلم) 

 ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن کا اندھیرا ہے ، اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے تم سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کردیا، ان کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور ان کے محارم کو حلال کرنے پر آمادہ کیا ۔ ایک حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے :

 یا عبادی انی حرمت الظلم علی نفسی وجعلتہ منکم حرام فلا تظالموا۔(ابودائود،کتاب الزکوۃ،باب فی الشح)

 میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تمہارے لئے بھی آپس میں ظلم کرنا حرام کردیا ہے اس لئے ایک دوسرے پرظلم نہ کرو ۔

 عدل کا مطلب یہ ہے کہ مستحق کو اس کا حق دیاجائے اور ظلم یہ ہے کہ حق دار کو اس کے حق سے محروم کردیاجائے ، اس میں کمی یا اس پر زیادتی کی جائے ۔

  اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو عدل و انصاف پر قائم کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی انصاف کو قائم کرنے والے بنیں ۔ ظلم و زیادتی کرکے کائنات کے توازن میں خلل نہ ڈالیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ؛

 شَھِدَ اللّٰہُ  اَنَّہٗ لَا ٓ اِلٰہَ  اِلَّا ھُوَوَالْمَلٰٓئِکَۃُ  وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًام بِالْقِسْطِ لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ 

(سورہ آل عمران،آیت:۱۸)

 اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور(یہی شہادت) فرشتوں او ر سب اہل علم نے بھی دی ہے ۔ وہ انصاف پر قائم ہے ، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے ۔

 جب انسان انصاف قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل و قسط کو نافذ کرتا ہے ، ایسے شخص کا مرتبہ و مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نور کا منبر عطا کرتا ہے اور اس کی شخصیت کو ممتاز اور نمایاں کرتا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:

 المقسطون علی منابر من نور الذین یعدلون فی حکمھم واھلھم وماولوا۔(مسلم، کتاب امارۃ)

 انصاف کرنے والے نور کے منبر پر سرفراز ہوں گے وہ لوگ جب سربراہ ہوتے ہیں تو اپنے حکم اور اہل میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔

 انصاف پسند حکمراں کے لئے حضور پاک ﷺفرماتے ہیں: جن سات لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایہ میں خصوصی طور پر جگہ عطا کی جائے گی ان میں ایک امام عادل ہے ۔جو شخص فیصلہ کرنے کے منصب پر فائز ہو ، خواہ حاکم ہو یا قاضی ہو یا پنچ ہو یا ثالث ہو اس پر پہلی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ فریقین میں سے کسی کی جانبداری یا طرفداری نہ کرے بلکہ پورے انصاف سے کام لے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ  اَنْ  تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ  بَیْنَ  النَّاسِ اَنْ  تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ  نِعِمَّا یَعِظُکُمْ  بِہٖ  اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (سورہ نساء،آیت:۵۸)

 مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو اللہ تم کو عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ۔

 انسان انصاف سے گریز یا تو کسی لالچ، رشوت اور نفع کی امید میں کرتا ہے یا بڑے حاکم اور بادشاہ کے خلاف انصاف کرنا پڑتا ہے ، یااس کے انصاف کی زد اس کی اپنی ذات یا قریبی رشتہ داروں پر پڑتی ہے ، یا انصاف کسی دشمن سے کرنا ہوتا ہے۔ ان حالتوں میں انسان کا قدم انصاف سے ہٹ جاتا ہے اور وہ نا انصافی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر حالت میں انصاف کریں ، خواہشات نفس کی وجہ سے انصاف سے گریز نہ کریں ۔ حضرت دائود علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہے :

   ٰیدَاوٗدُ اِنَّاجَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْد بِمَانَسُوْایَوْمَ الْحِسَابِ(سورہ ص،آیت۲۶)

 اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کے لئے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے ۔

 اپنی ذات اور اپنے والدین اور اپنے رشتہ داروں کے خلاف بھی انصاف کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

  ٰٓیاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْاقَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ   شُھَدَآئَ   لِلّٰہِ  وَلَوْ  عَلٰٓی  اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ  وَالْاَقْرَبِیْنَ ج  اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ  اَوْلٰی بِھِمَا (سورہ نساء،آیت۱۳۵)

 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے ۔

 دوسری جگہ فرمایا:

   وَلَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْااِعْدِلُوْاھُوَاَقْرَبُ  لِلتَّقْوٰی(سورہ مائدہ،آیت۸)

 کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو ، عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔

  یوں تو پوری اسلامی تاریخ عدل و انصاف کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے ۔ جس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی ، لیکن اسلام کا قرن اول یعنی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا عہد تو عدل و انصاف کا زریں زمانہ ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کے دشمنوں کو بھی کرنا پڑا ہے ۔ صرف دونمونے ملاحظہ کیجئے۔

  ایک مرتبہ ایک عورت نے چوری کی، رسول پاک ﷺ نے شرعی قانون کے مطابق اس کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا ، عورت قریش کے اونچے خاندان بنی مخزوم کی تھی، قریش کے لوگوں نے خاندان کی رسوائی کے خوف سے نبی ﷺ کے پاس حضرت اسامہ بن زید ؓ کو سفارش کے لئے بھیجا،کیونکہ حضورﷺ حضرت اسامہ اور حضرت زیدؓ دونوں باپ بیٹے کو بہت عزیز رکھتے تھے ، انہوں نے عورت کی سزا معاف کرنے کی حضور سے سفارش کی، حضور اس  پر بہت ناراض ہوئے اورفرمایا کہ یہوداسی وجہ سے برباد ہوئے کہ جب کوئی طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔(مسلم، کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف وغیرہ)

 حضرت عمرؓ نے شریح بن حارث کو اسلامی حکومت کا قاضی مقرر کیا تھا، قاضی شریح حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں قاضی رہے ۔ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کی زرہ کہیں گر پڑی، ایک یہودی نے اسے اٹھالیا ، امیر المومنین کو جب پتہ چلا کہ ان کی زرہ فلاں یہودی کے پاس ہے تو انہوں نے زرہ کا مطالبہ کیا مگر یہودی نے زرہ دینے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ میری ہے، امیر المومنین نے قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ رکھا، قاضی کے سامنے یہودی نے کہا کہ زرہ میری ہے اورثبوت یہ ہے کہ میرے قبضہ میں ہے ، قاضی شریح نے امیر المومنین سے اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہا ، امیر المومنین نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ اور اپنے غلام حضرت قنبرؓ کو پیش کیا، قاضی صاحب نے غلام کی شہادت تو قبول کرلی مگر حضرت حسن کی گواہی کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں ۔ دوسرا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے مقدمہ خارج ہوگیا،اور حضرت علی نے اسے قبول کرلیا ۔ یہودی نے دیکھا کہ حضرت علیؓ نے خلیفہ ہونے کے باوجود زرہ نہیں چھینی بلکہ عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور قاضی نے اپنے خلیفہ کے خلاف اور ایک دشمن کے حق میں فیصلہ کردیا، یہ لوگ یقینا سچے دین کے پیرو کار ہیں، چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ بے شک یہ زرہ حضرت علی کی ہے اور یہ دین سچا ہے اس پر میں ایمان لاتاہوں۔ اشھد ان لا الہ الااللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔

 آج اگر مسلمان عدل و انصاف پر قائم ہوجائیں اور زندگی کے ہر معاملہ میں انصاف کا ثبوت دیں، اپنے ، پرائے، دوست، دشمن سب کو انصاف فراہم کریں تو اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی عظمت کا راستہ کوئی روک نہیں سکتا ، اللہ ہم سب کو انصاف پر چلنے کی توفیق دے ۔(آمین)

٭…٭…٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے