مولانا اسیر ادروی صاحب کی رحلت:"داستان ناتمام" کے مصنف کا سفر بھی بالآخر تمام ہوگیا


مولانا اسیر ادروی صاحب کی رحلت

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

"داستان ناتمام" کے مصنف کا سفر بھی بالآخر تمام ہوگیا، جی نامور ادیب وقلم کار اور درجنوں تاریخی وسوانحی کتابوں کے مصنف مولانا نظام الدین صاحب المعروف اسیر ادروی بھی ٧/شوال المكرم ١٤٤٢ھ مطابق٢٠/مئى ٢٠٢١ء بروز جمعرات بوقت دوپہر اس دار فانی سے عالم جاودانی کو رخصت ہوگئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون

مولانا اسیر ادروی صاحب کا نام نظام الدین تھا، مگر وہ اپنے قلمی نام سے زیادہ مشہور تھے، انہوں نے ایک طویل عمر پائی اور اپنی پوری زندگی کو کار آمد ومفید کاموں میں صرف کیا اور اپنے پیچھے کتابوں کا ایسا کار آمد ذخیرہ چھوڑا ہے جس سے رہتی دنیا تک لوگ مستفید ہوتے رہیں گے اور اس کا ثواب مرحوم کو پہنچتا رہے گا۔

مولانا اسیر ادروی صاحب ایک رواں دواں اور مضبوط قلم کے مالک تھے، انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا خوب لکھا اور اس کا حق ادا کردیا۔

آپ کا نام سے سب سے پہلے زمانہ طالب علمی (1998ء) میں آپ کی کتاب تحریک آزادی اور مسلمان پر دیکھا تھا، اس کتاب کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہوئی، کتاب کیا ہے گویا کہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، جس میں تمام معلومات کو جمع کردیا گیا ہے، کتاب گوکہ ضخامت میں کم ہے مگر بہت سی نادر معلومات کے اعتبار سے کتنی ہی ضخیم کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے۔

اس سے پہلے آپ نے ایک کتاب تحریک آزادی میں مسلمانوں کا کردار کے نام سے لکھی تھی، جس کے مطالعہ کی سعادت بہت بعد میں حاصل ہوئی۔

مولانا نے اکابر دیوبند کی سوانح عمریاں بھی لکھیں، اور اس کام کے لیے شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند نے آپ کی خدمات حاصل کیں۔

چنانچہ سب سے پہلے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی حیات اور کارنامے کے نام سے کتاب لکھی جو 1995ء میں شیخ الہند اکیڈمی سے شائع ہوئی، اس کے دو سال حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی حیات اور کارنامے، پھر ایک سال بعد حضرت شیخ الہند حیات اور کارنامے شائع ہوئی۔

جب ہم ٢٠٠١ء میں دیوبند تعلیم حاصل کرنے پہنچے تو آپ کی کتابوں کی دھوم مچی ہوئی تھی۔

ان کتابوں سے پہلے آپ کے قلم سے مآثر شیخ الاسلام نامی کتاب دار المولفین دیوبند سے 1987ء میں چھپ کر آچکی تھی جو اہل علم کے درمیان کافی مقبول ہوئی۔

مولانا اسیر ادروی صاحب کو دارالعلوم دیوبند اور اکابر دیوبند سے بہت محبت تھی، اسی وجہ سے ان کے قلم سے اس موضوع پر کئی کتابیں نکلیں، ان کی کتاب دارالعلوم دیوبند احیائے اسلام کی ایک عظیم تحریک بہت ہی عمدہ کتاب ہے، جس کے مطالعہ سے قاری کے ذہن میں دارالعلوم دیوبند کی عظمت اور اس تحریک کی تمام صورتیں آجاتی ہیں، اسی  طرح آپ کی کتاب دبستان دیوبند کی علمی خدمات بھی بہت کار آمد ہے، اس میں علماء دیوبند کی خدمات کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔

آپ شروع ہی سے جمعیت علماء ہند اور اس کی فکر سے وابستہ تھے، یہی وجہ تھی کہ زمانہ طالب علمی میں ہی جنگ آزادی کی تحریک میں شامل رہے اور اپنے اکابر کے طریق پر گامزن رہے۔ آپ نے جمعیت علماء ہند کی تاریخ لکھی جو شائع بھی ہوئی، جس میں جمعیت کی تاریخ اور اس کی خدمات کو بیان کیا ہے۔

آپ عملی طور پر بھی جمعیت کے کاز میں شریک رہے، ایک زمانے میں کنورہ نوناری ضلع اعظم گڑھ میں فساد ہوگیا تھا تو اس وقت ریلیف کمیٹی میں شریک رہے اور مسلسل تگ ودو کرتے رہے۔

اسی طرح جمعیت کے لکھنو دفتر کے آپ انچارج بھی رہے ہیں آپ کے زمانے میں کافی ترقی ہوئی۔ اور آپ کی کوششوں سے دفتر قلب شہر میں واقع ہوا۔

مولانا اسیر ادروی صاحب کی پیدائش١٩٢٦ء میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی، آپ کے والد شیخ عبد الکریم صاحب بہت ہی دیندار تھے اور علماء کرام سے تعلقات تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نو سال کی عمر میں مفتاح العلوم مئو میں داخل ہوئے، وہاں متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی، اس دوران دارالعلوم مئو، احیاء العلوم مبارک پور اور دوسرے مدارس میں بھی کچھ دن تعلیم حاصل کی، بالآخر دارالعلوم مئو میں مشکاة تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، اور وہاں جو کچھ واقعات پیش آئے اس کو آپ نے اپنی سوانح حیات میں قلمبند کیا ہے، بالآخر١٩٤٢ء میں مدرسہ شاہی مراد آباد سے فراغت حاصل کی، بخاری شریف اور ترمذی حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبای سے پڑھی، اور مسلم شریف حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب سنبھلی (معروف مضمون نگار ڈاکٹر محمد نجیب سنبھلی کے دادا) سے پڑھی۔

فراغت کے بعد مختلف میدانوں میں خدمات انجام دی، ایک زمانے تک سیاست سے بھی وابستہ رہے اور آخر میں١٩٧٨ء میں جامعہ اسلامیہ بنارس کے ترجمان اسلام سے وابستہ ہوگئے۔

اور جب پیرانہ سالی لاحق ہوگئی تو اپنے گھر پر رہنے لگے تھے، ترجمان اسلام کو آپ نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا، آپ کے قلم سے نکلے ہوئے ادارتی صفحات بہت مقبول تھے، اس دوران آپ کی کوششوں سے کئی خاص نمبر بھی نکلے، جن میں ترجمان اسلام کا قاضی اطہر مبارک پوری نمبر کافی مقبول ہوا۔

آپ کی عمر عیسوی اعتبار سے 96 اور ہجری اعتبار سے اٹھانوے سال تھی، کچھ عرصہ سے مختلف عوارض سے دوچار تھے، اور آخر کار اپنا وقت مقررہ پورا کرکے خالق کائنات کی بارگاہ میں پہنچ گئے، بعد نماز مغرب ایک جم غفیر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھ کر اس علمی امانت کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کر دیا۔

اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائے، مغفرت فرماکر درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے