مفکر اسلام حضرت امیر شریعت جوار رحمت میں

  

مفکر اسلام حضرت امیر شریعت جوار رحمت میں

محمد شاہد اختر کھرساوی (انڈیا) 

مفکر اسلام حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نور اللہ مرقدہ مختصر علالت کے بعد ٢٠/ شعبان المعظم ١٤٤٢ ھجری مطابق ٣/ اپریل ٢٠٢١ عیسوی بروز شنبہ پونے تین بجے دوپہر پارس ہاسپٹل پٹنہ میں داعی اجل کو لبیک کہا،

انا للہ وانا الیہ راجعون،

حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، مسلم پرسنل لاء کے انتہائی فعال، متحرک اور بیدار مغز جنرل سیکرٹری تھے،جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست اور خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں تھے، آپ بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ کے امیر شریعت تھے، دارالعلوم دیوبند کے ممتاز ونمایاں فاضل جید الاستعداد عالم دین حضرت مو سید منت اللہ صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ تلمیذ رشید حضرت مدنی سابق امیر شریعت کے صاحبزادہ اور حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ بانی ندوۃ العلماء کے پوتے تھے، منجھے ہوئے قائد، رہنما لیڈر اور سیاست داں تھے، آپ کی ذات سے قوم اور ملک کو خوب فائدہ ہوا، عظیم والد کے عظیم فرزند تھے، دور اندیشی میں آپ کی مثال دی جاتی تھی،  جری اور نڈر عالم دین تھے، آپ کا ایک وقار تھا، قدر ومنزلت تھی، عظمت و جاہ، خاندانی شرافت اور سیاسی سوچ بوجھ آپ کو ورثہ میں ملی تھی،

مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ حضرت الاستاذ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری نور اللہ مرقدہ سابق معاون مہتمم واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند کے ہم سبق تھے دونوں بزرگ سے ہم محروم ہو گئے،

حضرت مولانا کی علمی خدمات،  خصوصیات، خاندانی تذکرے، خوبیاں، علمی استعداد، قابلیت ولیاقت، تصانیف، قرآنی بصیرت سے کون ناواقف ہے، 

حضرت امیر شریعت ایک کہنہ مشق منتظم، بہترین مدبر ومبصر، حالات حاضرہ سے واقفیت، بارعب عالم دین،  قومی وملی خدمات کا جذبہ وکڑھن، قائدانہ صلاحیت، شریعت مطہرہ کے پابند، حق گوئی وبے بیباکی، اصابت رائے، ہمت وجرات، عزم و حوصلہ، قوانین پر گہری نگاہ، استقامت، مزاج شناس، زمانہ سناش، رجال ساز، دور رس نگاہ ،  علمی رسوخ، بلند پایہ شخصیت، خلوص و للہیت کے ساتھ کام کرنے والے عالم دین تھے، 

قدرت نے آپ کو بے انتہا طاقت وقوت اور ہمت و جرأت سے نوازا تھا، آپ کی آواز پورے ملک میں گونجتی تھی، بیباک اور اعلی قسم کے خطیب ومقرر تھے، حق گوئی میں آپ کی مثال دی جاتی ہے، ہر کوئی آپ کے اس صفت سے متاثر نظر آتا ہے، حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے اور اس صفت پر اس درجہ قائم تھے کہ بلا کسی تردد اور خوف کے برملا کہتے تھے خواہ سامنے کوئی بھی ہو،

تاریکی دور میں بھی ملت کو گھٹا ٹوپ بھنور سے نکالنے کا آپ کے پاس تھا، ایک بہترین منتظم بھی تھے، انہوں نے ناگہانی حالت میں جس طرح مسلم پرسنل لاء کے نظام کو استحکام بخشا اور تیز گام سے چلایا اور موجودہ دور میں حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خدمات انجام دی ہیں رہتی دنیا تک یاد کئے جاتے رہیں گے،

وفات سے پہلے ملک کے طول و عرض میں کئ دورے کئے اور " آسان و مسنون نکاح مہم" پورے ملک میں انتہائی قوت اور زور انداز میں چلایا کہ اس اثرات مرتب ہونے لگے اور لوگوں نے مسلم پرسنل لاء کی آواز کو قبول کیا اور شادی میں فضول خرچی اور بیہودہ رسم ورواج سے توبہ کیا جو در حقیقت سماج اور معاشرہ کو صاف ستھرا اور گندگی سے پاک کرنے کا انتہائی عمدہ قدم تھا،

مسلم پرسنل لاء کے"اصلاح معاشرہ" کمیٹی کے پلیٹ فارم سے آپ کی خدمات نمایاں ہیں،

حضرت مولانا کی پوری زندگی قوم وملت کی رہبری و رہنمائی میں گزری، حالات کیسے بھی ہوں ڈٹ کر مقابلہ کرتے پیچھے نہیں ہٹتے، اور لوگوں کو صبر سے حالات کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے،

آپ تقریروں میں کثرت سے یہ بات کہا کرتے تھے کہ مسلمان مایوس نہیں ہوتا اور بزدل نہیں ہوتا، مایوسی اور بزدلی کا خوف دلوں سے نکال دو، وہ انسان ہی نہیں جو حالات سے گھبرا کر مایوسی کو شکار ہو جائے بلکہ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرو، خود عمل کرتے اور عمل کرنے کی تلقین کرتے، 

یہ باتیں سن کر مجاہد ملت تلمیذ  علامہ کشمیری حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ سابق ناظم اعلی جمعیۃ علماء ہند  کی یاد آتی ہے، ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں، حضرت مولانا نے جس پرفتن دور میں ملک وملت کی خدمت کی ہے وہ تاریخ کے سنہرے حروف میں درج ہیں،

سینکڑوں جگہ آپ نے اپنی تقریروں میں زوردار انداز میں یہ بات کہی ہے اور مسلمانوں سے درخواست واپیل کی ہے کہ مسلمان اور بزدلی دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، جو لوگ حضرت مولانا کے قریب رہے یا انہیں دیکھا، پڑھا اور سنا ہے وہ بخوبی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں وہ کس طرح اور کن حالات میں قوم کی نمائندگی، رہنمائی ورہبری کی ہے، ذرا سا کچھ ہوتا آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے، لیکن وہ دور اور اب کے دور میں بڑا فرق ہے حالات مختلف ہے، 

اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، 

حضرت مفکر اسلام مولانا سید محمدصاحب رحمانی 

٥/جون 1943 عیسوی بمقام خانقاہ رحمانی مونگیر میں پیدا ہوئے،

ابتدائی تعلیم رحمانیہ مونگیر اردو اسکول، جامعہ رحمانی مونگیر، ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی بعدہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بر صغیر کے ممتاز دینی ادارہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ١٩٦٥ عیسوی میں فراغت حاصل کی،

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد تلکا مانجھی یونیورسٹی بھاگل پور سے تعلیم حاصل کی،

اہم خدمات!

تمام علوم سے فراغت کے بعد تدریسی میدان میں قدم رکھا اور جامعہ رحمانی میں تدریس پر مامور ہوئے، چنانچہ مدرسہ جامعہ رحمانی مونگیر میں آپ نے ١٩٦٦  سے ١٩٧٧ تک مدرسہ رحمانیہ میں تدریسی فرائض انجام دئے اور درمیان میں چار سال ناظم تعلیمات کے عہدہ پر فائز ہو کر اعلی خدمات انجام دئے،

ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ فراغت کے بعد ہی ہفتہ وار نقیب پھلواری شریف پٹنہ بہار کے شریک ایڈیٹر رہے، حضرت مولانا سید منت اللہ صاحب رحمانی نور اللہ مرقدہ کی وفات کے بعد جامعہ رحمانی کے سرپرست اور سجادہ نشیں کی حیثیت سے اہم امور وذمہ داری ادا کی،

١٩٩١ ء سے لے کر ٢٩١٥ ء تک ہندوستانی مسلمانوں کی محبوب جماعت مسلم پرسنل لاء کے سکریٹری رہے پھر جون ٢٠١٥ ء میں اراکین مسلم پرسنل لاء نے آپ کو باتفاق رائے کارگزار جنرل سیکرٹری مقرر کیا بعدہ اپریل ٢٠١٦ ء میں آپ کو باضابطہ مسلم پرسنل لاء کا جنرل سیکرٹری کا عہدہ تفویض کیا گیا، اس پلیٹ فارم سے آپ نے مسلمانانِ ہند کی جس طرح رہنمائی و نمائندگی کی اور ایسے انمٹ وروشن نقوش چھوڑے ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے،

حضرت مولانا نظام الدین صاحب رحمہ اللہ تلمیذ رشید حضرت مدنی سابق امیر شریعت کی وفات کے بعد ٢٩ / نومبر ٢٠١٥ ء کو حضرت مولانا کو متفقہ طور پر امیر شریعت سابع منتخب کیا گیا، اپریل ٢٠٠٥ ء سے آپ باضابطہ امیر شریعت منتخب ہونے تک آپ نائب امیر شریعت کے عہدہ پر فائز رہے،

١٩٧٤ ء سے ١٩٩٦ ء تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن رہے اس دوران دو دفعہ حضرت مولانا ١٩٨٤ ء اور ١٩٩٠ ء میں ڈپٹی چیئرمین بھی منتخب کئے گئے جو کہ ایک اہم عہدہ ہے جس سے آپ کی سیاسی بصیرت کا پتہ چلتا ہے،

اس کے علاوہ حضرت مولانا کئ تعلیمی ادارے قائم کئے جس میں معیاری تعلیم کا انتظام کیا اسی طرح مختلف مدارس و تنظیموں کی سرپرستی فرمائ، مختلف اور اثر انداز تحریکات چلائیں جس کے فوائد سے ہم سب واقف ہیں،

امارت شرعیہ ہند کے نظام کو مضبوط کیا اور اس کے وقار کو بلند کیا ساتھ ہی نظام کو پھیلانے میں ہر ممکن کوشش کرتے رہے اور ترقی دی،

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی خوب جوہر دکھائے چنانچہ آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہیں،

(١)تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ (٢) بیعت عہد نبوی میں (٣) آپ کی منزل یہ ہے (٤) دینی تعلیم میں صنعتی تعلیم کا مسئلہ (٥) سماجی انصاف عدلیہ اور عوام (٦) مرکزی مدرسہ بورڈ اور اقلیتوں کی تعلیم (٧) لڑکیوں کا قتل عام (٨) شہنشاہ کونین کے دربار میں (٩) حضرت سجاد - مفکر اسلام (١٠) کیا ١٨٥٧- پہلی جنگ آزادی ہے (١١) مجموعہ رسائل رحمانی

نماز جنازہ مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ العالی نے ادا کرائ اور سرکاری اعزاز کے ساتھ خانقاہ رحمانی مونگیر میں والد بزرگوار حضرت مولانا سید منت اللہ صاحب رحمانی علیہ الرحمہ اور جد امجد حضرت مولانا محمد علی مونگیر رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی،

اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ ہند اور امارت شرعیہ کو نعم البدل عطا فرمائے ،خدمات کو قبول فرمائے اور درجات بلند فرمائے، آمین

تحریر کردہ : ١٤/ شوال المکرم ١٤٤٢ ھجری مطابق ٢٧/ مئ ٢٠٢١ ء بروز جمعرات بوقت شام ٥:٢٠ منٹ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے