نمونۂ اسلاف حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ

نمونۂ اسلاف حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ


✏️ سید فضیل احمد ناصری

ہائے یہ بھی کیا ایام چل رہے ہیں، ہر وقت آہ و فغاں، ہر روز نالہ و شیون۔ آج ایک کا سانحۂ وفات، کل دوسرے کی رحلتِ دل خراش، پرسوں تیسرے کا حادثۂ جاں کاہ۔ ایک سلسلہ لگا ہوا ہے، جو ٹوٹنا ہی نہیں چاہتا۔ بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کی جدائی پر رونا دھونا اتنا زیادہ ہو چکا کہ آنکھوں کا سمندر بھی خشک ہو چکا ہے۔ اب تو بقول شاعر: 

روتے روتے دھنس گئیں آنکھیں، خونِ جگر بھی سوکھ گیا

گردشِ زمانہ دیکھیے، پرسوں حضرت الاستاذ قاری محمد عثمان منصور پوری صاحب کی وفات کی فرضی خبر چلائی گئی۔ میں نے از راہِ تحقیق برادرم جناب مولانا مفتی عفان منصور پوری صاحب کو فون کیا، خیریت لی۔ پتہ چلا کہ طبیعت میں سدھار تو ہے، مگر اطمینان بخش نہیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ بعض یاروں نے تشویش ناک خبر چلا رکھی ہے، اسی کی تحقیق مقصود تھی۔ کہنے لگے: کہ ایسے لوگوں سے کیا کہا جائے!! میں ان کے درد و کرب کو سمجھ رہا تھا۔ ایک طرف وہ اپنے نامور والد کو جاں گسل بیماری سے موت و حیات کے درمیان دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف انہیں ان احمقوں کی چلائی گئی خبروں کی تردید بھی کرنی پڑ رہی تھی۔ 

ایک گروپ میں یوٹیوب چینل کا لنک بھی بھٹکتی روح کی طرح زیرِ گردش تھا۔ اس کا عنوان تھا: قاری عثمان صاحب منصور پوری کی وفات۔ پچھلی خبر کا غصہ تو تھا ہی، اس نئی حماقت نے آتشِ غضب کو اور مشتعل کر دیا۔ ان دو واقعاتِ دل خراش واقعات سے تنگ آ کر کل میں نے اپنی تقریر اپنے چینل کے لیے ریکارڈ کی اور قاری صاحب و دیگر علما کی وفات کی فرضی خبر چلانے والوں کا سخت نوٹس لیا۔ جب ویڈیو اپنے مستقر پر پہونچ گیا اور واٹس ایپ دیکھا تو ہر گروپ انا للہ انا للہ سے اٹا پڑا تھا۔ کیا بتاؤں، دل شدتِ صدمہ سے لخت لخت ہو گیا۔ جس شخصیت کی زندگی کی خبر دینے کے لیے ساری کوششیں کی جا رہی تھیں وہی اپنا رشتہ عالمِ ناسوت سے توڑ چکی تھی۔ ناقدروں کی کثرت نے دیوبندیت کا ایک ستون گرا دیا۔ 

وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے

قاری صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ تقریر ہو، تحریر ہو، تصنیف ہو، تدریس ہو، اہتمام ہو، انتظام ہو، ہر جگہ کھپ جاتے تھے، کھپتے ہی نہیں، بلکہ اپنی گہری چھاپ بھی چھوڑ جاتے تھے۔ وہ دارالعلوم کے باکمال استاذ بھی رہے اور خوش اقدام نائب مہتمم بھی۔ طلبہ کی عربی انجمن کے ذمے دار بھی رہے اور شعبۂ تحفظ ختمِ نبوت کے سرخیل و ناظر بھی۔ قادیانیت کے خلاف ہمیشہ شمشیر برہنہ۔ کہیں سے بلاوا آ جائے، وہ ہر وقت پا بہ رکاب۔ پھر ان کا جانا مرزائیت کے لیے جانے کی تمہید ہی ٹھہرتا۔ جمعیۃ علمائے ہند سے مربوط ہوئے تو اپنی شہ دماغی اور روشن ضمیری کے رنگین نظارے دکھا گئے۔

قاری صاحب کی پہلی زیارت 

میں نے انہیں پہلی بار 1996 میں دیکھا۔ کشیدہ قامت۔ سرو قد۔ کتابی چہرہ۔ دودھیا رنگ۔ ستواں ناک۔ بھرا ہوا جسم۔ ریشِ مبارک قدرے گھنی۔ رفتار آہستہ خرام۔ سبک گام۔ چلتے وقت نگاہیں خمیدہ ۔ گفتار نرم و ملائم۔ عموماً سر پر سفید رومال۔

میرا داخلہ عربی ششم میں ہوا تھا۔ اس وقت وہ علیا کے مدرس تھے۔ ان سے استفادے کا موقع نہ مل سکا۔ اگلا سال آیا تو ان کی شاگردی کا شرف اس حقیر سراپا تقصیر کو بھی ملا۔ مشکوۃ شریف ان سے متعلق ہوئی۔ درس گاہ پابندی سے آتے۔ خاص چال کے ساتھ۔ سبق شروع۔ آواز پست، مگر قابلِ فہم۔ اسباق حشو و زوائد سے پاک۔ شستہ ترجمہ اور چست تشریح۔ پوری توجہ تدریس پر۔ 

پھر میرے دورۂ حدیث کا سال آیا۔ مؤطا امام مالک ان سے وابستہ ہوئی۔ جمعہ کے دن تشریف لاتے اور اپنے وظیفے میں مصروف۔ حاضری ضرور لیتے۔ 

دورہ بھی نکل گیا۔ ان تین سالوں کے دوران ان کے مختلف روپ دیکھنے میں آئے۔ اپنی حماقت سے میں یہ باور کرتا تھا کہ وہ عربی بول چال میں برق نہیں ہوں گے، لیکن النادی العربی کے ششماہی اور سالانہ جلسوں میں انہیں فراٹے سے عربی بولتے دیکھا۔ بے تکلف اور برجستہ۔ اردو تقریریں پر جوش تو نہیں، پر ہوش ہوتی تھیں۔ ان کی آواز میں ایسا رسیلاپن اور مٹھاس ہوتی، معلوم ہوتا کہ کان میں شہد انڈیل رہے ہیں۔ 

میرا ان سے کبھی کوئی تعلق نہ ہو سکا۔ ہاں ایک دو باتیں یاد رہ گئیں۔ قیامِ دارالعلوم کے دوران میری رہائش رواقِ خالد کمرہ نمبر چار میں تھی۔ گرمی کے دنوں میں اوروں کی طرح میں بھی چھت پر سوتا۔ نمازِ فجر سے قبل طلبہ کو جگانے کا کام عموماً حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی صاحب کرتے۔ یوں تو ان کی لمبی ٹارچ اور اس سے پھوٹنے والی روشنی دارالعلوم کے وسیع احاطے کی نیند اڑا دینے کے لیے کافی تھی۔ پھر اس پر مولانا کی گرج دار آواز اور کرخت لہجہ صورِ اسرافیل ثابت ہوتا۔ کبھی کبھار حضرت الاستاذ قاری صاحب بھی تشریف لے آتے۔ مولانا مدنی آ کر جا چکے تھے اور طلبہ دوبارہ نیند کی آغوش میں۔ اچانک قاری صاحب آئے اور چپت کا دور شروع۔ ایک دھپ ادھر۔ ایک ہاتھ ادھر۔ ایک زور دار ضرب میری پشت پر بھی لگی۔ دیکھا تو قاری صاحب ہیں۔ جلدی جلدی بستر لپیٹا اور شیطان کی چال چلتا ہوا کمرہ اور پھر مسجد۔

قاری صاحب سے مختصر شرفِ ہمکلامی 

2015 میں حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحیم بستوی بیمار پڑ گئے اور اسی میں وفات بھی ہو گئی۔ وہ مجھے بیٹے کی طرح مانتے تھے اور بیٹا ہی کہتے تھے۔ میں ان کی عیادت کے لیے وہیں موجود تھا۔ قاری صاحب بھی تشریف لائے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر جانے لگے۔ میں کھڑا ہو گیا۔ قاری صاحب میری جانب مڑے اور پوچھا: آپ کون؟ میں نے بتایا: فضیل احمد ناصری۔ کہنے لگے: اچھا آپ ہی ہیں۔ آپ کی تحریریں خوب نظر سے گزرتی ہیں۔ میں شرم سے آب آب ہو گیا۔

جمعیۃ علمائے ہند کے سیمینار میں

قاری صاحب سے استفادے کا ایک اور موقع اس وقت ملا جب میں جمعیۃ علمائے ہند کی دعوت پر حضرت مولانا محمد میاں صاحب دیوبندیؒ پر اپنا مقالہ لے کر پہونچا۔ سیمینار میں اپنا مقالہ پیش کرنے کے بعد ان کی تقریر کے لیے سراپا انتظار ہو گیا۔ ان کی باری آئی تو مولانا محمود مدنی صاحب نظامت کے لیے بڑھے اور صدرِ جلسہ یعنی قاری صاحب موصوف کو آواز دی۔ مدنی صاحب جلسے کا فوری اختتام چاہتے تھے۔ نظامت میں بھی اس کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ قاری صاحب آئے اور جم گئے۔ کھل کر باتیں کیں۔ ملکی حالات پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سیاست میں مسلمانوں کی اپنی پارٹی بھی ہونی چاہیے، آزادی سے پیش تر جمعیۃ علمائے ہند بھی الیکشنی سیاست میں حصہ لیتی رہی ہے، لیکن تقسیمِ وطن کے بعد جمعیۃ نے یہ مہم چھوڑ دی اور مسلمانوں کے حق میں یہی مفید بھی تھا۔ قاری صاحب اس دن بڑی رو میں تھے۔ سامعین میں زیادہ تر فضلائے دارالعلوم تھے، اس لیے ان کی گفتگو دراز نفس ہوتی چلی گئی۔ بعد میں دوستوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ قاری صاحب کو اتنا کھل کر بولتے ہوئے کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔

سوانحی خاکہ 

قاری صاحب کا وطنی تعلق مغربی اترپردیش میں واقع ضلع مظفرنگر سے تھا۔ وہیں ایک قصبہ منصور پور کے نام سے آباد ہے۔ مشہورِ زمانہ کتاب رحمۃ للعالمین کے مصنف قاضی سلیمان منصور پوریؒ اسی قصبے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں ساداتِ بارہہ کے نام سے ایک برادری پائی جاتی ہے، قاری صاحب کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔ پیدائش 12/ اگست 1944 میں ہوئی۔ مکتبی تعلیم اپنے وطن میں ہی پائی۔ حفظ کی تکمیل اپنے والد کے پاس کی۔ عربی کا مکمل نصاب دارالعلوم دیوبند میں پڑھا۔ 1965 میں دورۂ حدیث سے فراغت پائی اور پہلی پوزیشن سے کامیاب ہوئے۔ 1966 میں دیگر علوم و فنون کی کتابیں بھی پڑھیں۔ فخرالقراء قاری حفظ الرحمن صاحب اور قاری عتیق احمد صاحب سے تجوید و قرات کا علم بھی حاصل کیا اور شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ سے عربی ادب کی تربیت بھی پائی۔ 

قاری صاحب کے والد 

قاری صاحب کے والد کا نام نواب سید محمد عیسیٰ تھا۔ وہ بڑے زمین دار اور امیر کبیر تھے۔  وہ علما نواز اور متقی بھی بہت تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ سے بیعت کا تعلق بھی تھا۔ مزارِ قاسمی میں دفن ہونے کی تمنا لیے اپنا گاؤں چھوڑ کر دیوبند آ گئے اور یہیں کے ہو رہے۔ 1963 میں ان کی وفات ہوئی اور قبرستانِ قاسمی میں آسودۂ خواب ہیں۔


جامعہ قاسمیہ گیا 

فراغت کے بعد تدریس کے لیے جامعہ قاسمیہ گیا صوبۂ بہار تشریف لے گئے اور پانچ سال تک علم و ادب کے موتی لٹاتے رہے۔ یہ جامعہ بہار کا قدیم ترین ادارہ ہے۔ حضرت مولانا سید فخرالدین گیاویؒ اس کے مہتمم تھے۔ شیخ الاسلام کے عاشقِ زار اور خلیفۂ خاص۔ اپنے شیخ پر اس درجہ فدا کہ ان کی تقلید میں جامعہ قاسمیہ میں بھی باجماعت تہجد کا سلسلہ شروع کیا، جو آج بھی جاری ہے۔ 

جامع مسجد امروہہ میں تدریس 

گیا کے بعد جامع مسجد امروہہ کو اپنا مستقر بنایا اور 11 سال تک طالبانِ علوم اسلامیہ کو علم و فن سے سیراب کیا۔ 

دارالعلوم دیوبند زریں خدمات 

1982 میں دارالعلوم دیوبند آ گئے اور آہستہ آہستہ یہاں کے جز و کل پر چھا گئے۔ تدریس کے ساتھ دوسرے مشاغل بھی رہے۔ 1986 میں احاطۂ دارالعلوم میں تحفظِ ختمِ نبوت کا عالمی اجلاس ہوا تو اس کے ناظم وہی تھے۔ 1999 میں ان کی انتظامی صلاحیتوں سے استفادے کے لیے انہیں نائب مہتمم مقرر کیا گیا اور 2008 تک اس اہم منصب پر فائز رہے۔ 2020 میں انہیں دارالعلوم کا معاون مہتمم نام زد کیا گیا۔ اس رمضان میں وہ قائم مقام مہتمم بھی رہے۔

جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی

شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے داماد ہونے کی وجہ سے جمعیۃ علمائے ہند سے بھی ان کی طویل وابستگی رہی۔ مدعوِ خصوصی اور مجلسِ عاملہ کے رکن ہونے کی حیثیت سے مسلسل اس کی نشستوں میں حاضری دیتے رہے اور اپنے بیش قیمت افکار سے جمعیۃ کو نوازتے رہے۔ 1979 میں جمعیۃ کے زیرِ اہتمام ملک و ملت بچاؤ تحریک چلی تو اس کی قیادت قاری صاحب مرحوم نے ہی کی اور دس دن تہاڑ جیل میں سلاخوں کے پیچھے رہے۔ 2008 میں جمعیۃ کے دو ٹکڑے ہوئے تو 6 / مارچ 2008 میں ایک ٹکڑے کے عارضی صدر منتخب کیے گئے اور اگلے ہی ماہ 5 / اپریل میں مستقل صدر چنا گیا۔

ردِ قادیانیت

قاری صاحب کو ردِ قادیانیت سے بڑی دل چسپی تھی۔ 1986 میں کل ہند مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت قائم ہوئی تو وہی اس کے ناظم بنے اور اخیر تک اس منصب کو وقار بخشا۔ ملک بھر میں قادیانیت جہاں کہیں سرگرم ہوتی، قاری صاحب سر بہ کفن ہو کر وہاں پہونچ جاتے اور اس کی جڑ کھود کر رکھ دیتے۔ 

مجھے یاد ہے کہ جب میں جامعہ فیضان القرآن احمد آباد گجرات میں مدرس تھا تو اس وقت شہر کے نارول علاقے میں قادیانیوں نے بڑا طوفان کھڑا کر رکھا تھا۔ میرے دوست مفتی نعمان بستوی صاحب اور مرحوم مولانا عبدالحفیظ بستوی صاحب اپنے رفقا مولانا اکرام بھڑوچی اور مولانا رضوان لال مسجد احمد آباد کے ہمراہ ان کا تعاقب کرتے رہے۔ اس کے لیے ان پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی۔ اس موقع پر جامعہ کے مہتمم صاحب نے بڑی ہمت بندھائی اور قادیانیت شکنی کے لیے باقاعدہ ایک تربیتی کیمپ کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں قاری صاحب سے ہی رجوع کیا گیا۔ ایک وفد دارالعلوم دیوبند بھی گیا۔ قاری صاحب نے خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے تربیتی کیمپ کے لیے دارالعلوم سے افراد بھیجے۔

قاری صاحب نے ردِ قادیانیت پر محاضرے بھی لکھے جو تکمیلات کے طلبہ کو پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ محاضرے قادیانیت شناسی میں بڑے مفید ہیں۔ ان کی روشنی میں مرزائیوں کا اچھا خاصا علاج کیا جا سکتا ہے۔

مثالی تربیت، عظیم کارنامہ

قاری صاحب کی خاص بات ان کا مثالی اندازِ تربیت ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی جس شان سے تربیت کی، حالیہ دور میں اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ تدریسی الجھنوں، دعوتی دوروں اور ادارہ جاتی عظیم ذمے داریوں کے دوران اتنی فرصت کہاں کہ وہ اپنے بچوں پر خصوصی دھیان دے سکیں، لیکن انہوں نے ان مصروفیات میں سے اپنی اولاد کے لیے نہ صرف یہ کہ وقت نکالا، بلکہ انہیں کارگر، جوہر دار، صاحبِ مستقبل اور علم و عمل سے آراستہ کرنے میں مثالی کردار ادا کیے۔ آج ان کے دونوں فرزند حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری اور برادرِ مکرم جناب مولانا مفتی محمد عفان منصور پوری علم و تحقیق کے جگمگاتے ستارے ہیں، جن کی روشنی سے خلقِ کثیر فیض یاب ہو رہی ہے۔ بڑوں کی اولاد عموماً بگڑ جاتی ہے اور شہزادگی انہیں کسی مصرف کا نہیں چھوڑتی، لیکن قاری صاحب اس معاملے میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے نکل گئے۔ بلاشبہ قاری صاحب کا یہ عظیم کارنامہ ہے۔

قاری صاحب کی شادی


1966 میں قاری صاحب کی شادی شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کی صاحب زادی عمرانہ خاتون سے ہوئی۔ نکاح شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے پڑھایا۔ اس وقت نامور بیٹوں کے ساتھ کئی پوتے بھی ہیں جو زیورِ تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔

جوارِ رحمت میں

قاری صاحب جس صحت مند جسم کے مالک تھے، اندازہ نہیں تھا کہ وہ ہم سے جلد بچھڑ جائیں گے۔ ہفتہ عشرہ قبل ان کی بیماری کی خبر آئی اور وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ دو روز پہلے میدانتا ہسپتال میں انہیں بھرتی کیا گیا، جہاں وہ 21 /مئی کو دنیائے فانی چھوڑ گئے۔ جسدِ خاکی دفترِ جمعیۃ علمائے ہند لایا گیا۔ وہیں پہلی نمازِ جنازہ ہوئی۔ دوسری نمازِ جنازہ 11 بجے شب میں دیوبند میں ہوئی اور مزارِ قاسمی میں مدفون۔ قاری صاحب پیدا ہوئے مظفر نگر میں۔ وفات پائی دہلی میں اور دفن ہوئے دیوبند میں۔ قدرت انسان کو کیا کیا تماشے دکھاتی ہے۔ اب جمال و کمال کا یہ پیکر، علم و فضل کا یہ مجسمہ، قادیانیت شکنی کا جدید معمار اپنی دل نواز مسکراہٹوں کے ساتھ ابدی نیند سوتا ہے۔


برد اللہ مضجعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے