مولانا نورعالم خلیل امینیعظیم مفکرباکمال ادیب


مولانا نورعالم خلیل امینیعظیم مفکرباکمال ادیب

از : مولانا سیداحمد ومیض ندوی نقشبندی مدظلہ

استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد وخلیفہ حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب مدظلہ

اس وقت پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں ہے بالخصوص اس وبا نے وطن عزیز کو مکمل طور پر اپنے شکنجہ میں کس لیا ہے ۔ دوسری لہر  پہلی لہرسے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے، مرگ انبوہ کا سماں ہے۔ ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھ رہے ہیں اور انسانیت کا ہر طبقہ اس آدم خور وبا سے جوجھ رہا ہے۔ملک بھر میں یومیہ ہزاروں افراد موت کے منھ میں جا رہے ہیں۔ کیا عوام کیا خواص سب ہی دنیا سے منھ موڑ رہے ہیں ۔ پہلی لہر کی طرح دوسری لہر بھی عوام الناس کے ساتھ اہل علم کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک میں درجنوں علماء دنیا سے کوچ کر گئے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ، بالآخر 3؍مئی 2021ء کی تاریخ ایک اندوہ ناک خبر لے کر آئی ۔ ہند وپاک کے نامور عالم دین ، عربی زبان کے مایہ ناز ادیب، بے مثال مفکر، اتالیق زماں، عظیم مصنف، استاذ الاساتذہ ، تاریخ ہند کا ایک عظیم سپوت اور نصف صدی تک اپنی تحریروں کے ذریعہ عالم عرب کو جھنجھوڑنے والا بے مثال قلم کار ، ہزاروں شاگردوں اور سیکڑوں عقیدت مندوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔

مولانا نور عالم خلیل امینی کا سانحہ صرف دارالعلوم دیوبند ہی کا نہیں؛ بلکہ علم و ادب کا خسارہ ہے ۔ یہ پوری ملت اسلامیہ کا سانحہ ہے ۔اتنا ہی نہیں مولانا کی رحلت عالم عربی کا بھی خسارہ ہے؛ کیوں کہ ان کی وفات سے عالم عرب ایک منفرد اور باکمال ادیب سے محروم ہوگیا۔ان کے انتقال سے محض ایک شخصیت دنیا سے نہیں چلی گئی؛بلکہ ادب وشائستگی کی اعلیٰ اقدار رخصت ہوئیں ، علم وعمل کی روشن شمع ہمیشہ کے لیے گل ہوگئی، اسلاف کی پاکیزہ روایات کا امین وپاسبان منھ موڑ گیا،ادب کی درس گاہوں سے رونق چلی گئی۔؎

جان کر من جملۂ خاصان میخانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

مولانا کی ذات ان گنت کمالات کا حسین مرقع تھی، اس میں فکر وشعور کے جلوے بھی تھے اور زبان و ادب کی ضوفشانیاںبھی، فن و ادب کی رعنائیاں بھی تھیں اور شستگی و شائستگی کی لطافتیں بھی، اکابر واسلاف سے گہری عقیدت بھی تھی اور عشق رسولﷺ کی آتش فروزاں بھی، وہ اپنے تلامذہ کو صرف علم سے ہی آشنا نہیں کرتے تھے؛ بلکہ انہیں حسن اخلاق ، سلیقہ مندی اور شائستگی کا خوگر بناتے تھے۔جو طالب علم خودکو ان کے حوالہ کردیتا وہ کندن بن کر نکلتا تھا۔ طبیعت میں ایسی سحرکاری اورجولانی تھی کہ طلبہ ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ مولانا کی شخصیت کی تشکیل میں جن عناصر کا کلیدی کردار رہا ہے ، ان میں مفکر اسلام مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ، مولانا سیدمحمد میاں دیوبندیؒ اور ادیب زماں مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کی صحبت واستفادہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ندوۃ العلماء میں قیام کے دوران مولانا امینی کو مفکر اسلام ؒ سے استفادہ کا بھر پور موقع حاصل ہوا۔ اسی طرح ان کے استاذ محترم مولانا وحید الزماں کیرانویؒ نے بھی انہیں خوب نکھارا۔

سوانحی خاکہ

مولانا نورعالم خلیل امینی کی ولادت 18؍ڈسمبر1952ء کو اپنے ننہیال ہرپور بیشی ضلع مظفر پور بہار میں ہوئی۔ مولانا کا وطن اصلی (ددھیال) رائے پور حال ضلع سیتامڑھی سابق ضلع مظفر پور ہے۔ آپ کے والد گرامی حافظ خلیل احمد اور دادا رشید احمد بن کرامت علی صدیقی تھے۔ آپ کے نانا بابوجان بن محمد نتھو بن محمدیارعلی صدیقی تھے۔ اس طرح آپ کا سلسلہ دونوں جانب سے حضرت صدیق اکبرؓ سے جاملتا ہے۔ ولادت کو تین ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا، والدبزرگوار کی وفات کے بعد اپنی دادی مقیمہ خاتون کی کفالت میں آئے ۔آپ نے قاعدۂ بغدادی کا آغاز اپنے نانا جان کے یہاں کیا ۔ اس کے بعد مکتب کی تعلیم رائے پور میں مولوی ابراہیم سے حاصل کی۔ جون؍ 1960ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں داخلہ لیاا۔ سات پارے حفظ قرآن کے بعد اسی ادارے کے درجۂ ششم اردو میں داخل ہوئے ۔1964ء میں دارالعلوم مئو کے شعبۂ عالمیت کے درجہ اول عربی میں داخلہ لیا۔ 20؍ڈسمبر؍1967ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر اپنی علمی تشنگی کو دور کیا۔ مدرسہ امینیہ دہلی سے آپ نے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا سیدمحمد میاں دیوبندی ؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا معراج الحقؒ، مولانا فخرالحسن مرادآبادیؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ،مولانا شریف الحسن ؒ، علامہ قمر الدین گورکھپوریؒ، مولانا عبدالحق اعظمیؒ اور شیخ الحدیث مولانانصیر احمد خان صاحب ؒ جیسی شخصیات شامل ہیں۔

تدریسی خدمات

مولانا امینیؒ نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ تدریسی خدمات میں صرف کیا۔ آپ کا تدریسی زمانہ قریب نصف صدی کو محیط ہے۔ آپ نے ہندوستان کے دو عظیم علمی مراکز میں خدمات انجام دیں۔ پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دس سال (1972ء تا 1982ء )تک مدرس رہے۔پھر دارالعلوم دیوبند میں1982ء سے تادم آخریں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں ہزاروں طلبہ نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔آپ کے تلامذہ ہندو بیروان ہند کے مختلف اداروں میں عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تصانیف

مولانا امینیؒ کا اصل میدان تصنیف وتالیف تھا۔ آپ ایک کہنہ مشق اور باکمال مصنف تھے۔ تصنیفی سرگرمی آپ کے لیے غذا کا درجہ رکھتی تھی۔ طیبعت میں یکسوئی تھی۔ انتہائی کم آمیز واقع ہوئے تھے۔ بیشتر اوقات گوشۂ تنہائی میں تصنیف وتالیف میں مصروف رہتے تھے۔ ویسے گروہ علماء میں اہل تصنیف کی کمی نہیں ہے ؛ لیکن ایسے مصنفین خال خال ہی نظر آتے ہیں، جن کے اسلوب میں ادبی چاشنی کے ساتھ فکر کی گہرائی ہو۔اور جن کی تحریر تاثیر واثر انگیزی میں ’’ازدل خیزد بردل ریزد‘‘کی مصداق ہو اور جو قلم کو خون جگر میں ڈبو کر صفحۂ قرطاس کو زینت بخشتا ہو۔ مولانا امینیؒ کا امتیاز یہ تھا کہ وہ بیک وقت اردو و عربی دونوں زبانوں کے ادیب باکمال تھے۔ ان کی اسلوبی خصوصیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ایک صاحب طرز ادیب تھے۔ جس طرح مولانا دریابادی ؒ اورشبلی نعمانیؒ جیسی شخصیات کا اپنا اسلوب تھا اسی طرح مولانا امینی کا بھی اپنا دل کش ودل نشین اسلوب تھا۔ مولانا کے تلمیذ رشید معروف جواں سال ادیب مولانا نایاب حسن قاسمیؔ نے مولانا امینی کے اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا لکھا ہے کہ ’’ عربی زبان ان کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھی اور وہ اس منزل پر پہونچ گئے تھے کہ خود مختلف المعانی تعبیرات وتراکیب خلق کرتے اور انہیں اپنی تحریروں میں بڑی خوبی اور مہارت سے کھپاتے ، عربی وہ بولتے بھی اچھا تھے ؛ مگر لکھتے بہت اچھا تھے اور ان کا ارتکاز زیادہ تر اسی پر تھا۔ ان کی تحریروں میں تنوع بلا کا پایا جاتا تھا اور الفاظ وعبارات و شوخی ورنگینی اور شوکت وعظمت کے عناصر بہ تمام و کمال موجود ہوتے۔‘‘

اردو تصانیف

مولانا امینیؒ نے ادبیت پر مشتمل اپنی گراں قدر تصنیفات کے ذریعہ اردو ادب کو مالامال کردیا ہے۔ ان کی ہر کتاب ادبی چاشنی بھی رکھتی ہے اور معلومات کا خزانہ بھی ہوتی ہے۔ ان کی درج ذیل اردو کتابیں  شائع ہوکر عوام وخواص سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں:

۱) وہ کوہ کن کی بات

۲) پس مرگ زندہ

۳)فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں

۴) رفتگان نارفتہ

۵)صحابۂ رسول ﷺاسلام کی نظر میں 

۶)کیا عالم اسلام پسپا ہورہا ہے

۷)عالم اسلام کے خلاف صلیبی وصہیونی جنگ

۸) حرف شیریں 

۹) خط رقعہ کیسے لکھیں؟

عربی تصانیف

۱)مجتمعاتنا المعاصرۃ والطریق الی الاسلام 

۲) المسلمون فی الھند

۳) الدعوۃ الاسلامیۃ بین الأمس والیوم 

۴) مفتاح العربیہ(دو حصے)

۵) العالم الھندی الفرید الشیخ المقری محمد طیب

۶)فلسطین فی انتظار صلاح الدین

۷) الصحابۃ ومکانتہم فی الاسلام 

۸) من وحی الخاطر(پانچ جلدوںمیں)

۹)متی تکون الکتابات مؤثرۃ

۱۰) تعلموا العربیۃ فانھا من دینکم

اردو سے عربی تراجم

 ترجمہ نگاری ایک نازک فن ہے ۔ ترجمہ نگار کو دونوں زبانوں میں کامل عبورہونا ضروری ہے۔ مولانا امینیؒ کو فن ترجمہ نگاری میں بھی دست گاہ حاصل تھی۔انہوں نے متعدد کتابوں کو عربی زبان میں نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ منتقل کیا ہے ، جن میں سے چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں:

۱)الفسیر السیاسی للاسلام فی مرآۃ کتابات الاستاذ ابی الأعلیٰ المودودی والشھید سید قطب۔ یہ مولانا علی میاں ندویؒ کی مشہور کتاب ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ کا عربی ترجمہ ہے۔

۲) احادیث صریحۃ فی باکستان۔ یہ مولانا علی میاں ندویؒ کی مشہور کتاب پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں‘‘ کا عربی ترجمہ ہے۔

۳)الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد الیاس الکاندھلوی۔ یہ مولانا علی میاں ؒ کی مشہور کتاب’’ مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت‘‘ کا عربی ترجمہ ہے۔

۴) سیدنا معاویۃ فی ضوء الوثائق العلمیۃ۔ ترجمہ:’’حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق‘‘ مؤلف مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ۔

۵)ماھی النصرانیۃ۔ ترجمہ:’’عیسائیت کیا ہے؟‘‘ مؤلف مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ۔

۶)علماء دیوبند واتجا ھھم الدینی ومزاجھم المذھبی۔ ترجمہ:’’علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج‘‘ مؤلف قاری محمد طیب ؒ

۷) من الظلمات الی النور مأساۃ شاب ھندوسی اعتنق الاسلام ۔

۸) الحالۃ التعلیمۃ فی الھند فیما قبل عھد الاستعمار الانجلیزی و فیما بعدہ۔ ترجمہ:’’ ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد‘‘۔ مؤلف : شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ

۹) الثورۃ الایرانیۃ فی ضوء الاسلام ۔ ترجمہ :’’ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت ۔‘‘ مؤلف مولانا منظور نعمانیؒ

۱۰) دعایات مکثفۃ ضد الشیخ محمدبن عبدالوھاب النجدی۔ترجمہ:’’برصغیر میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پروپیگنڈے کے علماء حق پر اثرات۔‘‘ مؤلف مولانا منظور نعمانیؒ

۱۱) الدعوۃ الاسلامیۃ… قضایا ومشکلات ۔ ترجمہ:’’ دعوت اسلامی مسائل ومشکلات۔‘‘  مؤلف : مولانا امین احسن اصلاحیؒ

۱۲)الاسلام ولاشتراکیۃ ۔ ترجمہ:’’اشتراکیت اور اسلام ۔‘‘ مؤلف ڈاکٹر خورشید احمد ۔

۱۳) بحوث فی الدعوۃ والفکر الاسلامی۔ حضرت مدنیؒ کے مختلف مضامین کا ترجمہ۔

 مولانا کی تصانیف کی قدر وقیمت کا اندازہ کاس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی کتاب فلسطین فی انتظار صلاح الدین پر ابوالکلام نامی ایک اسکالر نے آسام یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔

صحافتی خدمات

مولانانور عالم امینیؒ عام مؤلفین کی طرح محض ایک مصنف ہی نہ تھے؛ بلکہ وہ عربی واردو کے ایسے باکمال صحافی بھی تھے کہ جن کی صحافت ادبی چاشنی سے بھر پور ہوتی تھی۔ عالم اسلام کے عظیم مفکر اور داعی مصنف علامہ یوسف القرضاوی کے تعلق سے کسی نے کہا تھا کہ وہ ادیب الفقہاء اور فقیہ الادباء ہیں۔ٹھیک اسی طرح مولانا امینی ادیب الصحفیین اور صحفی الأدباء تھے۔ مولانا کی اکثر کتابیں عالم اسلام او رعالم عرب میں جنم لینے والے انقلابات اور اسلام اور عالمی تغیرات جیسے موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ’’کیا اسلام پسپا ہورہا ہے ؟‘‘ اور ’’عالم اسلام کے خلاف صلیبی اورصہیونی جنگ‘‘ جیسی کتابوں میں مولانا نے عالم اسلام پر گہری نظر رکھنے والے ایک عظیم صحافی ومفکر کی حیثیت سے حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے ۔ مولاناکے ہر مضمون میں عالم اسلام کے تئیں فکر مندی اور اسلام اور مسلمانو ںکی سربلندی کی امنگ کا اظہار نظر آتا ہے ۔ وہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والی صلیبی وصہیونی سازشوں کا نہ صرف گہرا ادراک رکھتے تھے؛ بلکہ اس صورت حال پر نہایت متفکر بھی رہتے تھے۔ ویسے ملک میں روایتی صحافیوں کی کمی نہیں ہے ؛ لیکن مولاناامینی دل درد مند اور زبان ہوش مند کے حامل ایک ایسے صحافی تھے جن کا دل اسلام اور مسلمانوں کے لیے دھڑکتا رہتا تھا۔

ماہنامہ الداعی

مولانا کی صحافتی خدمات کا ایک روشن باب ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کاعربی ترجمان ماہنامہ ’’الداعی‘‘ تھا۔دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دس سالہ خدمات انجام دینے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں استاذ عربی ادب کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ارباب دارالعلوم نے الداعی کی ادارت بھی آپ کے حوالہ کر دی۔ الداعی ابتداء میں پندرہ روزہ تھا۔ جس کا پہلا شمارہ ممتاز عالم دین اور عربی کے نامور ادیب مولانا بدرالحسن قاسمی کی ادارت میں نکلا۔ مولانا امینی کی ادارت میں اکٹوبر1982ء تا جولائی1993ء پندرہ روزہ نکلتا رہا۔ پھر مولانا امینی نے اسے ماہنامہ کی شکل دے دی۔مولانا امینی کی بے پناہ صلاحیتوں اور ان کی شبانہ روز کاوشوں سے یہ مجلہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتا گیاتاآں کہ اس کا شمار ہندوستان کے صف اول کے ممتاز عربی مجلات میں ہونے لگا اور عالم عرب میں بھی اس کے معیار کو سراہا جانے لگا۔ الداعی میں مولاناامینی کے دوکالم پابندی سے شائع ہوتے تھے۔  ایک الداعی کا اداریہ جو کلمۃ العدد کے عنوان سے نہایت جاندار ہوا کرتا تھا جس میں مولاناملکی حالات کے ساتھ عالم اسلام کی صورت حال اور اس کے مسائل پر کھل کر اظہار خیال فرماتے تھے۔ نیز صلیبی وصہیونی سازشوں سے نمٹنے کے لیے مناسب حل بھی پیش کیا کرتے تھے۔ دوسرا کالم مجلہ کے آخری صفحہ پر ’’اشراقۃ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ مولاناامینی کے اشراقات علماء ، طلباء اور عالم عرب کے ادباء کے درمیان بے حد مقبول تھے۔ طلبہ اس کالم کے لیے مجلہ منتظر رہتے ، بالخصوص تخصص فی الادب کے طلبہ عربی سیکھنے کے لیے اس سے بھر پور استفادہ کر تے تھے۔ اس کالم کے تحت مولانا امینی خالص اچھوتے ادبی اسلوب میں معاشرتی مسائل اور اصلاحی موضوعات پر خامہ فرسائی فرماتے تھے۔ گزشتہ قریب تین دہائیوں سے الداعی کا یہ کالم پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ جسے حالیہ دنوں میں مولانا نے’’من وحی الخاطر‘‘ کے نام سے قریب پانچ جلدوں میں مرتب فرمایا ۔ مضامین کا یہ حسین مجموعہ مولانا کی حین حیات ہی منظر عام آچکا تھا۔ عربی ادب کے قدر دانوں کے لیے یہ ایک گراں قدر تحفہ ہے ۔ ’’اشراقہ ‘‘مولانا کی ادبی صلاحیتوں کی جولان گاہ تھی جس میں ان کا ادبی ذوق پوری طرح جھلکتا تھا۔ عاجز راقم الحروف نے بھی مولانا کے ان دونوں کالموں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔

ـسوانح نگاری

سوانح نگاری ادب کی ایک اہم صنف ہے جس کے اپنے شرائط والتزامات ہیں، ہر کوئی اس میدان کا شہ سوار نہیں ہوسکتا۔ سوانح نگاری میں اسلوب کے ساتھ صاحب سوانح کے حالات کو پوری تحقیق واحتیاط کے ساتھ قلم بند کرنا ہوتا ہے۔غلو ومبالغہ اور افراط و تفریط سے اجتناب ضروری ہوتا ہے۔ مولانا امینی عظیم سوانح نگار تھے۔ دونوں زبانوں میں انہوں نے سوانح نگاری کا حق ادا کردیا۔ امینی صاحب نے اپنے ہر دل عزیز استاذ مولانا وحیدالزمان کیرانویؒ کی سوانح لکھی، جس میں انہوں نے نہایت البیلا اور اچھوتا اسلوب اختیار کیا۔ جب ان کی کتاب ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘ منظر عام پر آئی تو علمی اور ادبی حلقوں میں اس کا خوب چرچا ہوا۔سوانح پر ان کی دوسری کتابیں بھی کافی مقبول ہوئیں۔

مولاناامینی کے چند امتیازی پہلو

اکابر ومشاہیر اور اصحاب علم وادب کے حالات اس لیے قلم بند کئے جاتے ہیں تاکہ ان کی زندگی کے امتیازی پہلوؤں کو لوگ مشعل راہ بنالیں ۔ مولانا امینی کی ذاتی زندگی کے بعض احوال اور امتیازات لائق تقلید ہیں ۔ شاید ان ہی خوبیوں نے انہیں بام عروج پر پہونچا دیا تھا۔ سطور ذیل میں ان کی چند خصوصیات درج کی جاتی ہیں:

عربی زبان سے والہانہ عشق

عربی زبان سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے۔ چوںکہ ہمارے نبیﷺ عربی ہیں اور ہماری قرآن عربی زبان میں ہے ۔ آخرت میں جنتیوں کی زبان بھی عربی ہوگی ۔ مولانا امینی کو عربی سے عشق وجنون کی حد تک لگاؤتھا۔ مولانا کے شاگرد رشید نایاب حسن قاسمیؔ مولانا کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:’’ ان کی حیات عملی کا ہر لمحہ عربی زبان وادب سے وابستہ تھااور ان کی خدمت کا ہر زاویہ اسی ایک مرکز پر آکر ٹھہر تا تھا، یہی وجہ تھی کہ مولانا نہ صرف عربی زبان کے منفرد ادیب و مدرس اور مصنف تھے؛ بلکہ ان کے رگ وریشہ میں اور روح تک میں یہ زبان پیوست ہوگئی تھی۔ وہ اس زبان کے رموز واسرار پر کامل عبور رکھتے تھے۔ وہ عربی ہی میں سوچنے لگے تھے اور عربی زبان کی خدمت کو وہ اتنا ضروری خیال کرتے تھے جیسے سانس لینا، کھانا پینا جیسے عبادت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوران درس اپنے شاگردوں کو اس زبان کا درس عجیب ہی جوش وخروش کے ساتھ دیتے ۔ زبان کے الفاظ وعبارات اور اسالیب اظہار وادا سے ہی نہیں اس کی روح تک سے آشنا کروانے کی کوشش کرتے ۔ 

تدریس کی انفرادیت

منفرد تدریسی صلاحیت مولانا امینی کی امتیازی شان کہی جاسکتی ہے۔ عاجز کو مولانا کی شاگردی کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا؛ لیکن ان کے شاگردوںسے بارہا ان کی تدریسی صلاحیتوں کا حال سنا ہے، ان سے پڑھنے والا ہر طالب علم ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ یہاںایک بار پھران کے شاگرد عزیز مولانا نایاب حسن کا اقتباس پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:’’ کلاس میں آنے بیٹھنے اور حاضری کی کاروائی کی تکمیل کے بعد پھر جس طالب علم کو چاہتے ، عبارت پڑھنے کے لیے کہتے اور اس دوران اس کے نقوش وخطوط سے لے کر اس کی زبان سے ادا ہونے والے جملوں اور الفاظ وکی نشست وبرخواست ، آواز کے زیرو بم ، لہجہ اور انداز ادا کے اتار چڑھاؤ، وقفوں اور سکتوں کے مقامات کی رعایت تک پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے۔ وہ روایتی مدرسی نظام کے برخلاف عربی زبان کو اس کے اصل مزاج ونہاد کے مطابق بولنے ، پڑھنے اور لکھنے کی تاکید کرتے تھے اور اگر کسی نے بگڑے ہوئے لہجہ میں یا ہندوستانی آمیز لہجہ میں عبارت پڑھ دی تو کئی منٹ تک وہ مولانا کے عتاب شدید سے دوچار رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں مولانا کے اسباق کی شگفتگی افادیت کی فراوانی ،مولانا کی استاذانہ فیاضی ، ان کا دل نشین طرز تدریس وعطا ہر طالب علم کو ان کی کلاس تک کشاں کشاں لے جاتا ، وہیں پراگر کوئی طالب علم کم ہمت و کسل مند اور مولانا کے اعلیٰ معیار ادبی ولسانی کو سہارنے کا بوتانہیں رکھتا تھاتو ایک درجہ میں خائف بھی رہتا تھا کہ آج اسے عبارت پڑھنے کے لیے کھڑا نہ کردیا جائے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا کی کلاس جہاں ان کے پر لطف طرز تدریس ، ظریفانہ مزاج اور وقتا فوقتا قہقہہ زار باتیں کرنے کی وجہ سے زعفران زار بنی رہتی تھی ، وہیں ان کا غیر معمولی رعب بھی طلبہ پر چھایا رہتا تھا۔ طالب علم سے عبارت پڑھوانے کے بعد خود متعلقہ سبق کی عبارت نہایت صاف شستہ اور نہایت عربی لہجہ میں پڑھتے اس کے بعد اس کے ایک ایک لفظ کی ہندی کی چندی کرتے اس کے بعد بتاتے کہ یہاں فلاں لفظ کے کیا معانی ہیں اور آپ اپنے جملوں میں اسے کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ وہ سبق میں وارد ہونے والے مفردات ومرکبات ، افعال واسماء اور صلات وتعبیرات کی جملہ خصوصیات پر مفصل روشنی ڈالتے، انہیں لکھواتے اور ان پر اتنے جملے بنانے اور مشق کرنے کی تاکید کرتے کہ وہ تمام تعبیرات ازبر ہوجائیں ۔ پھر کبھی بھی آپ بے تکلف انہیں اپنی تحریر یا تقریر میں برت سکتے ہیں۔ مولانا عربی زبان کی تدریس کے حوالہ سے درجۂ اجتہاد پر فائز تھے۔ انہوں نے پیش پا افتادہ طریق تدریس کے برخلاف اپنے طلبہ کو زبان سیکھنے کی نئی راہیں سمجھائیں اور نئے اسالیب تفہیم سے روشناس کروایا۔ وہ کتاب پڑھانے سے زیادہ توجہ فن کو پڑھانے اور سکھانے پر دیتے تھے۔‘‘

وقت کی قدر شناسی

مولانا کی شخصی زندگی کا یہ ایک ایسا امتیاز تھا جو آپ کے ملنے والوں پر بخوبی واضح تھا۔ مولانا نے زندگی کے ایک ایک لمحہ کو خوب استعمال کیا ۔ گپ شپ اور محفل آرائی سے کوسوں دور تھے، ان کے مزاج میں کم آمیزی کا عنصر غالب تھا۔ وہ بھیڑ بھاڑ اور جلسے جلوس سے کتراتے تھے۔ شاید وقت کی اسی قدر شناسی کا اثر تھا کہ ان کے اوقات میں اللہ نے بڑی برکت رکھی تھی۔ وہ درسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے لیے کافی وقت نکال لیا کرتے تھے۔ تب ہی تو انہوں نے اہل علم کے لیے اپنی قیمتی کتابوں کی شکل میں گراں قدر سرمایہ چھوڑا۔ اصول پسندی ، نظم وضبط اور اوقات کی رعایت میں وہ حضرت تھانویؒ کو اپنا آئیڈل  تصور کرتے تھے۔

مسئلہ فلسطین سے دلچسپی

بیت المقدس اور قبلۂ اول کی بازیابی اور اسرائیل سے سرزمین فسلطین کی آزادی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہ ساری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے نہ کہ اہل فلسطین اور عربوں کا۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے امت مسلمہ کے ہر فرد کو اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ضروری ہے ، جہاں مسلمانوں کا حکمران طبقہ اس کا ذمہ دار ہے ، وہیں اہل علم اور ادب وصحافت سے وابستہ شخصیات پر بھی اس حوالہ سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مولانا امینیؒ بحیثیت ایک عالم ، مفکر اور ادیب کے مسئلہ فلسطین کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح محسوس کرتے تھے۔ ماہنامہ الداعی کے اداریوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید ایک تہائی سے زائد اداریے بیت المقد س اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ملیں گے ۔ فلسطین کے خلاف ہونے والی صلیبی اور صہیونی سازشوں پر انہوں نے اس کثرت سے لکھا کہ سیکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب وجود میں آئی ہے جو’’ فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں‘‘کے نام سے اہل علم و اصحاب نظر کے درمیان معروف ہے۔ جب یہ کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوئی تو اس کا ایک نسخہ مولانا نے عاجز کے نام بھیجا۔ عاجز نے تعمیل حکم میں کتاب پر تبصرہ لکھ کر روزنامہ منصف میں شائع کروایا ، جسے مولانا امینی نے بے حد پسند فرمایا۔

مولانا امینی اپنی حیات مستعار کے لمحات گزار کر اپنے مالک حقیقی کے حضور پہونچ گئے؛ لیکن ان کا چھوڑا ہوا علمی سرمایہ انہیں زندۂ جاوید رکھے گا ، نسلیں اس سے استفادہ کریں گی۔ یہ بات بلاکسی تردد کہی جاسکتی ہے کہ ہند وپاک میں مفکر اسلام مولانا علی میاںندویؒ کے بعد اگر کسی نے عربی زبان میںسب سے زیادہ لکھا ہے تو شاید وہ مولانا امینی ہیں۔ مولانا امینی زود نویس بھی تھے اور خوب نویس بھی۔ زود نویسی کے ساتھ خوب نویسی بالعموم جمع نہیں ہوتی؛ لیکن مولانا امینی کی کرامت تھی کہ یہ دونوں باتیں ان میں ایک ساتھ جمع تھیں۔ عربی زبان کے حوالہ سے ان کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند نے انہیں صدرجمہوریہ ایوارڈ سے نوازا۔ مولانا امینی کے انتقال پر ملک کے مشاہیر نے اپنے غیر معمولی تأثرات کا اظہار کیا اور خراج عقیدت پیش کی ؛ لیکن ان کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین یہ ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ ان کی جو کتابیں غیر مطبوعہ ہیں انہیں منظر عام پر لایا جائے اور مناسب ہوگا کہ ان کی یادگار کے طور پر ایک اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے تحت عربی زبا ن وادب کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے