آہ حبیب! علمی دنیا لرز اٹھا

 

آہ حبیب! علمی دنیا لرز اٹھا

 محمد شاہد اختر کھرساوی (انڈیا) 

اے خطہ فردوس کے راہی تو پلٹ آ

رحلت پہ تری غلغلہ آہ و فغاں ہے

 شخصیت تو ہمیشہ باقی نہیں رہتی  ہیں  لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے گزر جانے  سے ملال آتا ہے۔ چہار جانب لوگ افسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ چناں چہ  محدث کبیر، خطہ اعظم گڑھ کے سرتاج، علوم نبویہ سے مزین شخصیت، حضرت استاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ  مختصر علالت کے  بعد ٣٠/  رمضان المبارک/١٤٤٢ ھجری، مطابق: ٣/ اپریل ٢٠٢١ عیسوی، بروز جمعرات دوپہر کے وقت (بوقت ظہر) ہمیں چھوڑ کر عالم جاودانی کی طرف رخصت ہو گئے۔ 

انا للہ  وانا الیہ راجعون

 حضرت الاستاذ کی  زندگی علم و عمل سے مزین تھی۔ خوب صورت بار عب چہرہ، سر پر دو پلی ٹوپی، سفید پوشاک، سردیوں کے موسم میں رنگین لباس، ہاتھ میں عمدہ و جاذب نظر عصا، خوب صورت جوتی، انتہائی نفیس الطبع  انسان واقع ہوئے تھے۔ خالص علمی ذوق کے حامل تھے، اس عمر میں بھی اپنا کام خود کیا کرتے تھے، حتی کہ کھانا بھی خود بناتے تھے۔  بلند پایہ محدث تھے،  اسماء الرجال  پر گہری نگاہ تھی، آپ مدلل گفتگو فرماتے تھے، ممتاز مصنفین میں آپ کا شمار ہوتا تھا، بہترین قلم کار  اور انشاء پرداز تھے، تندرست و تواناں انسان تھے، بالکل صحت  مند اور تندرست تھے  اگرچہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ آٹھویں  دہائی  سے گزر رہے تھے؛ لیکن حفظان صحت اور روز مرہ  کے نظام العمل کی وجہ  سے آپ کا جسم مضبوط تھا، بظاہر کوئی ایسے حادثہ کی امید نہیں تھی  لیکن تقدیر خداوندی کے آگے سب کچھ ہیچ ہے۔ کامیاب زمانہ طالب علمی گزارنے کے ساتھ زمانہ تدریس بھی آپ کا تابناک رہا، آپ ایک بہترین مدرس تھے، درس و تدریس کے شہسوار تھے، آپ کا سبق طلبہ میں مقبول تھا، درس میں مدلل گفتگو فرماتے تھے، تدریسی میدان میں آپ کی تدریس کے کیا کہنے ہر کوئی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، 

دارالعلوم دیوبند میں طویل زمانے سے تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے۔ چناچہ مشکاۃ شریف،  م ابو داؤد شریف، مسلم شریف، مقدمہ ابن الصلاح، ہدایہ جیسی اہم کتب کا درس انتہائی خوبصورت انداز اور دلنشیں پیرائے میں دیا کرتے تھے، 

عبارت اس طرح حل فرماتے کہ اشکال و اعتراض باقی ہی نہیں رہتا، ایک ایک لفظ کی وضاحت فرماتے، 

رواۃ حدیث پر زبردست اور مدلل گفتگو فرماتے، راجح قول کی نشاندہی فرماتے، کثرت مطالعہ کے عادی تھے، تمام علوم و فنون پر کامل دسترس رکھتے تھے، عظیم مؤرخ بھی تھے  شیخ اکرم کی کتاب آب  کوثر، رود کوثر، موج کوثر کو پڑھنے کی ترغیب  دیتے، 

آپ کے علم میں گہرائی وگیرائی تھی، علمی کتابوں کے شوقین تھے لیکن۔ کسی بھی طرح علمی کتاب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے،   ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند  کے طویل زمانے تک مدیر رہے، 

 حضرت الاستاذ کا شیخ اعظمی سے  تعلق اور عقیدت و محبت، 

حضرت الاستاذ  نوراللہ مرقدہٗ کا حضرت مولانا  عبدالحق صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ سے گہرا تعلق تھا۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ  علیہ حضرت مولانا کے انتہائی مشفق اساتذہ میں سے تھے حضرت شیخ کی وفات کے  بعد جب ہفتم ثانیہ ( سابق دارالحدیث تحتانی) میں تعزیتی جلسہ ہوا  جس میں حضرات اساتذہ کرام  دارالعلوم دیوبند  اور طلبہ  بھی شریک تھے۔ اس مجلس میں حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی  نور اللہ مرقدہٗ حضرت شیخ کی  خدمات پر روشنی ڈا لی اور خوبیاں بیان کرتے ہوئے دوران گفتگو رونے لگے، 

آگے حضرت والا  نے جو گفتگو فرمائی تھی وہ نا چیز کے ذہن میں نقش ہے اور اس  وقت بندے۔ نے ایک ڈائری میں وہ سب باتیں قلم بند کی تھیں۔ حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہٗ نے اپنے تاثر کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا  فرمایا کہ: حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ  انتہائی مخلص  اور دین کے خادم تھے مجھ پر حضرت کا بڑا احسان  ہے، 

فرمایا کہ :

 دارالعلوم دیوبند  سے فراغت کے  بعد آپ بغرض تعلیم ندوۃالعلماء تشریف لے گئے تو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ  وہاں کی آب وہوا ناموافق اور  قلب آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے  واپس تشریف لے آئے، 

فرمایا کہ :

میں حضرت شیخ  رحمہ اللہ کے ساتھ بارہا شیخ الحدیث حضرت  مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ  علیہ سابق شیخ الحدیث  مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور  کی خدمت  میں حاضر ہوا، 

مزید فرمایا کہ: شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ میرے انتہائی مشفق اساتذہ میں سے تھے، یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ شیخ صاحب حضرت مولانا کے استاد ہیں، دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث  میں تعزیتی جلسہ کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ اس وقت مجھے بہت صدمہ ہے اور کچھ کہنے کی ہمت اور طاقت نہیں ہے، بس اتنا ضرور کہوں گا کہ آج جو کچھ میں ہوں، وہ حضرت مولانا مرحوم کی وجہ سے ہوں، اور فرمایا کہ پرائمری کی تعلیم کے بعد والد صاحب کا آگے پڑھانے کا ارادہ نہیں تھا، مگر حضرت شیخ رحمہ اللہ نے والد صاحب کو آگے کی تعلیم کے لیے متوجہ اور راضی کیا۔  

مطلع العلوم بنارس کے زمانے میں شیخ صاحب نور اللہ مرقدہ کا پیٹ کا آپریشن ہوا، جس میں تقریبا پچیس روز تک اسپتال میں رہنا پڑا، اس زمانے میں حضرت  الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب قدس سرہ شرح جامی وغیرہ میں زیر تعلیم تھے ، آپ نے بیس بائیس روز تک حضرت شیخ صاحب کی بہت خدمت کی حتی کہ نہانے اور کپڑے بدلنے کے لیے بھی آپ ساتھ ساتھ رہتے۔ 

حضرت شیخ کی بیماری کے ایام اور آخری وقت میں بیماری وصحت کی تفصیلات آپ نے بتائی، 

حضرت مولانا شیخ عبد الحق صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خود نوشت سوانح میں  حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ:

عزیزی مولوی حبیب الرحمن سلمہ نے میری پوری خدمت کی۔ 

دونوں حضرات دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تو ملاقات ہوتی رہی، ملنا جلنا ہوتا، افادہ و استفادہ ہوتا رہا، لیکن جب تدریسی مشغولیت اور دیگر ذمہ داری کاندھوں پر آ پڑی تو پھر اپنے اپنے کام میں مشغول ومنہمک رہے، 

 اس ناچیز کو  حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے شرف تلمذ حاصل  ہے حقیر نے  حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے مسلم شریف جلد اول و ثانی پڑھی ہے یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے، 

 حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہٗ نے مسلم  شریف حضرت مولانا بشیر احمد صاحب بلند شہری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی  اور حضرت مولانا بشیر احمد  صاحب نور اللہ مرقدہ نے حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی اور  حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ الہند سے اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نانوتوی سے پڑھی، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے انہوں نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی، 

حضرت الاستاذ کی خدمت میں حاضری! 

حضرت استاد  علیہ الرحمہ  جلسہ جلوس کے آدمی نہیں  تھے، لیکن آپ کو حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کامی قائم کردہ انجمن مدنی دارالمطالعہ  سے بے انتہا  لگاؤ تھا، 

چنانچہ سال ٢٠١٩  میں مدنی دارالمطالعہ  کے اختتامی اجلاس  کی صدارت کے لیے تاریخ لینے برادرم  مولوی محمد احمد  بجنوری،  مولوی محمد فیصل دیوریاوی، محمد لقمان سنبھلی  اور یہ ناچیز آپ کی خدمت میں حاضر ہوا   تو خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ مطلوبہ تاریخ میں مجھے کہیں جانا ہے، وعدہ کر لیا  ہے۔ پہلے آئے ہوتے۔ اب شروع سال میں ملنا، 

پھر  آئندہ سال راقم الحروف  مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ  چلا گیا اور شروع سال میں  ناچیز کے علاوہ ذکر کردہ  تینوں احباب حضرت الاستاذ کی خدمت  میں حاضر ہوئے  تو حضرت مولانا نے بشاشت کے ساتھ تاریخ دے دی، 

حضرت مولانا کے یہاں بعد نماز عصر اساتذہ اکھٹے و جمع ہوتے، مجلس لگتی، جس میں حضرت الاستاذ مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم العالیہ  پابندی کے ساتھ ساتھ اپنی مخصوص چال ڈھال اور انداز میں میں تشریف لے جاتے، بارہا دیکھا گیا کہ بعد نماز عصر حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم العالیہ مسجد قدیم سے نماز کے بعد نکل کر سیدھے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے، اعظمی منزل کی دوسری منزل پر تشریف لے جاتے، حضرت مولانا کے علاوہ  صاحبزادہ شیخ الاسلام مولانا سید محمد اسجد صاحب مدنی دامت برکاتہم العالیہ  اور دیگر اساتذہ کرام بھی تشریف فرما رہتے، 

اب یہ  مخصوص کمرہ بھی  ویران ہوگیا ، 

شروع سال میں یقینا  نوآموز  اور نئے طلبہ جو دارالعلوم دیوبند  میں داخلے کی غرض سے امتحان میں شریک ہوتے، اور اعظمی گیٹ کے دیوار پر چسپاں اعلان دیکھ کر  کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس دوران حضرت الاستاذ کو بوقت ضرورت اور نماز کے وقت اندر باہر آتے جاتے م راستہ بلاک ملتا تو نہ جانے کتنے کے کانوں پر تھپڑ لگے ہوں گے، جسے لگا پھر ہوشیار ہو جاتا، ازدحام، بھیڑ بھاڑ، غیر سلیقے  کی وجہ سے  آپ کو سخت غصہ آتا تھا ، 

ولادت تعلیم وتربیت! 

حضرت مولانا  کی ولادت  ١٣٦٢ ھجری  مطابق ١٩٤٢ عیسوی کو جگدیش پور، جو پھول پور کے پاس ایک گاؤں ہے وہاں ہوئی، 

اسی گاؤں کے آپ  کے استاد  حضرت مولانا  عبدالحق صاحب اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ سابق  شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبندی بھی تھے، 

ابتدائی تعلیم مدرسہ امداد العلوم میں  حاصل کی، آگے کی تعلیم کے لیے لیے آپ کے والد ماجد  راضی نہیں تھے چنانچہ  حضرت مولانا شیخ عبدالحق صاحب  اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے آپ کے والد ماجد کو راضی کیا اور مدرسہ بیت العلوم سرائے میر  میں آپ کا داخلہ  کرایا جن کے آپ بے حد ممنون و مشکور رہے۔ 

اس کے بعد  متوسط تعلیم کے لیے آپ مدرسہ مطلع العلوم بنارس تشریف لے گئے، جہاں حضرت مولانا  عبدالحق صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  تدریسی خدمات  انجام دے رہے تھے اور درس نظامی کی اکثر کتابیں آپ کے ذمے تھیں چنانچہ  یہاں حضرت الاستاذ  نے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی  سے درس نظامی کی  اکثر کتابیں پڑھیں  اور حضرت اکثر شیخ کے ساتھ  رہتے ، پھر دارالعلوم مؤ میں تعلیم حاصل  کی اس کے بعد  اعلی تعلیم کے لیے  دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ١٣٨٢ ھجری مطابق ١٩٦٢ عیسوی کو دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے، 

 نمایاں اساتذہ  کرام! 

حضرت  مولانا شیخ عبد الحق صاحب اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا فخر الدین  احمد صاحب مراد آبادی رحمتہ اللہ علیہ،   حضرت علامہ  محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا  فخر الحسن صاحب مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا حسین صاحب بہاری  رحمتہ اللہ علیہ وغیر ہم، 

تدریسی خدمات! 

حضرت مولانا نے  تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ اسلامیہ مدنپورہ بنارس میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی، جو بعد میں مدرسہ  ریوڑی تالاب بنارس میں منتقل ہوا اور اسی کے نام سے مشہور بھی ہے،

یہ مدرسہ میں حضرت اقدس مولانا و مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم العالیہ مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا مادر علمی ہے اور دارالعلوم دیوبند تشریف لانے سے قبل تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، 

جامعہ اسلامیہ  بنارس میں  حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ انتہائی محنت و لگن  اور تندہی کے ساتھ فرائض  منصبی انجام دیتے رہے، اس سلسلے میں نمونہ سلف  حضرت اقدس  استاد گرامی قدر مولانا  و مفتی ابوالقاسم  صاحب نعمانی  دامت برکاتہم العالیہ مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی تحریر پڑھنی چاہیے،  حضرت کی تحریر مختصر ضرور لیکن جامع ہے۔ 

پھر دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے بعد  دارالعلوم دیوبند کا قضیہ  پیش آیا  اور مؤتمر ابنائے قدیم کا قیام عمل میں آیا  اس دوران حضرت فدائے ملت رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو مؤتمر اور  شائع ہونے والا رسالہ " القاسم " کی ذمہ داری سپرد کی، 

اس سے متعلق ہوکر آپ خدمات  انجام دیتے رہے۔ پھر آپ ١٤٠٢ ھجری مطابق ١٩٨٢ عیسوی میں بحیثیت  استاد دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوئے، اور بہت جلد ترقی کرتے  ہوئے درجہ علیا کے اساتذہ کی فہرست میں شامل ہوگئے، 

حضرت والا نے  دا رالعلوم دیوبند میں چالیس سال تک درس و تدریس  اور علوم نبویہ کی خدمات انجام دیتے رہے، طویل عرصے میں آپ  نے روشن و تابناک نقوش چھوڑے ہیں، اس عرصے میں حضرت نے والا مختلف  علوم و فنون  کی چھوٹی بڑی کتابوں کا  کماحقہ درس دیا،  جس کا تذکرہ بطور مثال مختصراً کیا جا چکا ہے،

بحیثیت مدیر! 

آپ ملک کے مشہور ومعروف اور صاحب قلم علماء میں شمار کیے جاتے تھے، چناں چہ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ بحیثیت مدیر ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند میں رجب المرجب ١٤٠٤ ھجری مطابق اپریل ١٩٨٤ عیسوی سے کام شروع کیا (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ٢٠١٦ ع ص:٨)

حضرت مولانا باضابطہ ذی قعدہ ١٤٠٥ ھجری مطابق اگست ١٩٨٥ء میں مدیر مقرر ہوئے، حضرت مولانا کی ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کی زمانہ ادارت، مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر صاحب رحمہ اللہ کی طرح طویل ہے، کل ملا کر مدت ادارت ٣٢ سال آٹھ مہینے ہیں۔ یعنی ١٤٠٤ ھجری مطابق اپریل ١٩٨٤ عیسوی سے نومبر ٢٠١٦ عیسوی تک مدیر رہے، بعدہ درازی عمر اور دیگر علمی، تدریسی، تحقیقی مصروفیات ومشغولیات کی وجہ سے اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے، اور اب ادارت کی ذمہ داری استاد محترم حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وادب دارالعلوم دیوبند انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھا رہے ہیں،

دارالعلوم کے قضیہ نا مرضیہ کے بعد رسالہ کی خدمت استاذ الاساتذہ مولانا ریاست علی صاحب ظفر بجنوری رحمۃ اللہ علیہ سابق استاد حدیث دارالعلوم دیوبند نے ادارت کی ذمہ داری نبھائی، تو اس دوران بھی حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ گاہ بگاہ مدیر کی حیثیت سے ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند میں مضامین لکھتے تھے، آپ کے دور ادارت میں رسالہ کا کام خوب پھیلا۔ نئے ڈھنگ و انداز اور جوش و ولولہ سے اس کام کو آگے بڑھایا، دارالعلوم دیوبند کی عظمت اور خدمات کو اپنی تحریر کے ذریعے پورے عالم میں عام کیا بہت سارے مضامین آپ کے ایسے ہیں کہ وہ مستقل کتابچہ، رسالہ اور مفصل رپورٹ کی شکل میں ہیں، آپ کی تحریر جاذب نظر، خوبصورت، صاف ستھری، حسن اسلوب سے لبریز، تصنع وبناوٹ سے دور، مواد سے پر۔ علمی وتحقیقی ہوا کرتی تھی، قارئین کے دل کو موہ لیتی، بڑے لکھاری اور انشاء پرداز تھے، آپ کے زمانہ ادارت میں متعدد خاص نمبر بھی شائع ہوئے ہیں۔ جن میں ختم نبوت نمبر، الاحسان نمبر، مسلم پرسنل لاء نمبر، وفیات نمبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انتہائی چابک دستی اور بیدار مغزی کے ساتھ آپ نے اس اہم منصب کو ادا کیا، آپ کے تمام مضامین کو جمع کیا جائے تو کئ جلدیں تیار ہو جائیں گی اور افادہ عام کے لئے اس کی اشاعت ہونی چاہیے،

اللہ آسانی کا معاملہ فرمائے ، آمین

تصنیف و تالیف!

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ تصنیفی وتالیفی امور بھی انجام دئے ہیں اس میدان میں حضرت نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، تدریسی مصروفیات اور دیگر امور کے انجام دہی کے علاوہ چھوٹے بڑے کئ اہم رسالے و کتابیں تصنیف فرمائ کہ جس کی نظیر نہیں ملتی، دور حاضر میں حضرت کی تاریخی، تحقیقی اور علمی دستاویز پر نگاہ ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے بلند پایہ مصنف اور محقق عالم دین ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک شہرہ آفاق محقق تھے، جس موضوع پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کرتے مالہ وماعلیہ کو نچوڑ کر رکھ دیتے، یقیناً آپ نے جو نمایاں تصنیفی خدمات انجام دی ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، 

حضرت الاستاذ کی تصانیف درج ذیل ہیں :

(١) تذکرہ علماء اعظم گڑھ (٢) میت پر اظہار غم کے مسائل ودلائل (٣) شرح مقدمہ شیخ عبد الحق فی بیان بعض مصطلحات علم الحدیث (٤) کتابچہ حجیت حدیث وسنت پر نقد ونظر (٥) سر سید احمد خان کا نظریہ حجیت حدیث بحث و تحقیق کے آئینے میں (٦) علم حدیث میں امام ابو حنیفہ کا مقام و مرتبہ (٧) بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں (٨) مقالات حبیب (٣ جلدیں)  (٩) حسن غریب / اشرف علیہ (١٠) نور القمر فی توضیح نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر (١١) اجودھیا کے اسلامی آثار (١٢) حرمت مصاہرت (١٣) شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی (عربی) وغیرہ نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں،

نماز جنازہ!

وفات ہی کے دن بعد نماز عشاء اپنے آبائی گاؤں جگدیش پور اعظم گڑھ میں آپ کے پوتے مولانا محمد عفان صاحب قاسمی نے نماز جنازہ پڑھائی اور آبائی قبرستان میں اس علم وفن کے بحر بیکراں کو نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا،

اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرمائے ،درجات بلند فرمائے، خدمات کو قبول فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو نعم البدل عطا فرمائے ،آمین

تحریر کردہ :١٧/ شوال المکرم ١٤٤٢/ھجری مطابق ٢٩/  مئی/ ٢٠٢١ عیسوی 

بہ روز: ہفتہ 

بہ وقت: شب، ٨:١١ بجے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے