جہاں تک ہوسکے اپنے وجود کو نفع بخش بنائیے !


جہاں تک ہوسکے اپنے وجود کو نفع بخش بنائیے !


 امیرالہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری رحمة اللہ علیہ  سابق صدر جمعیة علماء ہند

کا متحدہ آندھرا پردیش کے دوسرے ریاستی اجلاس سے فکر انگیز خطاب ۔

جمع و ترتیب : مفتی تنظیم عالم قاسمی           

استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد

 آج سے تقریباً نو سال قبل جمعیة علماء متحدہ آندھرا پردیش کا دوسرا ریاستی اجلاس 5جنوری 2012ء جمعرات کے دن شام میں نظام کالج گراؤنڈ حیدر آباد میں منعقد ہوا تھا ، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ عوام و خواص موجودتھے۔اس موقع پر استاذ محترم حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصوری پوری رحمة اللہ علیہ نے بصیرت افروز صدارتی خطاب فرمایا تھا جس کو لوگوں نے کافی پسند کیا ۔ میں نے اسی موقع پر تقریر کا خلاصہ لکھا تھا جس کو اخبارات نے بڑی اہمیت دی تھی۔ افادۂ عام کے لئے پیش خدمت ہے:

(1 ) حضرت نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ آپ جہاں اور جس حال میں بھی رہیں اپنے وجود کو دوسروں کے لئے نفع بخش بنائیے ، انسان کا مقصد صرف اپنا پیٹ بھرنا ، اپنے جسم کو دیدہ زیب کپڑوں سے ڈھانکنا اور اپنی راحت وآسائش کا سامان فراہم کرنا نہیں ہے ؛ بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنا ، ان کے مصائب و مشکلات میں کام آنا اور ان کی ضروریات کی تکمیل میں تعاون کرنا ، ایک مسلمان کی زندگی کا اہم مقصد ہونا چاہئے ، ورنہ انسان اور جانور میں کیا فرق باقی رہے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ، شعور دیا اور مختلف علوم و فنون سے آراستہ کیا ، اس کا تقاضا ہے کہ اس میں ہمدردی ، خیر خواہی اور نفع رسانی کے جذبات ہونے چاہئیں ، اسلام نے ایسے لوگوں کو پسند کیا ہے ، جو اپنے وجود سے دوسروں کو نفع پہنچائے ، ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' خیر الناس من ینفع الناس ، فکن نافعا لہم'' (کنز العمال)یعنی : '' سب سے بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے '' نفع پہنچانے کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں ، جیسے کسی مجبور ولاچار کا پیسوں کے ذریعہ تعاون کرنا ، ضرورت مندوں کوقرض فراہم کرنا ، غریب بچیوں کی شادی میں حصہ لینا ، پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور کرنا ، کسی ضرورت مند کی آواز کو ایسے شخص تک پہنچا دینا جو اس کی ضرورت پوری کرسکے ، بیمار کی عیادت کرنا اور تسلی کے کلمات کہنا ، خوشی اور غم کے موقعوں پر ساتھ دینا یہ اور اس طرح کے وہ تمام کام جس سے دوسروں کی بھلائی مقصود ہو ، اللہ تعالیٰ کی نظر میں نہایت پسندیدہ ہیں ؛ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : یا رسول اللہ ! لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کو کون پسند ہے اور کون سا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمام انسانوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ خدا کو وہ شخص ہے جو لوگوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہو اور سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو کوئی خوشی پہنچائی جائے ، یا اس سے کوئی تکلیف دور کی جائے یا اس کے دیون ادا کئے جائیں ، یا کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا جائے ، میں کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلنے پھرنے کو مسجد نبوی میں ایک مہینہ اعتکاف کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں ۔ (طبرانی)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو صرف عبادت میں مشغول رہتا ہے اور اپنے آپ کو کمرہ اور مسجد کی حد تک محصور رکھتا ہے ، اس سے بہتر وہ بندہ ہے جو دوسروں کے تعاون کے لئے چلتا پھرتا ہے اور ان کے مسائل حَل کرنے میں بڑے اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' ومن مشی مع أخیہ في  حاجة حتی یتہیأ لہ أثبت اللہ قدمہ یوم تزول الأقدام '' (طبرانی ، حدیث نمبر : ١٣٦٤٦) '' جو اپنے بھائی کی ضرورت کے لئے چلے یہاں تک کہ اسے پوری کردے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھے گا جس دن لوگوں کے قدم پھسل رہے ہوںگے '' ۔

ایک مسلمان پر خاص طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے سوچ ، اپنی فکر ، اپنے عمل اور شب و روز کو دوسروں کے لئے نافع بنائے ، جس قدر بھی وسعت ہو اپنے مال و دولت ، اپنی جائداد کے ذریعہ یا کم از کم اپنی بات چیت کے ذریعہ دوسروں کا تعاون کرے ، قرب و جوار میں رہنے والے افراد کا خاص خیال رکھا جائے ؛ اس لئے کہ پڑوسیوں کے حقوق عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں ، خواہ پڑوسی مسلم ہو یا غیر مسلم ، اسلامی شریعت نے اپنے پیروکاروں کو مثبت سوچ اور مثبت عمل ہی کی ترغیب دی ہے اور منفی عمل سے روکا ہے ، اگر کسی سے فائدہ نہ پہنچ سکے تو نقصان بھی نہ پہنچائے ۔

(2) حضرت نے فرمایا کہ اخلاص نیت سے دنیوی کام بھی دین بن جاتا ہے ، اگر کوئی شخص صدق دل اور خیر خواہی کے جذبہ سے اپنے یا دوسروں کے دنیوی کام انجام دیتا ہے تو یہ بھی بڑے اجر وثواب کا موجب ہے ؛ چنانچہ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی گذرا ، صحابہ نے دیکھا کہ وہ رزق کے حصول میں بہت متحرک ہے اورپوری دلچسپی لے رہا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! اگر اس کی یہ دوڑ دھوپ اور دلچسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لئے دوڑ دھوپ کررہا ہے تو یہ اللہ کی راہ ہی میں شمار ہوگی اور اگر بوڑھے والدین کی پرورش کے لئے کوشش کررہا ہے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہی شمار ہوگی ؛ البتہ اگر اس کی یہ محنت زیادہ مال حاصل کرکے لوگوں پر برتری جتانے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ہے تو یہ ساری محنت شیطان کی راہ میں شمار ہوگی ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث نمبر : ٢٨٢)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کی پوری زندگی عبادت ہے ، اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا ، دوڑ دھوپ اور زندگی کی ساری سرگرمیاں اپنی نیت کو صحیح رخ دینے سے دین اور عبادت بن جاتی ہیں ، لوگوں کا عام طور پر تصور ہے کہ نماز ، روزہ ، زکوٰة ، حج ، تلاوت اور ذکر و اذکار ہی حقیقی عبادت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے ؛ حالاںکہ ایسا نہیں ہے ، اسلام میں زہد و تقویٰ اور عبادت کا جو وسیع تصور ہے اس حدیث سے صاف ظاہر ہے ، حضرت نے فرمایا کہ جمعیة العلماء کے سارے نظام کو اس کے اسلاف و اکابر نے اسی وجہ سے دین سمجھا اور دینی سرگرمیوں سے اسے تعبیر کیا ۔  چوںکہ جمعیة العلماء تنظیم کی بنیاد1919ء میں چند مخلص بزرگوں نے ملک و ملت کے مسائل حل کرنے ، مسلمانوں کے مسائل مشکلات کو دور کرنے اور اسلامی اصول و قوانین کو حکومتی مداخلت سے بچانے کے لئے رکھی تھی اور اس زمانہ سے آج تک کسی انقطاع کے بغیر ملک کا یہ مؤقر ادارہ اپنے ان ہی اغراض و مقاصد کے تحت کام کررہا ہے ، حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد ، حضرت مفتی کفایت اللہ ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہم اللہ اور ان کے تمام رفقاء کار نے مسلمانوں کے مسائل کو حکومت تک پہنچانے ، مسلم پرسنل لا ء کے تحفظ اور اسلامی تہذیب ومعاشرت اور اسلامی تشخص کی بقا کے لئے جمعیة العلماء کو اپنے سینے سے لگایا ، اس کے کام کو فروغ دیا ، انہوں نے عہدہ اور منصب کے لالچ کے بغیر ایسی جد و جہد کی کہ آج ملک میں مسلمان شان و شوکت اور مکمل اسلامی شناخت کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ، آج بھی یہ ادارہ ان ہی خطوط پررواں دواں ہے ، دور دراز شہروں اور علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سمندر جمعیة العلماء کے قائدین کی نیک نیتی اور ان کے جذبۂ خیر خواہی کا واضح ثبوت ہے ، ضرورت پڑتی ہے تو غیر مسلم اہم قائدین کو بھی اس اسٹیج پر بلایا جاتا ہے اور خود ان ہی کی زبان سے مسلمانوں پر ہوے ظلم کے خلاف طاقت ور آواز اٹھائی جاتی ہے ، یہ دین نہیں تو اور کیا ہے ؟ 

(3 )  حضرت نے مسلمانوں کو حلال روزی کے ذریعہ اپنے اقتصادیات کو مضبوط کرنے کی بھی ترغیب دی ؛ اس لئے کہ محتاجگی انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے ، بہت سے اچھی صلاحیت کے لوگ بھی پیسے اور عہدے کے لالچ میں اپنے مسلک اور اپنے عقائد کو بدل ڈالتے ہیں ، امیروں اور اہل ثروت کے پاس حق کی بات نہیں کہی جاسکتی اور نوبت مداہنت فی الدین تک پہنچ جاتی ہے ، مسلمان اگر خود مالدار اور صاحب جائداد ہوں گے تو وہ اقتدار والوں کے سامنے جھکیں گے اور نہ ان کی چاپلوسی کریں گے ، صحیح اور حق بات کو بولنا ان کے لئے آسان ہوگا ؛ اس لئے اپنے حقوق کے مطالبہ کرنے اور تحفظات کی طلب کے ساتھ خود کی پسماندگی کا دورکرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' ان اللہ یحب المؤمن المحترف '' (المعجم الأوسط للطبرانی ، حدیث نمبر : ٨٩٣٤)'' اللہ اس مسلمان سے محبت کرتا ہے جو کوئی محنت کرکے روزی کماتا ہے ''  ــــ اسلام نے تجارت اورجائز پیشے کی تمام صورتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور حلال کمائی کے ذریعہ حصول دنیا کی بھی ترغیب دی ہے ؛ بلکہ قرآن میں متعدد ایسی آیات ہیں جن میں ذکر و اذکار اور نماز وغیرہ سے فراغت کے بعد بازاروں میں پھیل جانے اور روزی کمانے کا حکم دیا گیا ہے ، جس سے مضبوط معاش کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔

(4) حضرت نے اپنے خطاب کا آغاز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مروی اس حدیث سے کیا تھا : '' ن اللہ أمرکم بثلاث ونہاکم عن ثلاث أمرکم أن تعبدوا اللہ ولا تشركوا بہ شیئا وأن تعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا وتسمعوا وتطیعوا لمن ولاہ اللہ عز و جل أمرکم '' حلیة الأولیاء : ٣٢٩٨)'' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمہیں تین چیزوں کا حکم دیتا ہوں ، اللہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، تم سب ایک ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں انتشار نہ پھیلاؤ ، اللہ نے تمہارے معاملات کا ذمہ دار جس کو بنایا ہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو ''  ــــ اس حدیث میں وحدانیت کی تعلیم کے ساتھ ایک جھنڈے تلے اور ایک امیر کے تحت زندگی گذارنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے ، اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ آپسی اختلافات و انتشار سے مسلمانوں کی قوت بکھر جاتی ہے اور وہ ہلکے ہوجاتے ہیں ، پھر دشمنان اسلام کے لئے مسلمانوں پر حملہ کرنا آسان ہوجائے گا ، اتحادی قوت کے سامنے ہرباطل طاقت سجدہ ریز ہوسکتی ہے ، ماضی میں اگر غیر مسلموں کی سازشیں کامیاب ہوی ہیں اور مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا ہے تو مسلمانوں کے آپسی اختلاف و انتشار کی وجہ سے؛ اس لئے جمعیة علماء ہند سارے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتی ہے ، اس ادارہ سے وابستہ ہوکر آپ اپنی حمیت اور اتحادی قوت کا ثبوت دیں ؛ تاکہ متحد ہوکر حکومت وقت سے اپنی باتیں کہہ سکیں اور ہماری آواز مؤثر اور لرزہ خیر ثابت ہوسکے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے