علامہ عبد الحئی لکھنوی کا رجحانِ نظر... بریلویت یا کچھ اور

علامہ عبد الحئی لکھنوی کا رجحانِ نظر... بریلویت یا کچھ اور

ابو الحسنات علامہ عبد الحئی لکھنوی بلادِ ہند کی ان مایہ ناز ہستیوں میں سے ایک ہیں، جن پر اہلِ ہند کو بجا طور پر ناز ہے۔ 

علمِ حدیث و فقہ کے سرچشمے سے مکانی بُعد کی بنا پر، سرزمینِ ہند صدیوں ان علوم کے اسرار و حقائق سے محروم رہی، اور جب خاندانِ ولی اللہی نے علمِ حدیث کا فیضان، چشمۂ حیواں کی شکل میں یہاں جاری کیا، تو کچھ ہی عرصے میں یہ مردہ زمین، زرخیز اور مردم خیز بن گئی۔

چنانچہ انتہائی قلیل مدت میں علومِ اسلامیہ کے شناور ایک ایک کر کے سامنے آنے لگے، اور اپنی خدمات کے دم پہ چہار دانگِ عالم میں اپنے وطن کا نام روشن کیا، ان عظیم شخصیات میں ابو الحسنات علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا اسمِ گرامی بڑا نمایاں ہے۔ 

علامہ لکھنوی کی ولادت 1848ء میں ہوئی، انہوں نے علماء دیوبند و بریلی کے اختلافات سے قبل کا زمانہ پایا، لیکن دیوبند و بریلی کے بعض اکابر علماء اس وقت موجود تھے۔ 

چنانچہ مولانا قاسم نانوتوی (ولادت: 1833ء) ان ہی کے دور میں تھے، البتہ علامہ لکھنوی کی وفات سے قبل وفات پا گئے تھے۔ 

اسی طرح مولانا احمد رضا خان بریلوی(ولادت: 1856ء) کا کچھ ابتدائی زمانہ علامہ لکھنوی نے دیکھا، لیکن علامہ کا وصال بھی جلد ہی (1886ء میں) ہو گیا تھا، اس لیے خان صاحب بریلوی کی اصل ترکتازیاں انہوں نے نہ دیکھیں۔

بہرحال..! علامہ کی اڑتیس یا انتالیس سالہ زندگی اگر اس نظریے سے دیکھی جاۓ، کہ وہ علماء دیوبند و بریلی میں سے کس جانب زیادہ مائل تھے، یا ان کے افکار و تحریرات کی روشنی میں ان کا میلان تلاش کیا جائے، تو بہت آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے، کہ وہ مکمل طور پر علماء دیوبند کے حامی ہی نہیں، ان ہی کا حصہ تھے۔

چنانچہ آئندہ سطروں میں اس دعوے کی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں، جو اکثر علامہ کی تحریرات سے ماخوذ ہیں:

پہلی دلیل: 

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب نہیں مانتے تھے، وہ اس نظریے میں جمہور علماء اور علماء دیوبند کے ساتھ تھے،کہ رسول اللہ عالم الغیب نہیں ہیں، ان کے پاس اتنا ہی علم ہے، جو خدا نے انہیں دیا ہے۔ 

چنانچہ اپنے رسالے "الآثار المرفوعة فی اخبار الموضوعة" میں لکھتے ہیں: 

منھا: ما یذکرہ الوعّاظ من ان النبی أعطي علم الاولین و الآخرین مفصّلاً، و وھب له علمُ کلِّ مامضی ومایاْتی کلیاً وجزئیًّا، و أنه لا فرق بین علمه و علم ربه من حیث الإحاطة و الشمول. 

وھذا زخرف من القول و زور علی ماصرّح به ابن حجر المکّی فی "المنح المکیة شرح قصیدۃ الھمزیة"  وغیرہ من ارباب الشعور، و الثابت من الآیات القرآنیة و الأحادیث النبویة ھو ان الإحاطة و الشمول وعلمُ کلّ غیبٍ مختصٌ بجناب الحق، ولم تُوھَب ھذہ الصفة من جانب الحق لأحد من الخلق، نعم، علوم نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أزید و أکثر من غیرہ.

ترجمہ: 

ان غلط اخبار میں سے ایک وہ ہے، جو (بریلوی) واعظین بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل طور پر اگلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ہے اور آپ کے پاس ہر اس چیز کا کلی و جزوی علم ہے، جو ہو چکا یا جو آئندہ کبھی ہوگا، اور آپ ص کے علم اور اللہ کے علم میں عمومیت اور شمولیت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ 

یہ ایک جھوٹی اور بے بنیاد بات ہے، جيسا که با شعور علماء، بشمول علامہ ابن حجر مکی، نے اپنی کتاب "المنح المکیہ" میں بیان کیا ہے۔

نیز آیات قرآنی اور احادیث نبوی سے یہ ثابت ہے کہ تمام اشیاء کا علم اور علمِ غیب صرف خداوندِ متعال کا خاصہ ہے، اور خداۓ علّام الغیوب نے یہ خاصیت و صفت مخلوقات میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی۔

ہاں، یہ درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم دیگر کے مقابلے یقیناً زیادہ ہے۔ (رسائل العلامة اللكنوي، رسالة: الآثار المرفوعة، ص 27)

علامہ لکھنوی کی اس قدر تفصیلی اور واضح صراحت کے بعد ہمیں اپنی جانب سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، علامہ کی عبارت سے واضح ہے کہ علامہ علم غیب کے مسئلے میں علماء دیوبند کے ساتھ تھے۔ 

دوسری دلیل: 

علامہ لکھنوی نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے تھے، جیسا کہ علماء بریلویہ کا خیال ہے۔ 

بلکہ اس سلسلے میں علماء دیوبند کی طرح حاضر و ناظر کے نظریے/ عقیدے کے مخالف تھے۔ 

چنانچہ اپنے رسالے "الآثار المرفوعہ" میں ایک جگہ فرماتے ہیں: 

و منھا: ما یذکرونه من أن النبی صلی الله علیه وسلم یحضر بنفسه فی مجالس وعظ مولدہ عند ذکر مولدہ، وبنوا علیه القیام عند ذکر المولد تعظیماً و إکراماً، وھذا أیضا باطلٌ من الأباطیل، لم یثبت ذلک بدلیل.

ترجمہ: ان غلط باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، جسے جاہل واعظین بیان کرتے ہیں، کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقعے پر، ذکرِ رسول ص کے وقت، حضور ص بنفس نفیس میلاد میں آتے ہیں۔

اور اسی چیز کو دلیل بنا کر یہ واعظین اس موقع پر، آپ ص کے اکرام و تعظیم میں کھڑے ہونے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ 

یہ بھی ان ہی باطل خیالات و عقائد میں سے ہے، جس کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ (رسائل العلامة اللكنوي، رسالة:الآثار المرفوعة فی الأخبار الموضوعة، ص 34) 

مذکورہ بالا عبارت دو مختلف عقائد کا رد کرتی ہیں، اور دونوں ہی بریلویت کا حصہ ہیں: 

1- اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا۔

علامہ لکھنوی مجلس میلاد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی سرے سے نفی کر رہے ہیں، اور موجودگئ رسول ماننے کو باطل قرار دے رہے ہیں۔ 

اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک حاضر و ناظر ہوتے، تو مجلس میلاد میں بھی حاضر ہوتے، مجلس میلاد میں موجودگی کی نفی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علامہ لکھنوی عقیدۂ حاضر و ناظر کو نہیں مانتے، اور اس سلسلے میں علماء دیوبند کے ساتھ ہیں۔ 

2- میلاد میں ذکرِ رسول یا سلام پڑھنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حاضر ہونا۔

علامہ لکھنوی اس کی بھی بصراحت نفی کر رہے ہیں، یعنی ان کے نزدیک سلام پڑھتے ہوئے یا خاص ذکرِ رسول ص کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر نہیں ہوتے۔ 

نتیجہ یہ نکلا کہ اس مسئلے/ عقیدے میں بھی آپ علماء بریلی کے مخالف ہیں۔ 


تیسری دلیل: 

مولانا احسن نانوتوی (یہ اختلافات سے قبل کی شخصیت ہیں) نے اثر ابن عباس (اثر یہ ہے: ان اللّٰہ خلق سبع ارضین فی کل ارض اٰدم کادمکم و نوح کنو حکم و ابراہیم کابراہیمکم وعیسٰی کعیسٰکم ونبی کنبیکم) پر ایک کتاب لکھی تھی، بعض حضرات نے اس پر کچھ واویلا کرنا چاہا، تو مولانا قاسم نانوتوی نے اس کی تائید میں ایک کتاب "تحذیر الناس من انکار اثر ابن عباس" تصنیف فرمائی۔

مولانا نانوتوی کی کتاب دلائل و براہین کے اعتبار سے مکمل تھی، اس لیے کتاب کے مشمولات سے ہٹ کر بعض علماء نے اسی اثر کو غیر معتبر قرار ینے کی کوشش کی، جس پر کتاب کی بنیاد تھی۔

  نتیجتاً مولانا نانوتوی کی تائید میں علامہ لکھنوی سامنے آئے، اور "زجر الناس علی انکار اثر ابن عباس"(اثر ابن عباس کے انکار پر (بعض) لوگوں کو تنبیہ/پھٹکار) کے نام سے ایک رسالہ لکھا اور مولانا نانوتوی کی کتاب اور اثرِ ابن عباس کی بہ بانگِ دہل حمایت کی۔

چوتھی دلیل: 

بریلوی حضرات حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو مقامِ نبوت اور مقام عبدیت سے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، اسی جوش میں بسا اوقات مقامِ الوہیت تک بھی پہنچا دیتے ہیں۔ 

چنانچہ ایک بریلوی شاعر کا شعر ہے: 

وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر

اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر

علامہ عبد الحئی لکھنوی نے جس طرح بریلوی علماء و واعظین کے کئی عقائد و افکار پر تنقید کی، اسی طرح مذکورہ غلط طریقے پر بھی رد کیا۔ 

چنانچہ اپنے رسالے "الآثار المرفوعہ" میں ایک جگہ فرماتے ہیں، جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے: 

"کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے کوئی جھوٹی حدیث بیان کرنا وعیدِ منصوص(مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہ مِنَ النَّار) کے تحت آتا ہے، اسی طرح آپ کی ذات کے متعلق ایسی فضیلتیں بیان کرنا، جو آپ کی ذات کا حصہ نہیں، اس وعید کے تحت اور گناہِ کبیرہ میں سے ہے۔" (رسائل العلامة اللكنوي، رسالة:الآثار المرفوعة، 26) 

پانچویں دلیل: 

ندوۃ العلماء کا دوسرا اجلاس لکھنؤ میں جاری تھا، ملک کے نامور علماء اس اجلاس کے مدعوئین میں تھے، ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی بھی شریکِ اجلاس تھے۔

 صلح مندانہ جذبوں کے باعث مولانا مونگیری نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کو بھی مدعو کیا تھا، مولانا بریلوی شریکِ اجلاس ہونے کے لیے لکھنؤ آۓ، جلسے میں پہنچے اور اسٹیج پر تشریف رکھنے کے بجائے واپس لوٹ گئے، مولانا مونگیری نے ہزار منت سماجت کی، لیکن نہ آۓ۔ 

پھر مولانا مونگیری نے ندوے کا تیسرا اجلاس ان ہی کی نگرانی میں بریلی میں منعقد کرنے کا ارادہ کیا، اور ان سے پرزور گزارش کی، لیکن وہ اسی ناراضگی پر قائم رہے، بلکہ انتقاماً ندوہ کے اجلاسِ بریلی کو ناکام بنانے کی کوشش کی، خیر ان کی کوشش تو کامیاب نہ ہوئی۔

لیکن بعد میں احباب کے پوچھنے پر ناراضگی کی یہ وجہ معلوم ہوئی، کہ چونکہ دوسرے اجلاس میں ابو الحسنات عبد الحئی بھی شریک تھے، اس لیے غصے میں واپس لوٹ گئے، تاریخ میں خان صاحب کے واپس ہونے کی اس وجہ کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نہیں ملتی۔

چھٹی دلیل: 

ہمارے دیار میں بدعات و خرافات کا جس قدر مظاہرہ ہمارے بریلوی احباب کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے، اتنا کسی دوسری اسلامی جماعت کی جانب سے دکھائی نہیں دیتا۔ 

علامہ عبد الحئی لکھنوی بدعات و خرافات کے کس قدر مخالف تھے، اوپر کی سطروں سے کسی حد تک اندازہ ہوچکا ہوگا، کیوں کہ وہ ہر عمل کا ثبوت قرآن و سنت یا سلفِ صالحین سے تلاش کرنے کے عادی تھے، اس کے بغیر کسی عمل یا طریقے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ 

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کی بہت سی بدعات کے خلاف قلم اٹھایا، جن میں سے اکثر طبقۂ بریلویت کا حصہ تھیں۔ 

ان کے رد بدعات میں لکھے رسائل میں سے ایک "ردع الاخوان عن محدثات اخر جمعۃ رمضان" بھی ہے، رمضان کے آخری جمعے کے تعلق سے بہت سی بدعات عوام میں رائج ہو گئی تھیں، جن کا قلع قمع کرنے کے لیے آپ نے یہ رسالہ لکھا۔

یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ بدعات کے رد میں قلم اٹھانے والا، بدعات کو رواج دینے والی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا، اگر ایسا ہوتا تو اس کے قلم سے بدعات کی حمایت ظہور پذیر ہوتی، ناکہ مخالفت...

ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے