بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی



بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی


بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی

حضرت مولانا معز الدین احمد صاحب گونڈوی قاسمی سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند ناظم امارت شرعیہ ہند وناظم ادارہ المباحث الفقہیہ ورکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند بزم شیخ الاسلام مدنی دارالمطالعہ کے فعال و متحرک ناظم وفرزند میکس ہاسپٹل میں اپنے عقیدت مندوں کو مالک حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون،


حضرت مولانا گزشتہ دس بارہ روز سے بیمار تھے، ان کی بیماری کی اطلاع تو مجھے کئ روز کے بعد موصول ہوئ اس کے بعد حضرت مولانا کی طبیعت کے سلسلے میں برابر حضرات اکابر سے رابطہ میں رہا درمیان میں خبر موصول ہوئی کہ طبیعت بصحت مائل ہے لیکن بروز ہفتہ حضرت الاستاذ مولانا و مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وصدرالمدرسین مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ نے اطلاع دی کہ مولانا کی طبیعت زیادہ نازک ہے دعا کرتے رہو، بالآخر وہی ہوا جس کی امید نہیں تھی اور جس کا خدشہ لاحق تھا ، دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا لیکن تقدیر تدبیر پر غالب آ کر رہی،

حضرت مولانا شوگر کے مریض تھے، وبائ مرض کا بھی کچھ اثر سا تھا، سانس کی بحالی میں مستقل دشواری پیش آ رہی تھی،
اللہ امت مسلمہ کے حالات پر رحم فرمائے، ایک کے بعد ایک علمائے کرام کا دنیا سے رخصت کا سلسلہ جاری ہے، تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اموات کی کثرت کی انتہائی ہو گئ، اب تک کی زندگی میں اس طرح کے حالات اور نیک لوگوں کے سفر آخرت کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس سے پہلے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا، روزانہ خبر مل رہی ہے کہ آج کوئی چل بسا گزشتہ کل کوئی اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، عجب وبا پھیلی ہوئی ہے صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،

حضرت مولانا کی وفات سے ذاتی طور پر سخت صدمہ پہنچا، قدم قدم پر آپ کی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور شفقت ومحبت کی یاد آتی رہے گی،

حضرت مولانا ایک قابل قدر، پختہ علم، وسیع مطالعہ، ملنسار سادہ مزاج، بلند اخلاق، ذی علم واستعداد بلند مرتبے والے عالم دین تھے، میری معلومات کے مطابق اس وقت جمعیۃ علماء ہند نئ دہلی میں حضرت مولانا سے وسیع علم تجربہ کار اور مطالعہ کے عادی شاید کوئی نہ ہو،

حضرت مولانا مختلف خصوصیات کے حامل تھے، تاریخ ہند اور تاریخ جمعیۃ علماء ہند سے مکمل طور پر باخبر وآشنا تھے، آپ بالکل مدلل اور تحقیق وباحوالہ گفتگو فرماتے، کتاب کے بالکل کیڑے تھے، علمی باریکیاں، تاریخی پیچیدیاں، علمی گہرائی و گیرائی، دقیقہ سنجی ونکتہ رسی، علمی قابلیت، صلاحیت اور لیاقت مسلم، زمانے کے احوال، پیچ وخم اور نوک و پلک سے بخوبی واقف تھے، اصول و ضوابط کا آپ کے یہاں خاص اہتمام تھا، مصیبت کے وقت لوگوں کے کام آنا آپ کا شیوہ تھا، حق گو، بیباک اور صاف دل عالم دین تھے، کسی سے بیر نہیں، کوئی بات خلاف ضابطہ سنتے اور قابل اصلاح چیز ہوتی تو فوراً ٹوکتے اور برملا اظہار فرماتے، علمی وتحقیقی مسائل میں اچھے اچھے آپ کے سرتسلیم خم کر دیتے،ہر فن کی کتابیں آپ کے یہاں تھیں، 

حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے حکم پر جمعیۃ علماء ہند نئ دہلی تشریف لے گئے اور مباحث فقہیہ کی نشاہ ثانیہ ہوئ، اس کے بعد سے اسی ادارہ میں حضرت نے اپنی زندگی وقف کر دی،مباحث فقہیہ کے تمام امور تن تنہا حضرت مولانا انجام دیا کرتے تھے، محنت کے عادی تھے، مباحث فقہیہ کو جا ڈگر پر لے گئے وہ آپ کی زندگی کا نمایاں خدمات ہے،حالات اور زمانے کے لحاظ سے سوالنامے مرتب کرنا، پھر پروگرام کی ترتیب اور مالہ وما علیہا ایک مشکل امر ہے، آپ کے مرتب کردہ سوالنامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقہ میں بھی آپ کو کتنی مہارت تھی، خانوادہ مدنی سے بے پناہ الفت و محبت تھی حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ آپ کے رفیق خاص ہیں، حضرت مدنی کی زندگی کے حالات تو ایسے ازبر تھے کہ معلوم کرتے ہی رہنمائی فرماتے، حضرت مدنی کے عقیدت مندوں، تلامذہ اور خلفا کے حالات سے ایسے باخبر تھے کہ کہنے کی دیری فوراً ان کی علمی شخصیت اور خدمات سے آگاہ کرتے،

جمعیۃ علماء ہند کے پالیسی، خدمات، سوچ وفکر سے مکمل طور پر آگاہ تھے، ہندوستان کے موجودہ حالات کی پالیسی کے نوک، جھونک سے بھی بخوبی واقف تھے، اہل علم اور پڑھنے پڑھانے والوں کی آپ کے یہاں بڑی قدر تھی، علم پرور، زیرک اور صاحب الرائے عالم دین تھے، بہترین مشیر تھے آپ کی رائے کی ایک حیثیت تھی آپ کی شخصیت باوزن تھی، بڑے بڑے لوگ آپ سے علمی استفسار کرتے حق گوئی میں آپ کو بالکل تامل نہیں ہوتا تھا، بہت سارے معرکے، اہم امور اور علمی وتحقیقی کام آپ کی رہنمائی و سرپرستی میں انجام پائے، آپ سے قبل جمعیۃ علماء ہند کے باوقار اور ملک و ملت کے عظیم نگہبان حضرت مولانا متین الحق اسامہ قاسمی صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے، ابھی زخم تازہ ہی تھا کہ آپ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گیے جو جمعیۃ علماء ہند کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے،

آپ جمعیۃ علماء ہند کے محافظ، نگہبان اور امین تھے، حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم العالیہ ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کے دست راست تھے، جمعیۃ علماء ہند کے سو سال مکمل ہونے پر اکابر جمعیۃ علماء اور خدمات جمعیۃ کو کتابی شکل میں عام اور شائع کرنا دراصل آپ ہی کی کوشش، فکر اور محنت کا نتیجہ ہے، آپ جمعیۃ علماء ہند کے بے مثال وقیمتی ترجمان واثاثہ اور سرمایہ تھے، امانت داری میں ضرب المثل تھے،،،
تفصیلی حالات میں بعد میں انشاءاللہ، 

اللہ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے جملہ پسماندگان اور کارکنان جمعیۃ کو صبر جمیل عطا فرمائے، خدمات کو قبول فرمائے ،جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، ملک و ملت اور جمعیۃ علماء ہند کو حضرت مولانا کا نعم البدل عطا فرمائے، آمين

یکے از سوگوار :
محمد شاہد اختر کھرساوی
٢٤ محرم الحرام ١٤٤٢ ھجری مطابق ١٣ ستمبر ٢٠٢٠ عیسوی بروز اتوار، بوقت شب ١٢بج کر ١٥ منٹ،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے