یومِ جمہوریہ کا پیغام


یومِ جمہوریہ کا پیغام


کسی بھی ملک اور باشندگان ملک کیلئے آزادی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک کی آزادی میں جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ وہیں جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی سرگرم شمولیت اور قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔


ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا، جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختۂ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھیلیں اور حصولِ آزادی کی خاطر میدانِ جنگ میں نکل پڑے، آخر غیر ملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے۔

۱۵ ؍اگست۱۹٤٧ء کو مجاہدین آزادی کی ناقابل فراموش جدوجہد اوربے مثال قربانیوں کے بعد ہمارا یہ ملک آزاد ہوا۔ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت ملی۔


ہمارے ملک ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے، 26 جنوری 1950ء میں ہندوستان نے اپنے لئے جو دستور طے کیا اس کے آغاز میں ایک بہت خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے: “ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادئ عقیدہ ومذہب وعبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا” یوم جمہوریہ کے دن ملک بھر میں ہر جگہ جشن جمہوریہ کا پروگرام منعقد كيا جاتا هے، ترانے پڑھے جاتے ہیں، راشٹریہ گیت گایا جاتا ہے، سیکولرازم کے عنوان سے بیانات ہوتے ہیں، ہندوستان میں جمہوریت کی بقا رہنی چاہیئے ہر ہندوستانی کو اپنے مذہب اور عقیدہ کی مکمل آزادی ہونی چاہیئے سب کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیئے، ہر ہندوستانی کو ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے جو سہولیات ملنی چاہئیں وہ ہر ہندوستانی کو ملنی چاہیئے، اقلیتوں کے ساتھ انصاف، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور ہندوستان کے دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا آپس میں اتحاد واتفاق اور اخوت بھائی چارگی کے ساتھ رہیں، ملک کی تمام شرور وفتن سے حفاظت اور دیش کی ترقی کے لیے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہیئے.


 *ہندوستانی جمہوریت کیا ہے*؟

یعنی ایک جماعت کی لیڈر شپ وہ بھی عوامی طر یقے سے یعنی عوام نمائندے بن کر آنے کے بعد اس کا اصل معنی عوام کی حکومت عوام آقا ہوتے ہیں جو ہر پانچ سال میں ایک مر تبہ انتخاب کے ذریعہ یہ جماعت (پارٹی)اقتدار پر آتی ہے اور سارے ملک کا نظام چلاتی ہے۔جمہوریت آزادی مساوات قانون کی قومیت اور انفرادی تر قی کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ذات کا بھید بھاؤ بھٹک ہی نہیں سکتا اس جمہوری نظام کے تحت قانون کی بہت اہمیت ہے۔کیونکہ عام وخواص لیڈروں نیتا سبھی قانون کے دائرے میں آتے ہیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہے۔

پہلے ملک کی آزادی کے حصول کی خاطر اور بعد ازاں جمہوریت کے قیام کیلئے ملک کے مسلمانوں اور علماء کرام نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا۔جس انداز میں یہاں کے مسلمانوں کی جاں فشانی، حریت، شہادت اور قربانیاں شامل تحریک رہیں۔ اُن کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہاں کے مسلمان آزادی کے حصول اور جمہوریت کے قیام کی تحریک میں ہراول دستہ کے طورپر شامل رہے۔ کیونکہ ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار ایک قائد ،لیڈراور رہنماء کے رہی، بایں وجہ کہ ظالم انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے غصب کیا تھا۔ یک لخت اسے حاکم سے محکوم بننا پڑا تھا۔ اس لئے غلامی کے داغ کو مٹانے کیلئے اصل لڑائی بھی انہیں کو لڑنی پڑی تھی۔


دورِ فرنگی سے نجات حاصل کرنے کے بعد مجاہدین آزادی نے یہ ضروری سمجھا کہ جمہوری طرز حکومت کے قیام کیلئے ایک متوازن اور جامع آئین مرتب کیاجائے۔چنانچہ اس وقت کے بااثر اور دوراندیش قانون ساز افراد کی ایک ٹیم کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں آئین سازی کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ جس کی تیاری کے بعد اِسے دستور ساز اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا۔یوں قانون ساز اسمبلی نے ۲٦؍جنوری ۱۹۵۰ء کو جمہوریہ ہند کے آئین کے نفاذ کو ہری جھنڈی دی۔ اس طرح ۲٦؍جنوری۱۹۵۰ء کو باضابطہ دستور ہند کا نفاذ عمل میں آگیا۔تب سے اب تک جمہوری طرز حکومت ہمارے یہاں قائم ہے۔


 *ملک کا آئین* 

ہمارے ملک کو آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کی سب سے بڑی پارلیمنٹری اور غیرمذہبی جمہوری ملک ہونے کا شرف حاصل ہے۔ہمارے ملک کا آئین ایساجامع اور مکمل ہے ۔جس میں ملک میں بسنے والے شہریوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کیلئے بااختیار بنایا گیاہے۔ہر ایک کو آزادی رائے اور آزادی خیال کی مکمل اجازت دی گئی ہے۔ اس کی شخصی تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ دستور ہند میں ملک میں بسنے والے اقلیتوں اور پسماندہ لوگوں کو بھی پوری پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی تہذیب وتمدن اور اپنی ثقافت کی ترویج واشاعت کیلئے علیحدہ اسکول، کالج، انسٹی ٹیوٹ قائم کریں۔ دستور میں دیئے گئے حق سے فائدہ اٹھائیں اور ملک کی تعمیر وترقی میں بھرپور کردار ادا کریں۔


جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن ان کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپا دیا گیا یا عوام کی نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ چلئے سچائی جاننے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ہندوستانی تاریخ میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔


 *يوم جمہوريہ ہم كيوں منائيں؟* 

آج يہ سوال ہمارے ہر ہندوستانى كے ذہن ميں گردش كرتا ہے كہ ہم يوم جمهوريہ كيوں منائيں؟ تو اس كا جواب يه هے كہ ماضى ميں ہمارے علماء كرام نے جنگ آزادى ميں جو عظیم قربانياں پيش كى ہيں انہيں كو نسل نو تک پہنچانے اور ان كى عظيم قربانيوں كو ياد كرنے كے ليے ہم يوم آزادى اور يوم جمہوريہ مناتے ہيں۔

سر زمینِ ہند کو مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ مسلمانوں نے گلشنِ ہند کی اپنے لہو سے آبیاری کی ہے اور یہ لہو اتنا زیادہ ہے کہ اس زمین کے ذرّے ذرّے سے ہمارا لہو مہکتا ہے، ہماری قربانیوں نے اس ملک کی آن بچائی ہے، ہماری محبت نے اس گلشن کی شان بڑھائی ہے۔ ہمارے اسلاف نے اس ملک کی آزادی کے لئے تحریکیں چلائیں ، قیدوبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا، کمالِ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تختہء دار پر چڑھ کر بخوشی پھانسی کے پھندے کو گلے سے لگایا، لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تب کہیں جا کر اس ملک کو انگریزوں کے پنجہء غلامی سے آزادی ملی اور یہ ملک آزاد ہوا ۔

ہر ہندوستانی کو ان ناقابل تردید حقائق کے بارے میں باخبر ہونا چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی ملک کی تحریک آزادی کی حقیقت سے واقف کرانا چاہئے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہرہندوستانی کو جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں سے واقف کروائیں۔ ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ اور پھر ان کے خلاف جدوجہد آزادی کے آغاز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلی جدوجہد آزادی حیدر علی اور ان کے فرزند ٹیپو سلطان نے 1780 ء میں شروع کی اور 1790 ء میں پہلی مرتبہ فوجی استعمال کے لئے حیدر علی و ٹیپو سلطان نے میسوری ساختہ راکٹس کو بڑی کامیابی سے نصب کیا۔ حیدر علی اور ان کے بہادر فرزند نے 1780 ء اور 1790 ء میں برطانوی حملہ آوروں کے خلاف راکٹیں اور توپ کا مؤثر طور پر استعمال کیا۔

ہندوستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ رانی جھانسی نے اپنے متبنیٰ فرزند کے لئے سلطنت و حکمرانی کے حصول کی خاطر لڑائی لڑی لیکن ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی گمنام ہیروئن تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857 ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی پہلی جنگ عظیم کو کس نے منظم کیا تھا اور اس کی قیادت کس نے کی تھی؟ اس کا جواب مولوی احمد اللہ شاہ ہے جنھوں نے ملک میں پہلی جنگ آزادی منظم کی تھی۔ جدوجہد آزادی میں بے شمار مجاہدین آزادی نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں 90 فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔ برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی اُس وقت ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔

کوئی بھی مسلم مجاہدین آزادی کی تحریک آزادی میں قربانیوں پر ہزاروں صفحات تحریر کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے فرقہ پرست، انتہا پسند، فاشسٹ طاقتوں نے اس سچائی و حقیقت کو عام ہندوستانیوں کی نظروں سے چھپائے رکھا اور اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہندوستان کی تاریخ کی کتب میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹوں کے حصول کی خاطر اور عوام کو منقسم کرنے تاریخ کو توڑ مروڑ کر ازسرنو قلملبند کیا گیا۔ محب وطن ہندوستانیوں کو ناپاک عزائم کے حامل سیاستدانوں کی مکاریوں و عیاریوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک مضبوط و مستحکم اور ترقی پسند ملک کے لئے تمام شہریوں کو متحد کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے، آج جمہوريت كو بچانے كى ضرورت هے۔ جمہوريت كى بقاء ميں ملک كى سالميت هے، اور جب ملک سلامت رهے گا تو عوام بھى چين وسكون كى سانس ليں گے۔

وطن کے عزیزو! یہ آزادی ہمیں بھیک میں نہیں ملی ہے، ہمارے بزرگوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ اس لئے ہمیں آزادی کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور آپس میں پیار ومحبت بھائی چارگی اور امن و سکون کو بڑھاوا دینا چاہئے اور ایسی فضا پیدا کرنی چاہئے جس سے ہمارے ملک کا نام روشن ہو اور اس وقت ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کس طرح ہمارے عظیم رہنماؤں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کو آزاد کرایا تھا ۔ 


 *ہمیں یاد رکھے جب لکھیں تاریخ گلشن کی* 

 *کہ ہم نے بھی جلایا ہے چمن میں آشیاں اپنا* 

تقریباً ایک صدی تک چلنے والی تحریکِ آزادی میں مسلمانانِ ہند نے بے مثال اور لازوال کردار ادا کیا اور وطنِ عزیز کو غاصب انگریزوں کے پنجۂ ظلم اور باشندگانِ ہند کی گردنوں کو طوقِ غلامی سے آزاد کروانے کے لئے اپنی جان و مال، عزت و آبرو کی وہ عظیم قربانیاں پیش کیں جن کا تذکرہ کئے بغیر تاریخِ ہند نامکمل ہے ۔

کچھ فر قہ پر ست طاقت جمہوری نظام کو درہم بر ہم کر ناچاہتے ہیں انہيں يہ بات اچھى طرح سمجھ لينى چاهيے۔

 *شمع جمہور کی لو کم نہیں ہونے دیں گے* 

 *مادر ہند کا سر خم نہیں ہونے دے گے* 

 *لاکھ اشکوں سے نوازے دنیا لیکن* 

 *اے وطن! آنکھ تیری نم نہیں ہونے دیں گے*


عبید اللہ شمیم قاسمی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے