موجوده صورت حال اور اس كا حل

 

موجوده صورت حال اور اس كا حل


عبید اللہ شمیم قاسمی

مسلمانوں كى زبوں حالى كسى سے ڈھكى چھپى نہيں ہے، موجوده صورت حال ايسى ہے کہ مسلمان نكبت اور ادبارو پستى ميں ہر طرف سے گھرے ہوئے ہيں، ہر شخص كى زبان پر يہى بات آتى ہے كہ موجوده زمانے ميں مسلمانوں پر ہر طرف سے ظلم وستم كا پہاڑ توڑا جارہا ہے، ليكن كيا ہم نے كبھى ان اسباب پر غور وفكر كيا كہ ہمارے آباء واجداد جن رفعتوں اور بلنديوں پر تھے، آخر كيا وجہ ہوئى كہ ہم بالكل پستى ميں آگئے اور ہر طرف سے ظلم وزياتى كا نشانہ بننے لگے۔

ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظام ِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریۂ حیات کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لئے اگر آج مسلمانوں میں اسلامی نظام ِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اسلام کو محض زبانی دعووں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین اور ایک مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا۔ اسے ایک کامل دین اور ایک مکمل نظام ہائے زندگی کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی. اس کی بجائے جو ضابطۂ حیات ہم نے اختیار کیا وہ ہمارے اجتماعی نظام (معاشرت، معیشت، عدل وانصاف، قانون وسیاست) وغیرہ سے صاف ظاہر ہے۔ اِسے جو چاہے نام دیں مگر یہ ایک اسلامی نظام ِ حیات ہرگز نہیں۔ کیا قرآن وسنت اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کا تعین کردہ نظام حق نہیں؟ اگر حق ہے تو آپ خود ہی بتائیں کہ حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور جہالت کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ﴾ [يونس: ٣٢] نظام حق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے، تو تم کہاں بہکے جاتے ہو‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا﴾ [الإسراء: ٩]

’’بیشک قرآن ہی وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے، نیک اور صالح کام کریں بیشک ان کیلئے بڑا اجروثواب ہے‘‘. (بنی اسرائیل٩)۔

 بیشک قرآن ہی سیدھا راستہ ہے لیکن آپ دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ ہم قرآن و سنت سے بے بہرہ دور گمراہی وجہالت کی اندھیریوں میں بھٹک رہے ہیں۔کوئی راہ دکھانے والا نہیں، سب اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں اور برائیوں پر برائیاں کئے جارہے ہیں۔ کسی کو ذرا احساس نہیں کہ ایک دن اسے اپنے رب کے ہاں جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔

ہماری ذلت وپستی کے اسباب كيا ہيں، اس پر اگر غور كيا جائے تو چند وجہيں سمجھ ميں آتى ہيں۔

*(١) ترک قرآن:* 

 قرآن نور وہدایت اور کامیابی وکامرانی کا سرچشمہ ہے، اس کا ترک ہر قسم کی ذلت وناکامی کا سبب ہے آج ہماری پستی کی سب سے اہم وجہ قرآن کریم کو ترک کردینا ہی ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً (الفرقان: ٣٠). ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔

يعنى ضدى معاندين نے جب كسى طرح نصيحت پر كان نہ دھرا، تب پيغمبر نے بارگاه الہى ميں شكايت كى كہ خداوندا! ميرى قوم نہيں سنتى، انہوں نے قرآن جيسى عظيم الشان كتاب كو (العياذ بالله) بكواس قرار ديا ہے، جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو خوب شور مچاتے اور بک بک جھک جھک كرتے ہيں تاكہ كوئى شخص سن اور سمجھ نہ سكے، اس طرح ان اشقياء نے قرآن جيسى عظيم كتاب كو بالكل متروک ومہجور كر چھوڑا ہے۔ (تفسير عثمانى)

آيت ميں اگرچہ صرف كافروں كا تذكره ہے تاہم قرآن كى تصديق نہ كرنا، اس ميں تدبر نہ كرنا، اس پر عمل نہ كرنا، اس كى تلاوت نہ كرنا، اس كى تصحيح قرات كى طرف توجہ نہ دينا، اس سے اعراض كركے دوسرى لغويات يا حقير چيزوں كى طرف متوجہ ہونا، يہ سب صورتيں درجہ بدرجہ ہجران قرآن كے تحت داخل ہوسكتى ہيں۔

 علامه ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہجر قرآن کی چند اقسام ہیں۔

قرآن کو سننے اوراس پر ایمان لانے کو ترک کردینا

 قرآن پر عمل اور حلال وحرام کی جانکاری چھوڑ دینا گرچہ اس کو پڑھتا ہو اور اس پر ایمان بھی لاتا ہو۔

قرآن کو فیصل بنانا ترک کردینا اور دین کے اصول وفروع میں اس سے فیصلہ ترک کردینا اور اعتقاد رکھنا کہ یہ یقین کا فائدہ نہیں دے گا اور اس کے لفظی دلائل سے علم حاصل نہیں ہوگا۔

 قرآن میں فہم وتدبر کرنے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کو ترک کردینا

ہر قسم کے قلبی امراض میں اس سے شفا اور علاج ترک کردینا اور غیروں سے بیماری میں شفا طلب کرنا اور قرآن سے علاج ترک کردینا۔

یہ پانچوں قسمیں قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں داخل ہیں۔(الفوائد لابن القیم صفحه: ٨٢)۔

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری (٧٩/٩) میں تحریر فرمایا ہے:

"جو شخص تلاوت قرآن پر دوام اختیار کرتا ہے اس کی زبان اس کے لئے نرم ہو جاتی ہے اور اس کی قرات کرنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور جب وہ روزانہ تلاوت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو قرأت اس پر بھاری ہو جاتی ہے اور اس کے لئے مشقت بن جاتی ہے"۔

(٢) ایمان سے محرومى:

آج ہم كلمہ پڑھتے ہيں اور ايمان كا اقرار كرتے ہيں مگر حقيقى ايمان جو ہونا چاہئے اس سے يكسر ہم خالى ہيں، اللہ تعالی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اگر تمہارے پاس ایمان رہا تو تم غالب رہوگے۔ آج ہماری پسپائی اس بات پہ غماز ہے کہ ہم ایمان سے محروم ہوگئے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران: ١٣٩)۔

ترجمہ: تم نہ سستی کرواور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان والے رہو۔

اللہ تعالی اس آیت میں صحابہ کو خطاب کررہاہے کہ جنگ احد میں جو نقصان تمہیں لاحق ہوا اس سے غم نہ کھاؤ، اگر تم ایمان والے رہے تو تم ہی غالب رہوگے۔ آج ہم کہنے کو تو مسلمان ہیں مگر ایمان کے تقاضے پورے نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے ذلت وخواری ہمارا مقدر بن گئی۔

قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورت میں اللہ رب العزت نے کامیابی کے چار صفات ذکر کئے ہیں، ان میں سے پہلی صفت ایمان ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ [العصر: ١_٣].

ترجمہ: قسم ہے زمانے كى، بيشک سارے انسان گھاٹے میں ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور جنہوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔

اگر ہم ان چاروں صفات (ایمان، عمل، دعوت، صبر) کو جمع کرلیں تو ہر قسم کی ناکامی، ذلت اور ظلم سے بچ سکتے ہیں۔


(٣) اللہ کے احکام اور سنت رسول کی نافرمانى:

اللہ کی رحمت سے دوری کا ایک اہم سبب احکام اللہ اور احکام رسول سے روگردانی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ، كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ [المائدۃ:٧٩_٧٨].

ترجمہ: نبی اسرائیل کے کافروں پر داؤد علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے ، جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا تھا۔

آیت بتلا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے لعنت کی وجہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا ہے۔ آج کے مسلمانوں میں بھی بنی اسرائیل کی یہ صفات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالی کے غضب کے شکار ہوگئے اور رحمت الہی سے محروم کردئیے گئے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد:٧).

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

یہاں اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے یعنی ہم اللہ کے دین پر چلیں گے تو اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا، کافروں پر غلبہ دے گا اور مصیبت وپریشانی سے نجات دے گا۔

( ٤) دنیا سے محبت:

 دنیا کی محبت نے ہمیں دین سے غافل کردیا، مقصد حیات بھلا دیا اور موت کا ڈر دل میں پیدا کردیا۔ بے ایمانی، رشوت خوری، حرام کاری، قماربازی، شہوت رانی، کالا بازاری ، جہل ونادانی، کفر وعصیاں اور دولت کی کثرت سے عیش وشہوت کی زندگی ہمارا مشغلہ بن گیا۔ یاد رکھیں جب تک دل سے دنیا کی محبت دور نہ ہوگی ہمارے اندر سے مذموم صفات کا خاتمہ ناممکن ہے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يُوشِكُ الأممُ أن تداعَى عليكم كما تداعَى الأكَلةُ إلى قصعتِها. فقال قائلٌ: ومن قلَّةٍ نحن يومئذٍ؟ قال: بل أنتم يومئذٍ كثيرٌ، ولكنَّكم غُثاءٌ كغُثاءُ السَّيلِ ، ولينزِعنَّ اللهُ من صدورِ عدوِّكم المهابةَ منكم، وليقذِفَنَّ اللهُ في قلوبِكم الوهْنَ . فقال قائلٌ: يا رسولَ اللهِ! وما الوهْنُ؟ قال: حُبُّ الدُّنيا وكراهيةُ الموتِ (أبي داود: ٤٢٩٧).

ترجمہ: قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ''وہن'' ڈال دے گا، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔

دنيا كے مختلف خطوں پر نظر ڈالنےسے حالات كا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کا مذکورہ فرمان صادق آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہیں کہ ہم کمزور ہیں یا ہماری تعداد کم ہے بلکہ ہمارے اندر دنیا کی محبت پیدا ہوگئی جس نے دین سے غافل کردیا، کثرت کے باوجود ہماری طاقت ختم ہوگئی اور ہم ریزہ ریزہ ہوگئے۔

ان کے علاوہ بھی دیگر وجوہات ہیں ان میں یہی چاروں سب سے اہم ہیں۔ بلكہ ايک اور وجک كا اضافہ كرسكتے ہيں اور وه ہے مسلک پرستى، مسلکی اختلاف نے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا بلکہ یہ کہیں جسم مسلم کو کاٹ کاٹ کر الگ کردیا، ہمارا سر الگ اور دھڑ الگ ہے۔دشمنوں کے ہتھکنڈوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جس قدر مسلک پرستی نے دین اسلام اور قوت مسلم کو پہنچا۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دینا، ایک دوسرے مسلمان سے شادی بیاہ ، لین دین اور قطع تعلق کرنا، ایک دوسرے کو نیچا اور غلط ثابت کرنے کے لئے تلوار ونیزے اٹھانا بلکہ کافروں سے بدتر سلوک کرنا آپس میں اس قدر شدید ہے کہ یہودیت ونصرانیت کی دشمنی ماند پڑگئی ۔ الحفيظ والأمان

اللہ رب العزت ہمیں پورے طور پر دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے