تبلیغی اجتماعات..اور.مولانا اعجاز صاحب اعظمیؒ کا. دردِ دل

تبلیغی اجتماعات..اور.مولانا اعجاز صاحب اعظمیؒ کا. دردِ دل

ہم کچھ کہتے ہیں تو ہمارے تبلیغی احباب برا مان جاتے ہیں٬ اس لئے خود کچھ عرض کرنے کے بجائے ہم حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ کے ایک مضمون سے چند اقتباسات پیش کریں گے۔

 آج سے ۱۱ سال قبل دسمبر ۲۰۰۷ میں اعظم گڑھ میں ایک تبلیغی اجتماع ہوا تھا٬ ان دس سالوں میں مسلمانوں کے حالات کتنے بدلے ہیں اور ملک کے حالات کتنے بدلے ہیں٬ یہ سب باتیں دھیان میں رکھتے ہوئے تبلیغی اجتماع کے متعلق مولانا موصوف کی ۱۱ سال پرانی تحریر پڑھئے۔حضرت فرماتے ہیں:

"👈بہت بڑا اجتماع ہوا۔ ایک سال سے اس کا شہرہ چل رہا تھا٬ ہر طرف یہی چرچا تھا اتنے لاکھ مجمع ہوگا٬ اتنے لاکھ ہوگا٬ اجتماع ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کو خاص فخر کے انداز سے کہتے تھے٬ اتنی تعداد ہے٬ ایسے انتظامات ہیں٬ اتنے رقبے میں اجتماع ہے وغیرہ٬ اس کے علاوہ اور کوئی ذکر نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ (ایک ماہ بعد) تب بھی حاصل اجتماع یہی سننے میں آیا٬ اور اب تک یہ چرچا ہو رہا ہے کہ اتنے آدمی تھے٬ اتنے رقبے میں تھا٬ اتنی بلّیاں تھیں٬ اتنی صفیں تھیں٬ اس کے علاوہ اور کوئی بات سننے کو نہیں ملی۔ یہ وہی أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ (سورہ التوبۃ کی ۲۵ویں آیت میں ہے: جبکہ تم اپنی کثرت تعداد پر خوش ہوئے تھے٬ لیکن وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی) والا حال ہے٬ تین دن کے اجتماع میں جس کے انتظامات ایک سال سے ہو رہے تھے٬ لاکھوں لاکھ روپئے خرچ ہوئے٬ اگر اس کا حاصل یہی فخر و ناز ہے٬ تب کچھ اچھا حاصل نہیں ہے!

واقعہ یہ ہے کہ اتنے بڑے جلسے ہندوستان جیسے ملک میں بالخصوص نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں٬ دینی اعتبار سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ بڑے جلسے میلے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں٬ سیر و تفریح٬ خرید و فروخت٬ تجارت وغیرہ کے مرکز بن جاتے ہیں٬ یہی مزاج لے کر لوگ آتے ہیں اور یہی مزاج لے کر واپس ہو جاتے ہیں٬ ان اثرات کے ہجوم میں دینی نفع دب جاتا ہے۔ اور دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو فرقہ پرست مخالفین دیکھتے ہیں٬ تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹ جاتا ہے٬ پھر یہ سانپ انھیں زہریلی سازشوں کی طرف لے جاتا ہے٬ حکومت بھی چونکتی ہے٬ حکومتوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ بڑے مجامع سے گھبراتی ہے٬ انھیں ان مجامع میں اپنا زوال دکھائی دینے لگتا ہے٬ پھر ان کا تشدد بڑھ جاتا ہے۔

"۔۔۔۔۔۔اس ملک میں بغیر نمائش اور پروپیگنڈہ کے کام ہونا چاہئے٬ تاکہ کام بھی ہو جائے اور کسی کی نگاہ بد بھی نہ پڑے۔ نمائش اور پروپیگنڈا تو اسلام میں کبھی مستحسن نہیں رہا ہے٬ اینی اعمال کسی نمائش اور پروپیگنڈے سے بے نیاز بھی ہین اور بیزار بھی! ان اعمال کی افادیت٬ نمائش کے نتیجے میں باطل ہو کر رہ جاتی ہے۔

۱۹۷۰ء میں تبلیغی جماعت میں٬ میں نے ایک چلہ وقت لگایا٬ اس جماعت کے جو امیر تھے وہ ایک بزرگ شخص تھے٬ حضرت منشی اللہ دتا علیہ الرحمہ کے خلیفہ اور مرکز کے اکابر کے قریب تر! وہ اکثر فرمایا کرتے تھے: اور مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت جی مولانا یوسف صاحب نور اللہ مرقدہٗ بڑے اجتماعات کی اجازت نہیں دیتے تھے٬ وہ فرماتے تھے کہ چھوٹے اجتماع ایک روز کے کر لیا کرو٬ اس کا نفع زیادہ ہے٬ ہندوستان کی حد تک بڑے اجتماع کی اجازت صرف بھوپال کے لئے مرحمت فرمائی تھی۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو مرکز کے موجودہ اکابر کو اس پر غور کرنا چاہئے۔

عوام کا طرز عمل تو قابو سے باہر ہے٬ اکابر اس کے پیچھے نہ چلیں٬ بلکہ شریعت و سنت کے مزاج اور حالات کی دینی مصلحتوں کے مطابق فیصلے صادر فرمائیں٬ ۔۔۔۔۔۔٬ لوگوں کا مزاج بھیڑ بھاڑ کا نہیں دینی و اخلاقی بنانے کی سعی کریں٬ مسجدیں خالی ہیں٬ اگر کسی عارض کی وجہ سے کچھ نمازی بڑھتے بھی ہیں تو دیر نہیں لگتی کہ گھٹ جاتے ہیں٬ جلسوں کی ہنگامی بھیڑ بھاڑ کا کچھ اعتبار نہیں٬ پائدار کام پایٓدار کام کی تدبیر کرنی چاہئے۔

ممکن ہے میری یہ معروضات بعض دلوں پر گراں گزرے٬ مگر یہ بات ضروری تھی٬ عرض کر دی۔ اللہ تعالیٰ خیر کی توفیق بخشیں۔"

(حدیث درد دل٬ ص ۴۱۱-۴۱۶)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے