برداشت اور عدمِ برداشت جدید فکری تناظر میں

برداشت اور عدمِ برداشت

ذکی الرحمٰن غازی مدنی جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

ولاء وبراء کے تعلق سے قرآن ہمیں جو اصول اور قاعدے دیتا ہے وہ تمام تر مغربی لبرل ازم کے تصورِ حریت کے مطابق مخالفین کے ساتھ برتے جانے والے طریقِ تعامل سے متصادم ہے۔ غالب مغربی تہذیب وثقافت کے پروردہ مفکرین ودانشوران کے یہاں اس تعلق سے پائے جانے والے بعض تناقضات کی نشان دہی پیشِ نظر ہے۔ 

یہ لوگ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بہ کثرت دینی مخالفین کی آزادی کے تئیں ایسی آراء وافکار ظاہر کرتے ہیں جو شریعت کے بالکل خلاف ہیں،مگر ساتھ ہی کچھ ایسی پابندیاں بھی مخالفین کے تعلق سے بیان کرجاتے ہیں جن کا وجود شریعت میں نہیں ملتا۔ اس طرح یہ لوگ جنہیں مخالفین سمجھتے ہیں ان کا شرعی وانسانی حق جیسے چاہتے ہیں پامال کرجاتے ہیں۔ 

 ایک موقعے پر ایک پروگرام میں ایک مفکر صاحب جو خیر سے ایک مدرسے سے فارغ بھی تھے، اگرچہ کبھی اپنی یہ نسبت لکھتے نہ تھے، وہ مخالفین کے تئیں سختی بھرا موقف اختیار کرنے پر اسلام پسندوں کی سرزنش فرمارہے تھے۔ بتا رہے تھے کہ یہ ایک تاریخی غلطی ہے جسے درست کر لینا چاہیے۔ان کے مطابق عام کفار، سیکولر طبقہ، لبرل طبقہ، اسماعیلی اور قادیانی حضرات وغیرہ تمام لوگوں کا ادب واحترام کرنا ہم پر واجب ہے اور انہیں خطاب کرتے ہوئے نرمی اختیار کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اور ان کے درمیان مشترکہ بنیادیں تلاش کی جائیں تاکہ ہم اور وہ ایک پلیٹ فارم اور ایک محاذ پر جمع ہو سکیں۔ اس سلسلے میں سیرتِ نبوی کے بہت سے واقعات کو انہوں نے بہ طور شاہد نقل کیا۔

مگر انہی صاحب سے ایک دوسری مجلس میں انہی کے سینٹر میں بات کی گئی تو غصے میں بپھرگئے اور ایک دو نہیں،بلکہ کئی گالی نما جملے ان کی زبانِ شیریں سے مولوی ملائوں اور ان کے نقطۂ نظر کی مخالفت کرنے والوں کے تعلق سے نکلتے چلے گئے۔ان کا یہ ردِ عمل اپنے اندر بڑی جارحیت اور خشونت لیے ہوئے تھا۔

میں نے بعد میں ان کے موقف پر غور کیا اور فلسفۂ برداشت بگھارنے والے بیشتر جدید مفکرین کے موقف پر غور کیا تو ایک عجیب بات معلوم ہوئی۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ لوگ جو دنیا بھر کے ساتھ نرمی وہم دردی سے بات کرنے کی وکالت کرتے ہیں،اگر خود ان کی ذات پر یا ان کے افکار پر کوئی تنقید کردے تو تلملا جاتے ہیں اور فی الفور سب وشتم اور گالم گلوج پر اتر آتے ہیں۔

 تقریباً تمام جدید مفکرین جن سے گفتگو کا موقعہ حاصل ہوسکا،ان کا رویہ ایک گونہ خوشامد پسندانہ محسوس کیا۔ان کے سامنے ان کے دینی انحرافات کی تعریف کیجئے توبڑے مگن اور مسرور ہوجائیں گے،مگر ان پر یا ان کے افکار پر تنقید کر دیجئے تو بجائے سمجھانے بجھانے کے یہ لوگ آگ بگولا ہوجائیں گے اور نوبت دشنام طرازی کی آجاتی ہے۔

شریعت اور اسلام اور نبیِ اسلام محمدﷺ کی ذات پر نکتہ چینی کرنے والوں کے ساتھ یہ لوگ تسامح اور چشم پوشی کی وکالت کرتے ہیں، مگر خود ان کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر میں کوئی کیڑا نکال دے تو یہ ان سے برداشت نہیں ہوتا۔کیا یہ سمجھا جائے کہ ان حضرات کے نزدیک ان کی اپنی شخصیت ان کے رب اور خالق سے زیادہ قیمتی اور معزز ہوگئی ہے؟

تیسری صدی ہجری کے مشہور ادیب جاحظ سے اللہ نے کیسی حکیمانہ بات کہلادی ہے کہ ’’ان میں کسی کو اگر کوئی گالی دی جائے تو وہ بپھر جاتا ہے اور کوئی اس کے رب کو گالی دے تو یہی شخض صلح وآشتی کی باتیں کرتا ہے۔‘‘[یصول أحدہم علی من شتمہ ویسالم من شتم ربہ](رسائل الجاحظ، تحقیق:عبدالسلام ہارون:۱/۲۸۶)

 اس قسم کے مفکرین کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ دین اور علمِ دین کی خدمت کرنے والوں، اس کی تعلیم ودعوت میں مصروف رہنے والوں پر ہر گھڑی تنقید کرتے رہیں کہ انہیں نئے زمانے کا شعور نہیں اور جدید انسان کی نفسیات سے یہ لوگ آگاہ نہیں۔کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ قرآن وسنت کے مخالفین کے تئیں شدت کا رُخ اپنائے ہوئے ہیں۔جس طرح یہ فکری ٹولہ دن رات اسلام پسندوں کی برائی میں منہمک ہے اور بات بے بات ان کا تذکرہ نکال کر ان پر تنقیدیں شروع کر دیتا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کے دل کی دنیا تلپٹ ہوگئی ہے،یعنی یہ لوگ برائی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والوں کی غلطی-جو یقینا ہوگی تو ایک ضمنی اور اجتہادی غلطی ہوگی-کو خود برائی کرنے والے کی غلطی سے زیادہ قبیح اور شنیع سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ یہ غلطی یا برائی اصلی اور ظاہری سبب ہے۔

ان میں اور اُس شخص میں کیا فرق ہے جو مجاہد کی مجاہدانہ سرگرمیوں میں کیڑے نکالتا ہے مگر محاربینِ دین کے ساتھ نرمی اورہمدردی کی وکالت کرتا ہے؟

 میرا ماننا ہے کہ ہمارے علمائے دین کے طبقے میں سے جن لوگوں کو بھی مغربی افکار ونظریات کی چھوت لگی ہے ان کا رویہ بھی اس قسم کے تناقض سے مملو ہے۔جو لوگ اللہ کے دین اور رسول کی سنت کی اہانت کر رہے ہیں ان کے ساتھ ان کا طرزِ عمل اور جو لوگ خود ان کی ذاتیات کو زیرِ بحث لاکر ایذاء پہنچا رہے ہیں ان کے ساتھ ان کا طرزِ عمل؛ دونوں میں بین فرق دکھائی پڑتا ہے۔دین اور سنت کا مزاق بنانے والوں کے ساتھ  ان کے موقف میں لطافت، نرمی، دھیما پن، روشن پہلوئوں اور مشترکہ اقدار کو سمجھنے کی دعوت وغیرہ کا زور دیکھیں گے،جب کہ اپنے ذاتی مخالفین کے تئیں ان کاموقف شدید ردِ عمل، انفعالی کلمات،طعن وتشنیع،بلکہ کبھی کبھار کھلے عام گالم گلوج کا ہوجائے گا۔

پھر وہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ان کی اپنی شخصیت ان کی نگاہوں میں دین اور رب العالمین سے زیادہ قیمتی اور برتر ہوگئی ہے؟

 ان کے طرزِ عمل کا آخری مظہر یہ ہے کہ جو شخص بھی دین کے ساتھ برا کرے وہ احترام کا مستحق ہے اور جو خود ان کے ساتھ برا کر دے وہ اس کا مستحق ہے کہ اسے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ٹی وی مباحثوں اور انٹر نیٹ پر اسلام کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے والے نہ جانے کتنے لوگوں کو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تھمے ہوئے لہجے میں تمام مخالفینِ دین کے ساتھ نرم گستری، احترامِ باہمی، مشترکہ بنیادوں اور اصولوں پر اتحاد، اوراختلافات کی نظر اندازی پر فاضلانہ گفتگو فرمائیں گے۔ اگلا سوال کوئی پوچھ دے یا کہیں سے ذکر اُن لوگوں کا نکل آئے جو جنابِ والا کے افکار ونظریات پر تنقید کرتے ہیں اور ان کے فکری پروجیکٹ کو مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا نتیجہ بتاتے ہیں تو فوراً یہی صاحب برانگیختہ ہوجائیں گے اور تیز تیز لہجے میں فرمائیں گے کہ یہ لوگ بے وقوف ہیں۔تنگ نظری،زمانے سے ناآگہی،نفسیاتی امراض اور حسد ورقابت کے شکار ہیں۔ بلکہ ایک مفکر خان صاحب اس حد تک بچکانہ بات کر جاتے ہیں کہ چونکہ مجھے انگلش آتی ہے اس لیے یہ مولوی ملا مجھ سے حسد کرتے اور میری فکر کو غلط بتاتے ہیں۔

سامنے والے کو بونا دکھانے اور خود کو عملاق ثابت کرنے کا ہنر کوئی اِن سے سیکھ سکتا ہے۔حیرت مجھے اس بات پر ہوتی ہے کہ ان کی ان باتوں پر تالیاں پیٹنے والے کچھ نوجوان بھی مل جاتے ہیں۔کیا یہ تعجب خیز بات نہیں ہے کہ ہم نصِ شرعی کے مخالفین کے ساتھ تو مشترکہ بنیادیں تلاش کریں اور ذاتی مخالفین کے ساتھ سختی اور درشتی کا رویہ اختیار کریں؟ کیا ہم دین اور ربِ حقیقی سے بھی زیادہ محترم ومکرم ہوگئے ہیں؟

 اس قماش کے لوگوں سے ملتا جلتا ایک گروہ ہے جس کا دائرۂ اثر تحریکی وفکری حلقوں میں روز بہ روز وسیع ہونے پر ہے اور سرکاری وجماعاتی ذرائعِ ابلاغ میں اس گروہ کے افراد کو خاصا کوریج بھی مل رہا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دنیا بھر میں کوئی شخص اللہ کے دین پر زیادتی کرے اور مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تو ان کی ساری کوششوں کا نقطۂ ارتکاز یہ چیز ہوتی ہے کہ دین کی اس اہانت پر مسلمانوں کے اندر جو غم وغصہ اور حمیت وغیرت پیدا ہوگئی ہے اسے بجھا کر اور کچل کر رکھ دیں۔ان سے عقل مندی،ٹھیرائو،وقار، عدمِ استعجال اور صبر وضبط کا مطالبہ کریں اور مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے کی تلقین کریں۔ 

مگر دنیا بھر میں اگر کوئی ایک شخص بھی اِن کے وطن، علاقے، ادارے کو برا کہہ دے یا کسی بڑی گروہی وفکری شخصیت کا مزاحیہ خاکہ بنادے یا کسی اور شکل میں اہانت کر دے تو یہی صاحبان اب نئے نئے طریقوں سے دفاع پر اتر آئیں گے اور قوم کی غیرت وحمیت کو للکاریں گے۔ایسے موقعوں پر ان کا طرزِ گفتگو، بحث کا انداز، لاجواب کرنے کا طریقہ، عجیب وغریب نکتے پیدا کرکے سامنے والے کی توہین وتضحیک کا رویہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔

 یہ سب دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مسلمان کے دل میں اس کا علاقہ، ادارہ، جماعت اور مسلکی شخصیت اس کے حقیقی معبود ومسجودسے زیادہ اہمیت اختیار کر سکتی ہے؟ان لوگوں کے نمونے دیکھ کر اللہ کے نبی ہود علیہ السلام کی بات یاد آتی ہے۔ ان کی قوم نے ذاتِ باری تعالیٰ سے زیادہ اپنے قومی جذبات کی رعایت کی تھی۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا تھا:{ یَا قَوْمِ أَرَہْطِیْ أَعَزُّ عَلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَاتَّخَذْتُمُوہُ وَرَاء کُمْ ظِہْرِیّاً } (ہود،۹۲)’’اے میری قوم کے لوگو،کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے(برادری کا تو خوف کیا اور)اللہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا؟‘‘ 

دیکھیے کیسے ہود علیہ السلام کی قوم کے نزدیک ان کی برادری اور جماعت اللہ سے زیادہ عزیز اور قابلِ لحاظ ہوگئی تھی۔قومِ ہود کے اس موقف کو لیجئے اور ہمارے جدید مفکرین اور دانشوران کے موقف سے اس کا موازنہ کیجئے جو کہ علاقے یا قوم پر تنقید کرنے والے کو چھوڑتے نہیں، اور شریعت اور دین کے بارے میں لاف گزاف بکنے والے کو نہ صرف یہ کہ نظر انداز کردیتے ہیں،بلکہ اگر کوئی ان کے مقابلے میں دین کا دفاع کرنے اٹھے تو اسے تنگ نظر اور متعصب کہہ ڈالتے ہیں۔

 اس کے بعد ان اسپیکروں اور رائٹروں سے پوچھیے کہ کیا واقعتا زمین کا ٹکڑا تمہارے نزدیک اللہ رب العالمین کی حرمت وعظمت سے بڑھ کر محترم ہوگیا ہے؟قوم کی عزت اور وطن کے ناموس کے پہلو کو بڑھانا اور اللہ رب العزت والجلال کی عظمت کے پہلو کو گھٹانا صرف حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا مخصوص معاملہ نہیں تھا۔حضرت صالح علیہ السلام کے مخالفین کا بھی یہی حال تھا۔ اسی لیے وہ کہا کرتے تھے:{قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ وَأَہْلَہُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ} (نمل،۴۹)’’انہوں نے آپس میں کہا:اللہ کی قسم کھاکر عہد کرلو کہ ہم صالح اور اس کے گھروالوں پر شنجون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے،ہم بالکل سچ کہتے ہیں۔‘‘

یعنی حضرت صالحؑ کے قبیلے کے سردار سے جس کو قدیم قبائلی عرف وعادت کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا یہ کہہ کر دامن چھڑا لیں گے اور جان بچا لیں گے۔گویا ان لوگوں کو فکر اس بات کی تھی کہ نبی کے خاندان اور قبیلے کے لوگ انہیں برابھلا نہ کہیں،رہا اللہ کا خوف اور اس کی بازپرس کا خطرہ تو ان کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آیا۔

 فکری لحاظ سے بہت سے منحرفین کا یہی معاملہ ہے کہ یہ مغربی تہذیب وثقافت کے خلاف پڑنے والے بہت سے شرعی احکام سے سخت بیر رکھتے ہیں،مگر اس نفرت کو عام لوگوں سے چھپاتے ہیں اور ایسے توہین آمیزجملوں اور لفظوں کو استعمال کرتے ہیں جن کے دوسرے معنی لینے کی بھی گنجائش ہوتی ہے، تاکہ اگر کبھی ان کی گرفت ہوتو ان کے لیے ایک ایمرجینسی ایگزٹ (Emergency Exit) کھلا رہے۔ اس کو وہ اپنی بڑی چالاکی اور ہوشیاری خیال کرتے ہیں کہ لوگ ان کے اصل عزائم اور نیتوں کی کھوج نہیں لگاپاتے۔

 شریعت کے استخفاف پر اللہ کے بجائے لوگوں کا خوف انہیں حضرت صالح اور حضرت ہود کی قوم کا ہم خیال وہم نوا بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ٹائپ کے لوگوں کے لیے فرمایا ہے:{لَأَنتُمْ أَشَدُّ رَہْبَۃً فِیْ صُدُورِہِم مِّنَ اللَّہِ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُونَ} (حشر،۱۳)’’ان کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے۔اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔‘‘

 انسان کے اندر مخلوق سے خوف اور خالق سے بے خوفی کا یہ رویہ اچانک پیدا نہیں ہوجاتا،بلکہ دھیرے دھیرے بہ تدریج ہوتا ہے۔میں نے کئی مسلم سیاسی وفکری رہنمائوں کو دیکھا ہے کہ پہلے اپنی ہر خدمت کو دین کے نام پر وقف کرتے تھے اور جوتے کھانے کے باوجود اقامتِ دین کے مقصد سے ہٹنے پر رضامند نہ ہوتے تھے۔ پھر نیا نغمہ ان کی زبانوں پر آیا اور دین کے ساتھ انسانیت کی خدمت کی بات بھی کہی جانے لگی۔مگر دین پہلے تھا اور انسانیت بعد میں۔ پھر کچھ عرصے بعد ان کی خدمات دین اور انسانیت کے بجائے انسانیت اور دین کے لیے ہونے لگیں اور اخیر اخیر میں وہ اپنی خدمات کا نشانہ صرف انسان دوستی، روحانیت،اور سماج کی تعمیر وترقی قرار دینے لگے۔ 

یہ عبارتیں محض اچانک زبان پر چڑھ جانے والے الفاظ نہیں ہیں،بلکہ ان کے اندر گہری معنویت ومقصدیت پائی جاتی ہے۔یہ ہمارے فکری حلقوں میں سماجی وشرعی بنیادوں پر رونما ہونے والی گہری تبدیلی ہے۔جن نقطوں پر ازروئے شرع انسان کی کوشش وکاوش مرکوز رہنی چاہیے،یہ ان میں بہت بڑا تغیر ہے جو ہمارے مفکرین کے ذریعے مسلم سماج میں در آیا ہے۔عزم وحوصلے کو جوان رکھنے کے سرچشموں میں اس بدلائو کے ذریعے ایک پورا انقلاب لادیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اناسیت پرستی اور وطن پرستی کا مفہوم آج بالکل وہی لیا جارہا ہے جو مغرب کی سیاسی فکر میں جدید ریاست کے نظریے سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔

 اسی لیے آج ایسے مسلمانوں کی خاصی تعداد آپ کو دیکھنے کو مل جائے گی جو زمین اور علاقے کی بنیادوں پر انسانیت کی تقسیم میں کوئی غلط بات محسوس نہیں کرتے۔ سرکاری سروسوں میں بھی اور قلبی تعلق میں بھی کاسٹ،علاقے،زبان وغیرہ کی بنیاد پر ریزرویشن کی زور وشور سے حمایت کرتے ہیں۔ لیکن دین کی بنیاد پر اگر کوئی انسانوں میں فرق کرے یا قرآن وسنت سے دوری اور نزدیکی کے معیار پر لوگوں میں امتیاز کرے تو یہ ان روشن خیالوں کے نزدیک بنیاد پرستی،تنگ نظری، فرقہ واریت،زور زبردستی اور نہ جانے کیا کیا ہے۔

 ایک مفروضہ مثال سنیں۔اگر آج کسی ملک کے فکری حلقوں میں جاکر کوئی شخص یہ اعلان کردے کہ سرکار نے طے کیا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو مفت طبی خدمات فراہم کی جائیں گی اور ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیاہے کہ یہ سہولت کسی بھی غیر ملکی مقیمِ وطن کو حاصل نہ ہوگی، پھر چاہے وہ مسلمان ہو،اہلِ سنت والجماعت میں سے ہو اور دین پر عمل کرنے والا ہو۔اگر یہ اعلان کیا جائے تو یقین ہے کہ کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا،بلکہ وہ اسے ملکی نظم ونسق کی ایک تدبیر قرار دیں گے۔لیکن اگر انہی سے کہا جائے کہ فلاں مسلم ملک میں مفت طبی خدمات کی فراہمی دین کی بنیاد پر ہوتی ہے، ملک اور وطن کی بنیاد پر نہیں ہوتی،تو یہ اعلان ہمارے مفکرین کو چراغ پا کر دے گا اور ذرائعِ ابلاغ کے سارے گیس سلینڈروں میں فی الفور احتجاجاً آگ لگ جائے گی اور اس طرح کے کسی بھی فیصلے یا تجویز کو پس ماندگی ،بنیاد پرستی،تنگ نظری اور تعصب کا بُت بتایا جائے گا۔

کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس طرح کسی بھی سرکاری سہولت میں دین کی بنیاد پر تمیز کرنا درست ہے،بتانا مقصود یہ ہے کہ آج پیمانے الٹ گئے ہیں۔ زمین اور مٹی کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق ترقی اور تہذیب کی علامت ہے اور لاإلٰہ إلا اللہ کی اساس پر تفریق تخلف اور انحطاط کا نشان ہے۔

 الغرض وہ تمام مفکرین جو آج مخالفینِ دین کے تئیں شریعت کے موقف کو لبرل کرنے کی فراق میں ہیں،وہ عملاً تناقض اور تضاد کا شکارہیں۔ یہ سنتِ نبوی کی مدافعت سے زیادہ اپنے ذاتی مقاصد اور منصوبوں کے تحفظ کی خاطر گرما گرم بحثیں کررہے ہیں۔ ان کا حلیہ ذہن میں رکھیے پھر قرآن کی وہ نصیحت یاد کیجئے جس میں اس نے ہمیں نبیِ کریمﷺ کی حفاظت سے زیادہ اپنی ذات کے تئیں فکرمندی سے روکا ہے:{مَا کَانَ لِأَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَہُم مِّنَ الأَعْرَابِ أَن یَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ اللّہِ وَلاَ یَرْغَبُواْ بِأَنفُسِہِمْ عَن نَّفْسِہ}(توبہ،۱۲۰)’’مدینے کے باشندوں اور گردونواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پرواہوکر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے۔‘‘

 یہ اربابِ فکر ودانش جو ذرا تنقید پر بوکھلا جاتے ہیں اور آپا کھو بیٹھتے ہیں،مگر جب ان کے سامنے دین اور شریعت کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان پر جاڑا چڑھ جاتا ہے۔جب کوئی ان کے شخصی منصوبے میں غلطیاں نکال دے تو بد زبانی پر اتر آتے ہیں،مگر احکامِ شرعیہ کو اگر کوئی غلط اور دقیانوسی کہے تو سراپا حلم ووقار اور لطف ومراحمت بن جاتے ہیں۔

 اگر ان کے فکری منصوبے کو برا کہا جائے تو آستینیں چڑھا لیتے ہیں،لیکن اللہ کی حرام کردہ حدوں کو علانیہ توڑا جائے تو ٹھُس بیٹھے رہتے ہیں۔ اس صنف کے لوگوں کو فی الفور ایمانداری کے ساتھ اپنے دلوں میں اللہ رب العالمین کے مقام ومرتبے کا جائزہ لینا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ دلوں میں چھپے ہوئے نفاق کے مخفی سوتوں میں سب سے بڑا سوتہ وہ ہے جس کا تذکرہ قرآن نے یوں کیا ہے:{ وَطَآئِفَۃٌ قَدْ أَہَمَّتْہُمْ أَنفُسُہُمْ یَظُنُّونَ بِاللّہِ غَیْْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ} (آلِ عمران،۱۵۴)’’ایک دوسرا گروہ جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی،اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرتا ہے۔"

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے