ودود ساجد
(آج کے انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
شمالی ہندوستان کی پانچ اہم ریاستوں میں الیکشن کی گہما گہمی کے باوجود جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک ان دنوں موضوع بحث ہے۔حجاب کے موضوع پر انقلاب میں اپنے ہنگامی کالم’نوائے امروز‘ کے تحت میں دو قسطیں پیش کرچکا ہوں۔حجاب کے ضمن میں کرناٹک کا ساحلی علاقہ اوڈپی سب سے زیادہ روشنی میں ہے۔
17مئی 2015 کو ’کوسٹل ڈائجسٹ ڈاٹ کام‘ نے ایک خبر شائع کرکے بتایا تھا کہ 4مئی 2015کوضلع اوڈوپی کے کرکلا تعلقہ میں اجیکر گائوں کی جو 24سالہ مسلم لڑکی ’نینا‘ گھر سے غائب ہوگئی تھی اس نے دراصل کرکلا کے ہی رہنے والے اپنے ہندو ’بوائے فرینڈ‘ ہرشت سے ہندو رسم ورواج کے مطابق شادی کرلی ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیناکا رشتہ بیلور کے رہنے والے ایک مسلم لڑکے سے طے ہوگیا تھا۔منگنی کی باقاعدہ تقریب بھی منعقد کی گئی تھی۔لیکن کچھ ہی دن کے بعدنینا پر اسرار طور پر گھر سے غائب ہوگئی۔اس کے ماں باپ نے تھانہ میں اس کے غائب ہونے کی شکایت درج کرائی۔پولیس نے اس کی سرگرمی کے ساتھ تلاش شروع کی۔لیکن نینا اپنے ’شوہر‘ ہرشت کے ساتھ منگلورو کے سب مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچی اور ہندو میرج ایکٹ کے مطابق اپنی شادی کو رجسٹرڈ کرالیا۔مذکورہ ’ڈائجسٹ‘ نے ان دونوں کی ایک تصویر بھی شائع کی ہے جس میں نینا نے بھی ماتھے پر سندور لگاکھاہے۔
آئیے اب اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں۔اوڈوپی کا جو علاقہ اس وقت سب سے زیادہ خبروں میں ہے وہ مانڈیا ہے۔مسکان نامی اس بچی کا کالج بھی‘جس نے پوری دنیا میں اپنے ایک ’ایکٹ‘ کے سبب ’دھوم‘ مچاڈالی‘ مانڈیا میں ہی واقع ہے۔ ’کوسٹل ڈائجسٹ ڈاٹ کام‘ نے 6 جون 2016 کو ایک خبر شائع کی کہ مانڈیا کے جس ’بین المذاہب جوڑے‘ نے بھاگ کرشادی کرلی تھی اسے دونوں کے والدین نے قبول کرلیا ہے اور ان کی شادی کو اپنی رضامندی دیدی ہے۔
23سالہ ہندو لڑکا نوین اور 22 سالہ مسلم لڑکی فرحانہ پچھلے دو سال سے ایک دوسرے کے دام محبت میں گرفتار تھے اور دونوں برابر ملتے رہتے تھے۔فرحانہ ہرچند کہ ایک سال چھوٹی تھی لیکن تعلیم میں وہ لڑکے سے ایک سال آگے تھی۔فرحانہ کے ماں باپ اس رشتہ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے لہذا دونوں گھر سے بھاگ گئے۔پولیس نے انہیں تلاش کرلیا اوردونوں کے والدین کو تھانہ میں بلاکر انہیں اس پر ’آمادہ‘ کرلیا کہ وہ اس رشتہ کو قبول کرلیں۔
مانڈیا میں اس طرح کے کئی معاملات روشنی میں آتے رہے ہیں۔پورے اوڈوپی کے احوال بھی مختلف نہیں ہیں۔کرناٹک میں دوسرے مقامات پر بھی اس طرح کے درجنوں واقعات روشنی میں آچکے ہیں۔اور یہ قضیہ صرف ایک ریاست کا ہی نہیں ہے ملک کے باقی حصوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
19دسمبر 2020 کو ٹائمز نیوز نیٹ ورک کے سندیپ رائے نے رپورٹ لکھی کہ میرٹھ کی ایک 23 سالہ مسلم لڑکی فرح کو ایک کنفیکشنری کا کیک بہت پسند تھا۔اس کنفیکشنری کا مالک ایک 25 سالہ ہندو لڑکا ’نامان مدان‘ تھا۔وہ خود ہی ڈلیوری لے کر اس مسلم گھرانہ میں جاتا تھا۔کیک کے بعد فرح نے مدان کو بھی پسند کرنا شروع کردیا۔ 13دسمبر 2020 کو یہ دونوں گھر سے بھاگ گئے۔لڑکی کے بھائی نے مدان کے خلاف بہن کو اغوا کرنے کی رپورٹ درج کرائی۔پولیس نے ان دونوں کو رشی کیش سے برآمد کرلیا۔فرح نے مذہب بدل کر اپنا نام ’ماہی‘ رکھ لیا اور ایک مندر میں شادی کرلی۔پولیس نے دونوں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جہاں لڑکی نے اپنے بھائی کے ذریعہ عاید اغوا کے الزام کو جھٹلاتے ہوئے بیان دیدیا کہ میں اپنی مرضی سے اس کے ساتھ گئی تھی اور اب میں اسی کے ساتھ رہوں گی۔
اس خبر پر بہت سے تبصرے سائٹ پر موجود ہیں۔لیکن سب سے اوپردنیش نامی ایک ہندو نے یہ تبصرہ لکھا ہے: میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسا واقعہ سنا ہے کہ مسلمان لڑکی نے مذہب بدل کر ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرلی ہے‘ جے ہو یوگی جی کی‘‘۔
’لیٹسٹ لازڈاٹ کام‘ نے اتر پردیش کے سنبھل کے تعلق سے 5 اگست 2021 کوایک خبر شائع کی کہ ایک 15 سالہ مسلم لڑکی اپنے ہندو بوائے فرینڈ کے ساتھ فرار ہوگئی تھی۔اس کے ماں باپ نے لڑکے کے خلاف اس کے اغواء کی شکایت درج کرائی۔لڑکی نے فون پراپنے ماں باپ سے رابطہ کیا تو ان کی لوکیشن کا علم ہوگیا۔ پولیس نے تلاش کی تو معلوم ہوا کہ پچھلے 15دن سے وہ ہندو لڑکے کے ساتھ گوا میں رہ رہی ہے۔پولیس نے اسے گوا سے سنبھل لاکر بچوں کی عدالت میں پیش کیا۔یہاں اس لڑکی نے بیان دیا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ گئی تھی۔
16 اپریل 2021 کو ٹائمز آف انڈیا اور ’ورلڈوژن انڈیا‘ نامی ویب سائٹ نے ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا تھاکہ گزشتہ 22 فروری کو نوئیڈا کے سیکٹر 9سے جو 23 سالہ مسلمان لڑکی غائب ہوگئی تھی اس نے ہندو مذہب قبول کرکے اپنے ہندو بوائے فرینڈ سے شادی کرلی ہے۔اس کے ماں باپ نے سیکٹر 20کے تھانہ میں اس ہندو لڑکے کے خلاف اپنی لڑکی کو اغوا کرنے کی شکایت درج کرائی تھی۔پولیس نے انہیں الہ آباد میں تلاش کرلیا جہاں وہ شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے۔لڑکی نے پولیس کو بتایاکہ ان دونوں کے درمیان پچھلے 12 سال سے شناسائی ہے اور اس نے ہندو مذہب اختیار کرکے مندر میں شادی کرلی ہے۔پولیس نے لڑکی سے کہا کہ وہ اپنے ماں باپ سے تعلقات استوار کرلے لیکن اس نے صاف انکار کردیا۔
ورلڈ وژن انڈیا نامی ویب سائٹ کے علاوہ درجنوں ایسی ویب سائٹس کا مطالعہ کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اس طرح کے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں اور دوسری طرف ان ویب سائٹس پر مسلمانوں کے ہی خلاف اپنی لڑکیوں کے ذریعہ ہندو لڑکوں کو پھنسانے اور ’لوجہاد‘ کی مہم چلانے کے الزامات عاید کئے جارہے ہیں۔مذکورہ ویب سائٹ پر ہی لکھا تھاکہ پچھلے دو مہینہ میں ایسے 20سے زائد واقعات ہوچکے ہیں۔
بیشتر واقعات سے اور مذکورہ پانچوں واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھاگ جانے کا واقعہ اچانک ظہور پزیر نہیں ہوتا بلکہ پہلے برسوں شناسائی جاری رہتی ہے‘ ایک واقعہ میں تو دونوں کے درمیان 12 سال تک معاشقہ جاری رہا۔حیرت ہے کہ اس دوران ماں باپ کیا کرتے رہے۔جب اپنی لڑکی فرار ہوگئی تو نامزد رپورٹ درج کرادی۔
انٹرنیٹ پر درجنوں ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں ہزاروں ہندو لڑکوں نے اپنے سوالات ڈال رکھے ہیں۔ان میں زیادہ تر نے یہ سوال کررکھا ہے کہ’’کیا وہ مسلمان لڑکی سے شادی کرسکتا ہے۔‘‘اس پر کچھ نام نہاد’ایکسپرٹس‘انہیں جوابات بھی دیتے ہیں۔ایک غیر مسلم لڑکے نے لکھا: میں ایک مسلمان لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔اس کی بڑی بہن پہلے ہی کسی اور ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی کرچکی ہے۔ کیا میں بھی ایسا کرسکتا ہوں۔اس پر بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی آراء لکھی ہیں۔
ایک ہندو خاتون نے قدرے پروقار جواب دیا ہے۔اس نے لکھا ہے کہ محبت کرناکوئی گناہ نہیں لیکن بھاگ کر شادی کرنا ٹھیک نہیں‘سوچ کر دیکھو کہ اس کے ماں باپ پر کیا گزرے گی جو اسے تم سے زیادہ محبت کرتے ہیں‘اگر اس کے ماں باپ تیار نہیں ہیں تو تم اپنا مذہب بدلنے کی پیش کش کرسکتے ہو‘ممکن ہے کہ وہ تیار ہوجائیں‘پھر بھی تیار نہ ہوں تو اس لڑکی کاخیال دل سے نکال دو‘ اگر بے انتہا محبت ہے (جیسا کہ تمہارا دعوی ہے) تو اس کی شادی کہیں اور ہوجانے دو اور اسے یکطرفہ طور پر محبت کرتے رہواور خود بغیر شادی کے زندگی گزاردو۔تاہم دوسرے 116 لوگوں نے مختلف آراء دی ہیں۔ان میں اسے بھاگ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔کسی نے کہا ہے کہ لڑکی کو ہی ہندو بناکراپنے لوگوں سے مدد طلب کرو۔ان جوابات کوڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ’لائک‘کیا ہے۔
میں پچھلے دو ہفتوں سے ان تفصیلات کا وقتاً فوقتاً مطالعہ کر رہا ہوں۔ دوران مطالعہ میری روح لرز جاتی ہے۔میرا مضمون ایک سے زائد نشستوں میں تیار ہوتا ہے۔جب بھی لکھتا ہوں تو انگلیاں کانپنے لگتی ہیں۔میں نے اپنی بڑی دوبچیوں کی تعلیم اس طرح مکمل کرائی ہے کہ خود چھوڑ کر آتا تھا اور خود لے کر آتا تھا۔اس مقصد کیلئے میں نے ڈرائیور تک کی خدمات نہیں لیں۔اس موضوع کے ہزاروں نکات ہیں۔سب پر بات کرنا ممکن نہیں۔
کرناٹک میں جو ہورہا ہے اس کا صرف ایک رخ نہیں ہے۔مسلمانوں کے نام پر وہاں ناکام سیاسی گروہ عواقب وعوامل کا جائزہ لئے بغیر جو آگ دہکا رہے ہیں اس کی تپش دوسرے اہم موضوعات کو جلاکر بھسم کر رہی ہے۔سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے اپنے جوش کی گرمی بکھیرنے والے گروہوں کو اپنے گھروں کی خبر نہیں ہے۔انہوں نے بچیوں کو ایسے وقت میں سڑکوں پر دھکیل دیا ہے جب امتحانات سر پر ہیں۔کتنے ہی گھروں میں ارتدادنے گھس پیٹھ کرلی ہے۔
پورے ملک میں اور خاص طور پرشمال اور جنوب کی ریاستوں میں ایسے واقعات ہر روز رونما ہورہے ہیں۔لیکن اس وقت پوری قوم حجاب پر نعرے بلند کر رہی ہے۔حجاب کے پردہ میں ان کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے اس کی تلافی تو شاید ان کے حق میں آنے والا ممکنہ فیصلہ بھی نہیں کرپائے گا۔مجھے معلوم ہے کہ ’اہل حجاب‘ اب لعن طعن کا پٹارہ کھول دیں گے لیکن مسلمانوں کو یہی نکتہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے نام نہاد’خیر خواہوں‘ اور جوشیلے نعرے بازوں کی بس یہی حقیقت ہے۔
0 تبصرے