اكابر علماء ديوبند كا رمضان

 اكابر علماء ديوبند كا رمضان

اكابر علماء ديوبند كا رمضان

عبيد الله شميم قاسمى

رمضان المبارک كى آمد آمد ہے، اس مہينے کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ، الله رب العزت كى جانب سے اس مہينے ميں  مسلسل رحمتوں كا نزول ہوتاہے، اس مہينے كى اہميت كے پيش نظر رسول الله ﷺ حضرات صحابہ رضى الله عنہم كو خطاب فرمايا كرتے تھے، جس ميں رمضان المبارک كے مہينہ كى فضيلت، روزه اور تراويح كے فضائل، اس مہينہ  ميں عبادت كا ثواب اور ديگر بہت سى  باتوں پر مشتمل نصيحتيں ہوتى تھيں، تاكہ رمضان كے مبارک مہينہ كا كوئى جزء غفلت ميں نہ گزرے اور طاعت ربانى ميں يكسو ہوكر عبادات ميں ہمہ وقت مشغول ہوں۔

اس مہينے ميں نيكيوں كا ثواب بڑھا ديا جاتا ہے، چنانچہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا:  مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ. (صحيح ابن خزيمة: 3/191، رقم: 1887).

جس شخص نے اس  مہينے ميں كوئى نفل ادا كيا تو  گويا  كہ اس نے غير رمضان ميں فرض ادا كيا اور جس نے اس مہينے ميں فرض ادا كيا تو   گويا  كہ اس نے غير رمضان ميں ستر فرض ادا كيا۔

اس مہینہ میں عبادات و ریاضات کا عالم کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث پر نظر ڈالیے، فرماتی ہیں كہ  جب رمضان المبارك كا مہينه داخل ہوجاتا تو رسول الله ﷺ كمر كس ليتے، پھر آپ بستر پر تشريف نہيں لاتے يہاں تك كہ رمضان   گزر جاتا۔

عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهَا قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ، ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّى يَنْسَلِخَ" صحيح ابن خزيمة (3/342).

لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں:

 قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: "كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ".(صحیح مسلم:  باب الاجتهاد فی العشر الاواخر ، نمبر 1175)۔

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔

علماء كرام جو انبياء كرام كے وارث ہيں انھوں نے ہر قول اور فعل ميں رسول الله ﷺ كى اطاعت وفرمانبردارى كى اور آپ كے قول وفعل كو حرز جان بناليا،  خصوصا اكابر علماء ديوبند جن كو الله رب العزت نے اعتدال ووسطيت كے وصف سے متصف فرمايا ہے جو اس امت كى خصوصيت ہے، ان كے يہاں رمضان وغير رمضان  كے تمام اوقات ہى عبادت كے ليے مختص ہوتے ہيں، ليكن جب رمضان المبارک كا مہينہ شروع ہوجاتا توان اكابر علماء ديوبند كے بارے ميں ہم پڑھتے اور سنتے ہيں كہ ان كے تمام اوقات صرف تلاوت واذكار اورنوافل ميں گزرتے ہيں حتى كہ ان اوقات ميں ملاقات كرنا اور خطوط  كے جوابات بھى بند رہتےہيں، ذيل ميں انھيں اكابر علماء ديوبند كے رمضان المبارك كا كچھ نمونہ پيش خدمت ہے۔

سيد الطائفہ حضرت حاجى امداد الله صاحب مہاجر مكى رحمة الله عليہ كے يہاں رمضان المبارك كى راتوں ميں ميں سونے كا معمول نہيں تھا، جيسا كہ حكيم الامت حضرت تھانوى رحمة الله عليہ نے امداد المشتاق ميں نقل فرمايا ہے، حضرت حاجى صاحب فرماتے ہيں: يہ فقير عالم شباب ميں اكثر راتوں ميں نہيں سويا، خصوصاً رمضان شريف ميں بعد مغرب دو نابالغ لڑكے حافظ يوسف بن حافظ ضامن صاحب اور حافظ احمد حسين ميرا بھتيجہ سوا سوا پاره عشاء تك سناتے تھے، بعد عشاء دو حافظ اور سناتے تھے۔ اس كے بعد ايک حافظ نصف شب تك ، اس كے بعد تہجد كى نماز ميں دو حافظ، غرض كہ تمام رات اسى ميں گذر جاتى تھى۔ (امداد المشتاق )

حضرت مولانا رشيد احمد گنگوہى قدس سره كے يہاں تو رمضان المبارك كا پورا مہينہ ہى  عبادت ورياضت كا تھا، رمضان المبارک كى ہر عبادت ميں بڑھوترى ہوجاتى تھى مگر تلاوت كلام الله شريف ميں زياده اوقات صرف ہوتے، نمازوں ميں اور نمازوں كے بعد  تخميناً نصف قرآن مجيد  آپ كا يوميہ معمول تھا،  پيرانہ سالى ميں جبكہ آپ كى عمر ستر سال سے تجاوز كرچكى تھى كثرت عبادت كا يہ عالم تھا كہ دن بھر كا  روزه اور بعد مغرب چھ ركعات كى جگہ بيس ركعات صلاة الاوبين پڑھا كرتے تھے جس ميں تخميناً دو پارے سے كم تلاوت نہ ہوتى تھى، تراويح ميں سوا پاره پڑھنے كا معمول تھا اور اس كے بعد تھوڑى دير آرام فرماكر تہجد كے ليے بيدار ہوتے اور ڈھائى تين گھنٹہ مشغول رہتے، دن كے اوقات بھى اكثر تلاوت كلام ميں مشغول رہتے تھے۔

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوى رحمة الله عليہ كے يہاں رمضان المبارک ميں عبادت كا  معمول بڑھ جاتا تھا، آپ حافظ نہيں تھے مگر 1277ھ كے سفر  حجاز  ميں ماه مبارك ميں قرآن پاک حفظ كيا تھا اور روزانہ تراويح سناتے تھے۔ اس كے بعد تو بہت كثرت سے تلاوت فرماتے  تھے، حضرت مولانا يعقوب صاحب نانوتوى رحمة الله عليہ لكھتے ہيں كہ ايک مرتبہ ايک ہى ركعت ميں ستائيس پارے پڑھ ديئے۔

حضرت مولانا شاه عبد الرحيم صاحب رائپورى  كے رمضان المبارک ميں معمولات كے بارے ميں تذكرة الخليل ميں مذكور ہے كہ حضرت رحمة الله عليہ كو تعليم قرآن سے شغف تھا،  اسى طرح خود تلاوت كلام الله سے عشق تھا، آپ حافظ قرآن تھے اور شب كا قريب قريب سارا وقت تلاوت ميں صرف ہوتا تھا۔ رات دن كے چوبيس گھنٹوں ميں شايد آپ گھنٹہ بھر سے زائد نہ سوتے ہوں، اسى ليے آپ كو لوگوں سے وحشت ہوتى تھى كہ معمول تلاوت ميں حرج ہوتا تھا، عصر ومغرب كے درميان عام دربار اور سب كى ملاقات كے ليے مخصوص تھا، اسى طرح صبح نو بجے سے دس بجے تك كا وقت بھى ايك گھنٹہ مہمانوں كى عمومى ملاقات كا قت ہوتا تھا، اس كے علاوه بغير كسى خاص ضرورت كے آپ كسى سے ملاقات نہ كرتے تھے اور حجرۂ شريفہ كا دروازه بند كركے  مولائے كريم سے راز ونياز ميں مشغول رہا كرتے تھے، خوراك آپ كى بہت ہى  كم تھى اور ماه رمضان ميں تو مجاہده  اس قدر بڑھ جاتا تھا كہ  بسا اوقات ديكھنے والوں كو ترس آتا تھا۔

شروع ميں آپ قرآن مجيد  تراويح ميں خود سناتے تھے مگر آخر عمر ميں جب دماغ كا ضعف زياده بڑھ گيا تو آپ سامع بنتے اور اپنى تلاوت كے علاوه تين چار ختم  سن ليا كرتے تھے۔

حضرت شيخ الہند مولانا محمود حسن صاحب نور الله مرقده كا بھى رمضان المبارك ميں عام دنوں كے مقابلے عبادت كے اوقات بڑھ جاتے تھے، رمضان المبارک ميں تراويح كے بعد بھى تہجد تك يكے بعد ديگرے حفاظ  سے قرآن  سنتے تھے، ليكن جب مالٹا كى اسارت كا زمانہ تھا تو اس وقت رمضان المبارک كے معمولات كے بارے شيخ الاسلام حضرت مدنى قدس سره تحرير فرماتے ہيں: چونكہ رمضان كا مہينہ طائف ميں نہايت بد امنى كى حالت  ميں واقع  ہوا تھا، مسجد ابن عباس وہاں كى بڑى مسجد ہے، وہاں بھى الم تر كيف سے ترواويح ہوتى تھى مگر ہر وقت دشمن  كا خوف ہوتا تھا، گولياں چلنے كى آوازيں آتى تھيں اس ليے اس مسجد ميں جاتے ہوئے خطره رہتا تھا، چند روز تک اس مسجد ميں عشاء اور تروايح كے ليے تشريف لے گئے مگر جب حالات بالكل ناسازگار هوگئے تو محلہ كى مسجد ميں تراويح پڑھتے، اس كے بعد سحر تک  نوافل ميں مشغول رہتے۔

حضرت شيخ الہند رحمة الله عليہ كے رمضان المبارک كے معمولات كے سلسلے ميں حضرت مولانا اصغر  حسين مياں ديوبندى رحمة الله عليہ "سوانح شيخ الہند" ميں لكھتے ہيں كہ  ’’رمضان المبارک ميں مولانا كى خاص حالت ہوتى تھى اور دن رات عبادت خداوندى كے سوا كوئى كام  ہى  نہ ہوتا، دن كو ليٹتے اور آرام فرماتے ليكن رات كا اكثر حصہ بلكہ تمام رات  قرآن مجيد سننے ميں گذار ديتے۔ كئى كئى حافظوں كو سنانے پر مقرر ركھتے‘‘۔

تذكرة الخليل ميں حضرت مولانا خليل احمد سہارن پورى رحمة الله عليہ كے رمضان المبارك كے  يہ معمولات  لكھے ہيں: جب رمضان المبارک كا مہينہ شروع ہوجاتا جو نزول قرآن كا مہينہ ہے اور كثرت كلام الله كے ليے مخصوص ہے تب تو آپ كے جد وجہد كى كوئى حد نہ رہتى تھى، تراويح ميں سوا پاره سنانے كا معمول تھا، عام طور پر ستائيسويں شب ميں قرآن پاك مكمل ہوتا۔ ماه مبارک ميں اول اشراق سے ليكر گياره بجے تك تلاوت ميں مشغول رہتے، ليكن جب بذل المجہود كى تاليف شروع ہوئى تو اس وقت اس كى تاليف ميں مشغول رہنے لگے، اور ظہر كے بعد كسى حافظ كو پاره سناتے، اوابين ميں عام طور پر دو پارے پڑھتے اور تہجد ميں عام معمول تين پاره پڑھنے اور سننے كا تھا، عام طور پر حضرت شيخ الحديث صاحب نور الله مرقده كے والد حضرت مولانا محمد يحيى صاحب رحمة الله عليہ تہجد ميں قرآن پاک سناتے تھے۔

حكيم الامت حضرت مولانا اشرف على تھانوى  رحمة الله عليہ كے يہاں بھى رمضان المبارک ميں عبادت ميں زيادتى ہوجاتى تھى، حضرت والا خود تراويح سناتے اور تہجد كے ليے عام طور پر نصف شب كے بعد اٹھ جاتے اور سحر تك مشغول رہتے، حضرت كے رمضان المبارك كے معمولات معمولات اشرفيہ، حسن العزيز، انفاس عيسى اور افاضات يوميہ ميں مذكور ہيں۔

شيخ الاسلام حضرت مولانا سيد حسين احمد مدنى نور الله مرقده كے يہاں رمضان المبارك تو عبادت ورياضت كا مہينہ ہوتا تھا، عام طور پر حضرت ايك  ہى  جگہ  پورے مہينہ قيام فرماتے، مولانا عبد الحميد صاحب اعظمى رحمة الله عليہ نے حضرت كے سلہٹ رمضان گذارنے كا ذكر بہت تفصيل كے ساتھ كيا ہے۔ حضرت كا معمول تلاوت وغيره كا اس مہينے ميں بڑھ جاتا تھا ، ظہر كے بعد وعظ فرماتے اور عصر كے بعد قرآن كا دور سناتے، مغرب كے بعد بہت طويل نوافل ادا فرماتے، تراويح ميں خود قرآن پاك سنانے كا معمول تھا، اسى طرح تہجد ميں بھى پورے مہينے ميں ايك قرآن  مكمل فرماتے۔ 

اسى طرح ديگر اكابر ديوبند حضرت شيخ الحديث مولانا محمد زكريا كاندھلوى، حكيم الاسلام حضرت قارى محمد طيب صاحب قاسمى، فقيہ الامت حضرت مفتى محمود حسن  گنگوہى، فدائے ملت حضرت مولانا سيد اسعد مدنى رحمہم الله كے يہاں بھى رمضان المبارك كا بہت اہتمام ہوتا تھا اور پورا مہينہ عبادت ورياضت كے ساتھ گذرتا تھا۔

اكابر علماء ديوبند كے معمولات بيان كرنے كا مقصد يہ ہے كہ رحمتوں اور بركتوں كے نزول كا يہ بابركت مہينہ غفلت كے ساتھ نہ گزرے؛ بلكہ اپنى استطاعت كے مطابق ہم بھى عبادت كى كوشش كريں اور الله رب العزت سے استقامت كى توفيق مانگيں كہ اس بابركت مہينہ كو ہمارے ليے باعث نجات بنائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے