روزہ دار کا وظیفہ



روزہ دار کا وظیفہ

روزہ داروں کے کچھ خاص نغمے ، کچھ اوراد اور کچھ وظائف ہیں، روزے دار سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرتے ہیں ، کبھی تسبیح وتہلیل کے ذریعے، تو کبھی تکبیر اور استغفار کے ذریعہ، انھیں جب دن لمبا معلوم ہونے لگتا ہے تو ذکر واذکار کے ذریعہ اس کو مختصر کردیتے ہیں، اور جب بھوک کی شکایت ہوتی ہے تو اس کی شدت خصوصی وظائف کے ذریعہ ختم کردیتے ہیں، گویا ذکر ِ الٰہ میں انھیں لطف ملتا ہے، اس کی تسبیح میں انھیں سعادت نصیب ہوتی ہے، روزے دار اللہ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ ان کو یاد کرتے ہیں، ارشادِ ربانی ہے: ’’فَاذْکُرُوْنِيْأَذْکُرُکُمْ‘‘۔ (البقرہ: ۱۵۲)
ترجمہ: مجھ کو یاد رکھو میں تم کو یاد رکھوں گا۔ (بیان القرآن، ج: ۱/۹۶)
اور جب وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں تو اللہ انھیں خوب نعمتوں سے نوازتے ہیں، ارشاد ِ ربانی ہے:’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ‘‘۔ (ابراہیم: ۷)
ترجمہ: اگر تم شکر کروگے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۲۹۱)
سچے روزے دار کبھی کھڑے ہوکر ، کبھی بیٹھ کر اور کبھی پہلو کے بل، غرضیکہ ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔
سچے روزے دار وں کو اللہ کا ذکر کرکے دلی اطمینان نصیب ہوتاہے، اُن کی روحیں محبتِ الٰہی سے بہر ور ہوجاتی ہیں اور اُن کے نفوس شوقِ خدا میں جھوم اٹھتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے! کہ اللہ کا ذکر کرنے والا زندہ شخص کی طرح ہے اور اللہ کا ذکر نہ کرنے والا مردہ شخص کی طرح ہے۔
دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ذکر کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں، جبکہ وہ اسی دنیا میں زندگی گزارتے ، کھاتے پیتے اور ٹہلتے گھومتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما، تنہا رہنے والے سبقت کرگئے، تنہا رہنے والے آگے بڑھ گئے، صحابہؓ نے سوال کیا کہ تنہا رہنے والے کون لوگ ہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔
ذکر کرنے والا روزہ دار، بھلائیوں اور جنت کی طرف بہت تیز سبقت کرتا ہے، جہنم سے دور بھاگتا ہے، اس کا نامۂ اعمال نیکیوں اور اچھے بدلوں سے بھرجاتاہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے کسی ایسے عمل کے متعلق دریافت کیا جس پر وہ مضبوطی سے قائم رہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ‘‘۔ یعنی تمہیں ہر وقت ذکرِ خداوندی میں رطب اللّسان رہنا چاہئے۔
واقعتًا یہ کتنی خوبصورت، دلکش اورتعجب خیز بات ہے کہ روزے دار اللہ کا ذکر کرے اور بھوکا رہے، روزے دار اللہ کی تسبیح کرے اور پیاسا رہے۔
بہ کثرت اللہ کا ذکر کرنے والے وہی لوگ ہیں جو ہر سانس، ہربات اور ہر لحظہ میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔
یہی لوگ بارگاہِ خداوندی کی جانب سے بڑے بڑے اجر وثواب اورعطیبات کے مستحق ہوں گے۔
اس کے بر خلاف ذکر خداوندی سے اعراض کرنے والے، غم وآلام اور مصائب کے شکار ہوجاتے ہیں، ان کے پاس دوا تو ہوتی ہے؛ لیکن وہ استعمال نہیں کرتے، ان کے پاس علاج بھی ہوتا ہے لیکن وہ سمجھ نہیں پاتے۔
أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہ‘‘ کہتا ہے، اس کے لیے جنت میں ایک درخت لگادیا جاتاہے۔ چنانچہ ذکر سے غفلت کے شکار اور عبث کاموں میں مشغول افراد ایسے بہت سے درختوں کے مواقع کھو بیٹھتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: میرے لیے ’’ سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلاّ اللّٰہ واللّٰہ أکبر‘‘ کہنا دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی یہ قیمت بتادی کہ ’’سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلاّ اللّٰہ واللّٰہ أکبر‘‘ کی برابری اس پوری کائنات کی کوئی بھی شئ نہیں کرسکتی تو دنیا کے خزانے، سونے چاندی، محلات اور گھروں کی کیا حیثیت ہوگی؟ اب کون ہے وہ شخص جو ہر لمحہ ان کلمات کا وِرد کرے اور روزِ محشر میں اپنے لیے روشنی اور خوشی ومسرت کا سامان فراہم کرے۔
ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: کیا میں تمہیں کوئی ایسا عمل نہ بتادوں جو تمہارے لیے سب سے بہتر اور پاکیزہ ہو، سونے چاندی سے بھی عمدہ ہو، وہ عمل تمہارے لیے دشمن سے ملاقات کے وقت تمہیں کامیابی ملنے سے بھی بہتر ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا؛ کیوں نہیںاے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ضرور بتلائیے!تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ذکر کرنا۔
صلحاء کا یہ عالم تھا کہ نمازِ فجر سے فراغت کے بعد بیٹھ جاتے اور ذکر کرتے رہتے یہاں تک کہ دن کا فی بلند ہوجاتا۔کوئی ایسا کرتا کہ نماز فجر سے فراغت کے بعد قرآنِ کریم لے کر بیٹھ جاتا، تلاوت کرتا، اللہ کی نشانیوں اور آیتوں میں غور وفکر کرتا، اس طرح اپنے سینے کو نور سے اور نامۂ اعمال کو اجر سے پُر کرلیتا۔
وہ لوگ سراپا کوتاہی، کمی اور ناکامی کے شکار ہوتے ہیں جو پورا رمضان گزار دیتے ہیں، لیکن انھیں اللہ کے ذکر کی توفیق نہیں ملتی۔
لہٰذا لوگوں کو عمرفانی کے باقی اوقات کی قدر کرنی چاہئے اسی لیے شاعر نے کہا ہے!
ترجمہ: انسان کے دل کی دھڑکنیں اس سے یہ کہتی ہیںکہ زندگی تو محض منٹوں اور سیکنڈوں کا نام ہے، لہٰذا موت سے پہلے اللہ کا خوب ذکر کرلو، کیونکہ ذکر انسان کے لیے دوسری عمر اور زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔
عائض القرنی كی كتاب (ثلاثون درسا للصائمین ) كا اردو ترجمہ .
مترجم  وصی اللہ سدھارتھ نگری 
ناشر لجنۃ المؤلفین دیوبند


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے