افغانستان اور بھارت لڑکیوں کی تعلیم کے دو الگ معیار

افغانستان اور بھارت لڑکیوں کی تعلیم کے دو الگ معیار

غزالہ عزیز

انڈیا میں حجاب یا برقع کوئی نئی چیز نہیں۔ یہ تو جب سے ہے جب سے مسلمان یہاں آئے اس کے باوجود حجاب پر اعتراض ایک عجیب بات ہے۔ یہ اور عجیب بات ہوجاتی ہے جب خود ہندو مت میں اس کو اہم قرار دیا جاتا تھا اور ہے، ہندو عورت خاص طور سے برہمن عورت سر ڈھکتی اور اس کے گھونگھٹ میں بات کرنے کو بہتر سمجھا جاتا تھا۔ خیر ہندو مذہب تضادات کا مجموعہ ہے۔ لیکن بھارت میں آج حجاب کو جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ کرناٹک ریاست میں اس وقت طالبات کو کالجوں میں کلاس لینے کی اجازت نہیں۔ وہ کالج آتی ہیں لیکن کالج میں کلاسوں کے باہر سیڑھیوں ہی پر بیٹھ کر یا کیمپس میں وقت گزارتی ہیں۔ بھارت کا معروف اخبار خبر دیتا ہے کہ جس کے مطابق ایک لڑکی بتاتی ہے کہ وہ روز اس اُمید پر کالج جاتی ہے کہ انہیں کلاس میں داخل ہونے دیا جائے گا لیکن وہ سارا دن کلاس سے باہر کیمپس میں گزارتی ہے اور اپنی ہم جماعت سے نوٹ بک لے کر اس سے کاپی کرتی ہے۔ ان لڑکیوں کا جو حجاب کے ساتھ کلاس لینا چاہتی ہیں یہ کہنا ہے کہ ’’ہم صرف حجاب پہننے کی اجازت چاہتی ہیں جو ہمارے جذبات، شناخت اور ہمارے بنیادی حقوق سے منسلک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تعلیمی سال کا آخری وقت ہے۔ امتحانات سر پر ہیں اور وہ کلاس کے باہر ہیں۔ اقوام متحدہ اور پوری دنیا کو یہ بات کہنا چاہیے کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے پریشان مغرب کے لیے یہ صورت حال بھی توجہ طلب ہے اور کچھ نظر بھارت کی صورت حال پر بھی ڈالیں۔ افغانستان کے معاملے میں تو امریکا نے اس بات کو بنیاد بنا کر اس کے اربوں ڈالر منجمد کر دیے تھے۔ دیکھنا ہے کہ بھارت کے معاملے میں ان کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟

افغانستان کے معاملے میں تو امریکا کہتا ہے کہ ہم خواتین کی تعلیم کے معاملے میں طالبان کو پرکھ رہے ہیں۔ بھارت کے معاملے میں تو معاملہ پرکھنے سے اُوپر پہنچ چکا ہے۔ وہاں طالبات تعلیم کے لیے کلاسوں میں داخلے بلکہ کالج میں داخلے سے روک دی گئی ہیں تصویریں اور ویڈیو موجود ہے۔ خاص طور سے بہادر لڑکی مسکان کی ویڈیو جس میں لشکر کا لشکر ایک لڑکی کو ہراساں کررہا ہے۔ زعفرانی مفلر اوڑھے لڑکے اس لڑکی کو روک رہے ہیں، اساتذہ بھی ان لڑکوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔ لیکن امریکا سمیت مغرب اس پر چپ سادھے ہے یا نیند میں ہے۔ اقوام متحدہ کو انہیں نیند سے جگانا چاہیے۔ اِس وقت بھارت میں حجاب پر پابندی کا معاملہ کرناٹک سے لے کر مدھیا پردیش کے شہر پانڈوچری تک پھیل گیا ہے۔ نسیم حجازی کی ناولوں کا مطالعہ کرنے والے اس شہر پانڈوچڑی سے واقف ہیں، خاص طور سے ’’معظم علی اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘۔ یعنی یہ شہر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی ریاست کا اہم حصہ تھا۔ جس میں ہندو اور مسلمان سکھ چین سے تھے لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ مسلمان طالبات وہاں تعلیمی اداروں میں حجاب نہیں پہن سکتیں، آج وہاں بہادر مسلمان بیٹیاں اپنے حجاب کے حق کے لیے کھڑی ہیں۔ جہاں باحجاب طالبات کو اسکولوں اور کالجوں میں داخلے سے روکا جارہا ہے۔ بھارت میں یوں بھی مسلمانوں کی تعلیم کا تناسب انتہائی کم ہے۔ اور اس سے بھی کم مسلمان خواتین کا تناسب ہے۔ مسکان کہتی ہیں کہ ’’ہم حجاب کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے، یہ ایک مسلمان لڑکی کی شناخت کا حصہ ہے‘‘۔

بھارت میں حجاب کا واقعہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ مودی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ بی جے پی کو اُمید ہے کہ ایسے واقعات انہیں انتخابات میں مدد دیں گے۔ اور یہ توقع غلط بھی نہیں ہے، آج بی جے پی کا ایک اہم ایشو مسلمانوں سے نفرت بھڑکانہ ہے۔ جس میں وہ کامیاب ہے۔ کبھی گائے کے معاملے میں کبھی سوریہ نمسکار (سورج کی پوجا) کبھی مسلم پرسنل لا میں مداخلت اور کبھی مسلمانوں کی شہریت کی منسوخی کے ذریعے وہ کوئی نہ کوئی محاذ کھولے رکھتے ہیں۔ مودی نے اپنے سارے اقتدار میں مسلمانوں کو بہت بُری طرح نشانہ بنایا ہے۔ امریکی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن جنہوں نے نسل کشی کے دس مراحل کا نظریہ پیش کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمان نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے بھارت کے لیے ’’جینوسائڈ ایمرجنسی الرٹ‘‘ کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی ایسا ہوتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے یعنی یہ ان کے پلان کے مطابق ہوگا۔

پچھلے دنوں بھارتی شہر ہردوار میں ایک ہندو مذہب کا جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس میں مقررین نے ہندوئوں سے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہ اور ایسی تقریریں کوئی پہلی دفعہ نہیں ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہزاروں فسادات ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ بعض موقعوں پر تو مسلمانوں کو قتل کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مسلمانوں کے قتل عام کی بات پہلی دفعہ علی الاعلان ہردوار کے جلسے میں کی گئی جس میں کہا گیا کہ اگر بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا جائے تو بقیہ مسلمان بے چوں و چرا ’’ہندو راشٹر‘‘ تسلیم کرلیں گے اور ہندو فاتح بن کر اُبھریں گے۔ فاتح بننے کی خواہش قوموں میں ہوتی رہی ہے لیکن یوں اپنے عوام کو قتل کرکے فاتح بننے کی کوششیں دُنیا پہلی دفعہ دیکھ رہی ہے اور افسوس یہ ہے کہ خاموش ہے۔

#HijabourRight

#Hijabhamarhaqhai

#Hijab

#Hijabisourfundamentalright

#hijabrow

#whyhijabisban

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے