مولانا ابوالکلام آزادؒ کا نظریہ تعلیم


مولانا ابوالکلام آزادؒ کا نظریہ تعلیم


1947 تقسیم ہندوستان کا مسئلہ مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے بہت ہی بڑا صدمہ تھا: ان کے خواب ، ان کی خواہشیں اور ان کی درد بھری آواز چکنا چور ہو رہی تھیں؛ لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت اور بلند ارادی سے کام لیا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی بہت ساری عظیم خدمات انجام دیں، اپنی پوری حیات کو ہندوستان کے لیے وقف کردیا اور بڑے نمایاں کارنامے انجام دیے، انہیں کارناموں میں ایک اہم باب "آزاد ہندوستان کی تعلیمی پالیسی" کا بھی تھا، وزیر تعلیم ہونے کی حیثیت سے وہ اس کے ذمہ دار تھے۔
ابوالکلام آزاد بیک وقت ایک عالم دین ، بلند مرتبت صحافی، عظیم سیاست داں ، بے مثال خطیب اور مفسر قرآن تھے؛ اگر چہ مولانا آزاد سیاست میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے؛ لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ 

شاید ہی ہندوستان کی کسی زبان میں ابوالکلام محی الدین احمد آزاد دہلوی جیسا کم عمر صحافی پیدا ہوا ہو، جس نے اس راہ کی پہلی منزل میں قدم رکھتے ہی اپنی فکری بلندی ، اپنی ادبی صلاحیت، اپنے مذہبی رجحان، اپنے قومی خیالات، اپنے تعلیمی نظریات، اپنے اصلاحی پروگرام، اپنے اردو زبان کی خدمات کے جذبے ، اپنے تنقیدی شعور، اپنے روشن خیال اور صالح جذبات سے سارے ہندوستانی مسلمانوں کے اہل نظر ، اہل خیر، اہل کمال، اہل ادب اور قومی خدمت گذاروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔

امن صاحب نے کہا تھا:

"جب ایک ذات میں بہت سی خوبیاں جمع ہوں ، تو یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سی خوبی سب سے زیادہ نمایاں ہے: مولانا عالم بڑے زیادہ تھے یا سیاست داں ، ان میں قوت تحریر زبردست تھی یا قوت تقریر، ان میں ذکاوت زیادہ تھی یا حافظہ، ان میں قوت برداشت زیادہ تھی یا برجستگی، ان میں تنظیم زیادہ تھی یا ادراک حقیقت؛ اس کا اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے، جس میں ان خوبیوں کو سمجھنے کی پوری صلاحیت ہو"۔

اس میں شک نہیں کہ مولانا بے شمار صلاحتیوں کے حامل تھے، جن کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ کون سا پہلو دوسرے پہلو پر فضیلت رکھتا ہے۔ 

جواہر لال نہرو کہتے تھے:
وہ ایک گوہر یکتا تھے؛ ایسے انسان بار بار پیدا نہیں ہوتے

مولانا ابوالکلام آزاد نے تعلیم کے سلسلہ میں درس نظامی اور جدید نظام تعلیم جو آج ہندوستان میں رائج ہے؛ دونوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی اور ایک نیا راستہ اپنایا، جس سلسلہ میں ان کی تقریر ہمیں ایک نیا راستہ دکھاتی ہے:

"انگریزی تعلیم کی ضرورت کا تو یہاں کسی کو وہم وگمان بھی نہیں گذر سکتا تھا؛ لیکن کم از کم یہ تو ہوسکتا تھا کہ قدیم تعلیم کے مدرسوں میں سے کسی مدرسے سے واسطہ پڑتا ۔ مدرسے کی تعلیمی زندگی گھر کی چار دیواری کے گوشہ تنگ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے اور اس لیے طبیعت کو کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے؛ لیکن والد مرحوم یہ بھی گوارا نہیں کرسکتے تھے۔ کلکتہ کے سرکاری مدرسہ عالیہ کی تعلیم ان کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی اور فی الحقیقت قابل وقعت تھی بھی نہیں اور کلکتہ سے باہر بھیجنا انہیں گوارا نہ تھا۔ انہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا کہ خود تعلیم دیں یا بعض خاص اساتذہ کے قیام کا انتظام کر کے ان سے تعلیم دلائیں"۔
(غبار خاطر، ط1976،ص96)

اس عبارت سے یہ واضح ہو رہا ہے ابوالکلام آزاد نے تحصیل علم کی غرض سے مدارس یا اسکول وکالجیز کا رخ نہیں کیا؛ بلکہ والد محترم کے کہنے پر گھر میں ہی مذہبی تعلیم حاصل کی اور نمایاں مقام پر پہونچے۔ نیز اس عبارت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مدرسہ جانا چاہتے تھے، تبھی تو کہا: "مدرسہ کی تعلیمی زندگی گھر کی چار دیواری کے گوشہ تنگ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے"۔
یہاں پر ابوالکلام اپنی تعلیمی زندگی کے متعلق گھریلو تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے مدارس کی تعلیم کا جائزہ بھی لے رہے ہیں، ان کی منشاء یہ ہے کہ طلباء کے لیے مدارس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جہاں سے وہ نکھر سکتے ہیں اور وہاں انہیں بلند حوصلہ اور ذہنی پھیلاؤ ملتا ہے، عزائم کی پختگی ہوتی ہے، لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور عالمی خدمت کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔

ابوالکلام آزاد کی اس عبارت سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ جگہ جگہ آزاد مدارس پر نقد کر رہے ہیں اور مدارس کے نظام تعلیم کے سلسلہ میں ان کا نظریہ صحیح نہیں ، وہ نصاب نظامی کے خلاف ہیں؛ تو ایسا نہیں ہے، ابوالکلام نصاب نظامی کے خلاف نہیں ؛ البتہ کچھ تنقیدات ضرور کیں ہیں، جسے آج کی ذہنیت قبول بھی کرتی ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ایک نقاد صحافی ہیں اور تجربہ ودلیل کی روشنی میں بات کرت ہیں؛ چناں چہ انہوں نے مدارس کے نصاب کا تجزیہ کرتے ہوئے جہاں تعریف کی، وہیں نقد سے بھی کام لیا ہے، لکھتے ہیں:

"اگر فنون عالیہ کو الگ کردیا جائے، تو درس نظامیہ میں بنیادی موضوع دو ہی رہ جاتے ہیں: علوم دینیہ اور معقولات۔ علوم دینیہ کی تعلیم جن کتابوں میں منحصر رہ گئی ہے، اس سے ان کتابوں کے مطالب وعبارت کا علم حاصل ہوجاتا ہو؛ لیکن خود ان علوم میں کوئی مجتہدانہ بصیرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ معقولات سے اگر منطق الگ کردی جائے ، تو پھر جو کچھ باقی رہ جاتا ہے، اس کی علمی قدروقیمت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ تاریخ فلسفہ قدیم کے ایک خاص عہد کی ذہنی کاوشوں کی یادگار ہے"۔
(غبار خاطر، 1976، ص98)

آج سے تقریبا 60 سال پہلے(کچھ زیادہ یا کم) کی یہ تحریر کس قدر حیرت انگیز ہے کہ بعینہ آج بھی "مدارس عربیہ" کی صورت حال حرف بہ حرف یہی کچھ ہے، جو اس وقت تھی؛ البتہ ان بعض طلباء کا استثناء کیا جاسکتا ہے، جو قدیم کتب کے مطالعہ میں اپنا وقت گذارتے ہوں۔ 

ابوالکلام آزاد کی یہ تنقید کہ مجتہدانہ بصیرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر ذہنی پھیلاؤ کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ کوئی تنقید نہیں ؛ بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد طلبہ کو دیگر کتابوں کے مطالعہ کرنے کی راہ دکھانے کی غرض سے ایسا کہہ رہے ہیں؛ کیوں کہ علم کی کوئی حد نہیں ہوتی، مطالعہ کی گہرائی جیسی ہوگی ، ویسا علم ہوگا اور علم کی گہرائی سے ہی مجتہدانہ بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ یہاں پر ابوالکلام آزاد کی رائے کا مقصد یہ سمجھ آرہا ہے کہ وہ علم میں گہرائی کے خاہاں تھے، ان کا مقصد تھا کہ صرف نصاب نظامی میں رائج علوم دینیہ کی کتابوں کو کتاب آخر نہ مانا جائے؛ بلکہ علوم دینیہ کی دیگر کتابوں کا بھی بغور مطالعہ کیا جائے، جس سے مطالعہ میں ایسی گہرائی پیدا ہو کہ بوقت ضرورت اجتہاد بھی کیا جا سکے۔

اسی کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک اور موقف ملاحظہ ہو، جس میں ایک ہلکی سی تنقید سرکاری نصاب تعلیم کے متعلق جھلک رہی ہے، مولانا کی تقریر کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:

"ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل واعمال کو پہنچائے ہیں، ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد اعلی ہماری نظروں سے محجوب ہوگیا ہے۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے اور اس کو صرف اسی لیے ڈھونڈھنا چاہیے۔
پس اب ہندوستان میں علم کو علم کے لیے نہیں؛ بلکہ معیشت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں جو انگریزی تعلیم کی نوآبادیاں ہیں، کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں؟ مشتاقان علم اور شیفتگان حقیقت سے؟ نہیں، ایک مٹھی گیہوں اور ایک پیالہ چاول کے پرستاروں سے ، جن کو یقین دلایا گیا ہے کہ بلا حصول تعلیم کے وہ اپنی غذا حاصل نہیں کرسکتے"۔
(خطبات آزاد، مرتبہ مالک رام، شائع کردہ ساہتیہ اکادمی)

یہاں پر ابوالکلام آزاد کا یہ فقرہ :"علم خدا کی ایک پاک امانت ہے"۔ کس قدر اہم اور اپنی معنویت میں بے پناہ ہے۔ مولانا آزاد کی تقریر کے اس حصہ سے ان کے بلند عزائم اور عقیدہ کا بھی پتہ چلتا ہے کہ علم اللہ تبارک وتعالی کی امانت ہے ، اسی کے لیے علم سیکھنا ہے اور اسی کے لیے سب کچھ ہے، ابوالکلام آزاد علم کو پیسہ کے لیے سیکھنے سے منع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ علم صرف اللہ تبارک وتعالی کے لیے ہی حاصل کیا جائے، جسے اس کے راستہ میں بہتر طریقہ سے خرچ کیا جاسکے۔ 

افسوس کی بات ہے، کچھ لوگوں کی ذہنیت میں تنگ نظری اتنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کہ اگر انہیں کسی کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی یا مزاج کے خلاف ثابت ہوتی ہے، تو فورا اس پر کیچڑ اچھالنے شروع کر دیتے ہیں، جب کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ 

اس متعلق احقر کی ایک رائے ہے کہ کسی بھی بڑی شخصیت کو پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے اپنے ذہن میں تنہائی اور وسعت لانی ضروری ہے، تنگ نظری سے دوری اختیار کرنا ہوگا اور اس وقت تک کے لیے فروعی وملی اختلافات کو بھولنا بھی ہوگا ، تبھی جاکر کہیں کسی بڑی شخصیت کے عظیم ذہن اور بلند کارنامے کے منشاء کو سمجھا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ ایک بڑا ہی خوبصورت اور انوکھا اصول ہے: گفتگو سے سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے؛ لیکن تنہائی وہ مدرسہ ہے، جہاں عظیم ذہن بنتے ہیں اور اگر ذہن عظیم ہوگیا تو اختلافات میں الجھن پیدا نہیں ہوگی؛ بلکہ ہر بڑی اور مشکل چیز آسان نظر آنے لگے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے