پر کیا کریں وہ کل تھا Par kya karein wo kal tha


?Par kya karein wo kal tha  

 پر کیا کریں وہ کل تھا Par kya karein wo kal tha



انسان کی زندگی ایک حدود میں گھری ہوتی ہے، جس کی ابتدا بچپنے سے شروع ہوکر بوڑھاپے پر مختتم ہوجاتی ہے۔ ان حدود میں سب سے خوشگوار وقت بچپنے کا ہوتا ہے، جس میں اگر چند چھوٹی یا بڑی غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں ، تو انسان ایک دو دن کے بعد ان تمام غلطیوں کو بچے کی غلطی سمجھ کر بھلا دیتا ہے ۔ کاش یہ غلطیاں بھولنے بھولانے کا معاملہ کسی عمر کے ساتھ خاص نہ ہوتا؛ بلکہ ایک جوان اور تجربہ کار شخص بچے کی غلطی کو جس طرح بھول جاتا ہے ، اسی طرح سمجھ داروں سے ہوئی غلطیوں کو بھی بھول جاتا ، تو کیا ہی خوب ہوتا ؛ چوں کہ ہر شخص کے کچھ نہ کچھ جذبات ہوتے ہیں ۔ ان جذبات کو اتنی چوٹ نہ پہنچاؤ کہ آپ کا خیال جب بھی اسے آئے، تو اسے تکلیف ہو۔

پر افسوس کہ ایک لڑکا اگر بچپنے میں کوئی غلطی کر دیتا ہے ، تو لوگ اسے بھلا دیتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے؛ لیکن اگر وہی لڑکا سمجھداری آجانے کے بعد کوئی لغزش کر بیٹھتا ہے، تو یہ عوام الناس ، جو خود کو اشرف المخلوقات کہتی ہے، وہ کم عقلوں اور بے عقلوں جیسی حرکتیں کرنے لگتی ہے کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اس شخص پر نظر گڑائے رہتی ہے کہ اسی نے تو یہ غلط کام کیاہے، ہوسکتا ہے دیگر غلط کاموں کا بھی مرتکب یہی ہو۔

میرے پیارے اللہ کے بندو ۔ آپ اللہ سے بڑے نہیں ہو ۔ اللہ تو معاف کر دیتا ہے اور کی ہوئی غلطیوں پر پردہ بھی ڈال دیتا ہے ، پھر آپ کون ہوتے ہو، ان غلطیوں کو دہرانے والے ؟ اور کون ہوتے ہو ان غلطیوں پر طعن وتشنیع کرنے والے؟ کیا اللہ تبارک وتعالی کی بات آپ کو یاد نہیں رہی ؟ اگر بھول گئے ہو، تو یاد کرلو، دیکھ لو! قرآن کریم کہہ رہا ہے : "ان اللہ غفور الرحیم" ۔ 
وقت بھی مٹی ڈال دیتا ہے ماضی پر، آرزوؤں پر ، تمناؤں پر اور غلطیوں پر ، یہاں تک کہ رشتوں پر بھی ، پھر آپ کیوں ان غلطیوں کو اچھالتے ہو؟ اگر یہی طعن وتشنیع، شکوہ و شکایت اور الزام تراشیاں وافترا بازیاں ہی اچھی لگتی ہیں اور اسی کو اپنانا اچھا سمجھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ ان کاموں کے کرنے سے تم بڑوں کی نگاہوں میں بلند ہوجاؤگے ، توایسا سمجھنا غلط ہے اور یہ مت بھولنا کہ اللہ کی پکڑ بہت ہی سخت ہے: " إن بطش ربك لشديد"۔

اگر رب کی پکڑ آگئی ، تو سوچو کیا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرعون کی پکڑ کی ، پانی میں ڈبو دیا ۔ قارون کو پکڑا ، توہمیشہ کے لیے زمین میں دھسنے کا حکم دے دیا ۔ قوم نوح کو پکڑا ، تو انہیں غرق آب کر دیا ۔ قوم لوط کو پکڑا ، انہیں بھی ہلاک وبرباد کردیا ؛ ذرا سوچو اگر اللہ کی پکڑ آگئی ، تو کہاں جاؤگے؟ ہے کوئی ٹھکانہ ؟ بنایا ہے کوئی مکان ، جہاں چھپو ؟ کیا چھپ سکتے ہو کبھی اللہ سے؟

اگر کبھی کسی سے غلطی ہو بھی جا تی ہے ، تو کبھی نہ کبھی وہ اللہ سے معافی مانگ کر خود کو سدھار ہی لیتا ہے ۔ پھر جب کسی نے اپنی غلطیوں کو سدھار لیا، تو کیوں اس کے پیچھے پڑے رہتے ہو؟ کیوں اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہو؟ کیوں اس پر بہتان بازیوں سے کام لیتے ہو؟ کیا آپ کو اس شخص کی حقیقت پتہ ہوتی ہے؟ کیا ایک شخص ہر وقت میں ایک ہی جیسا رہتا ہے؟ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی؟

میرے پیارے دوستو! چھوڑ دو یہ منافقوں کی چال ۔ اسلام الزام تراشیوں اور بہتان بازیوں کی دعوت نہیں دیتا ، جو اس فعل بد کی اتباع کرتے جارہے ہو۔ جس کام کے کرنے کا حکم اللہ تبارک وتعالی نے دیا ہے، اسے کرنے میں سب کی نانی یاد آنے لگتی ہے اور بے کام کے کام کرنے والوں کو شمار کرنا دشوار ہے۔

یہ الزام تراشیاں ، جھوٹی تہمت کتنی گھناؤنی اور بری عادت ہے۔ کیا ایسے گھنؤنے کام کرنے والوں کو اشرف المخلوقات کہا تھا اللہ نے؟

اشرف المخلوقات کی عزت کرو اور اسے سمجھو ، اس کی حیثیت پہچانو، حیوانوں؛ بلکہ اس سے بھی بدتر حرکتیں چھوڑ دو۔ منافقت کو مت اپناؤ ، خدا کے واسطے کسی کے جذبات سے مت کھیلو ؛ البتہ کسی میں کچھ کمیاں دیکھو، تو اسے بتادو ؛ لیکن ایسے مت پیش آؤ کہ کسی کہ زندگی کا کھیلواڑ بن جائے۔

جب آپ کسی کو کچھ کہتے ہو اور وہ ایسا نہیں ہوتا، تو کبھی آپ نے یہ سوچا کہ اس پر کیا گذر رہی ہوگی۔ آپ کیوں سوچوگے ، آپ کو تو صرف مزے لینی ہے نہ، آپ کو خوشی مل ہی رہی ہے، چاہے دوسروں کی زندگیاں تباہ وبرباد ہوجائیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب ہی کہا تھا، کہ بچپنے میں جو مزہ ہے، وہ کبھی دوبارہ نہیں مل سکتی:

خوبصورت سا وہ پل تھا 
پر کیا کریں وہ کل تھا۔

افسوس ہوتا ہے کہ جاہل تو جاہل ، بہت پڑھے لکھے، اعلی گھرانے اور اونچے خاندان کے لوگوں کو بھی اس کام میں بڑی مزہ ملتی ہے ، جب کہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص کے بارے میں ہماری بات غلط بھی ہوسکتی ہے، پھر بھی ان کی فطرت میں الزام تراشیاں ایسی داخل ہوجاتی ہیں کہ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی تکذیب کر رہے ہیں یا اچھائی بیان کر رہے ہیں۔

بہر کیف ہر حال میں ہر غلط چیزوں اور غلط اعمال کے انجام دینے سے گریز کرنا چاہیے اور الزام تراشیوں وافترابازیوں سے دور رہنا چاہیے۔نیز کسی کی بھی زندگی زندگی ہوتی ہے، اس کی زندگیوں کا کھیل مت بناؤ ، ایسے سلیقہ سے رہو کہ لگے اشرف المخلوقات ہو، ایک دوسرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھو، کبھی کسی کے حوصلہ کے ساتھ مت کھیلو اور غیبت نیز ہر بری عادتوں سے پرہیز کرو۔ وما علینا الا البلاغ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے