روزےکی روح اور اسکی برکات



روزےکی روح اور اسکی برکات

روزےکی روح اور اسکی برکات


رمضان المبارک کی روح پرور ساعتوں میں خیروبرکت کا ایک خزینہ پنہا ہے اسکا ادراک انہیں لوگوں کو ہوسکتاہےجواسکےسراغ اور جستجومیں رہتےہیں، دن کو روزہ رکھتےہیں اور رات قیام میں گزارتے ہیں، رب کی طرف توجہ اور پوری رات گریہ وزاری سے آنسو کی جھڑی لگ جاتی ہے۔یہ ایک ایسی عبادت جو سرتاپاریاضت سے عبارت ہے ایک ماہ کی مسلسل مشق ہے۔اگر یہ بحسن وخوبی نقطئہ کمال تک پہنچ جائےتو اس سے ایک ایساجوہرکشیدہوتا ہےجوتمام اعمال وافعال کو مصفی ومزکی بنادیتاہے بندہ مومن صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی ورضامندی کا طالب ہوتا ہے سارے آستانو سے کٹ کرایک ہی آستانے کو اپنامرجع بنالیتا ہے ۔

روزے کی فرضیت کا مقصد 


قرآن مجید میں روزےکی فرضیت کا مقصود یہی جوہر بتایاگیا ہے فرمایا: (اےایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح کہ تم سے پچھلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ )البقرہ 183۔ یعنی صبر اور برداشت کی تربیت سے تمہاری قوت اور ارادہ مضبوط ہو اور تمام ترغیبات وتحریکات اور مشکلات و موانع کا مقابلہ کر کے تم شریعت کے حدود پر قائم رہ سکو
اللہ کا مہینہ 
اس مہینے کے فضائل و برکات بہت ہیں قرآن کریم نے اسکی فضیلت وبرتری کی وجہیں بیان کی ہیں۔ بطور مشتے نمونہ از خروارے پیش خدمت ہے، ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بابرکت مہینے میں قرآن نازل ہوا دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں ایک ایسی رات بھی ہے جو خیروبرکت میں ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ نے مسلمانوں پر روزے فرض کئے ۔انہیں فضائل کے بدولت اسے  ،شھراللہ،یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا گیاہے۔ اسکی فضیلت میں یہ بات کتنی اہم ہے کہ اس میں اللہ نے اپنی آخری کتاب کا نزول فرمایا جوسرچشمئہ ہدایت ہے
۔اگر یہ سر چشمہ نہ پھوٹتاتوکائنات اپنی تمام ترروشنی کے باوجود تاریک ہوتی،کفر والحاد میں لوگ بھٹک رہے ہوتے۔یہ نہ صرف ہدایت ہے بلکہ اس میں ہدایت اورحق وباطل کے مابین فرق کےدلائل بھی ہیں۔یہ نہ صرف صراط مستقیم پرگامزن کرتی ہے بلکہ عقل کی رہنما بھی ہے وہ عقل جو عیاری کے باعث سو بھیس بدلتی ہے،اسکی رہنما بھی یہی کتاب مبین ہے، عقل یقینا اللہ کی نعمت ہے لیکن عقل سے بڑی نعمت قرآن ہے اس لئے  کہ عقل کو بھی حقیقی رہنمائی قرآن ہی  سے میسر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ جس مہینے میں دنیا کو یہ نعمت ملی یہ اسکا حق تھا کہ اللہ کی کبریائی اور شکرگزاری کے لئے اسے خاص کردیا جائے۔

حقیقی روزہ


روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس اہم فرض کو پورےاحساس و شعور کے ساتھ ادا کرے،ہر لمحہ اور ہر رات اسکی پوری حفاظت کرے رسول اللہ نے فرمایا:(روزہ صرف کھانے پینے کو ترک کردینےکانام نہیں بلکہ لغو اور بےہودہ بات اور جنسی تعلق سے بھی باز رہنے کا نام ہے انسان کے لئے روزے میں صرف کھانا پینا ہی حرام نہیں ہوجاتا بلکہ لڑنا،جھگڑنا،جھوٹ بولنا،غیبت کرنااور غیرضروری باتوں میں حصہ لینا بھی روزے کےمقصد کے بالکل خلاف ہوجاتا ہے اسی طرح روزے میں  شہوانی خواہشات کے ساتھ ساتھ شہوانی میلانات کو شہ دینے والی چیزیں بھی ممنوع ہیں، روزہ خود بھی ان میلانات کو کمزور کرتاہےاور روزہ دار کو بھی ہدایت ہے کہ حتی الامکان وہ اپنے آپ کو ان تمام مواقع سے دور رکھے جہاں سے اسکے رجحانات کو غذا بہم پہنچ جانےکا امکان ہو رسول اللہ نے فرمایا :( جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنےاورجھوٹ پر عمل کرنےسے باز نہ رہاتواللہ کو اسکے بھو کے پیاسے رہنے کی کوئ حاجت نہیں)یعنی روزہ رکھوانے سے اللہ کا مقصد نیک بنانا ہے۔اگروہ نیک ہی نہ بنااور سچائ پر اس نے اپنی زندگی کی عمارت نہیں تعمیر کی،رمضان میں بھی ناحق اور باطل بات کہتا رہااور کرتارہااور رمضان کے باہر بھی اسکی زنگی میں سچائ نہیں دکھائی دیتی تو ایسے شخص کو سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیوں صبح سے شام تک کھانے پینے سے رکا رہا،اور اس حدیث کا مقصد  بھی یہی ہے کی روزہ دار روزہ رکھنے کے مقاصد اور اسکی اصل روح سے واقف ہوجائیں اور ہر وقت اس بات کو ذہن نشیں رکھیں کہ کیوں کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے۔کس حکم کی بنا پر کھانا سامنے موجود ہوتے ہوئے بھی نہیں کھاتا جبکہ اسے روکنے والا کوئی نہیں یہی ہے تقوی اور خشیت جو کہ روزہ کی اصل روح اور جان ہے۔

رمضان اور گناہوں کی بخشش 

ایمان اور اجروثواب کی امید کے ساتھ روزہ رکھا جائے اور قیام کیا جائے تواللہ کے یہاں اجروثواب کی قوی امید رکھی جاسکتی ہےحضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(جس شخص نے روزےرکھے ایمان اور اجر وثواب کی امید کے ساتھ تو اسکے وہ سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے،جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے اور جس شخص نےرمضان میں قیام کیاایمان اوراجر وثواب کی امید کے ساتھ تو اسکے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے  اور جس شخص نے لیلتہ القدر میں قیام کیا ایمان اور اجروثواب کی امید کے ساتھ تو اسکے وہ سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے جو اسنے پہلے کئے ہوں گے۔

دنیاوآخرت کی فلاح کا ذریعہ:


روزہ دنیوی فلاح کے ساتھ ساتھ اخروی فلاح و بہبود کا ذریعہ بھی، جہاں دنیا کی زندگی میں اس سے روحانی جسمانی اور طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں آخرت کی زندگی میں بندہ مومن فلاح وبخشش سے نوازا جائےگا۔
رسول اللہ نے فرمایا :( جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں ایک کا نام باب الریان ہے اس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے )
روزے کا ایک عظیم اجر یہ ہے کہ روزہ دار کو اللہ تعالی کی زیارت نصیب ہوگی رسول اللہ نے فرمایا کہدو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے افطار کے وقت ہوتی ہے اور ایک خوشی اسے اس وقت ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا ۔
 الغرض روزہ کو اگر مزکورہ اصول و آداب کے ساتھ رکھا جائے تو ہم یقینا اسکی روح اور فیوض وبرکات سے بہر مند ہوسکتے ہیں اور سعادت دارین حاصل کر پائیں گے۔ اخیر میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ آنے والے اس رمضان المبارک میں خوب خوب عبادت کی توفیق مرحمت فرمائے اور موجودہ پریشانیوں سے امت مسلمہ کو نجات بخشے۔آمین یارب العالمین۔


                مشفق شیروانی 
              متعلم مدرسۃ الاصلاح

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے