موتُ العالِم موت العالَم



موتُ العالِم موت العالَم

موتُ العالِم موت العالَم

عبید اللہ شمیم قاسمی العین ابو ظبی

کل سے کئی بڑی شخصیات کے انتقال کی خبریں موصول ہوئیں، کل حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب پالن پوری شیخ الحدیث فائن ٹچ دینیات کے انتقال کی خبر ملی، جو تقریبا 25 کتابوں کے مصنف تھے ان کی کتاب خطبات سلف 6 حصوں میں، شمائل ترمذی کی شرح، حسامی اور البلاغة الواضحة، دروس البلاغة کی شرح کافی مشہور ہوئی، لیکن سب سے زیادہ شہرت ان کی  کتاب "اسلاف کی طالب علمانہ زندگی" کو حاصل ہوئی، مدارس عربیہ کے اکثر طلبہ کے مطالعہ میں یہ کتاب ضرور رہتی تھی، آج مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا وسیم احمد سنسار پوری کا تقریبا 68 سال کی عمر میں انتقال ہوا، جو تقریبا 36 سال تک بخاری شریف جیسی اہم کتاب کا درس دیتے رہے ہیں، وہ اسلاف کی پاکیزہ روایات کے امین تھے، زبردست صلاحیت کے مالک تھے، انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، انہوں نے قدوری کی بھی شرح انوار القدوری کے نام سے لکھی جو 3/جلدوں میں چھپی ہے اور بر صغیر ہند وپاک میں بہت مقبول ہے، حضرت مولانا کی پیدائش 1952ء میں سنسار پور میں ہوئی، اور مظاہر علوم سہارن پور سے 1977ء میں فراغت حاصل کی تھی، شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمہ اللہ  اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمہ اللہ اور دیگر کبار اساتذہ سے علم حدیث  شریف کی اجازت تھی، فراغت کے بعد ہی گنگوہ کے مشہور مدرسہ اشرف العلوم میں تدریسی خدمت انجام دینی شروع کی اور تادم واپسیں اس کا سلسلہ جاری رہا، اللہ تعالی آپ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، اسی دوران تبلیغی جماعت کے ایک اہم ذمہ دار حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب دامت برکاتہم کی اہلیہ کے سانحہ ارتحال کی خبر بھی موصول ہوئی، ابھی چند روز قبل 9/ اپریل کو دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد رشید الحاج مولانا حکیم خلیل الرحمن صاحب قاسمی مقیم کرلا ویسٹ ممبئی کا بھی 90/ سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے،اللہ تعالی تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے، اسی دوران اعظم گڑھ کی ایک گمنام شخصیت ڈاکٹر محمد طیب کے انتقال کی خبر بھی آئی، جو اپنی مسلسل جد وجہد کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے، ریلوے سنگھرش سمیتی کے وہ صدر تھے اور کئی سال تک اعظم گڑھ میں ریلوے کی ترقی کے لیے دھرنا دیتے رہے، دیکھنے میں بالکل سیدھے سادے تھے، حکمت کے پیشے سے وابستہ تھے، اور بازاروں میں اپنی دوائیں خود ہی بیچتے اور اور پہنچاتے تھے، ان کا تعارف ریلوے سنگھرش سمیتی کے صدر کے حوالے سے ہوتا تھا، جب بتایا جاتا کہ ڈاکٹر طیب صاحب جو ریلوے کے لیے دھرنا دیتے ہیں تب ہر شخص ان کوئی جان جاتا،کبھی کبھی اخبار میں یہ خبر آتی کہ دھرنا کا 324 واں دن، کئی سال تک مسلسل دھرنا دیا اور انہیں بہت حد تک کامیابی بھی ملی، اللہ تعالی مغفرت فرمائے، موت کا وقت مقرر ہے اس میں تقدم وتاخر نہیں ہو سکتا، ارشاد باری تعالی ہے: (إن أجل الله إذا جاء لا يؤخر)، دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے (إذا جاء أجلهم  لا يستاخرون ساعة ولا يستقدمون) حدیث شریف میں فرمایا گیا: عَن عبد اللَّه بن عمر قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَقُول: (إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمِ انْتِزاعًا يَنْتَزِعُهُ مِن الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء حَتَّى إِذا لم يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا فَيُسْأَلُوا، فأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا).اللہ تعالی اس علم کو بالکل نہیں ختم کرے گا بلکہ علماء کی موت کے ذریعے علم دھیرے دھیرے اٹھتا جائے گا،  جس تیزی سے اللہ والے اور اہل علم اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بالکل صادق آرہی ہے کہ جب اہل علم رخصت ہو جائیں گے تو مسئلہ پوچھنے کے لیے جب اہل علم کو نہیں پائیں گے تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے جو بغیر علم کے فتوی دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ان تمام مرحومین کی مغفرت فرما کر اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور امت کو ان کا بدل نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان ومتوسلین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے