فشاں نوید صاحبہ کی مندرجہ ذیل تحریر جنگ لندن نے فیس بک سے لے کر  اپنے اخبار میں شائع کی۔
جنگ لندن کے ایڈیٹر نے افشاں نوید صاحبہ کو  میسیج بھیجا ہے کہ
"شکریہ اس تحریر نے آج جنگ لندن کی شان بڑھائی۔"
اللہ تعالیٰ افشاں نوید صاحبہ کے قلم کو مزید رواں کرے اور انکی صلاحیت کو جلا بخشے آمین🌹
آئیے تحریر پڑھتے ہیں👇

عقبہ بن نافع ؓ ہم آپ کو یاد کررہے ہیں۔
 یہ پہلی صدی ہجری ہے۔مسلمانوں کی خواہش ہے کہ کوفہ, بصرہ اور مدینے کی طرح کا کوئی شہر شمالی افریقہ میں بسایا جائے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے علاقے کا جائزہ لیا۔ پہاڑوں کے دامن میں ایک علاقہ نظر آیا جہاں پانی تھا, سبزہ تھا مگر شیر بھیڑیے اور درندے کثرت سے تھے۔لوگوں کی جان ضائع ہونے کا خطرہ تھا مگر شہر تو بسانا تھا۔
ایمان ویقین ہو تو ایسا۔ حضرت عقبہؓ کا وژن دیکھیں۔جنگلی جانوروں کو خط لکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں کب ایسا خط لکھا گیا ہوگا
      بسم اللہ الرحمن الرحیم 
سپہ سالار عقبہ بن نافع ؓکی طرف سے جو رسول اللہ کے حکم سے جہاد کرنے اور یہاں اللہ کا کلمہ بلند کرنے آیا ہے۔
 اے جنگل کے جانوروں اور درندوں؛ ہم اس علاقے میں مسلمان مجاہدین کا شہر بسانا چاہتے ہیں۔تم بھی اللہ کی مخلوق ہو اور ہم بھی اللہ کا حکم نافذ کرنے نکلے ہیں لہٰذا اللہ کے نام پر میری التجا ہے کہ تم سب درندے یہاں سے نکل جاؤ ۔

یہ خط لکھ کر عقبہؓ نے کہا یہ جاکر جنگل میں کسی درخت پر آویزاں کر دو ,ایسا کردیا گیا۔
 روایات ہیں کہ تین دن تک وہاں سے جانور نکلتے رہے ۔شیرنیوں سمیت کئی جانور دیکھے گئے کہ ان کے منہ میں ان کے بچے تھے اور وہ سب نکل نکل کر جنگل خالی کر رہے تھے۔تین دن میں جنگل خالی ہوگیا تو وہاں قروان شہر کی آبادی شروع کردی گئی۔ یہ شہر اسی علاقے میں پہلا اسلامی شہر تھا جس میں سو فیصد مسلم آبادی تھی بعدازاں یہ اس علاقے کا علمی مرکز قرار پایا۔

جب جنگلی بھیڑئیے اور شیر ایک سپہ سالار کے حکم سے جنگل چھوڑ سکتے ہیں,مجاھد کے آگے سرنگوں ہوسکتے ہیں۔شیرنیاں دانتوں میں بچے دبائے سر جھکائے نکل گئیں۔اور تاریخ نے دیکھا کہ وہ جنگل نہ صرف شہر بنا بلکہ اسلامی علوم وفنون کا مرکز قرار پایا۔

آج اگر کوئی مرد مومن,کوئی مجاھد,کوئی وقت کا سپہ سالار "کرونا" کو خط لکھے کہ۔۔

"اے کرونا ہمارا اور تیرا رب اللہ ہے۔تجھے اللہ نے اپنی مخلوق انسانوں کی طرف بھیجا ہے اس لیے کہ۔۔۔۔۔
 اللہ کی زمین ظلم سے بھر گئی تھی,"انکاریت"کلچر بن رہی تھی,الحاد کی تبلیغ  زوروں پر تھی,زمین کی طاقتیں خود کو کائنات کا خدا سمجھ بیٹھی تھیں۔انسان ترقی کی اس معراج کو پہنچ گیا تھا کہ خود کو ناقابل شکست سمجھتا تھا۔وہ خدا کی دی ہوئی عقل سے خدا کے منہ کو آگیا تھا,چیلنج کرتا تھا کہ وہ ناقابل  شکست ہے۔
مریخ پر کاشتکاری کرنے,چاند پر بستیاں بسانے,سمندر کی تہوں کو چیر کر ٹاور اور پلازے بنانے والا یہ انسان خود کو خدا کا نائب سمجھنے کے بجائے فرعون بن بیٹھا۔انسانی آبادیاں خاک وخون میں نہلا دیں,اتنے ہتھیار بنا لیے کہ ساری دنیا کو دس بار تباہ کر بیٹھے۔مخلوق پر ظلم وستم کی انتہا کردی گئی۔
تب اے کرونا,تو ہمیں ہماری"اوقات"بتانے کے لیے بھیجا گیا۔۔ہم رب کے آگے عہد کرتے ہیں کہ اب درہم ودینار کے بندے نہیں بنیں گے,اب وقت کے خداؤں کے آگے سر نہیں جھکائیں گے,اب اس حقیر دنیا کے لیے ایمان کا سودا نہیں کریں گے۔دنیا بھی جہاں بھی ہم مسلمان مہاجرت میں ہیں, اب ہم اسلام کے سپہ سالار بن جائیں گے۔ہم منافقت چھوڑ کر اپنی مومنانہ و مجاھدانہ زندگی سے خلق خدا کو دین کے قریب لائیں گے۔ہم مقصد زندگی بھلا بیٹھے تو کرونا تجھے ہم پر مسلط کردیا گیا۔
زندگی ہم سے روٹھ گئی۔۔ہم سے دنیا  اور ہماری عبادت گاہیں چھین لی گئیں,ہمارے شہر ویران ہیں,ہمارے مجمع منتشر,ہمارے قدم اکھڑ  گئے ہیں,سانسیں رک رہی ہیں, ھم گھروں میں قید ہیں جب کہ ساری مخلوق آزاد ۔یہ قید تنہائی اب برداشت نہیں ہوتی۔کرونا ہم تجھے حکم دیتے ہیں ہماری بستیوں سے نکل جا۔۔"

یقینا عقبہ بن نافعؓ جیسا سپہ سالار کرونا کو خط لکھتا تو وہ شیر,چیتوں اور گیڈروں کی طرح سر جھکائے ہماری آبادیوں سے نکل جاتا۔

افشاں نوید

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے