مطالعہ نظم ونسق(The study of Administration) قسط ۱

مختصر تعارف 

جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبہ عربی اور شعبہ سیاسیات میں بی اے اور ایم اے کے نصاب میں "نظم ونسق"(Administration) کے عنوان سے ایک کلاس ہوتا ہے، جو خود میں اہم خصوصیات کا حامل ہے اور موجودہ حالات میں ضرورت بھی؛ چوں کہ اب امتحانات قریب ہیں، تیاری بھی کرنی ضروری ہے؛ چناں چہ ارادہ ہوا کہ اس محاضرہ کی تیاری کرتے ہوئے اسے خلاصة تحریر کر کے قسط وار شائع بھی کیا جائے، تاکہ دیگر ان افراد کو بھی اس کی افادیت ہو، جو اس عنوان سے خاصا لگاؤ رکھتے ہیں؛ لہذا پیش خدمت ہے۔ آپ تمام سے خصوصی درخواست ہے کہ اس تعلق سے مزید رہنمائی فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
وقار احد (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)

مطالعہ نظم ونسق The study of Administration

نظم ونسق (Administration):

در حقیقت نظم ونسق کی اصطلاح' ایک عالمگیر اصطلاح ہے، نظم ونسق کسی ایک فرد واحد کا کام نہیں؛ بلکہ یہ ایک "اجتماعی عمل" ہے، جو مختلف سطحوں پر انجام پاتا ہے؛ چناں چہ نظم ونسق کو "انسان کی منصوبہ بند سرگرمی" بھی کہا جاسکتا ہے۔

نظم ونسق کی تعریف (Definition of Administration):

(1) John.A.Vieg 
کے الفاظ میں نظم ونسق "باشعور مقصد کے لیے لیا جانے والا متعینہ اقدام ہے"۔ 
(2) L.D.White
نے نظم ونسق کو "کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی افراد کی ہم آہنگی، نگرانی اور رہنمائی" قرار دیا ہے۔ 
(3) J.S.Hodgson 
کے الفاظ میں نظم ونسق ایک قسم کی سرگرمی ہے، جو عوامی اور تجارتی امور دونوں میں پائی جاتی ہے۔
ان تمام تعریفات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نظم ونسق کے لیے مشترکہ مقصد اور اجتماعی جستجو ضروری ہے؛ لیکن جہاں تک "عوامی" (Public) کا تعلق ہے، اس کے معنوں کو متعین کرنا مشکل ہے۔ عام طور پر ہم اس سے مراد سرکاری وحکومتی لیتے ہیں؛ لیکن Goloblization اور liberalization کے اس دور میں آج "سرکاری" و "غیرسرکاری"؛ دونوں نظم ونسق ساتھ ساتھ چلتے ہیں؛ البتہ سرکاری نظم ونسق عامہ کو ہی مقبولیت اور قانونی جواز حاصل ہے۔

نظم ونسق عامہ(Definition of Public Administration):

(1) نظم ونسق عامہ عوامی قانون کا تفصیلی وباضابطہ نفاذ ہے۔
(Woodrow Wilson)
(2) نظم ونسق عامہ مملکت کے امور میں اطلاق کیے جانے والے انتظام کا فن اور سائنس ہے۔
(Dwight Waldo)
(3) نظم ونسق عامہ حکومت کے کام کی تکمیل پر مشتمل ہے، جسے ہم آہنگی کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے؛ یہ ہزاروں کام کرنے والوں کا انتظام، رہنمائی اور نگرانی کی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتا ہے، تاکہ ان کی کوششوں سے کسی حکم یا کارکردگی کو نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔
(J.M. Pfiffner)
ان تمام تعریفات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ نظم ونسق عامہ کسی مقصد سے جڑی تمام سرگرمیوں کا مجموعہ ہے اور یہ سرگرمیاں آپسی تعلق وباہمی تعاون کے ذریعہ آگے بڑھتی ہیں، حالاں کہ ماہرین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ نظم ونسق عامہ صرف حکومت کی عاملہ شاخ کی سرگرمیاں ہیں، یا مجموعی طور پر پوری حکومت(مقننہ، عاملہ اور عدلیہ) کی سرگرمیاں ہیں۔ حکومت کی ان تینوں شاخوں کا مطالعہ مضمون کو گنجلک بنا دیتا ہے۔

نظم ونسق کی وسعت (Capability of Administration):

بعض ماہرین "نظم ونسق عامہ" کو صرف انتظامیہ (Management) سمجھتے ہوئے منصوبہ بندی (بشمول تحقیق وپیش قیاسی)، تنظیم، کمان (Command)، ہم آہنگی اور نگرانی (Control) کو اس کے اجزاء مانتے ہیں؛ چناں چہ Henry Fayol کے مطابق یہ نہ صرف نظم ونسق کے اہم اجزاء ہیں؛ بلکہ پورا نظم ونسق اسی نہج پر کام کرتا ہے اور یہ سب ایک دوسرے سے مربوط اجزاء ہیں۔ نظم ونسق عامہ کی وسعت کو مختلف طرح سے دیکھا جسکتا ہے: (1) بحیثیت سرگرم (As an Activity)۔ (2) بحیثیت مضمون مطالعہ (As a Subject of Study)۔ (3) مربوط نکتہ نظر (Integrative View)۔ (4) انتظامی نکتہ نظر (Manageril View )۔ (5) وسیع اور تنگ نکتہ نظر (Broader and Narrow view)۔

نظم ونسق عامہ کی نوعیت (Nature of Public Administration):

نظم ونسق عامہ کی نوعیت اس کی خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے، آج نظم ونسق عامہ ایک وسیع انتظامی تنظیم کی شکل میں ابھرا ہے، جسے دفتر/ نوکر شاہی (بیورویسی) کہتے ہیں۔ یہی وہ سماج ہے، جو حکومت کا پورا بوجھ اٹھاتا ہے اور روزہ مرہ انسانی زندگی کو چلاتا ہے؛ اس لیے نظم ونسق عامہ کی بیوروکریسی سے نشاندہی کی جاتی ہے؛ چوں کہ انسانی زندگی کے کئی شعبوں پر نظم ونسق عامہ کی اجارہ داری ہے۔ 
نظم ونسق عامہ میں جہاں منفعت کا پہلو نہیں ہوتا، وہیں بغیر کسی دیری کے خدمات کی فراہمی بھی اہمیت رکھتی ہے؛ چناں چہ حکومتی مشنری کی مستعدی وفرض شناس کارکردگی کے بغیر انسانی زندگی المناک حادثات کا شکار ہو جائےگی؛ بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تہذیب کا شیرازہ ہی بکھر جائے گا۔ نظم ونسق عامہ کی دوسری خصوصیت عوامی جواب دہی ہے اور یہی بات نظم ونسق عامہ کو خانگی نظم ونسق سے ممتاز کرتی ہے؛ چناں چہ ہر جمہوری ومہذب سماج میں حکمرانی کو جواب دہ بنانے پر زور دیا جاتا ہے اور اسے عوامی عہدے داروں کو عوام کے سامنے جواب دہ وذمہ دار بنا کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

نظم ونسق، تنظیم اور انتظامیہ میں فرق (Difference between Administration, Organization and Management :

بنیادی طور پر ان میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ William Schulze نے ان تینوں کے درمیان فرق کی وضاحت اس طرح کی ہے: "نظم ونسق وہ قوت ہے، جو مقاصد کا تعین کرتی ہے، جن کو حاصل کرنے کے لیے ایک تنظیم اور اس کا انتظامیہ جستجو کرتے ہیں۔ 'تنظیم' انسانوں، ساز وسامان، اوزار اور کام کی جگہ پر مشتمل ہوتی ہے، جنہیں من چاہے حصولِ مقاصد کے لیے یکجا کیا جاتا ہے، جس کے لیے 'انتظامیہ' رہنمائی کرنے والی ایجنسی ہوتی ہے"۔

نظم ونسق عامہ کا نمو (Growth of Public Administration):

دوسرے سماجی علوم کے مقابلے میں نظم ونسق عامہ نسبتا ایک نیا علم ہے، جو گذشتہ ایک صدی کے دوران نمو پایا ہے۔ اس نمو کو ہم حسب ذیل ادوار میں تقسیم کرتے ہیں:
دور اول: 1887ء تا 1926ء - سیاست اور نظم ونسق میں تفریق:
نظم ونسق عامہ کا آغاز 1887ء میں اس مضمون کے بانی اور سابق امریکی صدر "وڈرو ولسن" سے ہوا، جس نے پہلی مرتبہ "نظم ونسق" اور "سیاست" میں تفریق کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایک دستور چلانا؛ اس کو مرتب کرنے سے زیادہ دشوار ہوتا جارہا ہے"۔ اس کے بعد 1900ء میں Frank J. Goodnow نے اپنی تصنیف Politics and Administration لکھ کر Wilson کے نکتہ نظر کو آگے بڑھایا اور کہا کہ "سیاست کا تعلق پالیسیوں یا مملکت کی مرضی کے اظہار سے ہے، جب کہ نظم ونسق کا تعلق ان پالیسیوں کے نفاذ سے ہے"۔
دور ثانی: 1927ء تا 1937ء - نظم ونسق کے اصولوں کی تدوین:
ماہرین اس دور میں نظم ونسق کے اصولوں کو تیار کرنے میں لگ گئے؛ چناں چہ 1927ء میں W. F. Willoughby کی کتاب "نظم ونسق عامہ کے اصول" منظر عام پر آئی۔ علاوہ ازیں دیگر کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں۔
دور ثالث: 1938ء تا 1947ء - چیلینجس:
"عاملہ کے فرائض" کے عنوان سے 1938ء میں ایک کتاب لکھی گئی، پھر 1947ء میں Syman نے "انتظامیہ رویہ" (Administrative Behaviour) کے عنوان سے لکھی گئی اپنی کتاب میں نظم ونسق کے مضمون کو مدلل طور پر پیش کیا، جس میں اس نے یہ دلیل دی کہ نظم ونسق عامہ کے "اصول" نام کی کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ جنہیں اصول کہا جاتا ہے، وہ دراصل نظم ونسق کے "محاورے" ہیں۔ اس کے مطابق نظم ونسق کے اصولوں کے مقابلے میں رویہ جاتی مطالعہ اور فیصلہ سازی پر توجہ دینی چاہیے اور فیصلہ سازی ہی نظم ونسق کا دل ہے۔
دور رابع: 1948ء تا 1970ء - شناخت کا بحران:
اس دور میں نظم ونسق عامہ کو ایک مضمون کے طور پر قبول کرنے میں پس وپیش پیدا ہوگیا؛ چوں کہ اس کے اصولوں کے متعلق کوئی اتفاق رائے نہیں تھی۔ سیاست اور نظم ونسق عامہ کے درمیان کی تفریق کو ختم کردیا گیا۔ نتیجتا اس مضمون کے ماہرین اپنے بنیادی مضمون "علم سیاسیات" میں دوبارہ لوٹنے لگے، تو بعض نے انتظامی سائنس کی طرف رخ کرلیا؛ اس طرح یہ دور نظم ونسق عامہ کے لیے بے یقینی اور بحرانی کا دور تھا۔
دور پنجم: 1971ء کے بعد، جاری - عوامی پالیسی کے تناظر کا دور:
1970 کے دہے کی ابتداء سے نظم ونسق عامہ پر سے مایوسی کے بادل ہٹنے لگے اور اسے ایک مربوط علم کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ دنیا کے مختلف جامعات میں نظم ونسق عامہ کو ایک علم کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا، تو اس کے مطالعہ میں بھی اضافہ ہوا، بالخصوص نظم ونسق عامہ اور علم سیاسیات، نظم ونسق عامہ اور معاشیات و قانون وغیرہ کا مطالعہ زوروں پر کیا جانے لگا؛ اس طرح نظم ونسق اور سیاسیات کے درمیان علاحدگی اور تفریق کے مقابلے میں دونوں مضامین کے درمیان اتحاد پر توجہ دی جانے لگی۔

ہندوستان میں نظم ونسق عامہ کا مطالعہ:

ہندوستان میں نظم ونسق عامہ کا مطالعہ باضابطہ طور پر پہلی بار لکھنئو یونی ورسٹی نے 1930ء کے دہے میں ایم-اے (علم سیاسیات) کے نصاب میں ایک علاحدہ مضمون کے طور پر شروع کیا۔ 1937ء میں مدراس یونی ورسٹی نے "نظم ونسق عامہ" میں "Diploma" نصاب شروع کرتے ہوئے اس کو علاحدہ مضمون کا موقف دیا۔ 1949-50ء میں ناگپور یونی ورسٹی میں نظم ونسق عامہ اور حکومت مقامی خود اختیاری کے نام سے پہلی بار ایک آزاد شعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس شعبہ کے سربراہ پروفیسر M. P. Sharma تھے۔ 1954ء میں نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (IIPA) کا قیام Paul. H. Appleby Report کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا؛ اب یہ ادارہ ہندوستان میں انتظامی تحقیق کا ایک اہم مرکز ہے۔ 1987ء میں نظم ونسق عامہ کو UPSC نے مسابقتی امتحانات کے لیے ایک علاحدہ مضمون کی حیثیت دی اور آج ہندوستان کی تقریبا 70 جامعات میں اس کا علاحدہ شعبہ قائم ہے، جن میں تقریبا 50 میں Ph. D سطح کی تعلیم بھی ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے