عیدین کے بعد مصافحہ کا تفصیلی فتوی


عیدین کے بعد مصافحہ کا تفصیلی فتوی

الجواب وباللّٰہ التوفیق!

عید کی نماز کے بعد مصافحہ سے متعلق تفصیلی بات دلائل کے ساتھ ضروری معلوم ہوتی ہے، اس مسئلہ میں احقر نے بعض بڑوں اور بعض اہل فتاوی کی تحریروں کو دیکھ کر نمازوں کے بعد کے مصافحہ کو کہیں مکروہ اور کہیں بدعت لکھاہے، اسی طرح عید کی نمازوں کے بعد کے مصافحہ کو بھی مطلقاً مکروہ لکھ دیا اور اردو کے فتاوی کے حوالہ کو بھی پیش کردیا اور شامی کا حسب ذیل جزئیہ بھی دلیل کے طور پر لکھدیا۔
ونقل في تبیین المحارم عن الملتقط: أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلوۃ بکل حالٍ؛ لأن الصحابۃ رضي اﷲ عنہم ماصافحوا بعد أداء الصلوۃ؛ ولأنہا من سنن الروافض، ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ أنہا بدعۃ مکروہۃ لا أصل لہا في الشرع، وإنہ ینبہ فاعلہا أولا ویعزر ثانیاً، ثم قال وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: إنہا من البدع، وموضع المصافحۃ في الشرع إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ، لا في أدبار الصلوات، فحیث وضعہا الشرع یضعہا فینہی عن ذلک، ویزجر فاعلہ لما أتی بہ من خلاف السنۃ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، کراچي ۶/۳۸۱، زکریا دیوبند ۹/۵۴۷)
مگر اس موضوع سے متعلق مختلف کتب فقہ، کتب حدیث کی مراجعت اور شیعوں اورروافض کے عمل اور محل مصافحہ کو دیکھنے کے بعد ضرورت محسوس ہوئی کہ اس مسئلہ سے متعلق ہرگوشہ کو پیش نظر رکھ کر مسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ جو مسئلہ اب لکھا جارہا ہے احقر نے جتنے بھی فتاوی اس موضوع سے متعلق اس سے قبل لکھے ہیں ، ان میں سے جو بھی فتوی اس تحریر کے خلاف ہوگا اس کے بارے میں یہ سمجھا جائے کہ یہی تحریر صحیح ہے اوراس کے خلاف دیئے گئے فتووں سے اس تحریرکے ذریعہ رجوع کیاجارہا ہے؛ لہٰذا مختلف کتابوں کی مراجعت کے بعد جو کچھ بھی اس نا اہل نے سمجھا ہے وہ پیش کیا جار ہا ہے۔
(۱) نماز کا سلام پھیرتے ہی فوراً دائیں بائیں جانب کے لوگوں سے بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کیاجائے، جیسا کہ حرمین شریفین میں ایران سے آئے ہوئے شیعہ و رافضی اور اسی طرح انڈونیشیا اور ملیشیا سے آئے ہوئے بعض لوگ اس طرح سلام کے معاً بعد مصافحہ کرتے ہوئے کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آتے ہیں ، یہی شیعوں اور رافضیوں کا شعارہے اور اسی کو علماء نے من سنن الروافض کہہ کر بدعت

اورمکروہ قرار دیاہے، جیسا کہ شامی کی مذکورہ عبارت میں موجود ہے؛ لہٰذا شیعوں اور رافضیوں کا شعار صرف یہی ایک شکل قرار دی جاسکتی ہے، دیگر شکلوں کو ان کا شعار نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
وذکر أن منہم من کرہہا؛ لأنہا من سنن الروافض۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۳۷/۳۶۳)
(۲) چند افراد نماز کے لئے مسجد جارہے ہوں اور انہوں نے آپس میں ملاقات کے وقت مصافحہ نہیں کیا اور اسی طرح گفتگو کرتے ہوئے مسجد پہونچ جائیں ، پھر نماز سے فراغت کے بعد آپس میں مصافحہ کرنے لگیں ، تو اس کو بھی علماء نے مکروہ اور بدعت مذمومہ قرار دیاہے؛ اس لئے کہ اس صورت میں یہ بات لازم آتی ہے کہ ان لوگوں نے نمازوں کے بعد ہی مصافحہ کو لازم اورمسنون سمجھا ہے؛ اس لئے علماء نے اس طرح کے مصافحہ کو مکروہ اور بدعت قرار دیاہے۔
جو ذیل کی عبارات سے واضح ہوتا ہے۔
وقد یکون جماعۃ یتلاقون من غیر مصافحۃ ویتصاحبون بالکلام ومذاکرۃ العلم وغیرہ مدۃ مدیدۃ، ثم إذا صلوا یتصافحون، فأین ہذا من السنۃ المشروعۃ ولذا صرح بعض علمائنا بأنہا مکروہۃ حینئذٍ وأنہا من البدع المذمومۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب المصافحۃ والمعانقۃ، مکتبہ امدادیہ ملتان ۹/۷۴)
عون المعبود، باب المصافحۃ، دارالکتاب العربي۴/۵۲۱، رقم:۵۲۱۱۔
حاشیۃ سنن أبيداؤد ہندي۲/۷۰۸۔
(۳) نمازوں کے سلام کے بعد متصلاً بیٹھے بیٹھے دائیں بائیں کے لوگوں سے مصافحہ نہیں کیاجاتاہے اور نہ ہی نمازوں کے بعد اسے مسنون سمجھاجاتا ہے ، اسی طرح نماز سے قبل ملاقات پر مصافحہ نہیں ہوا اور گفتگو کرتے ہوئے مسجد پہنچ کر نماز ادا کرنے کے بعد مصافحہ نہیں ہوا اور نہ ہی نمازوں کے بعد مصافحہ کی مواظبت اور پابندی کا اہتمام ہے؛ بلکہ کبھی کبھار نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کا اہتمام ہے جیسا کہ ہماری مغربی یوپی کی عام مساجد کا یہی حال ہے، تو ایسی صورت میں کبھی کبھار کسی سے محبت میں مصافحہ کرلیاجائے یا کسی سے چند دنوں کے بعد ملاقات ہوئی ہے، اس سے نماز کے بعد مصافحہ کرلیاجائے، چاہے عصر یا فجر کی نماز کے بعد ہی کیوں نہ ہو، تو اس طرح کا مصافحہ شرعاً مسنون اور مستحب ہے۔ صاحب درمختار نے اپنی عبارت کے ذریعہ سے اسی شکل کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
درمختار کی عبارت ملاحظہ ہو۔
تجوز المصافحۃ؛ لأنہا سنۃ قدیمۃ متواترۃ، بقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: من صافح أخاہ المسلم وحرک یدہ…تناثرت ذنوبہ، وإطلاق المصنف تبعاً للدرر والکنز والوقایۃ والنقایۃ والمجمع والملتقی وغیرہا یفید جوازہا مطلقاً ولو بعد العصر۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الإستبراء وغیرہ، کراچي۶/۳۸۱، زکریا ۹/۵۴۷)
اور یہ حکم مرقاۃ کی اس عبارت سے بھی مستفاد ہوتا ہے۔
نعم لو دخل أحد في المسجد والناس في الصلاۃ، أو علی إرادۃ الشروع فیہا، فبعد الفراغ لو صافحہم؛ لکن بشرط سبق الکلام علی المصافحۃ، فہذا من جملۃ المصافحۃ المسنونۃ بلاشبہۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الأدب، باب المصافحۃ والمعانقۃ، مکتبہ امدادیہ ملتان ۹/۷۴)
اور بلامواظبت نماز عصر کے بعد بھی مصافحہ کا ثبوت اس حدیث شریف سے ہوتا ہے۔
حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
عن الحکم قال سمعت أباجحیفۃ قال: خرج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالہاجرۃ إلی البطحاء، فتوضأ، ثم صلی الظہر رکعتین والعصر رکعتین، وبین یدیہ عنزۃ، قال شعبۃ: وزاد فیہ عون عن أبیہ عن أبي جحیفۃ قال: کان تمر من ورائہا المرأۃ وقام الناس فجعلوا یأخذون یدیہ فیمسحون بہما وجوہہم، قال: فأخذت بیدہ فوضعتہا علی وجہي، فإذا ہی أبرد من الثلج، وأطیب رائحۃ من المسک۔ (صحیح البخاري، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، النسخۃ الہندیۃ ۱/۵۰۲، رقم:۳۴۲۸، ف:۳۵۵۳)
مسند أحمد بن حنبل ۴/۳۰۹، رقم:۱۸۹۷۴۔
المعجم الکبیر للطبراني، دارإحیاء التراث العربي ۲۲/۱۱۵، رقم:۲۹۴۔
(۴) عیدین کی نماز کے بعد مصافحہ کے بارے میں غور کرنا ہے؛ چنانچہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات ہوجائے اور اس میں سلام و مصافحہ نہ ہو پھر عید کی نمازکے بعد وہی لوگ جو ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے آتے ہیں آپس میں مصافحہ کرنے لگیں تو یہ محض رسمی مصافحہ ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

وقدیکون جماعۃ…إلی… من البدع المذمومۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح ملتان ۹/۷۴، عون المعبود ۴/۵۲۱، حاشیۃ أبوداؤد ۲/۷۰۸)
لیکن اگر عید کو جاتے وقت راستہ میں ملاقات پر سلام مصافحہ ہوچکا ہے، پھر عید کی نماز کے بعد عید کی مبارک باد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مصافحہ بھی ہوجائے تو یہ شکل نمازکے بعد کی خصوصیت اور اہتمام کے دائرہ میں شامل نہ ہوگی؛ بلکہ ہر ملاقات پر مصافحہ کے حکم میں شامل ہوگی ؛ اس لئے کہ نماز سے پہلے کی ملاقات میں بھی مصافحہ ہواہے اور بعد کی ملاقات میں بھی مصافحہ ہوا ہے؛ لہٰذا اس کو بدعت یا مکروہ کہنا درست نہیں اور در مختار کی ذیل کی عبارت کے حکم میں شامل ہوجائے گا۔
عبارت ملاحظہ فرمائیے:
تجوز المصافحۃ؛ لأنہا سنۃ قدیمۃ متواترۃ لقولہ علیہ السلام من صافح أخاہ المسلم وحرک یدہ تناثرت ذنوبہ ۔ (در مختار مع الرد، کتاب الحظروالإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ کراچي ۶/۳۸۱، زکریا ۹/۵۴۷)
عید کی مبارک بادپیش کرنے کا جواز ذیل کی احادیث اور جزئیات سے ہوتا ہے۔
احادیث شریفہ ملاحظہ فرمائیں :
حدثني حبیب بن عمر الأنصاري، أخبرني أبي قال: لقیت واثلۃ یوم عید فقلت: تقبل اﷲ منا و منک فقال: نعم! تقبل اﷲ منا و منک ۔ (المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/۵۲، رقم:۱۲۳)
عن خالد بن معدان قال: لقیت واثلۃ بن الأسقع في یوم عید، فقلت: تقبل اﷲ منک، فقال: نعم! تقبل اﷲ منا و منک ، قال واثلۃ: لقیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یوم عید فقلت: تقبل اﷲ منا و منک، قال: نعم! تقبل اﷲ منا و منک ۔ (السنن الکبري للبیہقي، باب ماروي في قول الناس یوم العید بعضہم لبعض: تقبل اﷲ منا و منک ۵/۱۱۱، رقم: ۶۳۸۷، دارالفکر بیروت، کتاب صلاۃ العیدین)
عن أدہم مولیٰ عمر بن عبد العزیزؓ، قال: کنا نقول لعمر بن عبد العزیز في العیدین: تقبل اﷲ مناومنک یاأمیر المؤمنین، فیرد علینا ولاینکر ذلک علینا۔ (شعب الإیمان للبیہقي، باب في الصیام، في لیلۃ العیدین، ویومہا ۳/۳۴۵، رقم:۳۷۲۰)
المعجم الکبیر للطبراني، ۲۲/۵۳، رقم:۱۲۳۔
السنن الکبری للبیہقي، کتاب صلاۃ العیدین، باب ماروي في قول الناس یوم العیدین بعضہم لبعض: تقبل اﷲ منا و منک ، جدید ۵/۱۱۱، رقم:۶۳۸۹، دارالفکر بیروت۔
اور شامی وغیرہ میں اس حکم کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:
والمتعامل في البلاد الشامیۃ، والمصریۃ عید مبارک علیک ونحوہ، وقال: یمکن أن یلحق بذلک في المشروعیۃ والاستحباب لما بینہما من التلازم، فإن من قبلت طاعتہ في زمان کان ذلک الزمان علیہ مبارکاً علی أنہ قدورد الدعاء بالبرکۃ في أمور شتی فیؤخذ منہ استحباب الدعاء بہا ہنا أیضاً۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب العیدین مطلب یطلق المستحب علی السنۃ و بالعکس، زکریا ۳/۵۰، کراچي ۲/۱۶۹)
ومثلہ في حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب أحکام العیدین، دارالکتاب دیوبند ۵۳۰۔
حلبيکبیر، صلاۃ العید، فروع خروج إلی المصلی، مطبع لاہور ۵۷۳، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱۴/۹۹۔
(۵) عید کی نماز کے بعد لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا؛ جبکہ اس میں کسی کی کسی سے مہینہ بھر کے بعد ملاقات ہورہی ہے، کسی کی ہفتوں اور کسی کی ایک دو دن کے بعد ملاقات ہورہی ہے، تو ایسی صورت میں عید کی نماز اور خطبہ کے بعد واپسی کے موقعہ پر ایک دوسرے سے ملاقات پر مصافحہ کرنا نہ صرف جائز اور درست ہے؛ بلکہ ایک دوسرے سے فرط محبت میں اس موقعہ پر مصافحہ کرنا باعث اجرو ثواب اور گناہوں کے جھڑنے اور معاف ہونے کا سبب بنے گا۔
عن أنسؓ قال: کان أصحاب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم إذا تلاقوا تصافحوا۔ الحدیث (المعجم الأوسط، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱/۴۱، رقم: ۹۷)
عن أیوب بن بشیر عن رجل من عنزۃ أنہ قال: قلت لأبيذر…ہل کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یصافحکم إذا لقیمتموہٗ؟ قال: ما لقیتہ قط إلا صافحني۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب في المعانقۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۷۰۸، دارالسلام رقم:۵۲۱۴)
مسند أحمد بن حنبل ۵/۱۶۳، رقم:۲۱۷۷۴، ۲۱۷۷۵۔

عن حذیفۃ بن الیمانؓ عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم علیہ، وأخذ بیدہ، فصافحہ، تناثرت خطایاہما کما یتناثر ورق الشجر۔ (المعجم الأوسط للطبراني، دارالفکر بیروت ۱/۸۵، رقم:۲۴۵)
عن البراء قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، مامن مسلمین یلتقیان، فیتصافحان إلاغفر لہما قبل أن یفترقا۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب في المصافحۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۷۰۸، دارالسلام رقم: ۵۲۱۲)
جامع الترمذي، کتاب الإستئذان، باب ماجاء في المصافحۃ، النسخۃ الہندیۃ۲/۱۰۲، دارالسلام رقم:۲۷۲۷۔
(۶) عید کی نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کرنا، یہاں یہ بات واضح رہے کہ امام صاحب سے کسی شخص کی ملاقات سال بھر کے بعد کسی کی مہینہ، کسی کی ہفتہ اور کسی کی چند دنوں کے بعد ہوتی ہے، اب اگر محض امام صاحب سے محبت اور امام صاحب کے مصافحہ سے برکت حاصل کرنے کے ارادہ سے عید کی نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کریں تو اس میں کوئی قباحت اور کراہت نہیں ہے؛ بلکہ بلاکراہت و بلاشبہ جائز ہے اور یہ مصافحہ اول ملاقات پر مصافحہ کے حکم میں ہے؛ اس لئے امام صاحب سے عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ہر حال میں بلاکراہت جائز ہے۔
عن الحکم قال: سمعت أباجحیفۃ قال:خرج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالہاجرۃ إلی البطحاء فتوضأ، ثم صلی الظہر رکعتین، والعصر رکعتین، وبین یدیہ عنزۃ، قال شعبۃ: وزاد فیہ عون عن أبیہ عن أبي جحیفۃ قال: کان تمر من ورائہا المرأۃ، وقام الناس فجعلوا یأخذون یدیہ فیمسحون بہما وجوہہم، قال: فأخذت بیدہ فوضعتہا علی وجہي، فإذا ہي أبرد من الثلج، وأطیب رائحۃ من المسک۔ (صحیح البخاري، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، النسخۃ الہندیۃ ۱/۵۰۲، رقم:۳۴۲۸، ف:۳۵۵۳)
مسند أحمد بن حنبل ۴/۳۰۹، رقم:۱۸۹۷۴۔
المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۱۱۵، رقم:۲۹۴۔

عن البراء بن عازبؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إذا التقی المسلمان، فتصافحا وحمدا اﷲ واستغفراہ غفرلہما۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب في المصافحۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۷۰۸، دارالسلام رقم:۵۲۱۱)
عن أنسؓ أن أصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کان یصافح بعضہم بعضاً۔ (سنن الترمذي، کتاب الاستئذان والأدب، النسخۃ الہندیۃ ۲/۱۰۳، دارالسلام رقم:۲۷۲۹)
مصنف لابن أبي شیبۃ، مؤسسۃ علوم القرآن جدید ۱۳/۱۸۵، رقم:۲۶۲۳۳۔
صحیح البخاري، کتاب الاستئذان، باب في المصافحۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۹۲۶، رقم:۶۰۲۲، ف:۶۲۶۳۔
عن أنسؓ قال: کان أصحاب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم إذا تلاقوا تصافحوا۔ الحدیث (المعجم الأوسط للطبراني، دارالفکر بیروت ۱/۴۱، رقم:۹۲)
ومثلہ في شرح معاني الأثار، کتاب الکراہۃ، باب المعانقۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/۹۲، رقم:۶۷۶۶۔
مصنف لابن أبي شیبۃ، مؤسسۃ علوم القرآن جدید تحقیق شیخ محمد عوامہ ۱۳/۱۸۵، رقم: ۲۶۲۳۴۔ فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۱۷؍ ذی قعدہ ۱۴۳۵ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے