خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: 29 پارہ 29 تراویح


خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: 29 پارہ 29 تراویح

مصنف: مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمۃاللہ علیہ
پارہ 29
سورة الملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ ملک مکی ہے، اس میں 30آیات اور 2رکوع ہیں، اس سورت کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہیں جن سے ایک حدیث وہ ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالےسے ابن ماجہ ، نسائی ، ابو داود اور ترمذی میں منتقل ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ" قرآن کریم میں تیس آیات ہیں جو اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرتی ہیں ۔ چنانچہ اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
اسے مانعه اور منجیہ بھی کہا گیا ہے لیکن عذاب قبر سے بچانے والی، اس لیے اکثر مشائخ کا معمول رہا ہے کہ وہ اسے نماز عشاء کے بعد بڑے اہتمام سے پڑھتے ہیں ۔
سورۂ ملک میں بنیادی طور پر تین مضامین بیان ہوئے ہیں
(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارض و سماء پر حقیقی بادشاہت صرف اللہ کی ہے، اس کے ہاتھ میں موت و حیات ، عزت وذلت فقر و غنی اورمنع و عطا کا نظام ہے، وہ علیم وخبیر ہے ، ذرے ذرے کا اسے علم ہے، زمین میں چلنے پھرنے کے لیے اس نے راستے بنائے ہیں ، فضاؤں میں اڑتے ہوئے پرندوں کو وہی روکے ہوئے ہے، ہر کسی کو روزی وہی دیتا ہے۔ اس سورت کی مختلف آیات (1۔2۔13۔14۔15۔19۔21) میں یہ مضمون بیان ہوا ہے۔
(2)۔۔۔۔۔۔۔۔رب العالمین کے وجود اور وحدانیت پر تکوینی دلائل ہیں ۔ آسمان کی چھت ، اس میں ستاروں کی قندیلیں ، زمین کا فرش اور پانی کے بہتے ہوئے چشمے ایک حکیم وخبیر ذات کے وجودکی خبر دے رہے ہیں ۔ (3۔5)
(3)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قیامت کو جھٹلانے والوں کا انجام یعنی وہ دوزخ جوجوش مار رہی ہوگی ، یوں لگے گا کہ غصےکے مارے پھت ہی جائے گی (7۔8)
 جب اس عذاب کو قریب سے دیکھیں گے تو ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ :" یہی ہے جسے تم طلب کیا کرتے تھے ۔‘‘ (27)
سورة القلم :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ قلم مکی ہے، اس میں 52آیات اور2 رکوع ہیں، چونکہ اس کی ابتداءمیں اللہ
نے قلم کی قسم کھائی ہے اس لیے اسے ”سورہ قلم‘‘ کہا جاتا ہے، قلم کی عظمت اور اس کے عظیم نعمت ہونے کو ظاہر کرتی ہے، حدیث میں بھی قلم کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھا۔ اسے پیدا کرنے کے بعد فرمایا: ”لکھو!اس نے پوچھا کیا لکھوں؟ فرمایا تقدیر لکھوچنانچہ اس دن سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا وہ قلم نے لکھ دیا ، پھر اللہ نے نون یعنی دوات کو پیدا فرمایا، یہ قلم ہی ہے جس نے اسلاف کے علوم ہماری طرف منتقل کیے ہیں اور پوری دنیا میں معلومات کی اشاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرآن نے قلم اور تعلیم و تعلم کی اہمیت اس ماحول میں بیان کی جو ماحول قلم اور کتاب سے بیگانگی اور دوری کا ماحول تھا لیکن چونکہ قرآن اللہ تعالی کی آخری آسمانی کتاب ہے اور اسے نازل کرنے والا جانتا تھا کہ آنے والا دور قلم علم معلومات اور تحقیقات کا ہے۔ اس لیے اس نے مسلمانوں کو قلم کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا، دیکھا جائے تو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ وغیرہ بھی قلم ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں ۔ سوره قلم میں تین مضامین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قدر و منزلت اور آپ کے اخلاق و مناقب کا بیان ہے ،سب سے پہلے تو قسم کھا کر فرمایا کہ آپ اپنے رب کے فضل سے د یوانہ نہیں ہیں ، جیسا کہ آپ کے مخالفین کہتے ہیں ۔ اور آپ کے لیے بے انتہا اجر ہے اور آپ کے اخلاق عظیم ہیں۔“ (3۔4)
مسلم، ابوداوداور نسائی میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا خلق قرآن ہے ۔ قرآن میں جو کچھ قال تھا وہ آپ کی زندگی میں حال تھا، آپ کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفصیل تھی اور ایسا
کیوں نہ ہوتا جبکہ آپ کو مکارم اخلاق کی تکمیل ہی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ آپ کے اخلاق و مناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مخالفین کی اخلاقی پستی کمینگی اور کج فکری بھی بیان کی گئی ہے، فرمایا گیا کہ آپ کسی ایسے شخص کا کہنا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ، بے وقار ، کمینہ عیب گو چغل خور، بھلائی سے روکنے والا ، حد سے بڑھ جانے والا گناہ گار گردن کش پھر ساتھ ہی بہ نسب بھی ہو۔ اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے۔“ (10۔14)
مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیات سرداران قریش میں سے ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں ۔
(2)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا مضمون جسے اس سورت میں خصوصی اہمیت حاصل ہے وہ اصحاب الجنه ( باغ والوں ) کا قصہ ہے یہ قصہ عربوں میں مشہور تھا، یہ باغ یمین کے قریب ہی تھا، اس کا مالک اس کی پیداوار میں سے غربا پرخرچ کیا کرتا تھا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس باغ کی  وارث بنی تو انہوں نے اپنے اخراجات اور مجبوریوں کا بہانہ بنا کر مساکین کو محروم رکھنے اور ساری پیداوار سمیٹ کر گھر لے جانے کی منصوبہ بندی کی ، اللہ نے اس باغ ہی کو تباہ کر دیا۔ (17۔33)
اس قصہ میں ان لوگوں کے لیے عبرت کا بڑا سا مان ہے جو اپنی ثروت اور غناء سے اکیلے ہی مستفید ہونا چاہتے ہیں اور ان کا بخل یہ برداشت نہیں کرتا کہ ان کے مال و متاع سے کسی اور کو بھی  فائدہ پہنچے ۔ کفار کے لیے عبرت آموز مثال بیان کرنے کے بعد یہ سورت متقین کا انجام بھی بتاتی ہے اور سوال کرتی ہے کہ محسن اور مجرم ، فرمانبردار اور نافرمان ، باغی اور وفا دار دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟
(3)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیسرا اہم مضمون جوسورہ قلم بیان کرتی ہے وہ آخرت کے بارے میں ہے، فرمایا گیا کہ جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلا ئے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے۔“ (42)
دنیا میں انہیں سجدہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا مگر یہ سجدہ نہیں کرتے تھے آخرت میں وہ سجده کرنا چاہیں گے مگر ان سے طاقت اور اختیار سلب کرلیا جائے گا۔ کشف ساق“ یعنی پنڈلی کھولے جانے سے علماء نے قیامت کے شدائد اور ہولناکیاں مراد لی ہیں۔ ویسے یہ ان متشابہات میں سے ہے جن کی اصل حقیقت اور یقنی مراد اللہ تعالی کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں۔
آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی ایذاؤں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
 سورة الحاقہ :-------------
سوره حاقہ مکی ہے، اس میں 52آیات اور 2رکوع ہیں ۔ قیامت کے مختلف ناموں میں سے ایک حاقہ بھی ہے۔ حاقہ کا معنی ہے ثابت ہونے والی ، چونکہ قیامت کے دن اللہ کے وعدے اور وعیدیں ثابت ہوں گی ، اس لیے اسے حاقہ کہا جا تا ہے۔ اس سورت کا اصل موضوع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا بیان ہے ۔ سورت کی ابتداء میں قیامت کی ہولناکیوں اور قوم ثمود قوم عاد جیسی قوموں کے انجام بد کا بیان ہے۔ (12۔1)
اس کے بعد یہ سورت ان واقعات کا تذکرہ کرتی ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہوں گے یعنی صور پھونکا جائے گا ، زمین اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے، آسمان پھٹ جائے گا ، فرشتے نازل ہوں گے اور انسانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوں گے۔ (17۔13)
پھر جب قیامت قائم ہو جائے گی تو انسانوں کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا، ان میں سے جو نیک ہوں گے ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا جسے وہ خوشی کے مارے دوسروں کو دکھائیں گے اور جو گنہگار ہوں گے ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ بڑی حسرت سے کہیں گے ۔ کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اور میں جانتا ہی نہیں کہ حساب کیا ہے؟ کاش ! موت میرا کام ہی تمام کر دیتی ، میرے مال نے بھی مجھے کچھ فائدہ نہ دیا، | میرا غلبہ بھی مجھ سے جاتا رہا‘‘ - (29۔25)
پھر انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ تعالی نے اشقیاء ( بد بختوں) کی بڑی علامتیں بیان کی ہیں۔
پہلی یہ کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ دوسری یہ کہ وہ مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے۔ (34۔23)
سعداء( نیک بختوں ) اور اشقیاء کا انجام بتانے کے بعد رب العزت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی صداقت پر قسم کھاتے ہیں ۔ 
فرمایا: پس مجھے قسم ہےان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے ، بے شک یہ قرآن بزرگ رسول کا لایا ہوا ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں لیکن تم بہت کم یقین رکھتے ہو، نہ کسی کاہن کا قول ہے لیکن تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ (43۔38)
 سورة المعارج :-------------
سوره معارج مکی ہے، اس میں 44 آیات اور 2رکوع ہیں ۔ اس سورت کی ابتداء میں بتایا گیا کہ کفار مکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کا مذاق اڑاتے ہیں اور آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو عذاب آنے والا ہے وہ جلدی لے آئیں تا کہ آخرت سے پہلے ہم دنیا ہی میں نمٹ لیں ۔ (3۔1)
اس کے بعد یہ سورت قیامت کی منظرکشی کرتی ہے اور وہاں مجرموں کا جو حال ہوگا اسے بیان کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو جائے گا اور پہاڑ رنگین روئی کی طرح ہو جائیں گے اور کوئی دوست کسی دوست کو اور کوئی رشتہ دار کسی رشتہ دار کونہیں پوچھے گا بلکہ سب ایک دوسرے سے جان چھڑا کر بھاگیں گے۔ (14۔8)
یہ سورت انسان کی فطرت اور طبیعت بتاتی ہے کہ یہ بڑا حریص اور جزع وفزع کرنے والا ہے، تکلیف پہنچے تو چیختا چلاتا ہے اور نعمت حاصل ہوتو اکڑنے لگتا ہے، مال ہاتھ آ جائے تو بخل کرنے لگتا ہے۔ البتہ حقیقی مصلین ( نمازی) اس سے مستثنی ہیں مصلین کی اللہ نے آٹھ صفات بیان کی ہیں:
. و ہ نماز کی پابندی کرتے ہیں ۔
ان کے مال میں سوال کرنے والوں اور سوال سے بچنے والوں سب کا حق ہوتا ہے، گو یا کہ وہ نماز کے ذریعہ حق اللہ اور زکوۃ کے زریعہ حق العباد ادا کرتے ہیں ۔
 ............ وہ حساب و جزا کے دن کی تصدیق کرتے ہیں ، ایسی تصدیق جس میں شک کی کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔... و ہ عبادت و طاعت کے با وجود اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. وہ زنا اور جنسی غلاظت سے اپنے دامن کو بچا کر رکھتے ہیں صرف حلال پر اکتفاء کرتے ہیں اور حرام کی طرف نظر نہیں اٹھاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ امانتیں ادا کرتے ہیں اور عہد پورا کرتے ہیں ، نہ عہد میں خیانت کرتے ہیں اور نہ وعده خلافی کرتے ہیں۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ حق  و عدل کے ساتھ گواہی ادا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. آٹھویں صفت یہ کہ وہ نماز کو اپنے اوقات میں ادا کرتے ہیں اور اس کے آداب و واجبات کا التزام  کرتے ہیں ۔ (34۔22)
جن لوگوں کے اندر یہ صفات پائی جاتی ہیں ان کے بارے میں الله تعالی فرماتے ہیں: یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔“ (35) اس سورت کے اختتام پر اللہ اس بات پر قسم اٹھاتے ہیں کہ بعث ونشورحق ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ اس بات پر قادر ہے کہ ان کو ہلاک کر دے اور ان سے بہتر اور اللہ کی زیادہ عبادت کرنے والوں کو پیدا فرمادے۔ (41۔40)
اللہ تعالی کی اس قدرت کا عملی ظہور ہر دور میں ہوتا رہا ہے، جب کسی قوم نے دین کے بارے میں تساہل اور تغافل کا رویہ اختیار کیا، اللہ نے ان سے بہتر اور دین کی قدر کرنے والے لوگ پیدا فرمادیے۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف قوموں ، ملکوں اور مذاہب کے جو لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں، یہ ونو مسلم ہم مورثی مسلمانوں سے بہتر مسلمان ثابت ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بات ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم دین کے محتاج ہیں اللہ تعالی کا دین ہمارا محتاج نہیں۔
 سورة نوح :------------
سورة نوح مکی ہے، اس میں ۲۸ آیات اور2 رکوع ہیں ۔ اس سورت میں صرف حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے، انہیں شیخ الانبیاء ، بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کی عمرتمام انبیاء سے زیادہ طویل تھی اور حضرت آدم علیہ السلام کے بعد دنیا والوں کی طرف وہ سب سے پہلے رسول تھے، انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت اور اپنی اطاعت کی دعوت دی اور اس دعوت
کے سلسلے میں مبالغہ کی حد تک کوشش کی ۔ رات کو بھی دعوت دی اور دن کو بھی خفیہ خفیہ بھی سمجھایا اور علانیہ بھی لیکن وہ جتنی زیادہ دعوت دیتے قوم اتنی ہی ان سے دور بھاگتی ۔ (6۔1)
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو استغفار کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگرتم استغفار کروگے اور گناہوں سے باز آ جاؤ گے تو اللہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد و عطا
کرے گا تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہر یں جاری کر دے گا، پھر انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلائیں کہ اس نے سات آسمان پیدا کیے ہیں، چاند کو جگمگاتابنایا ہے اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے لیکن اس فہمائش اور تذکیر دعوت کا قوم پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے بتوں ود، سواع یغوث،یعوق اور نسر ،کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے تو آپ نے ان کے لیے اللہ سے ہلاکت کی دعا کی جس میں عرض کیا کہ اے میرے رب ! تو زمین پر کسی کافر کو بھی نہ چھوڑنا، آپ کی دعا قبول ہوئی اور ان کفارو فجارکوطوفان میں ہلاک کردیا گیا۔ 
سورة الجن:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.. سورہ جن مکی ہے، اس میں 28آیات اور 2رکوع ہیں ۔ اس سورت میں جنات کے حوالے سے گفتگو ہے جو کہ انسانوں کی طرح شرعی احکام کے مکلف ہیں، ان میں مومن بھی ہیں کافر بھی، نیک بھی ہیں اور بدبھی ۔ اس سورت کی ابتداءمیں بتایا گیا کہ جنات کی ایک جماعت نے قرآن مجید سنا اور وہ اس سے بڑے متاثر ہوئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جنات نے نظام کائنات میں بھی تبدیلیاں محسوں کیں، وہ آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتے تو شہاب ثاقب ان کا تعاقب کرتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے ساتھ سوق عكاظ کی طرف تشریف لے گئے ، آپ نخلہ کے مقام پر نماز فجر ادا فرمارہے تھے کہ جنات کی ایک جماعت یہاں آپہنچی، جب انہوں نے قرآن سنا تو انہوں نے تبدیلیوں کا راز جان لیا اور ان کے دل دہل گئے اور انہوں نے قرآن کی صداقت کے آگے سر جھکا دیا (1۔2)
نہ صرف یہ کہ خود ایمان قبول کیا بلکہ واپس جا کر اپنی قوم کو بھی ایمان کی دعوت دی اور قوم کے سامنے رب کی شان اور عظمت بیان کی اور ان لوگوں کو احمق قرار دیا جو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار کیا کہ ہم سب ایک عقیدے پر نہیں ہیں ، کوئی مومن ہے کوئی کافر، کوئی مطیع ہے اور کوئی عاصی ، کوئی عقلمند ہے اور کوئی بے وقوف ، کوئی جہنم میں جائے گا اور کوئی جنت میں ۔ (14۔17)جنات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ سورت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کا ذکر کرتی ہے کہ آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق انسانوں کو ایمان اور توحید کی دعوت دی اور اپنے بارے میں فرمایا کہ میں صرف الله کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، میرے ہاتھ میں نفع
ہے نہ نقصان ، میرا کام تو صرف اللہ کے پیغام کو تم تک پہنچا دینا ہے اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے اس کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا دیا۔ (20۔32) 
سورة المزمل:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 سورۂ مزمل مکی ہے، اس میں 20آیات اور 2رکوع ہیں ۔ اس سورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بیان ہے، آپ کا تبتل ( خالص الله کی طرف متوجہ ہو جانا ) آپ کی عبادت، اطاعت، آپ کا قیام و تلاوت، آپ کا جہاد و مجاہدہ خود اس سورت کا نام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا بیان ہے۔ مزمل کا معنی ہے کپڑے میں لپٹنے والا جب ان آیات کا نزول ہوا تو آپ چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے ، اللہ نے محبت اور پیار کے انداز میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے کپڑے میں لپٹنے والے‘‘ آپ دن کو دین کی دعوت دیتے تھے، رات کو نماز میں طویل قیام فرماتے تھے اور اس میں قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ بعض اوقات پوری رات کھڑےرہتے جس سے قدم مبارک میں ورم آ جا تا ۔ اللہ نے آپ کو اختیار دیا کہ آپ چاہیں تو آدھی رات قیام کریں یا آدھی سے کم یا کچھ ز یا دہ ۔(1۔4)
راتوں کا یہ قیام روحانی تربیت میں بڑا موثر ثابت ہوتا ہے، اس لیے قیام لیل کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا: یقینا ہم تجھ پر عنقریب بہت بھاری بات نازل کریں گے ۔‘‘ (5)
بھاری بات سے مراد قرآن عظیم ہے، جس کی ایک خاص ہیبت اور جلال ہے، اس کا تحمل وہی کر سکتا ہے جس کا نفس علم و عرفان کے نور سے روشن ہو چکا ہو اور باطن کی روشنی میں قیام لیل کو خاص دخل حاصل ہے۔ اگلی آیات میں رسول کریم علیہ السلام کو ان ایذاؤں پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو دین کی دعوت کے سلسلے میں مشرکین کی طرف سے آپ کو دی جاتی تھیں۔ آپ کو ستانے میں ان کے ہاتھ بھی استعمال ہوتے تھے اور زبانیں بھی استعمال ہوتی تھیں ۔ (3۔10)
اس کے بعد یہ سورت آپ کے مکذبین کو ڈرانے کے لیے فرعون کا قصہ ذکر کرتی ہے، جسے اللہ تعالی نے اس کی کفر وسرکشی کی وجہ سے سخت و بال نے پکڑا
سورت کے اختتام پر اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر تخفیف کا اعلان فرمایا ہے، ایک تخفیف اس اعتبار سے ہے کہ نصف رات یاثلث یادو ثلث کا قیام ضروری نہیں بلکہ جتنا بھی آسانی سے ممکن ہو قیام لیل کرلیا جائے ، دوسری تخفیف اس اعتبار سے ہے کہ اب مومنین پر تہجد فرض نہیں رہی ، اس کے حکم  کو استحباب  میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ (20) سورة المدثر:----------
سوره مدثر مکی ہے، اس میں 56آیات اور 2رکوع ہیں ۔ اس سورت کی ابتداء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف دعوت ، کفارکوڈرانے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(7۔1)
اس کے بعد یہ سورت مجرموں اور مخالفوں کو اس دن کے عذاب سے ڈراتی ہے جو ان کے لیے بڑا سخت ثابت ہو گا ۔ (1۔8)
اگلی آیات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بدترین دشمن کا تذکرہ ہے جسے ولید بن مغیرہ کہا جا تا ہے۔ یہ شخص قرآن سنتا تھا اور پہچانتا بھی تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے لیکن بڑا آدمی ہونے کے گھمنڈ میں کفر و نکار کرتا تھا اور قرآن کو معاذ اللہ سحر اور جادوقر رد یا تھا ۔ (26۔27)
پھر یہ سورت اس جہنم کا اور اس کے داروغوں کا ذکر کرتی ہے جن کا سامنا کفارو فجار کو کرنا پڑے گا اور ان کے دلوں میں ان کے لیے کوئی نرمی نہیں ہوگی ۔ (31۔27)
مزید تاکید اور ڈراوے کے لیے اللہ نے چاند، رات اور  صبح کی قسم کھا کر فرمایا کہ جہنم بڑی مصیبتوں میں سے ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ (37۔32)
یہ سورت ہر شخص کی مسئولیت اور ذمہ داری کو واضح کرتی ہے کہ ہرشخص سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور سب اپنے گناہوں کے اسیر ہوں گے سوائے ان کے کہ جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اسیر نہیں ہوں گے۔ وہ قیامت کے دن مجرموں سے سوال کریں گے کہ تمہیں کس چیز نے دوزخ میں ڈالا تو وہ جواب میں چار اسباب بیان کریں گے
پہلا یہ کہ ہم نمازی نہیں تھے۔ دوسرا یہ کہ ہم مسکینوں کو کھانانہیں کھلاتے تھے۔ تیسرا یہ کہ ہم کج بخثی اور گمراہی کی حمایت میں خوب حصہ لیتے تھے۔ چوتھا یہ کہ ہم قیامت کا انکار کرتے تھے ۔ (48۔38)
سورت کے اختتام پر بتلایا گیا کہ یہ قرآن ایک نصیحت ہے جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے اللہ کی مشیت بھی ضروری ہے۔ (56۔54)
سورة القيامه :-------------
سورۂ قیامہ  مکی ہے، اس میں چالیس آیات اور 2رکوع ہیں ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس سورت کا موضوع بعث ، یعنی مرنے کے بعد کی زندگی ہے جو کہ ایمان کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ یہ سورت قیامت کے مصائب ، شدائد اور عذابوں کا ذکر کرتی ہے اور موت کے وقت انسان کی جو حالت ہوتی ہے اس کا نقشه کھینچتی ہے، اس سورت کی ابتدا میں اللہ نے حشر نشر کے قیام پر یوم القیامه پر نفس لوامہ کی قسم کھائی ہے (نفس لوامہ وہ ہے جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے اور نیکی پر آمادہ کرتا ہے ) آخرت میں تو ہر شخص کانفس اسے ملامت کرے گا ہی دنیا میں بھی جن لوگوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے وہ انہیں ملامت کرتا رہتا ہے ۔ ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ یہاں پر اللہ نے خاص طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ ہم انسان کی پور پور تک درست کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ، ہر انسان کی انگلی کی پور قدرت کی تخلیق کا شاہکار ہے کہ اس چھوٹی سی جگہ میں جوخطوط اور لکیریں ہیں وہ دوسرے انسان کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتیں۔ اسی وجہ سے پوری دنیا میں کسی انسان کی شخصیت کو پہچاننے کے لیے انگلیوں کی لکیروں پر اعتماد کیا جاتا ہے اور اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ان پوروں کو اس ہیئت اور شکل پر بنا دیں گے  جس شکل و ہیئت پر یہ تھیں اور اس نکتے کی وضاحت کے لیے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم پیدا کر دیں گے بلکہ یہ فرمایا کہ ہم درست کردیں گے ۔ ( نا معلوم اس طرح کی کتنی علمی حقیقتیں ہیں جو پورے قرآن میں بکھری ہوئی ہیں اور جن میں سے ہر حقیقت ثابت کرتی ہے کہ یہ نبی امی کا خود تراشیده کلام نہیں بلکہ رب العالمین کا کلام ہے مگر بہت سارے انسان ان حقیقتوں کا اعتراف کرنے کے باوجود اس کی صداقت اور حقانیت پر ایمان نہیں رکھتے ) اس کے بعد یہ سورت قیامت کی بعض بولنا کیوں اور علامتوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ پس جس وقت نگاه پتھرا جائے گی اور چاند بے نور ہو جائے گا ، سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے، اس دن انسان کہے گا آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟‘‘ (10)
اگلی آیات میں یہ سورت بتلاتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حفظ قرآن کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور جبرئیل کی تلاوت کے وقت اس بات کی شدید کوشش کرتے تھے کہ آپ سے کوئی چیز فوت نہ ہو جائے ، اس لیے آپ حضرت جبریل کی اتباع میں جلدی جلدی پڑھنے اور یاد کرنے کی سعی فرماتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں، میرا یہ وعدہ ہے کہ قرآن میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی ، اسے جمع کرنے محفوظ کرنے ، باقی رکھنے اور بیان کرنے کا میں خود ذمہ دار ہوں ۔ (19۔16)
یہ سورت بتلاتی ہے کہ آخرت میں انسان دو فریقوں میں تقسیم ہو جا ئیں گے ۔ ایک طرف سعداء ہوں گے اور دوسری طرف اشقیاء سعداء کے چہرے روشن ہوں گے اور وہ رب تعالی کی زیارت سے مشرف ہوں گے اشقیاء کے چہرے سیاہ اور بد رونق ہوں گے اور وہ جان لیں گے کہ آج ہمیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ (26۔20)یہ سورت موت کے وقت انسان کا جو حال ہوتا ہے اور جس جس تکالیف کا سامنا کرنا پرتا ہے اسے بھی بیان کرتی ہے۔ (30۔26) اس سورت کے اختتام پر بتلایا گیا کہ انسان کو ہم نے بیکار پیدا نہیں کیا ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ نہ اس کا حساب ہو، نہ اسے جزا سزا دی جائے ۔ اس طرح آخر میں حشر و معاد کی ایک حسی دلیل بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ جس اللہ نے انسان کو پہلی بار پیدا کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پربھی قادرہے۔ اللہ تعالی کے لیے تو ابتدا اور اعادہ دونوں برابر ہیں ۔ مگر یہاں انسانی سوچ کے مطابق بات کی گئی ہے کیونکہ انسان کی سوچ اور تجر بہ یہ ہے کہ ا عا ده ابتدا کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔ 
سورة الانسان :-------------
 سوره انسان مدنی ہے، اس میں 31 آیات اور 2رکوع ہیں، مدنی ہونےکے باوجود اس سورت کے مضامین مکی سورتوں جیسے ہیں ، اس میں جنت اور جنت کی نعمتوں جہنم اور جہنم کے عذابوں کا بیان ہے۔ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز فجر میں اس سورت کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اس سورت کی ابتدا میں اللہ کی قدرت عظیم کا بیان ہے کہ اس نے کیسے انسان کومختلف ادوار میں پیدا فرمایا اور اس کو سمع و بصر اور عقل فہم سے نوازا۔ تا کہ وہ طاعت و عبادت کی ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کر سکے جن کا اسے مکلف بنایا گیا ہے اور زمین کو ایک اللہ کی بندگی سے آ با د کر سکے لیکن پھر انسان دوگروہوں میں تقسیم ہو گئے بعض شاکر ہیں اور بعض کفور ( ناشکرے ) ہیں ۔ کافروں کے لیے اللہ نے آخرت میں زنجیریں، طوق اور شعلوں والی آگ تیار کررکھی ہے اور شکر گزاروں کے لیے وہ جام جن میں کافور کی آمیزش ہوگی شکر گزاروں کی یہاں تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
ایک یہ کہ وہ جب کوئی نذر مان لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں ۔
تیسری یہ کہ وہ محض اللہ کی رضا کے لیے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ان کے نیک اعمال اور صبر کا نتیجہ انہیں جنت کی صورت میں دیا جائے گا، جہاں نہ گرمی نہ سردی اور نہ کوئی دکھ اور غم (1۔13)
سورت کے اختتام پر اللہ نے اپنی اس عظیم نعمت کا ذکر فرمایا جس کا کوئی بدل اور کوئی مثال نہیں ۔ فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے شک ہم نے آپ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے۔ پس اپنے رب کے حکم پر قائم ر ہیں، ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہا نہ مانیں اور اپنے رب کا نام صبح وشام ذکر کیا کریں اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدے کریں اور بہت رات تک اس  کی تسبیج کیا کر یں ۔‘‘ (26۔23)
ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ داعی پر ذکر و عبادت اور صبر لازم ہے تا کہ اللہ کے دشمنوں کے مقابلے میں اسے تقویت بھی حاصل ہو خصوصا رات کی نماز ایمان کی مضبوطی اور روحانی ترقی کا اہم وسیلہ ہے۔ اس سورت کی آخری آیات میں مشرکین کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ ہم اگر چاہیں تو ان کو ختم کر کے ان کے عوض ان جیسے اور بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
 سورة المرسلات:----------
 سوره مرسلات مکی ہے، اس میں 50 آیات اور 2رکوع ہیں ۔ اس سورت کی ابتدا میں پانچ  قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ یقینا ہونے والی ہےیعنی قیامت اور حساب و جزا کا معاملہ ہو کر رہے گا اس میں تخلف نہیں ہوسکتا، اس کے بعد یہ سورت ان نشانیوں کو بیان کرتی ہے جو قیامت کے قریب واقع ہوں گی ، یعنی ستارے بے نور کر دیئے جائیں گے، آسمان توڑ پھوڑ دیا جائیگا، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے
کر کے اڑادیئے جائیں گے اور رسولوں کو مقررہ وقت پر لایا جائے گا ۔ (11۔8)
قیامت کے دن کو اللہ نے یوم الفصل‘‘ کہا کیونکہ اس دن مخلوق کے درمیان عدل وانصاف پر مبنی فیصلہ کیا جائے گا، قیامت کو یوم الفصل قرار دینے کے بعد اسے جھٹلانے کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:”ويل يومئذ للمكذبين . ‘(اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے)
یہ آیت اور یہ الفاظ اس سورت میں دس بار آئے ہیں اس تکرار کا مقصد تخویف اور تر ہیب ہے۔ علاوہ ازیں یہ سورت مجرمین سابقین کا ذکر کرتی ہے جنہیں اللہ نے تباہ و برباد کر دیا اور مخاطبین سے سوال کرتی ہے کہ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ پھر مختلف مراحل سے گزار کر خوبصورت انسان بنا دیا، بعث بعد الموت کے بعض حسی دلائل بھی یہاں مذکور ہیں جن سے ثابت کیا گیا ہے کہ وہ اللہ جو زمین کو مردوں اور زندوں کو سمیٹنے والی بنا سکتا ہے اور میٹھے پانی سے سیراب کرسکتا ہے وہ دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے۔ اگلی آیات میں مکذبین اور متقین کے الگ الگ انجام کا بیان ہے۔ مکذبین کو بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف لے جایا جائے گا۔ اور متقین کو ٹھنڈےسائے اور بہتے چشموں کے پاس جگہ دی جائے گی۔
آخری آیات میں دوبارہ مجرموں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کھا پی لو! اور تھوڑے سے مزے اڑالو! بالآ خر تمہارے کے  لیے ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے