صدقۃالفطر: ضرورت و اہمیت


صدقۃالفطر: ضرورت و اہمیت   

از قلم :محمد شاہد قاسمی ( کرماخان ) سنت کبیر نگر. 
فاضل تکمیل تفسیر دارالعلوم دیوبند.

      انسان رمضان کے روزوں کا کتنا ہی اہتمام کرلے لیکن  بتقاضئے بشریت بےجا مصروفیات اور نامناسب باتوں سے نہیں بچ پاتا ہے .

     اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو روزے کا مکمل ثواب حاصل کرنےاور روزوں کی کوتاہیوں کی تلافی کے واسطے صدقۃ الفطر کے نام سے روزوں کی الگ سے زکاۃ مشروع فرمائی ہے .

     جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا:
 فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکاۃ الفطر طہرا للصیام من اللغو و طعمۃللمساکین .(ابوداودشریف حدیث نمبر 1609)

             صدقۃ الفطر کا مقصد 

    صدقۃ الفطر کے دو مقصد بیان کیے گئے ہیں: 
    ایک روزوں کی کمیوں کو پورا کرنا.
 دوسرے امت کے مسکینوں کے لئے عید کے دن  سوال سے بےنیاز کرنا.

    وقت اور حالات کے اعتبار سے دوسرے نمبر کے مقصد کا اہتمام اور بڑھ جاتا ہے.
 اس لئے کہ موجودہ حالات میں غربت ومفلسی اور زیادہ بڑھ گئی ہے بہوک مری  مزید عام ہوگئی ہے.
 جو یومیہ کھانے کمانے والے ہیں  وہ  نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں, ان کو عید کے دن خوش رکھنا ہماری ذمہ داری ہے کم سے کم ایک مسکین پراتنا خرچ کیا جائے کہ وہ  عید کے دن سوال کرنے سے بے نیاز ر ہے.

          صدقة فطر کب ادا کریں؟

    عیدکی نماز سے پہلے ضروربالضرور ادا کردیں کیونکہ اس میں غریبوں کی حاجت روائی بھی ہے اور روزوں کی کوتاہیوں سے صفائی بھی.
    اگر نماز کے بعد ادا کیاتوعام صدقات میں سے  ہو جائے گا لیکن اگر پہلے ادا کر دیا جائے
 تو مقبول بھی ہوگا. 
 جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

 من اداھا قبل الصلاۃ فهي زكاة مقبولة و من اداها بعد الصلاۃ فهی صدقۃ من الصدقات.       (ابوداود حدیث نمبر 1609)

  صاحب وسعت ,اپنی وسعت کے بقدر نکالیں.......

    ایسے تو صدقۃ الفطر پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت ایک فرد پر واجب  ہے لیکن جو لوگ سرمایہ دار ہیں توہ گیہوں کے بجائے چھوارے  یا کشمس سے اپنا صدقۃ الفطر ادا کریں کیونکہ اس میں صدقۃ الفطر کا مقصد زیادہ ادا ہوگا.

          صدقۃالفطر کون ادا کرے؟

 جو شخص لازمی ضروریات کا علاوہ موجودہ وقت میں  ادنیٰ نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مالک ہے مثلا 30,000 تو اس پر صدقۃ الفطر بہی واجب ہے اور زکاۃ بھی واجب ہیے.
  
 بس فرق یہ ہے کہ زکاۃ کا مال  مال نامی ہو اور اس پر سال گزرا ہو 

لیکن صدقۃ الفطر کےلئےعیدالفطر کے دن بس نصاب کا مالک ہونا ضروری ہے  (طحطاوی صفہ 394)

         صدقۃ الفطر مقروض پر نہیں

    ایساشخص جو اتنا مقروض ہوکہ قرض ادا کرنے کے بعد خود ہی زکاۃ کا مستحق بن جائےگا تو اس پر نہ ہی ر زکوۃ واجب ہے اور نہ ہی صدقۃ الفطر .

    صدقۃ الفطر نا بالغ اولاد کی طرف سے

 جو بچے اور بچیاں صاحب نصاب نہیں ہے تو ان کی طرف سے  ان کےوالد نکالیں گے لیکن جو خود صاحب نصاب ہے تو ان کے مال سے نکالا جائے گا.
     ( عالمگیری جلد 1 صفحہ 192)

    بالغ اولاد اور بیوی کا صدقہ الفطر

    بالغ اولاداور بیوی کا صدقہ نہ باپ پر واجب اور نہ شوہر پر  لیکن  ادا کردیں تو ادا ہوجائے گا. (بالا)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے