کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی


کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی

آپ بیتی: احمد شجاعؔ

قسط: 1
خون سیاہ سے لکھی گئی یہ داستان خود تک محدود رکھنے کا ارادہ تھا لیکن مشفق و مربی "مولانا شمشیر احمد قاسمی" نگراں انجمن بزم شیخ الاسلام مدنی دار المطالعہ، طلبہ دار العلوم دیوبند اور   مخلص دوست برادرم مولوی "محمد لقمان سنبھلی"  کا پر خلوص اصرار اسے عام کرنے پر مجبور کر رہا ہے

یاد رہے یہ داستان کورنٹائن سینٹر  میں ہی تقریبا 35 صفحات میں لکھی گئی ہے، اب عام کرتے وقت بجز چند جگہوں کے، حک و اضافہ مناسب نہیں سمجھا

اس لیے پڑھتے ہوئے اسلوب وغیرہ  نا دیکھ کر، صرف ان جذبات کو محسوس کیجیے گا جو قید کی سلاخوں کے پیچھے بے سروسامانی کی حالت میں رقم کیے گئے ہیں

صفحات بہت ہیں اس لیے وقفے وقفے سے  یہ داستان قسط وار آپ تک پہنچے گی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 (پہلی قسط)

نیند کا ہلکا سا خمار آنکھوں میں تھا، تقریبا دن کے سوا دو بج رہے تھے۔ پاس پڑے ہوئے موبائیل کی اسکرین پر میرے بچپن کے دوست احمد بھائی کا نام چمکنے لگا۔ مختصر سی گفت و شنید کے بعد انھوں نے کہا: "تھوڑی سی ٹینشن دے دوں؟" میں نے کہا: جی فرمائیں! کہنے لگے: وہ دیوان جی سچن سر کی میرے پاس کال آئی تھی ، وہ ابھی میرے پاس کافی دیر بیٹھ کر بھی گئے ہیں ، انہوں نے کہا ہے کہ :" احمد بھائی کو گھر پر کورنٹائن کرنے سے  بات نہیں بنے گی، ان کو لے کر جانا ہی پڑے گا۔" (جب کہ مجھے چاند رات والے دن سے گھر پر ہی پولیس کی نگرانی میں کورنٹائن کیا گیا تھا۔ جس میں کھانا پینا، رہنا سہنا سب بالکل الگ تھا)

 یہ افسوس ناک خبر سنتے ہی ساری نیند رفو چکر ہوگئی، میں فورا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ٹینشن نے ڈیرے ڈالنے شروع کردیے ؛کیوں کہ میرے سامنے اپنے بجنور کے 70/ احباب جو کورنٹائن میں تھے اور جن سے مسلسل احقر کا رابطہ تھا ان کا نقشہ فورا آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اہلِ خانہ کو اس خبر کی اطلاع دی۔ سب کے چہرے مرجھاگئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ ظہر کی نماز گھر پر ادا کی اور مسلسل ایک گھنٹے تک تگ و دو میں لگا رہا کہ کسی طرح کوئی صورت نکل آئے؛ لیکن قدرت فیصلہ کرچکی تھی۔ اس وقفے میں 3 بار سچن سر کی میرے پاس کال آگئی کہ احمد بھائی تھانے نہیں آرہے؟ ایمبولینس آنے والی ہے۔

بیگ تیار کیا جس میں 14/ دن کے لیے ضروری سامان اور کچھ کتابیں رکھ کر رفیق محترم احمد بھائی کے ساتھ اہلِ خانہ کو روتا ہوا چھوڑ کر اشک بار، غم زدہ و بوجھل طبیعت اور نم آنکھوں کے ساتھ تسلی دیتا ہوا تھانے آگیا۔ خود سے زیادہ اہلِ خانہ کی ٹینشن تھی کہ وہ رو رہے ہوں گے۔ جب کہ ان کو خوب سمجھایا تھا کہ رونا مت ، رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اور یہ حالات تو آتے رہتے ہیں۔ ایمبولینس کے آنے میں کافی دیر تھی اس لیے رہ رہ کر ان کا خیال ستائے جا رہا تھا اور اس سے زیادہ اس بات کا کہ اب جو ساتھی کورنٹائن میں ہیں ان کے لیے کوشش بہت مشکل ہوجائے گی۔۔طرح طرح کے خیالات ذہن و دماغ میں چل رہے تھے کہ باران رحمت کا نزول شروع ہوگیا اور بارش کے گرتے قطرے زبان حال سے کہنے لگے: "پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جب زمین قحط سالی سے پریشان ہوجاتی ہے تو ہم ہی ہیں جو اسے سیراب کرتے ہیں۔ یہ پریشانی اور تاریکی کے سیاہ بادل جلد چھٹ جائیں گے۔۔بس رب سے لو لگائے رکھنا!"

اسی محویت کے عالم میں تھا کہ عصر کی اذان نے خیالات کی دنیا سے باہر نکالا۔ مجھے عصر کی نماز پڑھنی تھی۔ وہاں ایک مسلم پولیس اہل کار شعیب بھائی بھی موجود تھے انہوں نے کہا: "احمد بھائی مسجد تو جا نہیں سکتے، آؤ میرے کمرے میں پڑھ لینا، مجھے بھی نماز پڑھنی ہے"
زندگی کی پہلی نماز پولیس تھانے میں پڑھتے ہوئے عجیب کیفیت سے سرشار تھا ۔ جوں ہی سلام پھیرا خبر ملی ایمبولینس آگئی ہے۔ مختصر سی دعا کی اور ایمبولینس میں آکر بیٹھ گیا۔ احمد بھائی نے چپکے سے میرا موبائیل مجھے تھمادیا۔ موبائیل جمع ہونے کے خوف سے میں نے انھیں دے دیا تھا کیوں کہ   تھانے والے کہہ رہے تھے کہ موبائیل یہیں جمع کرنا پڑے گا، اس وجہ سے  میں نے احمد بھائی کو دے دیا کہ جب میں ایمبولینس میں بیٹھ جاؤں تو دے دینا بعد کا اللہ مالک ہے۔ کسی طرح لے کر چلا ہی جاؤں گا۔

ایمبولینس شہر کرت پور کے قریب موضع "سُوَاہیڑی"(Suvaheri) لے کر آگئی۔ چوں کہ وہاں بیگ چیک ہونا تھا ؛اس لیے ان کو معلوم ہوگیا کہ میرے پاس موبائیل بھی ہے۔ جس پر وہاں موجود ڈاکٹر اور دیگر افراد نے چند طنزیہ جملے کَسے۔ اور مجھے مریض کہہ کر مخاطب کیا۔ غصہ بہت آیا اور آنا بھی چاہیے تھا لیکن میں نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ: سر! میں بیمار کہاں سے لگ رہا  ہوں،مجھے تو دیوبند سے آئے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ جس پر وہ آپس میں منمانے لگے۔۔۔اور انہوں نے مجھے وہاں رکھنے سے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اکیلے مریض کو ہم نہیں رکھیں گے۔ زیادہ آئیں گے تو ہم لیں گے۔ اگر اس کے ساتھ بھوت ووت نے کچھ کردیا تو ہم کیا جواب دیں گے" غالبا یہ آخری بات انہوں نے اس وجہ سے کہی تھی کہ سہیڑی کا کورنٹائن سینٹر بالکل جنگل میں واقع ہے

وہاں سے شہر بجنور سے 5 کلو میٹر کے آگے واقع موضع :دھرم نگری"(Dharam Nagri) لایا گیا۔ یہ سابق ودھایک محترمہ "رُوچی ویرا" کا گاوں ہے۔ ٹوٹل آبادی غیر مسلموں کی ہے۔ گاوں کے بالکل آخر میں 2018ء میں تعمیر کردہ سرکاری ہاسٹل ہے جسے کورنٹائن سینٹر بنایا ہوا ہے
ہم وہاں مغرب سے تھوڑی دیر پہلے پہنچے۔ وہ لوگ میرا موبائیل لینے لگے۔ کافی منت سماجت کی۔ حتی کہ یہ تک کہا: سم کارڈ لے لو مگر موبائیل دے دو اس میں مجھے قرآن پڑھنے میں آسانی رہے گی۔ لیکن ان کا جواب تھا کہ اوپر سے ایسا ہی آرڈر ہے۔ بہت کچھ کہا لیکن۔۔۔۔۔۔

سلاخوں کے پیچھے


موبائیل ایک کمرے میں رکھ کر میرے متعلق مکمل معلومات حاصل کی گئیں اور مجھے کورنٹائن سینٹر میں داخل کرکے باہر سے چینر (Channer) میں تالا لگا دیا تاکہ میں یا یہاں پر موجود افراد میں سے کوئی قیدی راہِ فرار اختیار نا کرسکے۔ 
       یہاں جماعت والے ساتھی پرتپاک سے ملے اور کافی خوش اخلاقی سے سے پیش آئے۔۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں جاؤں اور کس کمرے کا رخ کروں؟ ہر ایک کی نظریں سراپا سوال بنے مجھ سے یہ پوچھ رہی تھیں کہ آپ یہاں کس جرم میں لائے گئے ہیں؟ کچھ کی دل کی بات زبان پر آگئی اور وہ مجھ سے گویا ہوئے کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ جب حقیقت حال سے پردہ اٹھایا تو تو ان کی نظریں سراپااستعجاب بن گئیں

میں بیگ پشت پر لیے چند قدم چلا تھا کہ ایک شخص مجھے دوسری منزل پر لے کر آگئے اور چوں کہ افطار کا وقت بالکل قریب تھا اس لیے افطاری کا ایک پیکٹ انھوں نے میرے لیے  بھی لے لیا اور اپنے کمرے میں لاکر خوب تسلی دی اور سمجھاتے ہوئے کہا کہ انسان کا امتحان پریشانی میں ہوتا ہے۔ صبر رکھیے ان شاءاللہ مشکلیں آسان ہوجائیں گی اور تمھیں یہاں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سب اپنے ہیں اور میرے پاس ایک چھوٹا موبائیل ہے جب ضرورت پڑے لے کر کال کرلینا۔

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں کہ آپ چاہے جہاں ہوں جس حالت میں ہوں اگر کوئ اجنبی آپ کے پاس آتا ہے تو خوش اخلاقی سے اس کے ساتھ پیش آئیں اس کا خیر مقدم کریں اور اگر وہ پریشانی میں ہے تو اس کو حوصلہ دیں اور صبر و تسلی کی باتیں کریں تاکہ وہ آپ۔کے درمیان آکر اجنبیت محسوس نا کرے

ان کا موبائیل لے کر گھر کال کرکے بتایا کہ میں یہاں پر خیریت سے ہوں اور الحمد للہ کسی طرح کی کوئی دقت نہیں ہے بس میرا موبائیل لے لیا گیا ہے اس لیے ٹینشن مت لینا ، جب وقت ملے گا  میں خود کال کرلیا کروں گا اللہ حافظ 

افطاری کا وقت ہوگیا۔ بہ مشکل 3 عدد کھجور، چھوٹے سے سیب کی دو قاش اور چھوٹے سے گلاس جسے گِلَسْیا کہا جائے تو بہتر ہے اس میں روح افزا اور پانی پیا۔ طبیعت تو یہ سب بھی کھانے سے اِبا کر رہی تھی مگر اُن چچا (جن کا مکمل تعارف آیندہ کسی قسط میں ان شاءاللہ آئے گا) کے اصرار پر یہ سب زبردستی کھالیا

بعد نماز مغرب دو بھائیوں(ان کا تعارف بھی جلد ہی) کے اصرار پر کمرہ نمبر 18 سے کمرہ نمبر 15 میں بیگ لے کر آگیا۔۔ طبیعت مستقل پریشان تھی اس لیے مغرب بعد ان چچا کا موبائیل لے کر بڑی دو ہمشیرہ اور رفیق محترم برادرم مولانا عامر بجنوری کو کال کرکے یہاں آنے کی اطلاع دی اور خصوصی دعا کے لیے کہا

میں آج کون سے عالم میں ہوں خدا جانے
نہ گلستاں میں دل لگے نہ بھائیں ویرانے

عشا کے وقت کھانا آیا اور نیچے سے آواز لگائی گئی کہ "کھانا  لے لو۔۔۔!" کھانے میں دال چاول کا ایک چھوٹا سا پیکٹ ،گوبھی کی سبزی کا پیکٹ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی روٹی 4/4 روٹی آئیں۔ بہت مشکل سے روٹی کا ایک پیکٹ  اور چاول کے دو تین لقمے زبردستی کھائے۔ اس کے بعد عشا کی نماز اور تراویح کمرہ نمبر 15 میں ہم چار افراد (دو کمرے کے رفیق اور ایک مجھے لانے والے چچا) نے با جماعت ادا کی۔

میرے کمرے کے دونوں بھائی شمس الدین و قمر الدین شہر بجنور کے محلہ چاہ شیریں کے باشندے ہیں ہمارے اس ہاسٹل کے سامنے دوسرے ہاسٹل میں ان کی دو بہنیں بھی ہیں چوں کہ ان کے والد صاحب کو پازیٹیو بتایا گیا اس لیے مجھ سے چند گھنٹے قبل ہی یہ یہاں پہنچے تھے۔ ان کا کافی اصرار تھا کہ آپ ہمارے کمرے میں آجاؤ ہمیں نماز کے لیے آسانی رہے گی اس لیے انھیں کے کمرے میں آگیا تھا۔

کمرے میں ساتھیوں کی آمد


تراویح بعد بہت سارے احباب جن میں سے کسی ایک سے بھی شناسائی نہیں مجھ سے ملنے آئے اور مفتی صاحب کہہ کر خیر خیریت معلوم کرتے اور تسلی دیتے کہ یہاں ٹینشن مت لینا ہم سب یہاں ہیں اور وہ سب حد سے زیادہ عزت سے پیش آئے۔
"اکرام مسلم" جسے کہا جاتا ہے اور جماعت میں سکھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک اجنبی آئے تو اسے عزت دیں اور اس کا اکرام کریں اور کے ساتھ محبت سے پیش آئیں تاکہ وہ کتنا ہی سنگ دل کیوں نا ہو اس کا دل نرم ہوجائے آپ کے اخلاق کو دیکھ کر۔۔۔وہ سب بغیر کسی غرض کے مجھ سے ملنے آئے تھے ورنہ آج کل تو حال یہ ہے کہ

قدم قدم ہے غرض اور نمود کا چہرہ
خلوص آج تو اک لفظ اشتہاری ہے

ان کے ساتھ گفت و شنید چلتی رہی اور اس وقت کو بھی غنیمت جان کر دین اسلام کی کافی ساری باتیں ان کو بتائیں جس سے وہ بہت خوش ہوئے اور جاتے ہوئے کہنے لگے مفتی صاحب اب کل آئیں گے آپ کے پاس

کورنٹائن سینٹر کی پہلی سحری


صبح 3 بجے ساتھیوں نے آکر جگا دیا۔ جگایا کیا نیند تو آئی نہیں تھی بس آنکھیں بند کرکے جسم کی تھکاوٹ دور کر رہا تھا۔ 

نہ پوچھ کس طرح ہم نے شبِ فرقت گزاری ہے
ہماری بے قراری پر ستاروں کو نہ نیند آئی

وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر تہجد پڑھی اور کھانے کو تو کچھ من ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی روزہ رکھنا تھا اور پورے دن بھوکے رہنا تھا اس لیے شام آیا ہوا آدھا شیر مال پانی سے کھاکر فجر کے انتظار میں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چچا جن کا نام ریاست ہے آئے اور کہا: "آجاؤ مولانا! چائے آئی ہے لے لو!"
نیچے آیا چینر؟ کے پاس آیا تو دیکھا قطار لگی ہوئی ہے، بادل نا خواستہ قطار میں لگ کر چائے لی اور جوں ہی کمرے میں پہنچا معلوم ہوا سحری کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ شاید باری تعالی کو  دیکھنا تھا کہ حکمِ ربی بجا لاتا ہوں یا چائے کا کم از کم ایک گھونٹ پی کر روزے کو خراب کردیتا ہوں۔۔۔چائے اسی طرح رکھی رہی ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں ہوا۔۔۔
اس طرح اس مختصر سی سحری کے ساتھ آج کا چوتھا روزہ رکھا.

جاری۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے