اسلامی اخلاق : وقت کی اہم ضرورت

اسلامی اخلاق : وقت کی اہم ضرورت

ریان داؤد
سیہی پور اعظم گڑھ
📱 9198320640
اسلامی اخلاق : وقت کی اہم ضرورت 

دین اسلام انسانی زندگی کا ایک ایسا منہج ہیے جو فطرت کے عین مطابق ہیے کیونکہ کسی بھی مسلک ومشرب کی استقامت اور اسکے پائداری کی بناء اسکی اعتدال پسندانہ تعلیمات وتشریعات پر مبنی ہوا کرتی ہیے اور اسلام نے اپنی تشریعات اور تعلیمات کے اندر سب سے زیادہ زور اخلاقیات پر دیا ہیے کیونکہ انسانی اقدار کی بلندی کا راز بھی اسی اخلاقیات کے باب میں پوشیدہ ہیے اس وجہ سے کہ اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں ۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائے گی۔

انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔

جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں ۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے ۔ اسلام میں ایمان اور اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔

اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں ۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتابِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْمٍ o ( القلم) بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہے۔ اورایسا کیوں نہ ہو آپ ﷺ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالکِ خلق عظیم ﷺ فرماتے ہیں ۔ بَعِثْتُ لِاَتَمِّمِ مَکَارِمَ الاَخْلَاقِ۔ میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں 
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ’’اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘

اخلاق خلق کی جمع ہے، جس کے معنیٰ خصلت، عادت اور طبیعت کے ہیں۔ اصطلاح میں اخلاق سے مراد وہ خصائل و عادات ہیں جو انسان سے روز مرہ اور مسلسل سرزد ہوتے رہتے ہیں اور یہی عادات و خصائل رفتہ رفتہ انسانی طبیعت کا جزو بن کر رہ جاتے ہیں جسے انسان دوسرے کے لیے تمثیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر یہ عادات اچھی ہوں تو اخلاق حسنہ اور اگر بُری ہوں تو اخلاق سیٔہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔

اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علم بردار ہے ۔ یہ زندگی کے ہر اصول پر انسان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام کے زرّیں اصولوں میں اخلاق کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ انسانی زندگی میں معاشرے کا قیام اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے پر فطرتاً مجبور ہے۔ اسلام میں اخلاق سے مراد وہ اخلاق حسنہ ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح اور اصلاح کے لیے انسانیت کو عطا کیے گئے۔ دنیا میں انسان کی اولین حیثیت ایک فرد کی سی ہے اور افراد کے مجموعے سے معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ اگر دنیا میں موجود تمام انسان اپنی اصلاح کرلیں، یعنی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو وہ معاشرہ یقیناً درست اور صالح کہلائے گا،یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے لیے اخلاق حسنہ پر زور دیتا ہے۔قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر اخلاق کا درس دیا گیا ہے جو اس قدر حکیمانہ اور فلسفیانہ ہے جو دنیا کے کسی مذہبی کتاب میں نہیں ملتا
ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔
اَحْسَنُکُمْ اَحْسَنُکُمْ خُلْقاً
تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔
اخلاق کیا ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری بد خوئی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔‘‘
یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے اور تم اس کے جواب میں اسے دعا دو تو ایک دن اسے خود بخود شرم آئے گی کہ میں تو اسے گالی دیتا ہوں اور وہ مجھے جواب میں دعا دیتا ہے تو مجھے شرم آنی چاہیے کیوں نہ میں بھی اسے دعا دوں اور اس کی تعریف کروں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے جو میری گالی کے جواب میں دعا دیتا ہے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتا۔ اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرنے کا موجد بنتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقیناًایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا۔
بد قسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نہیں پائے جاتے جس کی وجہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسواء اور زوال پذیر ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات کا عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا، آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، جیل خانہ جات میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ میں جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔ منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سی وہ اخلاقی مرض اور بیماری ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی ۔ خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو اس ملک میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ایسے غلیظ اخلاق و اطوار والی قوم کا مسلمان کہلوانا تو دور کی بات ، ہمارے اسلاف کہتے ہیں کہ ایسے میں اسلام ، اللہ و رسول ﷺ کا نام پاک بھی اپنی ناپاک زبانوں سے لینے کی جسارت نہ کرو اس لیے کہ تم ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہو۔
 اگر تمہاری سیرت و کردار ، اخلاق و اطوار اپنے نبی کریم ﷺ کے رنگ و بو سے بہرہ ور نہیں ، یا تم سے آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کی بو نہیں آتی تو تمہیں قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنی ناپاک زبان سے آپ ﷺ کا نام پاک لینے کی جسارت کرو مسلمان کہلوانا تو بہت دور کی بات۔
کیونکہ ایسے گھٹیا اوصاف والی قوم کا مسلمان کہلوانا عظیم اخلاق والے دین حق اسلام کو بدنام کرنے والی بات ہے۔ آج دنیا میں اسلام بدنام ہے اور اس کا حقیقی چہرہ مسخ ہو چکا ہے ، یہ کسی اور نے نہیں خود ہم نے کیاہے۔آج دنیا اس پر طنزو تنقید اور باتیں کھسنے لگی ہے ، آج دنیا کے ہر کونے سے انگلی ہمارے عظمت والے دین پر اٹھتی ہے اس پر نقطہ چینیاں کی جاتیں، اس پر ہنسی ، تضحیک اور اس کے خاکے تراشے جاتے ہیں اور باطل اسے دنیا سے ناپید کرنے کی کشمکش میں ہے ۔ آج دنیا اسے بدخلقی، ناانصافی، ظلم و زیادتی کا دین تصور کرتی ہے صرف ہمارے اوصاف کی وجہ سے۔ صحیح و اکمل دین کی دنیا میں ذلت و رسوائی کا سبب ہم ہیں، ہمارے سیاہ اوصاف ہیں، ہمارے غلیظ اخلاق ہیں، ہمارے گندے اطوارہیں کیونکہ ہم خود اس کا حقیقی چہرہ مسخ کر کے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر دنیا کو دکھا رہے ہیں جس کے سبب دنیا اسلام پر طنز اور نقطہ چینیاں کرتی ہے
حاصل گفتگو یہی ہیے کہ باطل طاقتوں کے تمام ہتھکنڈوں اور فتنہ پرور اسباب نے ہم مسلمانوں کی دکھتی رگ پے انگلی دھرا ہوا ہیے اور وہ ہیے اخلاق حسنہ کی کمزوری, لہذا حالات کی نزاکت کا تقاضہ یہی ہیے کہ اپنے طور طریقہ کو بدلا جاۓ اور چودہ سو برس پہلے کی طرف لوٹا جاۓ اور زندگی کی وہ روحانی کمک حاصل کیا جاۓ تاکہ اس چکا چوند دنیا میں بھی ہم پیچھے نا چھوٹنے پائیں اور آگے کے راستے ہمارے سازگار ہوسکے. مولاۓ کریم ایمانی فراست سے آشنا کردے...آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے