فلک روتا ہے اک روشن ستارہ کھو دیا ہم نے


فلک روتا ہے اک روشن ستارہ کھو دیا ہم نے


آہ! حضرت الاستاذ وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند رحمہ اللہ رحمہ واسعہ،
تحریر: محمد شاہد کھرساوی جھارکھنڈ

کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے،
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں ہر آنکھ لیکن بگھو گیا ہے

حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ پر لکھنے میں مجبور ہوں 
آج بہ تاریخ 25/ رمضان/1441ھ مطابق 19 / مئی 2020 عیسوی بہ روز منگل بہ وقت چاشت اس دار فانی سے کوچ کر گئے انا للہ وانا الیہ راجعون!

اتنی جلدی حضرت والا کی جانے کی امید نہیں تھی خلاف توقع واقعہ پیش آیا، آج عالم کی آنکھیں اشکبار ہیں، ہر طرف اداسی چھائی ہوئی ہے، لوگ ماتم کناں ہیں، اساتذہ وطلبا اور ماحول سوگوار ہیں، فضا پر نم ہے۔ ہر شخص آنسو بہانے پر مجبور ہے، کیوں کہ سرمایہ حیات چل بسا، 

اس لاک ڈاؤن میں ہم نے کئ علمی شخصیات کو کھو دیا، اور ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ جنازہ میں بھی شریک نہیں ہو سکے، آج انسانوں کے قلوب مغموم ہیں، رنج والم اور حزن و ملال کی کیفیت طاری ہے، ذہن ودماغ متاثر ہے، قلم چلاتے ہوئے بھی ہاتھ تھرتھرا رہا، حادثہ فاجعہ کی خبر سنتے ہی جسم کانپ اٹھا، آج ہمارا علمی سرمایہ لٹ گیا، قدم زمین پر تھمنے کا نام نہیں لے رہا، لیکن ہمارے بس میں ہے ہی کیا خدا کو یہی منظور تھا،

کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، آج حضرت کی باری تو کل ہماری باری ہے، اس کے لیے ہر انسان کو تیار رہنا چاہیے، آج ہر فرد اپنے آپ کو یتیم محسوس کر رہا ہے کیوں کہ ایک عظیم المرتبت، رفیع الشان استاد، شیخ، مربی اور پیرو مرشد چل بسا، آج جتنے بھی آنسو بہائے جائیں، ماتم کیا جائے کم ہے، خبر سنتے ہی یوں محسوس ہوا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا، پیروں تلے زمین کھسک گئ ایسا لگا کہ آج کسی بیاباں جنگل، ویران وادی اور چٹیل میدان میں قدم رنجہ ہوں، المناک حادثہ، اندوہناک خبر سے قلب بہت رنجیدہ اور افسردہ ہے، رنج و غم کی دنیا میں غوطہ زن ہوں، دنیا و ماوراء سے بالکل بے خبر، آج ہم نے پرخار وادی میں قدم رکھا جس کا کوئی پرسان حال نہیں، آج ہم ایک عظیم علمی وعملی اور روحانی شخصیت سے محروم ہو گئے، آج علم کا چمکتا دمکتا درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا، علم کا روشن چراغ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا، آج ہم علم کے موتی، ہیرے و جواہرات کو سپرد خاک کرنے پر مجبور ہیں، علوم عقلیہ ونقلیہ کا جیتا جاگتا عملی تصویر، علماء دیوبند کا سرخیل، علوم نبوی کا مینار ہ نور، اور سپہ سالار ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا، آج پورے بر صغیر میں غم کا ماحول ہے، ہر فرد آج حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کو بیتابی سے یاد کر رہا ہے، لیکن جانے والے چلے گئے ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے سوائے دعا مغفرت اور ایصال ثواب کے، 

فلک روتا ہے اک روشن ستارہ کھو دیا ہم نے،

آج علمی دنیا سونی پڑ گئی، یتیم ہو گئ، سردار ورہنما ورہبر ہمیں داغ مفارقت دے گیا، آج ہم نے علم وعرفاں کے مانند سمندر کو کھو دیا، آج اکابر واسلاف کے نمونے کو موت نے دبوچ لیا، آج فہم حدیث کے قلب پر موت نے پنجہ گاڑ دیا، آج علوم نبوی کا ہر وارث غمزدہ اور فراق میں مبتلا ہے، دیوبند کے گلی، کوچے اور دارالعلوم دیوبند کے درودیدار اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہے ہیں
آپ کی وفات سے حقیقی معنوں میں دل پر بہت گہرا اثر پڑا اور انتہائی صدمہ پہنچا جسے بیان نہیں کیا جاسکتا،

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کو اللہ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا، وہ تدریس کے میدان میں بہترین شہسوار، تصنیف کے میدان میں یگانہ روز گار، خطابت کے میدان میں موقع شناس مقرر تھے، عالم اسلام کے ان نابغہ روز گار ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس، تعلیم وتعلم اور علوم نبوی کی سیرابی میں بسر کی، طلبہ کا کامل طور پر حق ادا کرنا اپنا فریضہ اور ذمے داری سمجھتے تھے،

آپ علوم ولی اللہ کے امین وارث وامین فکر نانوتوی کے علم بردار، تصنیف نانوتوی کے شارح، شریعت اسلامیہ کے رمز شناس، قرآن و حدیث کے محافظ ونگہبان صدق و وفاء کا پیکر مجسم، حق گو و بیباکی میں اپنی مثال آپ، شارح بخاری شریف و ترمذی شریف، شریعت کے اسرار و غموض سے بخوبی واقف، ہر فنون میں کامل دسترس کی حامل شخصیت، اکابر واسلاف کے سچے وپکے جانشین اور ان کے علوم کے محافظ، سلف کے بے مثل یادگار، خلوص و للہیت، تقوی وطہارت تواضع و انکساری سے لبریز، سادگی، خود داری، خاکساری وملنساری، علماے دیوبند کے سر خیل، بے شمار علما وفضلا اور طلبہ کے رہبر ورہنما، مسلک دیوبند کے ترویج و اشاعت میں مصروف عمل، دارالعلوم دیوبند کے حقیقی محافظ ونمک خوار، عالم اسلام کے محدثین میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام رکھنے والی شخصیت، حق کی اشاعت باطل کی تردید، مسلک دارالعلوم دیوبند اور دیوبندیت کے حقیقی ترجمان،

پیام حق کا تاریخی شمارہ کھو دیا ہم نے،


دارالعلوم دیوبند کے صدر نشین وشیخ الحدیث اور رکن شوریٰ تھے، جو ستارہ ایک زمانے سے قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں لگا رہا تھا وہ مدھم پڑ گیا،
علوم عقلیہ ونقلیہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے، فن حدیث کی باریک بینی سے باخبر تھے، دقیق النظر عالم دین تھے، فن منطق کے موشگافیوں سے روشناس تھے، آپ کی علمی وسعت، معلومات عامہ، کثرت مطالعہ، علمی گہرائی و گیرائی، وسعت نظری، عمیق ودقیق نگاہ رکھنے والے حفظ حدیث کے بحر بیکراں تھے، فن تفسیر سے بھی آپ کو انتہائی دلچسپی تھی جس کے نتیجہ میں ہدایت القرآن تالیف فرمائ

زمیں نالاں ہے اپنا ماہ پارہ کھو دیا ہم نے،


پوری دنیا میں حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ ایک امتیازی مقام رکھتے تھے،
علمی دنیا میں آپ کی دھوم تھی، ہر شخص آپ کی طرف رجوع کرتا لوگوں کی نظریں ہر معاملہ میں آپ پر ٹکی رہتی تھی، تدریس کا مکمل حق ادا کرتے، طلبہ آپ کے ارد گرد پروانوں کی طرح پھرتے، آپ کی حیثیت ایک سایہ بان کی تھی، آپ کی شخصیت مختلف گلاب، پھول اور خوشبوؤں کا مجموعہ تھی،
اب وہ منظر اور دلکش نظارہ دیکھنے کو کہاں میسر،،

جو میری شبوں کے چراغ تھے، جو میری امید کے باغ تھے،
وہی لوگ ہیں مری آرزو، وہی صورتیں مجھے چاہیے،

آج ہم اپنے علمی وعملی وروحانی والد اور عبقری والولی العزم شخصیت سے ہاتھ دھو بیٹھے، حضرت مفتی قدس سرہ کی وفات ملت اسلامیہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان اور خسارہ ہے،،
آپ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے، ہر میدان میں آپ کی نمایاں خدمات موجود ہیں، جسے فراموش اور بھلایا نہیں جا سکتا،
تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی آپ کی خدمات باعث صد افتخار ہے،

اللہ آپ کی خدمات عالیہ کو قبول فرمائے، متعلقین، متوسلیین، اعزا و اقارب اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے،
علما، فضلا ،اساتذہ وطلبہ کو سکون و قرار نصیب فرمائے،
ملت اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبند کو حضرت استاد محترم رحمۃ اللہ علیہ کا نعم البدل عطا فرمائے،
اللہ حضرت والا کو غریق رحمت کرے، مغفرت فرمائے، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے، اور درجات بلند فرمائے،
آمین ثم آمین

بہ وقت شام 07:45 منٹ،
بہ روز منگل،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے