قحط سالی کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قائدانہ کردار قسط اول


قحط سالی  کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قائدانہ کردار   قسط (١

 عبید اللہ شمیم قاسمی

اس وقت پوری دنيا كرونا جيسی عالمی وبا سے متاثر ہے، اور اس كی وجہ سے جگہ جگہ بحرانی كيفيت پيدا ہوگئی ہے، گذشتہ دنوں بر اعظم افريقہ كے ملک "مالی" كے بارے ميں يہ خبر اخبارت ميں آئی تھی كہ وہاں اس عالمی وبا كی وجہ سے لوگ فاقہ كشی پر مجبور ہوگئے ہيں جس كی وجہ سے حكومت نے چوہوں كو مارنے اور انہيں كھانے كی عوام كو اجازت دی ہے، يہ تو ايک ملک كی مثال ہے، اس طرح كے حالات سے بيشتر ممالک كو سامنا ہے، ملكی معيشت تباه ہو رہی ہے، عوام كی نوكرياں ختم ہو رہی ہيں، بہت سے لوگ فاقہ كشی پر مجبور ہو رہے ہيں، ايسے حالات ميں ہميں كيا كرنا چاهيے، ذيل ميں اس كی طرف اشاره كيا گيا ہے۔
ماضی میں جب مسلم اقوام اس طرح قدرتی آفات اور مصائب کا شکار ہوئیں تو ان کے حکام کس طرح اپنے فرائض منصبی سے عہدہ بر ہوا کرتے؟ اس سلسلے میں ایک نمایاں مثال دورِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ میں حجاز کو پیش آنے والے بدترین قحط کی ہے جو 18 ہجری میں رونما ہوا۔ (مؤرخين کا اس بارے میں اختلاف ہے، امام ذھبی، امام سیوطی وغیرہ نے اس کا سن ١٧ھ بیان کیا ہے، جبکہ ابن سعد، خلیفہ بن خیاط، امام ابن الجوزی، ابن الاثیر، حافظ ابن کثیر وغیرہ نے سن ١٨ھ لکھا ہے، لیکن دونوں قولوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کسی جگہ خشک سالی کے آثار شروع میں ظاہر ہوگئے تو انہوں نے ١٧ھ کہا اور جہاں اس کے آثار بعد میں ظاہر ہوئے تو انہوں نے ١٨ھ لکھا ہے، یہ خشک سالی تقریبا ٩ ماہ تک رہی) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ذات بطورِ حکمراں ومنتظم مسلم حکام کے لیے عظیم رہنما اور قائد کی ہے جن کی بارگاہِ نبوت میں خاص تربیت ہوئی تھی۔ ذیل میں اس واقعہ کی ضروری تفصیلات اور اس میں چھپے ہوئے قومی اور عوامی اسباق قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حسب ونسب دنیا کو معلوم ہے۔ (اس سے پہلے بندہ نے اپنے مضمون " عظمت عمر رضی اللہ عنہ کے تابندہ نقوش* " میں تفصیل سے بیان کیا ہے) خاندانی شرافت اور سفارت کا اعتراف سب عرب کیا کرتے تھے۔ جرات، شجاعت اور بے باکی بے مثل تھی۔ علمیت اس درجے کی تھی کہ تائید میں بار بار وحی اُتری۔ خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ فتوحات اور سب سے زیادہ اصلاحات انہی کے حصے میں آئیں۔ اقتدار نے ان کی قدم بوسی کی لیکن اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے کبھی تگ ودو میں ملوث نہیں ہوئے۔
بائیس لاکھ مربع میل ریاست کے بلا شرکتِ غیرے حکمران تھے لیکن غرور وتکبر کا نام ونشان نہ تھا۔ 

  دورِ عمر ؓمیں آنے والی خشک سالی

امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کے دوران آنے والی خشک سالی کو "رمادۃ" کہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ جزیرہ نمائے عرب میں پورے 9؍ مہینے تک بارش کے نام سے ایک بوند نہ پڑی۔ ادھر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے لگے جس سے زمین کی سطح اور اس کی ساری روئیدگی جل گئی اور وہ سیاہ مٹی کا ڈھیر ہو کے رہ گئی۔ جب ہوا چلتی ساری فضا گرد آلود ہوجاتی۔ اس لیے لوگوں میں اس برس کا نام ہی " عام الرمادۃ" یعنی راکھ والا برس پڑ گیا۔ بارش کے نہ ہونے، آندھیوں کے چلنے اور کھیتوں کے جل جانے سے قحط کی صورت پیدا ہو گئی جس نے انسان اور جانوروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہوگئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا۔ یہ قحط پورے حجاز پر پھیلا ہوا تھا،جیسا کہ  حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ كَانَ فِي عَامِ الرَّمَادَةِ جَدْبٌ عَمَّ أَرْضَ الْحِجَازِ، (البداية والنهاية: 7/ 90).
ابن سعد کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ شام وعراق کی سرحدوں اور تہامہ تک پھیلا ہوا تھا، یمن بھی اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ مصیبت طویل اور ابتلا شدید ہو گئی۔ 
قبلہ اول فتح ہو چکا تھا، اور مسلمان ایک نئی عالمی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہے تھے، عین اسی موقع پر دو بڑی مصیبتیں مسلمانوں پر آن پڑی، ایک رمادہ اور دوسرے طاعون عمواس، جس کی شدت کے بارے میں اتنا بتانا ہی کافی ہے بقول امام طبری اس میں ٢٥ ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے، جن میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ کرام بھی تھے، لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اس موقع پر جس عظیم الشان صبر واستقلال، ایثار و قربانی، نظم و ضبط اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
قحط کی ابتدا میں مدینہ منورہ والوں کی حالت دوسروں سے بہتر تھی جس کا سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں مدنیت کا شعور پیدا ہو چکا تھا اور مدینہ منورہ والوں نے آسودگی کے زمانے میں ضروریاتِ زندگی کا ذخیرہ فراہم کر لیا تھا جو متمدن لوگوں کی عادت ہے۔ چنانچہ قحط کا آغاز ہوا تو وہ اس ذخیرے کے سہارے زندگی بسر کرنے لگے لیکن بدویوں کے پاس کوئی اندوختہ نہ تھا۔ اس لیے وہ شروع ہی میں بھوکے مرنے لگے اور وہ دوڑ دوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے کہ امیر المؤمنین سے فریاد کر کے اپنے اہل وعیال کی زندگی کےلیے روٹی کا ٹکڑا مانگیں۔ ہوتے ہوتے ان پناہ گیروں کی اتنی کثرت ہو گئی کہ مدینہ منورہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ اب مدینہ منوره والے بھی آزمائش میں پڑ گئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بیماری پھوٹ نکلی اور بہت سے لوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر  رضی الله عنہ مریضوں کی عیادت کو جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے۔ ایک مرتبہ تو بیک وقت دس آدمیوں کی نماز جنازہ پڑھائی۔

 قحط کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بقول امام طبری: "جعلت الوحش تأوي إلى الإنس" (تاريخ الطبري: 4/ 98). یعنی ''یہاں تک کہ وحشی جانور انسانوں کے پاس آنے لگے  (کہ شاید کچھ مل جائے)۔''
اس بحران سے نمٹنے کے لیے امیر المؤمنین نے کیا طریقہ اختیار کیا، کیسے انتظام کیا اور کونسے اقدامات اُٹھائے۔ بعض اقدامات تو خالصۃً انتظامی نوعیت کے تھے اور بعض امیر المؤمنین کے ذاتی کردار سے متعلق تھے لیکن جو چیز ان میں مشترک ہے، وہ امیر المؤمنین کی حیرت انگیز اور عدیم المثال انتظامی صلاحیت، اپنی رعیت کے ساتھ پر خلوص محبت، خیر خواہی اور للہیت تھی۔
14/9/2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے