تعلیمی سفر قسط نمبر۲



تعلیمی سفر قسط نمبر۲


   بھائی معزالدین رحمہ اللہ نے دیوبند آنے سے پہلے عربی کے ابتدائی درجات : درجہ چہارم تک کی تعلیم  مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور ، کانپور میں حاصل کی ، اس سے پہلے اترولہ اور ایٹیا تھوک کے مدارس میں کچھ عرصہ گزارا پھر  مشھور استاذ حفظ ، عاشق قرآن اور صاحب نسبت بزرگ : حضرت حافظ اقبال صاحب علیہ الرحمہ سے مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں حفظ قرآن پاک کی تکمیل کی ۔

     اس کے بعد ڈیڑھ دو مہینہ مدرسہ نور العلوم ھرھر پور ، پرتابگڑھ اور مدرسہ امدادیہ ، مراداباد میں بھی رھے لیکن دونوں جگہ کا قیام مختصر رھا پھر مستقل چار سال تک کانپور میں تعلیم حاصل کی۔

محنت بے کار نہیں جاتی


   واقعہ ھے سچی لگن، جانفشانی اور قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، بھائی معزالدین اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے پھر بھی محض نو، دس سال کی چھوٹی سی عمر میں ھی بغرض تعلیم انہوں نے والدین اور گھر بار کو چھوڑا اور ان علمی دانش گاھوں کا رخ کیا جہاں قرآن وسنت کی اساسی تعلیمات سے انسان واقف ھوکر اپنے ذھن و دماغ کو روشن و منور کرتا ھے اور صحیح مقصد زندگی کی کھوج لگانے میں کامیاب ھو جاتا ھے ، مرحوم خود کہا کرتے تھے : " میں گھر سے پڑھنے کے لئے اتنی چھوٹی عمر میں نکل گیا تھا جس عمر میں عام طور پر بچے والدین سے الگ نہیں ھوتے اور والدین بھی اپنے جگر گوشوں کو الگ نہیں کرنا چاھتے "۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور تھا ، انہوں نے صرف اپنی دلچسپی اور شوق سے دشواریوں کے باوجود علمی سفر کو جاری رکھا اور اپنے لئے میدان ھموار کیا یہاں تک کہ اللہ پاک نے ان کی قربانیوں کو قبول فرمایا اور علمی حلقوں میں انہیں ایک معتبر مقام پر لا کھڑا کیا ۔ 

علم پرور گھرانہ


     بھائی معزالدین ایک علم پرور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ، ان کے دادا جناب ضیاء اللہ صاحب مرحوم عالم دین تو نہیں تھے لیکن علماء کی بڑی قدر اور ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے ۔

   آپ  کے والد محترم حضرت مولانا عبد الحمید صاحب دامت برکاتہم ( اللہ پاک صحت و عافیت کے ساتھ ان کو لمبی عمر عطا فرمائیں )  بڑے اولوالعزم ، باھمت ، دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل ( سن فراغت : ۱۹۵۹ء ) پرانے جمعیتی اور مرجع خاص وعام ھیں ، شیخ الاسلام حضرت مدنی رح کے ایسے شیدائی ھیں کہ ان کا کوئی بیان حضرت کے تذکرے سے خالی نہیں ھوتا اور والہانہ تعلق ایسا کہ حضرت کا نام لیتے ھی آواز آج بھی بھرا جاتی ھے اور گریہ طاری ھو جاتا ھے ، آپ علاقہ کے بہت معتبر و مستند اور بافیض عالم دین ھیں اور اس حوالہ سے بڑے خوش نصیب ھیں کہ باری تعالی نے ان کے جملہ چھ کے چھ صاحبزادگان کو  حفظ قرآن اور علوم نبوت حاصل کرنے اور اس کی نشر واشاعت میں مشغول رھنے کے لئے قبول کیا ھے ۔

     مولانا عبد الحمید صاحب مدظلہ گاؤں دتلوپور میں قائم : مدرسہ فیضان العلوم کے عرصہ دراز سے مہتمم ھیں اور مثالی دیانت و امانت کے ساتھ اس کا نظام چلا رھے ھیں ۔

   بھائی معزالدین کے خاندان کی دوسری قابل ذکر شخصیت جن کا تذکرہ بارھا ھم نے ان کی زبان سے سنا وہ ان کے  نانا ماسٹر محمد یاسین صاحب علیہ الرحمہ ھیں ، ماسٹر صاحب علاقہ کے بڑے زمیندار ، اعلی انگریزی تعلیم یافتہ ، دیندار اور بزرگوں سے تعلق رکھنے والی شخصیت تھے ، حضرت مولانا منظور صاحب نعمانی نوراللہ مرقدہ نے اپنی آپ بیتی " تحدیث نعمت " میں ان کا تذکرہ کرتے ھوئے لکھا ھے :

 " اللہ کا اس گنہ گار بندے پر محض احسان ھی احسان ھے کہ اسے تقریبا بیس بار حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت نصیب ھوئی ، سب سے پہلے یہ سعادت ۱۳٦٨ھ مطابق ۱۹٤۹ء میں اپنے ایک مخلص دوست کی خواھش کی بدولت میسر آئی جن کے اصرار نے مجبور کیا کہ میں اس مبارک سفر میں ان کا شریک ھوجاؤں ، یہ ضلع گونڈہ ( یوپی ) کے ماسٹر محمد یاسین صاحب تھے ۔" ( صفحہ : ۱۰٤ ) 

     ماسٹر صاحب نے ۱۹۲۷ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا ، پھر ایک زمانہ تک گونڈہ کے مشھور " ٹامسن " کالج میں لیکچرار رھے ۔

دارالعلوم کا زمانہ


1981ء میں بھائی معزالدین ازھر دارالعلوم دیوبند کے درجہ عربی پنجم میں داخل ھوئے پھر اپنی لیاقت ، علم دوستی ، شوق مطالعہ ، ذہانت ، اسباق میں پابندی ، دیگر علمی سرگرمیوں میں اشتغال اور اطاعت شعاری کے وصف کی بنا پر بہت جلد حضرات اساتذہ کرام کی نگاھوں میں بھی انہوں اپنا ایک مقام بنالیا جو رفتہ رفتہ بڑھتا ھی چلا گیا ۔

مدنی دارالمطالعہ


   دارالعلوم دیوبند میں طلبہ کی عظیم انجمن مدنی دارالمطالعہ خارجی اوقات میں ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ، وھی اس کے ناظم تھے اور اس کی جملہ نشاطات اور سرگرمیوں کے روح رواں ، لائبریری میں موجود تقریبا تمام ھی کتب ان کی نگاھوں سے گزر چکی تھیں اور کمال یہ تھا کہ خداداد قوت حافظہ کے نتیجے میں پڑھی ھوئی باتیں ان کو یاد رھتی تھیں ، اب تک بھی  مختلف موضوعات کے سلسلہ میں وہ مدنی دارالمطالعہ کی لائبریری کی جانب رجوع کرنے کی رھنمائی کیا کرتے تھے ۔

   بزم شیخ الاسلام کے تحت ھر ھفتہ بعد نماز جمعہ ھونے والے پروگراموں کی ترتیب بنانا ، شریک ھونے والے طلبہ کے لحاظ سے حلقہ سازی کرنا اور ھر حلقہ کا نگراں متعین کرنا یہ سب انہی کا کام تھا ، جمعہ کی نماز کے بعد کا وقت عام طور آرام کا ھوتا ھے لیکن ھر ھفتہ عصر تک وہ انہی کاموں میں مشغول رھا کرتے تھے ۔

احاطہ باغ کا کمرہ


     مسجد قدیم فوقانی کے نیچے احاطہ باغ کے ایک کمرے میں ان کا مستقل قیام رھا ، یہ کمرہ بھی علمی و ادبی شوق رکھنے والوں کا مرکز بنا رھتا ، آنے والے رفقاء جہاں بھائی معزالدین سے علمی مسائل پر گفتگو کرتے وھیں ان کی ضیافت و مہمان نوازی سے خوب لطف اندوز ھوتے ، سردی کے زمانہ میں دیوبند کے مشھور سعیدیہ ھوٹل کا گاجر کا حلوہ ، مشرقی یوپی کا تحفہ : " قوامی سوائی " اور سیخ کباب عام طور پر زینت دسترخوان ھوتے .

پسندیدہ مشغلہ


     اپنے طبعی ذوق مطالعہ کی بنا پر قدیم و نادر کتب اور رسائل و مجلات کی خریداری زمانہ طالب علمی ھی سے ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ، دارالعلوم دیوبند کے صدر گیٹ کے سامنے اور دوسری جگہوں پر  پرانے کتابچے فروخت کرنے والوں کے قدردانوں میں بھائی معزالدین کا نام نمایاں تھا ، وہ چھوٹے چھوٹے رسالے جن کو ھم جیسا بے ذوق ردی سمجھ کر  کوئی اھمیت ھی  نہیں دے گا وہ بڑے اھتمام سے اپنے لئے بھی  خریدتے ، ان کا مطالعہ کرتے پھر محفوظ رکھتے اور خاص بات یہ تھی کہ  قریبی تعلق  رکھنے والوں میں سے جس کے لئے جو کتاب وہ بہتر سمجھتے کہ یہ فلاں موضوع پر کام کرنے والے کے لئے مفید ھوگی خرید کر اسے دیتے اور اس کی اھمیت بتاتے اس طرح بلا مبالغہ پچاسوں کتابیں انہوں نے ھمیں بھی دیں اور پھر موضوع کے اعتبار سے بعد میں ان کو مجلد بھی کروایا ، واقعتا ان جیسا بے لوث اور مخلصانہ تعلق رکھنے والا انسان آسانی سے میسر نہیں ھوتا ۔

سادگی


     1406ھ مطابق 1986ء میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ، وہ اپنے قابل قدر رفقاء میں بڑے فہیم ، صاحب علم اور سمجھدار مانے جاتے تھے لیکن طبعی سادگی کی بنا پر کبھی انہوں نے تفوق و برتری اور اپنے کو  نمایاں کرنے کے جذبہ کا اظھار نہیں کیا ، درس گاہ میں بھی وہ اکثر درمیانی صفوں میں بیٹھا کرتے تھے ، خوش خط تھے اور مختصر و مرتب لکھنے کے عادی تھے ، بتایا کرتے تھے کہ میں امتحانات میں جوابات بھی بہت مختصر لکھتا تھا ، کم ھی ایسا ھوتا تھا کہ دوسری کاپی لینے کی ضرورت پیش آئے ، مگر اس کے باوجود نمبرات ھمیشہ اعلی سے اعلی آئے ۔

 (جاری----)

محمد عفان منصورپوری
۲۵ / محرم الحرام ١٤٤٢ھ
۱٤ / ستمبر ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے