خلیفہ راشد سیدنا عمر ابن خطاب قسط ۲


خلیفہ راشد سیدنا عمر ابن خطاب

 قسط: 2
✍: محمد ساجد سدھارتھ نگر ی 
جامعہ فیض ھدایت رام پور یوپی
Mob.9286195398

آپ  کا اسلام اعلاء کلمة اللہ کا  نقطۂ آغاز

حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہو نے سے پہلے اسلام کی تبلیغ خفیہ ہورہی تھی، شرک کا رعب و دبدبہ تھا کفر و ضلالت کا دور دورہ تھا۔ حضرت عمر کے اسلام نے کفر کا سارا غرور توڑ دیا، سارا دبدبہ خاک میں ملا دیا۔ اسلام کی تبلیغ و دعوت اور نشر و اشاعت کا کھلم کھلا اعلان کیا جانے لگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مازلنا اعزة منذ اسلم عمر (بخاری شریف باب اسلام عمر) ترجمہ: حضرتِ عمر کے اسلام لانے کے بعد ہم ہمیشہ عزت سے رہے۔ ایک دوسری جگہ آپ کا ارشاد ہے: اذا ذکر الصالحون فحی ھلا بعمر ان اسلامہ کان نصرا وان امارتہ کانت فتحا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج6 ص 358 ) ترجمہ: جب خدا کے نیک  بندوں کا ذکر خیر ہو تو اس کا نقطۂ آغاز مراد نبی حضرت عمر فاروقؓ سے ہونا چاہیے ؛ کیونکہ آپ کا اسلام دین کی مدد اور خلافت اسلام کی فتح تھی۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابشر یا امیر المومنین اسلمت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین کفر الناس وقاتلت مع رسول اللہ حین خذلہ الناس (مستدرک حاکم ج3 ص 92۔ تاریخ دمشق) ترجمہ: مبارک ہو اے مسلمانو ں کے امیر ! آپ نے اسلام اس وقت قبول کیا جب کفر کا بول بالا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفر کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا جب لوگوں نے آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا ۔

مناقب عمر رضی اللہ عنہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل و مناقب کتب احادیث میں موجود ہیں ، جن سے آپ کی عظمت کا اظہار اور آپ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین۔ (سنن ابن ماجہ) تمھارے اوپر ھدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے۔ نیز آپ نے فرمایا: فاقتدوا من بعدی ھذین: ابا بکر وعمر (ترمذی شریف) تم حضرت ابوبکر اور عمر کی اقتداء کرو۔ اور حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ہم ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، اس حال میں کہ آپ حضرت عمر کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھے، حضرت عمر فاروقؓ نے آپ سے کہا کہ: "یا رسول اللہ ! لانت احب الی من کل شئی الا نفسی" کہ مجھے اپنی جان کے بعد سب سے زیادہ آپ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا والذی نفسی بیدہ حتی اکون احب الیک من نفسک۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تمھارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تمھاری جان سے بھی زیادہ تمھیں عزیز نہ ہوجاؤں۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا: یارسول اللہ ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الآن یا عمر ۔ تو حضور نے فرمایا: اے عمر اب تمھارا ایمان مکمل ہوا۔(بخاری شریف کتاب الایمان والنذور) ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یابن الخطاب ! والذی نفسی بیدہ ما لقیک الشیطان سالکا فجا قط الا سلک فجا غیر فجک۔ (بخاری شریف باب مناقب عمر) ترجمہ: اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، شیطان وہ راستے کاٹ دیتا ہے جس پر تم چلتے ہو۔ ایک جگہ آپ نے ارشاد فرمایا: لو کان بعدی نبی لکان عمر (ترمذی شریف) کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ چلتا تو عمر فاروقؓ کو نبوت عطا کی جاتی۔  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک کنویں سے پانی نکال رہا ہوں کہ میرے پاس حضرت ابوبکر اور عمر آئے، ڈول مجھ سے لے کر ابو بکر صدیق نے پانی نکالنا شروع کیا، انھوں نے ایک دو ڈول ہی نکالا تھا کہ ڈول کھینچنے میں کمزوری کا احساس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ تو حضرت عمر فاروقؓ نے ان سے ڈول لے کر خود پانی نکالنا شروع کیا، ڈول عمر کے ہاتھ میں جاتے ہی بھت بڑا ہوگیا، میں نے کسی پانی نکالنے والے کو ان سے زیادہ طاقتور نھیں دیکھا، انھوں نے اس قدر پاںی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کرکے بٹھا دیا۔(بخاری شریف کتا ب فضائل اصحاب النبی) ایک طویل حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم خواب میں جنت میں داخل ہو ئے تو ایک محل دیکھا، جس میں ایک دوشیزہ بیٹھی ہوئی تھی، آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ تو آپ کو بتایا گیا کہ حضرت عمر فاروقؓ کا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس محل کو اندر سے دیکھنا چاہا تو عمر کی غیرت یاد آگئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ: میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔ (بخاری شریف) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں دیکھا کہ دودھ پی رہا ہوں، جس سےاس قدر سیراب ہوگیا کہ اس کا اثر انگلیوں کے ناخن سے بھی ظاہر ہونے لگا، پھر اسے عمر کو دے دیا۔ آپ نے اس کی تعبیر علم سے فرمائی۔ (بخاری شریف) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں تھا کہ ایک صاحب نے دروازے پر دستک دی، آپ نے فرمایا کہ دروازہ کھول کر آنے والے کو جنت کی بشارت دے دو۔ میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ ابو بکر صدیق تھے۔ میں نے انھیں جنت کی بشارت دی، انھوں نے اس پر اللہ کی تعریف کی، پھر ایک اور صاحب نے دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور جنت کی بشارت دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو وہ حضرتِ عمر تھے۔ میں نے انھیں بھی جنت کی بشارت دی، چنانچہ اس پر حضرت عمر نے اللہ کی تعریف فرمائی۔ اس کے بعد حضرتِ عثمان غنی کی دستک پر بھی آپ نے یہی کہا اور فرمایا کہ انھیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ (بخاری شریف) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: پہلی امتوں میں محدث یعنی صاحب الہام ہوا کرتے تھے اور میری امت میں محدث حضرت عمر ہیں۔ (بخاری شریف) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب نیک لوگوں کا ذکر کرو تو آغاز حضرتِ عمر سے کرو ؛ کیوں کہ ان کا مسلمان ہونا اسلام کی مدد تھی، ان کی خلافت اسلام کی فتح تھی اور بخدا جہاں تک مجھے علم ہے ان کی شھادت سے ہر چیز غم زدہ تھی، حتیٰ کہ درخت کا تنا بھی ان کی جدائی سے بے تاب تہا، بخدا میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو انھیں سیدھے راستے کہ رہنمائی کرتا تھا، اور بخدا مجھے اگر کسی کتے کے متعلق یہ علم ہوجائے کہ وہ حضرت عمر سے محبت کرتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کروں گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج6ص358) شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
آقا عمر ، رہبرعمر ، مرشد عمر، مولی عمر
برتر عمر ، بالا عمر ، اعلی عمر، اولی عمر
ذات نبی پاک پر سو جان سے شیدا عمر
ایمان میں ایقان میں احسان میں یکتاعمر
باد بہاری کی طرح  گذرا عراق و روم سے
ابر  کرم  بن کر  اٹھا ایران  پر  برسا  عمر
وہ آدھی دنیا کا حکمراں تھا وہ حکمراں بھی مگر کہاں تھا۔ بپھرتی موجوں پہ حق پرستوں کی سادا کشتی کا بادباں تھا۔ بڑا مبارک ہے نام اس کا ستاروں جیسا مقام اس کا۔ وہ ایک شاہیں صفت مجاھد جو سوئے منزل رواں دواں تھا۔ ابھرتے سورج سے تاج مانگا سمندروں سے خراج مانگا۔ کسے خبر ہے کہ اس کا سکہ جہاں میں جاری کہاں کہاں تھا۔ حسن سے پوچھو علی سے پوچھو تم اس کے بارے نبی سے پوچھو۔ اندھیری شب میں چراغ بن کر وہ ساری دنیا میں ضوفشاں تھا  (جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے