خلیفہ راشد سیدنا عمر ابن خطاب قسط 1


خلیفہ راشد سیدنا عمر ابن خطاب

خلیفہ راشد سیدنا عمر ابن خطاب


از قلم: محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی
 Mob 9286195398
قسط: 1
 رجال سازی اور خوبصورت معاشرے کی تشکیل وہ اہم کار نامہ ہے جس کے لیے حضرت حق جل مجدہ نے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰت والسلام کا حسین سلسلہ جاری فرمایا اور انھوں نے یہ دونوں کام انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس میدان میں ایسے ایسے شہسوار پیدا کیے کہ عرب وعجم میں جن کی کوئی مثال نہیں۔ ابتدا ء آفرینش سے آج تک رجال سازی اور مردم گری میں آپ کا ثانی پیش کرنے سے دنیا عاجز و قاصر ہے اور تا قیامت قاصر رہے گی۔ آپ کی صحبت کیمیا اثر کی برکت سے نہ جانے کتنے ذرے آفتاب اور پتھر آبگینہ بن گئے۔ وہ جنھیں کافور پر نمک کا دھوکہ ہوجاتا تھا دست نبوت نے انھیں ایسا سنوارا کہ دنیا کی تقدیر کو سنوارنے والے بن گئے۔
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت بھی فیضانِ نبوت کی کرم فرمائیوں کا ایک حسین پرتو ہے۔ آپ واقعہ عام الفیل کے 13 سال بعد پیدا ہوئے. (الاستیعاب ج 2 ص75 ) آپ رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی عمر، کنیت ابو حفص اور لقب فاروق اعظم ہے۔ آپ کا نسب آٹھویں پشت میں کعب بن لؤی پر جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ (بخاری شریف باب مناقب الانصار) آپ کا خاندان زمانہ جاہلیت میں بہت ممتاز تھا، آپ کے جدِ اعلٰی عدی اہل عرب کے جھگڑوں میں تصفیہ کے لیے ثالث بن کر جایا کرتے تھے اور ملکی معاملہ میں سفارت کا کام آپ ہی کے خاندان کے حوالے تھا۔


سلسلہ نسب

محدث یعقوب بن سفیان الفارسی نے آپ کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے: ابو حفص عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر القرشی العدوی۔ (تاریخ دمشق)


آپ کالقب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لقب فاروق ہے، جس کا معنی ہے: "فرق کرنے والا۔" حق وباطل کے درمیان امیتاز چونکہ آپ کا امتیازی وصف ہے اس لیے آپ کو فاروق کہا جاتا ہے اور یہ لقب آپ کو سب سے پہلے اہل کتاب سے ملا۔آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: وجدت فی بعض الکتب یوم غزونا الیرموک ابوبکر الصدیق اصبتم اسمہ وعمر الفاروق قرن من حدید اصبتم اسمہ۔ (فضائل الصحابہ لاحمد ابنِ حنبل ج1ص 125) ترجمہ: غزوہ یرموک کے دن اہل کتاب کی کچھ کتابوں میں میں نے لکھا ہوا دیکھا کہ ابو بکر کا نام "صدیق" رکھ کر تم نے درستگی کو حاصل کرلیا اور آہنی جسم کے مالک عمر کا نام "فاروق" رکھ کر تم نے درستگی کو پالیا۔ اسی روایت کے پیشِ نظر علامہ ابنِ شھاب زھری فرماتے ہیں کہ: حضرتِ عمر کو سب سے پہلے فاروق کا لقب اہل کتاب نے دیا۔ (الطبقات لابن سعد ج3 ص205)

والدہ محترمہ
امام المغازی محمد بن اسحاق کے بقول آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بن ھشام اور نانی کا نام شفاء بنت عبد قیس بن عدی ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ج 1ص64)

شکل و شباہت

آپ کی شکل وشباہت کو بیان کرتے ہوئے ابو رجا تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ طویلا جسیما اصلع شدید الصلع ابیض شدید حمرة العینین فی عارضیہ خفہ سبلتہ کثیرة الشعر فی اطرافھا صھبة۔ (معرفہ الصحابہ لابن نعیم ج 1 ص 45) ترجمہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دراز قامت،  فولادی اور مضبوط جسم والے تھے۔ سر کے اگلے حصے کے بال گرے ہوئے تھے، رنگ خوب سفید، آنکھیں سرخ، چھرے پر ہلکی داڑھی اور مونچھیں گھنی جن کی رنگت سرخی مائل تھی۔ زر بن حبیش تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے عید کے دن مدینہ منورہ میں حضرت عمر فاروق کو دیکھا کہ وہ بھاری بھرکم جسم والے تھے، سر کا اگلا حصہ بالوں سے خالی تھا، قد لمبا گویا سواری پر سوار ہوکر لوگوں کو دیکھ رہے ہوں، دونوں ہاتھ طاقتور تھے جس سے مرضی کام لیں۔ (تاریخ دمشق۔ التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ج3 ص 371 المعجم الکبیر للطبرانی ج 1ص67۔ بحوالہ سیرت عمر فاروق ص 32، 33 )

ازواج و اولاد

آپ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت اور اسلام میں کل 13 شادیاں کیں، جن میں سے بعض کے اسما مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ زینب بنت مظعون ۔ یہ حضرت عثمان بن مظعون کی ہمشیرہ تھیں، جن کے بطن سے دو صاحب زادے عبداللہ بن عمر، عبد الرحمن اور ایک صاحب زادی ام المومنین حضرتِ حفصہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ 
2۔ ام کلثوم بنت جرول ۔ اس عورت کے بطن سے آپ کے دو صاحب زادے زید اور عبیداللہ پیدا ہوئے، اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اس بیوی کو طلاق دے دی۔
3۔ جمیلہ بنت ثابت ۔ اس عورت سے عاصم بن عمر کی ولادت ہوئی۔
4۔ ام کلثوم بنت علی ۔ یہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ زہراء کی صاحب زادی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا شرف حاصل کرنے کے لیے آپ نے ان سے نکاح فرمایا۔ ان کے بطن سے ایک صاحب زادہ زید اور ایک صاحب زادی رقیہ پیدا ہوئی۔ (الطبقات لابن سعد ج 3 ص 201 )
5۔ عاتکہ بنت زید ۔ ان کے بطن سے عیاض کی ولادت ہوئی۔
6۔ ام حکیم بنت الحارث ۔ ان کے بطن سے ایک بیٹی جن کا نام فاطمہ تھا پیدا ہوئیں۔ (طبقات لابن سعد ج3ص201) 

آپکی باندیاں

آپ کے زمانے میں بکثرت باندیاں اور لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا، چنانچہ آپ کے پاس بھی دو لونڈیاں لہیہ اور فکیہہ تھیں لہیہ سے عبدالرحمان اصغر یا اوسط اور فکیہہ سے زینب پیدا ہوئیں۔ اس طرح آپ کی کل اولاد کی تعداد تیرہ ہوئی۔ (سیرت عمرفاروق37 )

دور جاھلیت اور حضرت عمر فاروق

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مکہ مکرمہ میں چند گنے چنے افراد ہی لکھنا جانتے تھے ، چنانچہ جن سترہ افراد کا نام لکھنے والوں میں آتا ہے آپ بھی اس میں شامل ہیں۔ نیز زمانہ جاہلیت میں آپ تجارت کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں دور دراز کا سفر بھی فرمایا، جس سے آپ کافی تجربہ کار ہوگئے تھے۔ آپ کی خداداد استعداد کو دیکھ کر اہل قریش نے آپ کو اپنا سفیر نامزد کردیا تھا۔ جب کوئی غیر معمولی مسئلہ رونما ہوتا تو آپ ہی اپنے فہم و تدبر اور تجربہ سے اس کی گتھی سلجھایا کرتے تھے۔ نیز فارغ اوقات میں اپنے باپ خطاب کے اونٹ بھی چرایا کرتے تھے۔ (سیرت عمر فاروق)
ایام طفولیت بلکہ سن رشد تک کے حالات محفوظ نہیں ہیں مگر جوانی کے ایام انھیں مشاغل میں صرف ہوئے شرفاء کے درمیان جس کا رواج تھا، مثلا نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت وغیرہ۔ عبدالرحمن بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرہ یا حج کے موقع پر ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے، جب ہم ضجنان نامی مقام ، جو مکہ سے تقریباً بارہ میل کے فاصلے پر ہے ، پہونچے تو حضرتِ عمر نے ہمیں مخاطب کر کے ار شاد فرمایا: یقیناً یہی وہ گھاٹی ہے جھاں کبھی اپنے سخت مزاج والد کے اونٹ چرایا کرتا تھا اور لکڑیاں چنا کرتا تھا، آج حال یہ ہے کہ لوگوں کے لیے میں مثال ہوں اور خداوند قدوس کے علاوہ مجھ پر کوئی نگراں نہیں۔ (کتاب الزھد لابی داؤ د)

اہل اسلام سے نفرت

جب اسلام کا سورج فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور اپنی ضیا بار کرنوں سے سعید روحوں کے قلوب  کو  منور کرنے لگا تو چونکہ حضرتِ عمر کے لیے یہ آواز دیگر اہل عرب کی طرح نامانوس تھی، اس لئے سخت برہم ہو ئے اور جس کے متعلق یہ علم ہوجاتا کہ وہ دامنِ اسلام سے وابستہ ہوچکا ہے اس کے جانی دشمن بن کر اسے ہر ممکن تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے۔ ان کی ایک باندی بسینہ نام کی تھی اسے اس قدر مارتے کہ خود تھک جاتے مگر تشدد، سختی، نفرت اور دشمنی سے تنگ آکر کسی ایک نے بھی نبی کا دامن نہ چھوڑا۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ جو آپ کے بہنوئی ہیں فرماتے ہیں: لو رایتنی موثقی عمر علی الاسلام انا واختہ وما اسلم۔ (بخاری شریف باب اسلام عمر) اسلام لانے کی پاداش میں مجھے اور اپنی ہمشیرہ کو عمر نے رسی سے باندھ دیا تھا۔

حضرتِ عمر مراد نبی ہیں
اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت یوں تو سارا مکہ کر رہا تھا سوائے چند نفوس کے مگر ان میں پیش پیش ماموں بھانجے یعنی ابوجھل اور حضرت عمر فاروق تھے، ان کی زیادتیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوب آگاہ تھے۔ آخر ایک دن رسول اللہ نے دست سوال دراز کرکے اسلام کی نصرت اور حمایت کے لیے رب کریم سے عمر کو مانگتے ہوئے یوں دعا کی: اللہم اعزالاسلام باحب ھذین الرجلین الیک بابی جھل او بعمر ابن الخطاب۔ ترجمہ: خدایا ابو جھل اور عمر بن خطاب میں سے جسے بھی آپ چاہیں جھولی میں ڈال کر اسلام کو غلبہ عطا فرمائیے۔ (مسند احمد ج2 ص95 ،ترمذی شریف۔حسن صحیح غریب،ابن حبان ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللھم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب خاصة (السنن الکبری ج6 ص 37، مستدرک حاکم ج3 ص83۔ تاریخ دمشق) اے اللہ خاص طور سے عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔ ادھر ہونٹوں سے دعا کے الفاظ نکلے ادھر درحق سے اجابت استقبال کے لئے نکل پڑی اور پھر عمر جو اسلام کے کٹر دشمن تھے اسلام کے پر جوش داعی اور مبلغ بن گئے۔ 

عمر دامنِ اسلام میں

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے سلسلے میں ایک مشہور واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپ مسلمانوں کو ایذا دے کر عاجز آگیے تو ایک دن  بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے گھر سے باہر نکلے، راستے میں نعیم بن عبداللہ سے ملاقات ہوئی، انھوں نے نکلنے کا سبب پوچھا، حضرت عمر کے بتلا نے پر ان سے کہا کہ محمد کو بعد میں قتل کرنا پہلے اپنے گھر کی خبر لو،تمہارے بھن بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر شدت غیض وغضب میں ان کے گھر پہونچے، اتفاقاً بھن اور بہنوئی دونوں قرآن سیکھ رہے تھے، آہٹ پا کر اوراق کو چھپا دیا مگر حضرت عمر نے پڑھتے ہوئے سن لیا تھا، چنانچہ اپنے بہنوئی سے کہا کہ تم لوگ مرتد ہو چکے ہو اور پھر ان کی پٹائی شروع کر دی۔ بھن نے جب چھڑانا چاہا تو انھیں بھی مارا اور لہو لہان کر دیا، تو انھوں نے انتہائی جرآت وھمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ: "عمر تم جو چاہو کرو مگر ہم مذھب اسلام سے پھرنے والے نھیں ہیں۔" حضرت عمر ان کی بات سے بھت متاثر ہوئے اور کہا کہ اچھا ! تم جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ ، بھن فاطمہ نے آپ کی فرمائش پر سورہ حدید اور ایک روایت کے مطابق سورہ طہ کی آیتیں سامنے رکھ دیں۔ پڑھتے ہی دل کی دنیا بدل گئی، کفر کی ظلمت چھٹ گئی، تاریک قلب میں ایمان کی قندیل روشن ہوگئی اور  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرود گاہ دار ارقم ،جو صفا پہاڑی کے نیچے واقع تھا، وہاں پہونچ گئے۔ آپ کے جاں نثاروں کو بھت تشویش ہوئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بھی نہ گھبرائے ، صحابہ سے فرمایا: دروازہ کھول دو، اگر کسی اچھے ارادے سے آئے ہیں تو استقبال ہے ورنہ عمر کی ہی تلوار سے ان کی گردن مار دیں گے۔ دروازہ کھلا اور حضرت عمر نے گردن جھکا کر اپنی تلوار آپ کے قدموں میں رکھ کر التجا کی، حضور کلمہ پڑھا کر اپنی غلامی کا مجھے بھی شرف بخش دیجیے اور پھر مسلمان ہو گئے۔ آپ کے اسلام لانے پر صحابہ نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ قدرے تغیر کے ساتھ یہ واقعہ دار قطنی،حاکم،ابویعلی، بیہقی وغیرہ میں مذکور ہے مگر ان کے روات چونکہ قوی نھیں ہیں اس لیے اس قسم کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (خلفائے راشدین از معین الدین ندوی)
ایک اور روایت میں حضرت عمر خود فرماتے ہیں کہ بعثت سے کچھ پہلے میں ایک بت کدہ میں سویا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک شخص نے چڑھاوے کے طور پر بچھڑا ذبح کیا تو اس کے اندر سے آواز آئی اے جلیح ایک فصیح البیان کہتا ہے لا الہ الااللہ ، اس آواز کا سننا تھا کہ سارے لوگ وہاں سے بھاگ گئے ، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے میں وہیں کھڑا رہا، دوبارہ پھر وہی آواز آئی، اس واقعے کے کچھ روز بعد آپ کی نبوت کا چرچا ہوا۔ (بخاری شریف باب بنیان الکعبہ) ایک روایت میں حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا ، آپ مسجد حرام میں داخل ہو گئے اور نماز شروع فرمادی اور سورہ الحاقہ کی تلاوت شروع کی، میں کھڑا سنتا رہا، جیسے ہی میرے دل میں یہ بات آ ئی کہ آپ شاعر ہیں، فورا آپ نے یہ آیت پڑھی: انہ لقول رسول کریم وما ھو بقول شاعر قلیلا ما تومنون تر جمہ: یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور کسی شاعر کا کلام نہیں تم بھت کم ایمان رکھتے ہو ۔ میں نے کہا کہ اس نے میرے دل کی بات کیسے معلوم کرلی ، لگتا ہے کہ یہ کاہن ہے ، آپ نے فوراً پڑھا: وما ھو بقول کاھن قلیلا ما تذکرون تنزیل من رب العالمین ترجمہ: اور یہ کسی کاہن کا کلام نہیں تم بھت کم نصیحت حاصل کرتے ہو یہ پرور دگار عالم کا کلام ہے۔سورت کے اختتام تک اسلام میرے دل میں گھر کر گیا تھا۔ (مسندِ احمد ج1ص17) بھرحال سبب جو بھی رہا ہو ، اللہ نے نبوت کے ساتویں سال جب کہ کم وبیش چالیس نفوس قدسیہ مشرف باسلام ہوچکے تھے، آپ کے سینے کو اسلام کے لیے وا کر کے باطل کے راستے میں ایک سد سکندری قائم فرمادی۔ آپ کے اسلام لانے کی خبر نے قصر باطل میں زلزلہ برپا کردیا۔ لوگوں نے بھت واویلا کیا ۔ آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا مگر آپ ان سے ذرا بھی خائف نہ ہو ئے۔ عاص بن وائل نے پناہ کی پیش کش کی مگر آپ نے اسے قبول نہ کیا، سب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے، بالآخر مسلمانوں کو لے کر خانہ کعبہ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ (جاری )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے